×

مقام مصطفیﷺ حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں

مقام مصطفیﷺ حضرت علی علیہ السلام کی نگاہ میں

عون محمد ہادی

خلاصہ تحقیق:حضرت محمدﷺ کائنات کے ہادی و رہبر اور تمام انبیاء کے سردار ہیں، جن کی معرفت اور پہچان ہر زمانے کے مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ سرور دوعالمؐ کا تعارف یاتو خدا کے کلام سےکروایا جانا چاہیے یا رسول اکرمؐ کےا قرباء کے اقوال سے۔ اہلبیتؑ میں سے برگزیدہ ترین ہستی اوررسالت مابؐ کےوصی وجانشین حضرت علیؑ نے اپنے مختلف خطبات کے اندر اپنے آقا و مولا کا تعارف کروایا ہے۔ ان کے خطبات و فرامین کا مجموعہ نہج البلاغہ ہے جو ہر خاص و عام کی نظر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ وجہ تخلیق کائنات رسول خداﷺ نہ صرف خود بلند درجہ پر فائز تھے بلکہ خدا نے ان کےلیے بہترین خاندان کا انتخاب کیا، اسی طرح ان کے مکارم اخلاق کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے انہیں مکارم اخلاق کی تکمیل کےلیے ہی بھیجا اور ان کی بعثت کےمقاصد حضرت علیؑ کی نگاہ میں کچھ یوں ہیں کہ وہ کائنات کے ہادی، انسانیت کو گمراہی سے بچانے والے، عذاب الہی سے متنبہ کرنے والے اور انہیں بت پرستی سے نجات دلا کر جہنم کے گڑھے سے بچانے والے ہیں۔ان کی زندگی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، دنیا و آخرت کی کامیابی ان کی پیروی سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

پس منظر اور موضوع:
خداوند عالم نے انسان کی روحانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے عقل اور انبیاء جیسے عظیم وسائل مہیا کیے ہیں۔ انہی ہادیوں و رالہی نمائندوں میں ،سب کی وجہ تخلیق ، جن کی تصدیق کی گواہی سب سے لی گئی خاتم الانبیاء، حبیب کبریا،حضرت محمد مصطفی ﷺہیں۔نبی کریمؐ کو پہچاننا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ ہم خداوند عالم کے اس عظیم تحفے کو پہچان کر ان کی ذات سے استفادہ کر سکیں اور سعادت کی راہ ہمارا مقدر بن جائے۔ اگر ظاہری طور پر دیکھا جائے تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے لیے بھیجے گئے تھےکیونکہ وہ لوگ اخلاقی بحران کا شکار تھے اور ساری برائیاں اس زمانے کے لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔خدا کے لیے شریک کے قائل تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم ان سے زیادہ پستی میں ہیں۔ وہ لوگ جاہل تھے اور برائیاں کرتے تھے اور ہم ترقی یافتہ دور میں رہنے کے باوجود اخلاق و کردار کے لحاظ سے ” كَالْأَنْعامِ بَلْ‏ ھمْ‏ أَضَلُ‏ “ کا مصداق ہیں۔یقینا ہم نے ذات رسول ﷺ سے راہنمائی حاصل نہیں کی ورنہ آج ہم دنیا میں اتنے کمزور نہ ہوتے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ایک بار پھر معاشرے کو رسول خداﷺ کا تعارف کروایا جائے تاکہ قرب خداوندی کے حصول کےلیے زمینہ فراہم ہو سکے ۔یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی انسان کو اس کے قریب ترین افراد ہی کے ذریعے بہتر طور پر پہچانا جا سکتا ہے۔ حضرت علی ؑ کے علاوہ بھلا رسول خداﷺسے نزدیک ترین کون ہو سکتا ہے ؟
اس مختصر مقالہ میں نہج البلاغہ (جو کہ حضرت علی ؑکی علم لدنی سے سیراب ہونے والی زبان سے جھڑنے والے موتیوں کا مجموعہ ہے) کی روشنی میں قاب قوسین کی منزل تک پہنچے والے حبیب کبریا ؐکی عظمت کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
مقام مصطفیؐ بزبان مرتضیٰؑ :
آئمہ معصومین ؑکی عظیم ہستیوں کو کما حقہ پہچانناممکن نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان کو خود ان کی ہی زبان سے ادا کیے گئے الفاظ سے پہچانا جائے کیونکہ جناب رسالت مابؐ فرماتے ہیں:
یا عَلِی مَا عَرَفَ اللہ إِلَّا أَنَا وَ أَنْتَ وَ مَا عَرَفَنِی إِلَّا اللہ وَ أَنْتَ وَ مَا عَرَفَكَ إِلَّا اللہ وَ أَنَا؛ اے علی !میرے اور آپ کے علاوہ اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں پہچانا، خداوند اور آپ کے علاوہ مجھے کسی نے نہیں پہچانااور آپ کو اللہ تعالیٰ اور میرے علاوہ کسی نے نہیں پہچانا۔
ان کا تعارف ان کی ہی زبانی ممکن ہے ابن عباسؒ نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرمﷺ نے فرمایا:
خلقت أنا و أنت یا علی من نور واحد
اے علی !تم اور میں ایک ہی نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔
پیغمبر اکرمﷺ کا صحیح تعارف حضرت علیؑ کروا سکتے ہیں، جن کے اقوال کو نہج البلاغہ میں جمع کیا گیا ہے۔اس میں حضرت علیؑ نے رسول خداﷺ کے خاندان اور ان کی نجی زندگی سے لے کر ان کی بعثت کے مقاصد و اہداف اور ان کے عظیم رتبے کو بیان کیا ہے۔ آئیے سمندر جیسی گہرائیاں رکھنےوالی کتاب سے چند موتی چن کر نعت رسول مقبولﷺ کی مالا پرونے کی کوشش کرتے ہیں:
الف۔ آنحضرت ﷺکا خاندان اور ان کا مقام و مرتبہ:
آپ کا خاندان عرب کا مشہور خاندان تھا، جو اپنی انسانی صفات میں مشہور تھا اس بارے میں حضرت علی ؑفرماتے ہیں:
اِخْتَارہ مِنْ شَجَرَ ةِ الْاَ نْبیَائِ مِشْکَاةِ الِضیَائِ وَذُؤَابَةِ الْعَلیَائِ وَسُرَّ ةِ البَطْحائِ ومَصَاِبیحِ الظُّلْمَةِ، ویَنَا بیع اِلحِکْمَةِ
رسول خدا ﷺ کو اللہ نے انبیاء کے شجرہ ،روشنی کے مرکز (آل ابراہیم )بلندی کی جبیں (قریش ) بطحاء کی ناف (مکہ)اور اندھیرے کے چراغوں اور حکمت کے سر چشموں سے منتخب کیا ۔
ایک اور جگہ فرمایا:
اِبْتَعَثَہ بالنُّور المُضِیئِ ،والبُرْہانِ الجَلِیَّ وَالمِنْہاجِ البَادِی ،والکتاب الہادِیْ، اُسْرَتةُ خیْرُ اَسْرَةٍ وَشَجَرَتَہ خیْرُ شَجَرَةٍ ،اغضا نُہا مُعْتَدِ لَة ،وَثِمَارُہا مُتَہدِّ لة
پروردگار نے آنحضرت کو روشن نور (واضح دلیل )نمایاں راستہ اور ہدا یت کرنے والی کتاب کے ساتھ بھیجا ، آپ ﷺکا خاندان بہترین خاندان اورآپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے ، جس کی شاخیں معتدل ہیں اور ثمرات دسترس کے اندر ہیں ۔
ب۔ توصیف و تعریف رسول خداﷺ :
حضرت رسول خدا ﷺ کے حقیقی اوصاف اور آپکی حقیقی اور دقیق تعریف یہ ہے کہ انسان اس کی سحر انگیزی اور معنی کی گہرائی میں ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہے،چنانچہ امیر المومنین آنحضرتﷺ کی یوں تعریف کر تے ہیں:
حَتَّی بَعَثَ اللہ محمّدًا صلی اللہ علیہ وآلہ،شہیداً وبَشِیراً، ونذیراً،خیَر الَبرِیةِ طِفلاً،واَنْجَبہا کَہلاً، وَاَطْہرَ الْمُطَہریْنَ شیْمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتَمطَریْنَ دِیمَةً:
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ کو امت کے اعما ل کا گواہ ،ثواب کی بشارت دینے والااور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ،جو بچپن میں بہترین خلائق اور سن رسیدہ ہو نے پر بھی اشرف کائنات تھے۔ عادات کے اعتبار سے تمام پاکیزہ افراد سے زیادہ پاکیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر ابر رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے۔
ایک اور مقام پر آپ ﷺکی مدح یوں کر تے ہیں :
فہوَ اِمامُ مَنِ اتَّقی،وبَصیرَة مَنِ اہتَدی، سراج لَمَعَ ضَوئہ، وَشِہاب سَطَعَ نُورُہ و زَنْد بَرَقَ لَمْعُہ،سیْرَتُہ الْقَصْدُ،وسُنَّتُہ الرُّشْدُ وکَلَا مُہ الْفَصْل،وحُکْمُہ الْعَدْلُ،اَرْسَلَہ عَلَی حیْنَ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ وَہفْوَةٍ عَنِ العَمَلِ،غَبَاوَةٍ مِنَ اْلُامَمِ؛
آپ ﷺاہل تقویٰ کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے سر چشمہ بصیرت ہیں ،آپ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لَوْ دے رہی ہے اور ایسا ستارہ جس کا نور درخشاں ہے او ر ایسا چقماق ہیں جس کی چمک شعلہ فشاں ہے ، ان کی سیرت میانہ روی،سنت رشد وہدایت ، ان کا کلام حرف آخر اور ان کا فیصلہ عادلا نہ ہے. اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺکو اس وقت بھیجا جب انبیا ء کا سلسلہ موقوف تھا اور بد عملی کا دور دورہ تھااور امتوں پر غفلت چھائی ہو ئی تھی ۔
ایک اور مقام میں بیان فرمایا :
بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں آپﷺ کا مقام بہترین مقام اور آپ کی نشوونما کی جگہ بہترین منزل ہے ،نیک کرداروں کے دل آپ ﷺکی طرف جھکا دئیے گئے اور نگاہوں کے رخ آپﷺ کی طرف موڑ دیے گئے ،اللہ نے آپﷺکے ذریعہ کینوں کو دفن کر دیا اور عداوتوں کے شعلے بجھا دئیے،لوگوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور کفر کی برادری کو منتشر کر دیا۔ اہل ذلت کو با عزت بنا دیا اور کفر کی عزت پر اکڑنے والوں کو ذلیل کر دیا ،آپ کا کلام شریعت کا بیان اور آپ کی خاموشی احکام کی زبان تھی۔
ج۔ رسول خداﷺ کے مکارم اخلاق:
رسول اکر م ﷺ کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
وَاِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ
بے شک آپ اخلا ق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔
خود آپ ؑنے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا ہے ،آپ کا فرمان ہے :
اِنَّما بعثت لاُ تَمِّمَ مَکَارِمِ الَاخْلَاقِ
میں مکارم اخلاق کی تکمیل کےلیے مبعوث کیا گیا ہوں۔
یہ اخلاق کی اہمیت اور عظمت کی دلیل ہے کہ آپ ﷺکی بعثت کا مقصد مکام اخلاق کی تکمیل ہے، اسی طرح آپ انہی اعلیٰ اخلاق وصفات کا کامل ترین نمونہ ہیں ، نہج البلاغہ میں آپﷺ کے اعلیٰ اخلاق کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا گیا ۔
۱۔ زہد و پارسائی
رسول خداﷺ وہ عظیم ہستی کہ ساری کائنات جن کے قدموں کی دھول ہے زہد و پارسائی میں ان کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔
اس بارے میں حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
قَدْ حَقَّرَ الدُّنیَا ۔ ۔ ۔ وَخَوَّفَ مِنَ النَّارِ مُحَذَّراً
آپ ﷺنے اس دنیا کو ذلیل و خوار سمجھا اور پست و حقیر جانا اور یہ جا نتے تھے کہ اللہ نے آپ کی شان کو با لا تر سمجھتے ہو ئے اور اس دنیا کو آپ سے الگ رکھا ہے اور گھٹیا سمجھتے ہو ئے دوسروں کے لیے اس کا دامن پھیلا دیا ہے، لہذا آپ نے دنیا سے دل سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور اس کی یاد کو دل سے بالکل نکال دیا اور یہ چاہا کہ اس کی سج دھج نگاہوں سے اوجھل رہے کہ نہ اس سے عمدہ لباس زیب تن فرمایا اور نہ کسی خاص مقام کی امید کی ،آپ نے پروردگار کے پیغام کو پہنچانے میں سارے عذر اور بہانے بر طرف کر دئیے اور امت کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو ئے نصحیت فرمائی جنت کی بشارت سنا کر اس کی طرف دعوت دی اور جہنم سے بچنے کی تلقین کر کے خوف پیدا کرایا۔
اس بارے میں آنحضرت ﷺکی سیرت کو بیان کر تے ہو ئے ارشاد فرماتے ہیں:
وَلَقَدْکَانَ صَلَّی اللہ عَلیہ وَآلہ وَسَلَّمَ یَأ کُلُ عَلَی اْلَا رضِ ،ویَجْلِسُ جِلْسَةَ اَلْعَبْدِ ،۔۔وَکَذلِکَ مَنْ أَبْغَضَ شیْاً أَبْغَضَ أَنْ یَنْظُرِ اِلیہ ،وَأَنْ یذْکَرَ عِنْدہ
رسول اللہﷺ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا تے تھے، غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے، اپنے ہاتھ سے جو تی ٹانکتے تھے ، اپنے ہا تھو ں سے کپڑوں میں پیو ند لگاتے تھے ، بے پا لا ن گدھے پر سوار ہو تے تھے، اپنے پیچھے کسی کو بیٹھا بھی لیتے تھے،گھر کے دروازے پر ایک دفعہ ایسا پردہ پڑا تھا جس میں تصویریں تھیں تو آپ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا کہ اسے میری نظروں سے ہٹا دو ،جب میری نظریں اس پر پڑتی ہیں تو مجھے دنیا اور اس کی آرائشیں یاد آجا تی ہیں ،آپ نے دنیا سے دل ہٹا لیاتھا اور اس کی یاد تک اپنے نفس سے مٹا ڈالی تھی اور یہ چاہتے تھے کہ اس کی سج و دھج نگاہوں سے پوشیدہ رہے تا کہ ان سے عمدہ عمدہ لباس حاصل کر یں اور نہ اُسے اپنی منزل خیال کریں اور نہ اُس میں زیادہ قیام کی آس لگائیں، انہوں نے اس کا خیال نفس سے نکال دیا تھا اور دل سے ہٹا دیا تھا اور نگاہوں سے اُسے اوجھل رکھا تھا یو نہی جو شخص کسی شے کو بُرا سمجھتا ہے تو اُسے نہ دیکھنا چاہتا ہے اور نہ اس کا ذکر سننا گوارا کرتا ہے۔
۲۔ حسن سلوک اور مہربانی :
قرآن مجید رسول اللہﷺ کی بہترین اخلاقی خصوصیت حسن سلوک اورمہربانی وعطوفت بیان کرتا ہے۔ آپ نے اپنی اسی خصوصیت کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف راغب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا ،ارشاد ہوتا ہے۔
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہ لِنتَ لَہمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ
پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہو تے تو یہ لو گ آپ کے ارد گرد سے دُور ہو جاتے۔
حضرت علیؑ آنحضرتﷺ کی اسی خصوصیت کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں :
وَاَطہرَ المُطہرِینَ شِیمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَریْنَ دیْمَةً
عادات کے اعتبار سے آپ ﷺتمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہرابر رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے
۳۔ لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی:
قرآن مجید نے رسول خدا ﷺکی اس صفت کے بارے میں بیان فرمایا :
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِیزٌ عَلَیہ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیكُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔
حضرت علی ؑنہج البلاغہ میں اس بارے میں ذکر کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہا تھ پاؤں مار رہے تھے، نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور بھرپور جاہلیت نے ان کی مت مار دی تھے اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے۔
فَبَالَغَ ﷺ فِی النَّصیْحَةِ ومَضی عَلَی الطّریْقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ
چنانچہ نبی اکرم ﷺنے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کردیا ،سید ھے راستے پر چلے اور لو گوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے۔
آنحضرت ﷺایسے طبیب تھے جو خود بیماروں کے پاس چل کر جا تے تھے اور ان کا روحانی معالجہ کر تے تھے۔اس بارے میں امیر المومنینؑ نے فرمایا :
طبیب دَوَّاربِطِبِہ قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اہمہ ،وَاَحْمَی مَوَا سِمہ یَضَعُ ذلِکَ حیْثُ الحَاجَةُ اِلیہ ، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ،وَآذانٍ صُمٍّ، وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائہ مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحیْرَةِ
آپ وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو ،وہ اندھے دلوں ،بہرے کانوں گونگی زبانوں (کے علاج معالجہ )میں جہاں ضرورت ہو تی ہے ،ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔
۴۔ شجاعت و بہادری:
امیر المومنین علیؑ جو خود ‘اشجع الناس ‘تھے وہ آنحضرتﷺ کی شجاعت کے بارے میں یوں فرماتے ہیں :
کُنَّا اِذَاحْمَرَّ الْبُأْسُ اتَّقیْنَا بِرَسُولِ اللہ ﷺ فَلَمْ یَکُنْ اَحَد مِنَّا اَقْرَبَ اِلَی العَدُوِّ مِنہ
ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ جب جنگ میں شدت پیدا ہو جاتی او ر دو گروہ بر سر پیکار ہو جا تے تو ہم آنحضرتﷺ کی پناہ میں آجاتے اور آپ کو اپنی سپر قرار دیتے کیونکہ آپ ﷺ کے علاوہ کو ئی بھی دشمن کے قریب نہ ہو تا۔
د۔ مقاصد بعثت رسول خداﷺ:
تمام انبیاء کی بعثت کے مقاصد بدرجہ اتم رسول خدا کی بعثت کے مقاصد ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے مقا صد کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تا قیامت آنے والے لوگوں کی ضروریات کو مد نظر رکھا جائے۔ ہم اس وقت تک بعثت کے مقصد کو واضح نہیں کر سکتے جب تک ضرورت ہدایت معلوم نہ کر لیں۔ بعثت کے مقاصد کو مختلف لحاظ سے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، مثلا ایک انسان کی نسبت رسول خدا کی بعثت کا کیا کردار تھا ؟ اور پورے معاشرے کے لحاظ سے رسول خداؐ کے مبعوث ہونے کا مقصد کیا ہے؟اس بارے میں حضرت علیؑ کے اقوال کی روشنی میں بعثت رسول مقبولؐ کو سمجھتے ہیں۔
۱۔ کائنات کے ہادی:
رسول خداﷺکی بعثت کے وقت کے حالات کی طرف اور آپ ﷺکے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیر المومنین علیؑ خطبہ نمبر۱میں فرماتے ہیں :
وَاہلُ الْاَرْضِ یَوْ مَئِذٍ مِلَل مُتَفَرِّقَة وَاہوَ آئ مُنْتَشِرَة وَطَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَة بیْنَ مُشَبِہ لِلہ بِخَلْقہ اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمہ اَوْ مُشیْرٍ اِلی غیرہ فہدَہم بہ مِنَ الضَّلالَةِ وَاَنْقَذہمْ بِمَکانہ مِنَ الجہالَةِ
اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب ،منتشر خواہشات اور الگ الگ راستوں پر گامزن تھے ۔اس طرح سے کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے ،کچھ اس کے ناموں کوبگاڑدیتے کچھ اُسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کر تے تھے۔ پس خداوند عالم نے آپﷺ کے ذریعہ سب کوگمراہی سے ہدا یت دی اور آپ کے وجود سے جہا لت سے با ہر نکالا۔
۲۔ گمراہی سے بچانے والے رہنما:
حضرت علی ؑ عربوں کے حالات تفصیل سےبیان فرماتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی طرف متوجہ کرواتے ہیں کہ رسول خداﷺ نے کس طرح انہیں راہ حق پہ لگا دیا، فرماتے ہیں:
بَعَثَہُ وَالنَّاسُ ضُلَّال فِی حیْرَةٍ وخاطِبُونَ فِی فِتْنَةٍ ،قَدْ اسْتہوَتہمْ اْلاہوَائُ واسْتَزَلَّتہمُ الْکِبیِریاواسْتَخَفَّتْہمُ الْجَاہلِةُ الجہلَائُ حیَارَی فِی زِلْزَالٍ مِنَ الآ مْرِ وَبَلاَ ئٍ مِنَ الجَہلِ و مَبَالَغَ صلی اللہ علیہ وآلہ فِی النَّصِیحَةِ ومَضَی علی الطَّریْقَةِ، وَدَعَا اِلَی الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ
اللہ سبحانہ نے آپ ؐکواس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں سرگرداں تھے فتنوں میں ہا تھ پاؤں ماررہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی،جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیا تھا اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران وسرگرداں تھے ۔آپؐ نے نصحیت کا حق ادا کر دیا ،سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کوحکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔
آپؑ نے ایک اور مقام پر جاہلیت عرب کی وضاحت فرمائی ہے ۔
یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ نے محمدؐ کو عالمین کے لیے عذاب الٰہی سے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا ہے ۔اے گروہ عرب ! اُس وقت تم بدترین دین پر اور بد ترین گھروں میں تھے، کھردرے پتھروں اور زہر یلے سانپوں میں تم بودوباش رکھتے تھے تم گدلا پانی پیتے تھے اور غلیظ غذا استعمال کر تے تھے ایک دوسرے کاخو ن بہاتے تھے اورقرابتداروں سے قطع تعلقی کرتے تھے ،بت تمہارے درمیان گڑے ہوئے تھے اور گناہ تم سے چمٹے ہوئے تھے۔
۳۔حق کے داعی:
خدا نے اپنے جس نبی کو قرآن مجید میں داعیا الی الحق و سراج منیر کے لقب سے نوازا ان کے بارے ولی خدا فرماتے ہیں:
اَرْسَلہ دَاعِیاً اِلَی الحَقِّ وَشَاہدًا عَلَی الخَلْقِ
اللہ نے پیغمبر اکرمؐ کو اسلام اور حق کی طرف دعوت دینے والا اور مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا۔
۴۔لوگوں کو عذاب الہی سے متنبہ کرنے اور ڈرانے والے
قرآن مجید نے رسول خداﷺ کو بشیر و نذیر کے طور پر تعارف کروایا ہے حضرت علیؑ بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِنَّ اللہ بَعَثَ مُحَمَّدًاصلّی اللہ علیہ وَالہ وَسَلَّمَ نَذیْرً لِّلْعالَمیْنَ وَامِینًا عَلَی التَّنْزِیلِ
بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کو تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا اور اپنی وحی کا امین بنا کر بھیجا۔
۵۔بت پرستی اور اطاعت شیطان کی ذلتوں سے نکالنے والے
بعثت رسول خداﷺ کے مقاصد میں سے ایک اہم ترین یہ ہے کہ انسانیت کو شیطان کی پیروی کی ذلتوں سے نکال کر عبودیت کی اعلی منازل پر فائز کریں، اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت علیؑ فرماتے ہیں:
فَبَعَثَ اللّہ محمّداً، بِالحقِّ لیُخْرِج عِبَادہ الَاوْثَانِ اِلی عبادَة ،وَمَنْ طَاعَةِ الشَیْطَانِ اِلی طاعَتہ، بِقُرآنٍ قَدْ بیَّنہ وَاَحْکَمہ لیَعْلَمَ الِعبَادُ رَبَہمْ اِذجہلُوہ ، وَلیُقِرُّوا بہ اذجَحَدُوہ ولیُثْبِتُوہ بَعْدَ اِذْانَکَرُوہ
پروردگار نے حضرت محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی سے نکال کر عبادت الٰہی کی منزل کی طرف لے آئیں اور شیطان کی اطاعت سے نکال کر رحمن کی اطاعت کی طرف لے آئیں اس قرآن کے ذریعہ جسے اُس نے واضح اور محکم قرار دیا ہے تا کہ بندے اپنے رب سے جا ہل و بے خبر رہنے کے بعد اُسے پہچان لیں ، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں ۔
۶۔اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے والے:
عبد و معبود کے درمیان رابطے کے لیے کریم رب نے جلیل القدر انبیاء بھیجے جن کے سردار ختم المرسلین ہیں جن کے بارے ان کے منصوص من اللہ وصی فرماتے ہیں:
ثُمَّ اِنَّ اللہ سبحانہ بَعَثَ مُحَمَّدًا صلّی اللہ علیہ وآلہ بالحَقِّ حین دَنَا من الدُّینا الْا نْقِطَاعُ ، وَاَقْبَلَ الآ خِرَةِ الِا طِلّاَعُ ۔۔۔۔ جَعَلہ اللہ بَلَاغاً لِرِسَالَتہ ،وَکَرَامَةً لِاُمَّتِہ ، وَ رَبیْعاًلِاَھْلِ زَمانہ ورِفْعَةً لِاَ عْوَانہ وَشَرَفاً لِاَ نْصَارِہِ
اس کے بعد اللہ سبحانہ نے حضرت محمدؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا جب دنیا فنا کی منزل کے قریب تر ہو گئی اور آخرت سر پر منڈلا نے لگی۔۔۔اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغام رسانی کا وسیلہ ،امت کی کرامت ، اہل زمانہ کی بہار ،اعوان وانصار کی بلندی کا ذریعہ اور ان کا یارومددگار افراد کی شرکت کاواسطہ قرار دیا۔
و۔ دوران رسالت ،رسول اللہؐ کی جانفشانی اور جدوجہد:
رسول خداؐ نے اپنی بعثت کے اہداف کو کس طرح حاصل کیا اور الٰہی اہداف کو کیسے پایہ تکمیل تک پہنچایا ؟اس بارے میں حضرت امیر المومنینؑ فرماتے ہیں:
اَرْسَلہ داعِیاً اِلَی الحَقِّ وشَاہدًا عَلَی الْخَلْقِ مَبَلَّغَ رِسَالا تِ رَبِہ غیرَ وَانٍ ولا مُقَصِّرٍ وَجَاہدَ فِی اللہ اَعْدَائَہ غیْرَ وَاہنٍ ولا مُعَذِّرٍ اِمَامُ مَنِ اِتَّقی وَبَصَرُ ِمنِ اہتَدی
اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو حق کی طرف بلانے والا او ر مخلوقات کے اعمال کا گواہ بنا کر بھیجا تو آپ ؐنے پیغام الٰہی کو مکمل طور پر پہنچا دیا نہ اس میں کوئی سُستی کی نہ کوتاہی اور اللہ کی راہ میں اس کے دشمنوں سے جہاد کیا اور اس میں نہ کو ئی کمزوری دکھائی اور نہ کسی حیلہ اور بہانہ کا سہارا لیا،آپؐ متقین کے امام اور طالبان ہدایت کے لیے آنکھوں کی بصارت تھے ۔
ہ۔ تمام انسانوں کے لیےنمونہ عمل:
حضرت محمد ﷺ خداوندعالم کے آخری نبی اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد بھی انہی کے اسوہ حسنہ پہ چلنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے ۔قرآن پاک اس بارے میں فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ یرْجُو اللہ وَالْیوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللہ كَثِیرًا
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے۔
خداوندعالم کا یہ فرمان اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ رسول خداﷺ کی زندگی کے تمام کاموں میں ان کی اقتداء کرنا واجب ہے اور یہ کہ ان کا ہر قول و فعل حجت ہے۔
امیر المومنین علیؑ اس بارے میں فرماتے ہیں :
یقینا رسول اکرمؐ کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے آپ کی ذات دنیا کے عیوب اور اس کی ذلت و رسوائیوں کی کثرت کو دکھانے کے لیے رہنما ہے اس لیے کہ آپ سے دنیا کے دامنوں کو سمیٹ لیا گیا اوردوسروں کے لیے اس کی وُسعتیں ہموار کر دی گئیں آپ کو اس کے منافع سے الگ رکھا گیا اور اس کی آرائشوں سے کنارہ کش کر دیا گیا ۔
نتیجہ:
مندرجہ ذیل تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حضرت علیؑ نے علم لدنی سے سیراب شدہ زبان سے قاب قوسین کی منزل تک پہنچنے والے، سراج منیر، رحمت العالمین کا ایسا تعارف کروایا جیسا کروانے کا حق ہے۔

منابع
قرآن مجید
نہج البلاغہ(جمع کنندہ: محمد حسین شریف رضی، مترجم: مفتی جعفر حسین، لاہور: معراج کمپنی،بی تا)
ابن أبی زینب، محمد بن ابراہیم‏، الغیبة للنعمانی ، تہران‏ :نشر صدوق‏، 1397 ق‏
ابن بابویہ، محمد بن على، علل الشرائع، قم:كتاب فروشى داورى ، چ: اول، 1385ق / 1966م
ابن بابویہ، محمد بن على‏ ، الخصال ، تہران‏ : كتابچى‏، 1377 ش
ابن بابویہ،محمد بن على، الأمالی ، تہران: كتابچى 1376ش
ابن بطریق، یحیى بن حسن‏، عمدة عیون صحاح الأخبار فی مناقب إمام الأبرار جماعة المدرسین بقم، مؤسسة النشر الاسلامی‏،قم‏، 1407 ق‏
ابن زکریا، ابی لحسن احمد بن فارس ،معجم المقاییس فی اللغۃ، بیروت:دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع،چ:7061/11
ابن طاووس، على بن موسى‏، مہج الدعوات تہران: رایحہ
ابن طاووس، على بن موسى‏ ، سعد السعود للنفوس منضود، قم‏،:دار الذخائر، بى تا
ابن طاووس، على بن موسى‏، الیقین باختصاص مولانا علی علیہ السلام بإمرة المؤمنین‏ قم: دار الكتاب‏؛ ‏ 1413 ق‏
ابن طاووس، على‏ بن موسى، طرف من الأنباء و المناقب‏ مشہد :تاسوعا، 1420 ق‏
ابن عقدہ كوفى، احمد بن محمد ، فضائل أمیر المؤمنین علیہ السلام قم‏: دلیل ما 1424 ق‏
جوہرى بصرى، احمد بن عبد العزیز ، مقتضب الأثر فی النص على الأئمة الإثنی عشر، قم‏: انتشارات طباطبایى‏، بى تا
حر عاملى، محمد بن حسن‏ ، اثبات الوصیۃ، بیروت‏ :اعلمى،1425 ق
شامی، یوسف بن حاتم‏ ، الدر النظیم فی مناقب الأئمة اللہامیم‏ ‏، قم‏:جامعہ مدرسین‏، 1420 ق‏
شعیری، محمد بن محمد جامع، الأخبار نجف: مطبعة حیدریة،بى تا
شھیدی، سید جعفر،ترجمہ نہج البلاغہ، تہران: الشرکۃ العلمیۃ والثقافیۃللطباعۃوالنشر، چ:چہاردہم،1460ء
شیخ مفید،محمد بن محمد (مترجم: رسولى محلاتى، سید ہاشم‏)تہران‏: الإرشاد للمفیداسلامیہ‏، بى تا
طبرسى، فضل بن حسن ،اعلام الوری باعلام الھدی (مترجم عطاردى‏، عزیز اللہ) تہران: اسلا میة، ‏ 1390 ق
طبرى آملى، عماد الدین أبی جعفر محمد بن أبی القاسم ، ‏ بشارة المصطفى لشیعة المرتضى، نجف‏:المكتبة الحیدریة، 1383 ق
علامہ حلى، حسن بن سلیمان بن محمد ( مترجم: آژیر، حمیدرضا)، كشف الیقین، تہران‏ :وزارت ارشاد، 1379 ش
‏ علامہ حلی، حسن بن سلیمان بن محمد ،مختصر البصائر، قم:مؤسسة النشر الإسلامی،چ، اول، 1421 ق
علوى، محمد بن على بن الحسین، مناقب علوی الكتاب العتیق‏، قم‏ :دلیل ما، 1428 ق‏
قمی، شیخ عباس ، سیرت معصومین،(مترجم:سید صفدر حسین نجفی)، لاہور: معراج کمپنی، ۲۰۱۴
قمى، شیخ عباس (مترجم محمد محمدى اشتہاردى‏) الأنوار البہیة قم‏بی نا : 1380 ش ص80
کیرانوی، مولانا وحید الزمان قاسمی ،القاموس الوحید، لاہور:ادارہ اسلامیات ،چ:اول،1422ھ،ص179۔
مازندرانى، ابن شہرآشوب ،المناقب ابن شہر آشوب قم:علامہ، 1379ق
مازندرانى، محمد بن على ابن شہر آشوب ، متشابہ القرآن و مختلفہ ،قم: دار بیدار للنشر ، چ: اول، ق‏1369
مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار ، بیروت: مؤسسہ الوفاء ،١٩٨٣ء
مطہری، مرتضی ،سیری در نہج البلاغہ ، قم: دار التبلیغ اسلامی،چ:1379
نسائى‏، احمد بن شعیب، خصائص أمیر المؤمنین علیہ السلام ،قم‏:بوستان كتاب‏، 1382 ش

Share this content: