میٹو، مڈل ایسٹ ٹریٹی آرگنائزیشن
قارئین کرام! نیٹو یعنی نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن کے بعد پیش خدمت ہے مڈل ایسٹ ٹریٹی آرگنائزیشن یعنی ’’میٹو‘‘، اگرچہ اب تک اس اتحاد کو یہ نام نہیں دیا گیا ہے، تاہم میرے خیال میں اس کے پیچھے نیٹو کا ہی ماڈل کارفرما ہے۔ اسرائیل کی خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سرپرستی میں ایک فضائی دفاعی نظام تشکیل دیا جائے، جس میں مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک شامل ہوں۔ اسرائیل عرب امارات اور بحرین کے ساتھ ’’معاہدہ ابراہیمی‘‘ کے تحت تعلقات پہلے ہی بحال کرچکا ہے۔ تجارتی، سفارتی تعلقات معمول پر آچکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سعودیہ میں بھی اسرائیلیوں کی آمد کا خفیہ سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع بنی گینز کے مطابق اس مجوزہ دفاع کا نام ’’مڈل ایسٹ ایئر ڈیفنس الائنس‘‘ ہوگا۔ بنی گینز کے مطابق امریکہ کے اتحادی عرب ممالک جو ایران کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان سے اسرائیل نے اپنے تعلقات بہتر کیے ہیں اور اب ان کو مشترکہ فضائی دفاعی نظام کی پیش کش کی جا رہی ہے۔
خلیجی ریاستیں اور عرب رہنماء ابھی تک خطے کے لیے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ مشترکہ فضائی دفاعی نظام کے بارے میں خاموش ہیں، تاہم اس سلسلے کی پروازیں شروع ہوچکی ہیں۔ ابھی چند ہی روز قبل امریکا کے دو بمبار جہازوں نے اسرائیلی فائٹرز کے ہمراہ خلیج فارس پر پرواز کی، اسی طرح اسرائیلی ڈیفنس کے ٹوئیٹر ہینڈل کے مطابق امریکی جہازوں سے اسرائیلی جہازوں کی ری فیولنگ کا عمل کامیابی سے انجام دیا گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کو توقع ہے کہ بائیڈن کی اسرائیل آمد اور یہاں سے سعودیہ روانگی اس اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ یہ اتحاد خطے کے مسلمان ملکوں اور اسرائیل کے درمیان تعاون اور خاص طور پر دفاع اور سکیورٹی کے ضمن میں ان ملکوں کو اسرائیل کے قریب کر دے گا اور ایران کو خطے میں تنہا کرنے میں مدد ملے گی۔
گذشتہ دنوں اسرائیل کے وزیر دفاع بنی گینز نے اسرائیل کے اراکین پارلیمان جو تقریباً ایک ہفتے کے مہمان ہیں اور اکتوبر میں نئے انتخابات کا اعلان کیا جاچکا ہے، کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس مشترکہ فضائی دفاعی نظام کے تحت پہلے ہی تعاون شروع ہوچکا ہے۔ بنی گینز کے مطابق وہ گذشتہ ایک سال سے پینٹاگون اور امریکی انتظامیہ میں اپنے شراکت داروں کے ہمراہ ایک وسیع پروگرام کی کوشش کر رہے تھے، جس سے اسرائیل اور خطے کے ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن تیرہ سے سولہ جولائی کو خلیج رابطہ کونسل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں قطر کے علاوہ عراق، مصر اور اردن کے سربراہان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ کونسل کے اس اجلاس کو جی سی سی پلس تھری کا عنوان دیا گیا ہے۔ جس میں تھری سے مراد یقیناً اسرائیل، امریکا اور ایک نامعلوم ملک ہیں۔
قارئین محترم! گذشتہ چند برسوں میں ایران کی خطے میں فضائی سرگرمیاں بالخصوص عراق میں امریکی ائیر بیسز پر حملے، اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا، امریکی ڈرونز کو اتارنا، امریکا کے سٹیٹ آف آرٹ ڈرون کو تباہ کرنا، حوثیوں کی ڈرون اور بیلاسٹک ٹیکنالوجی، حزب اللہ کے ڈرون ہتھیار، حماس اور جہاد فلسطین کے راکٹ اسرائیل نیز چند عرب ریاستوں کے لیے مشکل بنے ہوئے ہیں۔ ایران اور مقاومتی گروہ کے ان اراکین کی اس فضائی برتری کو چیلنج کرنے کے لیے اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ میدان عمل میں ہے۔ اب وہ اپنے آئرن ڈوم سسٹم کو ایرانی بارڈر پر نصب کرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس ائیر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے ایران کے گرد ہی ایک ایسا دفاعی حصار قائم کیا جائے، جس سے جنگ خطے کے تمام ممالک سے جنگ تصور کی جائے۔ وہی نیٹو والا بیانیہ یعنی کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ پورے نیٹو پر حملہ تصور ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ خطے کے مسلمان ممالک اس اتحاد کے سلسلے میں کس ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سعودیہ، بحرین اور عرب امارات تو بہت آسانی سے اس اتحاد کا حصہ بن جائیں گے، کیونکہ وہ پہلے ہی امریکی افواج کی میزبانی کر رہے ہیں یا کرچکے ہیں، مصر کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہ ہوگا۔ سوال عراق، اردن اور قطر کے ردعمل کا ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اگر یہ تینوں ملک اس اتحاد کا حصہ نہ بھی بنیں، تب بھی یہ اتحاد تشکیل پانے کے امکانات موجود ہیں۔ اس اتحاد کی تشکیل کے بعد اسرائیل اس کوشش میں کامیاب ہو جائے گا کہ اپنی دفاعی لائن کو عرب حکومتوں کے خرچ پر ایرانی سرحدوں کے قریب لے جائے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس اتحاد کے اعلان سے مراد خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی ان کارروائیوں کو قانونی شکل دینا ہے، جو وہ پہلے خفیہ طور پر انجام دے رہے تھے۔ شاید اسی لیے گذشتہ دنوں ایران نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی پر مشتمل ایک ویڈیو جاری کی، ایرانی سپاہ کے کمانڈر اور فضائی کمانڈر نے دشمن کو متنبہ کیا کہ اس کی چھوٹی سی غلطی سخت ترین جواب کی صورت میں سامنے آئے گی۔ بہرحال یہ اقدام خطے میں ایک نئی صورتحال کو جنم دے گا، جس کے جواب میں بھی اقدامات کی توقع کی جانی چاہیئے۔
خلیجی ریاستیں اور عرب رہنماء ابھی تک خطے کے لیے اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ مشترکہ فضائی دفاعی نظام کے بارے میں خاموش ہیں، تاہم اس سلسلے کی پروازیں شروع ہوچکی ہیں۔ ابھی چند ہی روز قبل امریکا کے دو بمبار جہازوں نے اسرائیلی فائٹرز کے ہمراہ خلیج فارس پر پرواز کی، اسی طرح اسرائیلی ڈیفنس کے ٹوئیٹر ہینڈل کے مطابق امریکی جہازوں سے اسرائیلی جہازوں کی ری فیولنگ کا عمل کامیابی سے انجام دیا گیا۔ اسرائیلی وزیر دفاع کو توقع ہے کہ بائیڈن کی اسرائیل آمد اور یہاں سے سعودیہ روانگی اس اتحاد کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا خیال ہے کہ یہ اتحاد خطے کے مسلمان ملکوں اور اسرائیل کے درمیان تعاون اور خاص طور پر دفاع اور سکیورٹی کے ضمن میں ان ملکوں کو اسرائیل کے قریب کر دے گا اور ایران کو خطے میں تنہا کرنے میں مدد ملے گی۔
گذشتہ دنوں اسرائیل کے وزیر دفاع بنی گینز نے اسرائیل کے اراکین پارلیمان جو تقریباً ایک ہفتے کے مہمان ہیں اور اکتوبر میں نئے انتخابات کا اعلان کیا جاچکا ہے، کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس مشترکہ فضائی دفاعی نظام کے تحت پہلے ہی تعاون شروع ہوچکا ہے۔ بنی گینز کے مطابق وہ گذشتہ ایک سال سے پینٹاگون اور امریکی انتظامیہ میں اپنے شراکت داروں کے ہمراہ ایک وسیع پروگرام کی کوشش کر رہے تھے، جس سے اسرائیل اور خطے کے ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافہ ہوگا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن تیرہ سے سولہ جولائی کو خلیج رابطہ کونسل کے سربراہی اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس اجلاس میں قطر کے علاوہ عراق، مصر اور اردن کے سربراہان کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ کونسل کے اس اجلاس کو جی سی سی پلس تھری کا عنوان دیا گیا ہے۔ جس میں تھری سے مراد یقیناً اسرائیل، امریکا اور ایک نامعلوم ملک ہیں۔
قارئین محترم! گذشتہ چند برسوں میں ایران کی خطے میں فضائی سرگرمیاں بالخصوص عراق میں امریکی ائیر بیسز پر حملے، اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنانا، امریکی ڈرونز کو اتارنا، امریکا کے سٹیٹ آف آرٹ ڈرون کو تباہ کرنا، حوثیوں کی ڈرون اور بیلاسٹک ٹیکنالوجی، حزب اللہ کے ڈرون ہتھیار، حماس اور جہاد فلسطین کے راکٹ اسرائیل نیز چند عرب ریاستوں کے لیے مشکل بنے ہوئے ہیں۔ ایران اور مقاومتی گروہ کے ان اراکین کی اس فضائی برتری کو چیلنج کرنے کے لیے اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ میدان عمل میں ہے۔ اب وہ اپنے آئرن ڈوم سسٹم کو ایرانی بارڈر پر نصب کرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس ائیر ڈیفنس سسٹم کے ذریعے ایران کے گرد ہی ایک ایسا دفاعی حصار قائم کیا جائے، جس سے جنگ خطے کے تمام ممالک سے جنگ تصور کی جائے۔ وہی نیٹو والا بیانیہ یعنی کسی ایک نیٹو ملک پر حملہ پورے نیٹو پر حملہ تصور ہوگا۔
دیکھنا یہ ہے کہ خطے کے مسلمان ممالک اس اتحاد کے سلسلے میں کس ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سعودیہ، بحرین اور عرب امارات تو بہت آسانی سے اس اتحاد کا حصہ بن جائیں گے، کیونکہ وہ پہلے ہی امریکی افواج کی میزبانی کر رہے ہیں یا کرچکے ہیں، مصر کا ردعمل بھی کچھ مختلف نہ ہوگا۔ سوال عراق، اردن اور قطر کے ردعمل کا ہے۔ تاہم ایک بات واضح ہے کہ اگر یہ تینوں ملک اس اتحاد کا حصہ نہ بھی بنیں، تب بھی یہ اتحاد تشکیل پانے کے امکانات موجود ہیں۔ اس اتحاد کی تشکیل کے بعد اسرائیل اس کوشش میں کامیاب ہو جائے گا کہ اپنی دفاعی لائن کو عرب حکومتوں کے خرچ پر ایرانی سرحدوں کے قریب لے جائے۔
ایک بات واضح کرتا چلوں کہ اس اتحاد کے اعلان سے مراد خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی ان کارروائیوں کو قانونی شکل دینا ہے، جو وہ پہلے خفیہ طور پر انجام دے رہے تھے۔ شاید اسی لیے گذشتہ دنوں ایران نے اپنی ڈرون ٹیکنالوجی پر مشتمل ایک ویڈیو جاری کی، ایرانی سپاہ کے کمانڈر اور فضائی کمانڈر نے دشمن کو متنبہ کیا کہ اس کی چھوٹی سی غلطی سخت ترین جواب کی صورت میں سامنے آئے گی۔ بہرحال یہ اقدام خطے میں ایک نئی صورتحال کو جنم دے گا، جس کے جواب میں بھی اقدامات کی توقع کی جانی چاہیئے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: