معلومات کی چھان پھٹک کیوں ضروری ہے؟
شاید آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں کوئی خبری کیڑا نہیں ہوں، یعنی مجھے کبھی بھی اخبار پڑھنے کا شوق نہیں رہا۔ جب بھی کسی موضوع پر آرٹیکل لکھنا ہو تو اپنی دلچسپی کے موضوعات میں سے کسی ایک پر تحقیق کرکے اپنی معروضات آپ کی خدمت میں پیش کر دیتا ہوں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اپنے دلچسپی کے موضوعات کے بارے میں آگاہ ضرور رہتا ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس میں انفارمیشن یا معلومات کا بہاؤ تقریباً ہر سمت سے جاری ہے۔ حواس خمسہ ہر لمحے کوئی نہ کوئی نئی معلومات جمع کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹیکنالوجی کے وسائل جب محدود تھے تو لوگ معلومات کے حصول کے لیے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی کا سہارا لیا کرتے تھے۔ آج کل سمارٹ فون نام کا ایک آلہ ایجاد ہوا ہے، جس نے اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کو یکجا کر دیا ہے۔ یہ نہ صرف سننے کا آلہ ہے بلکہ بتانے اور اظہار کا بھی میڈیم بن چکا ہے۔ ہر کسی کے پاس کہنے کو کچھ ہے، ظاہر ہے کہ ایسے میں معلومات کے اندرونی بہاؤ کا دباؤ اس قدر شدید ہوچکا ہے کہ اگر اس کے سامنے مناسب رکاوٹیں حائل نہ کی جائیں تو انسان کے دماغی پرزے ڈھیلے ہونے کا خدشہ ہے۔
میں نے سوشل میڈیا کے ایسے ایسے مریض دیکھے ہیں کہ اگر آدھے گھنٹے بعد کوئی پوسٹ نہ لگا لیں تو ان کو چین نہیں آتا۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ پوسٹیں پڑھنے پر وہ کتنا وقت صرف کرتے ہوں گے۔ ہم سوشل میڈیا پر اکثر ایسی ویڈیوز اور تصاویر مشاہدہ کرتے ہیں، جس میں ایک کمرے میں مختلف عمروں اور صنف کے پانچ چھے افراد تشریف فرما ہوتے ہیں اور تقریباً سب کے سب ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے بجائے موبائل، لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کی سکرین میں گم ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں انسان کے قریبی رشتوں کو کمزور کیا ہے، وہیں اس نے انسان کے غیر مادی روابط میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ حضرات جو معاشرے سے تعامل کے زیادہ شوقین نہیں ہوتے، سوشل میڈیا پر ان کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں۔ بہرحال سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو نہ ہی مکمل طور پر مثبت قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر منفی۔
اعتدال کی راہ ہی مناسب راہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ بزرگ ٹیکنالوجی کی ایجادات سے زیادہ شغف نہیں رکھتے۔ ان کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ گم رہتے ہیں، تاہم اب میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ بزرگ جوانوں سے زیادہ موبائل فون سے جڑ چکے ہیں۔ اپنی دلچسپی کے اعتبار سے ان کو موبائل کی دنیا میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے کہ جو انھیں اس دنیا میں نہیں آنے دیتا، جس میں ان بزرگوں کے والدین رہا کرتے تھے۔ بیٹھکیں، ڈیرے، حقے، موڑھے، پیڑھے سب ویران ہوچکے ہیں، اب موبائل ہے، اس کی ٹوٹیاں (ہیڈفون) ہیں اور بابا جی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد بزرگوار مجھے اکثر ڈانٹا کرتے تھے کہ ہر وقت کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں نہ گھسے رہا کرو، کوئی کتاب وغیرہ بھی دیکھ لیا کرو، وہ یہ تو نہ کہتے تھے کہ میرے پاس بیٹھا کرو، تاہم ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ میں اس دنیا میں رہا کروں، جس میں وہ رہتے ہیں۔
وہ یہ بات کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے، تاہم اب کیا دیکھتا ہوں کہ بزرگ خود سے موبائل اٹھائے گھروں میں گھوم رہے ہیں، وہ کسی کو کیا روکیں گے، خود ہی ان کو موبائل سے فرصت نہیں ہے۔ صبح نماز کے لیے بیدار ہوئے تو بلاناغہ تقریباً تمام عزیزوں اور دوستوں کو ’’السلام علیکم‘‘ کا ایک میسیج روانہ کیا۔ اگر کسی دن موڈ کچھ بہتر ہوا یا کوئی مناسبت ہوتی ہے تو اس میسیج کے ہمراہ ایک آدھی تصویر یا ویڈیو بھی بھیج دی۔ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کتاب بھیج رہا ہے، کوئی حدیث، کوئی شعر، کوئی عکس، غرضیکہ جو جس کے ہاتھ چڑھتا ہے، اپنے عزیزوں کے علم میں لانا ازحد ضروری سمجھتا ہے۔ اس سے صلہ رحمی بھی قائم رہتی ہے اور نیک پیغامات کی ترویج کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
بات کہیں سے کہیں جا نکلی، مجھے یاد ہے کہ میرے والد بزرگوار صبح اٹھ کر اونچی آواز سے تلاوت کلام پاک کیا کرتے تھے، تلاوت کا یہ سلسلہ نماز کے بعد ایک آدھ گھنٹہ جاری رہتا تھا۔ والد محترم نے ہی بتایا کہ ان کے والدین تو سحری کے وقت بیدار ہوتے تھے اور تلاوت و تسبیح کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا تھا۔ اپنے تایا جان کے گھنٹوں مصلے پر بیٹھنے کا تو میں خود شاہد ہوں۔ حیرت بھی ہوتی تھی کہ یہ اتنی دیر بیٹھ کر کیا سوچتے رہتے ہیں، تاہم اب یہ مناظر بڑے بوڑھوں میں بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ پھر وہی بات کہ ایسا بھی نہیں کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں دین سے دور کر دیا ہے، میں کئی ایسے بزرگوں کی بھی جانتا ہوں، جو اب موبائل پر جب بھی فرصت ملے قرآن حکیم کی تلاوت کرتے یا سنتے ہیں۔
آج جبکہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ معلومات کے اس سیلاب میں ایک نیا طوفان کھڑا کرنے کی تجھے کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ تیرے اظہار کی خواہش ہے، جس کے سبب تو لکھ رہا ہے یا کوئی اور وجہ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اظہار کی خواہش تو بہرحال ہے ہی، تاہم اصل وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں بہنے کے مناظر کا مشاہدہ کرکے انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے کلام نہ کیا تو لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگ جائیں گے، لہذا بولنا ضروری ہے۔ اگرچہ مثالیں تو بہت ہیں، تاہم ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے میں فقط قضیہ یمن کی مثال دوں گا۔ سوائے معدودے چند کے دنیا بھر میں نشریاتی ادارے، ویب سائٹس، سوشل میڈیا چینلز حوثی کے ہمراہ باغی کا لفظ لازما استعمال کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ معلومات کی دنیا میں بہنے والے لوگ اکثر انجانے میں حوثی کے ہمراہ باغی کا لفظ ضرور استعمال کرتے ہیں، جیسے باغی حوثی کے نام کا حصہ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے عرب دنیا میں شیعہ کے ساتھ رافضی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
معلومات پر سرسری نگاہ کرنے والا فرد لفظ باغی یا رافضی پڑھ کر ہی ایک تاثر قائم کرتا ہے اور پھر معلومات کی سیلاب میں کہیں آگے بہ جاتا ہے۔ اب ایسے شخص کو جب بھی کہیں اظہار کا موقع ملتا ہے، خواہ تقریر ہو، تحریر ہو یا سوشل میڈیا پوسٹ، وہ اپنی اسی معلومات کا اظہار کرے گا، جو اس نے پڑھی ہے، یعنی باغی اور رافضی۔ جہالت اور کذب کا یہ اندھیرا پھیلتے پھیلتے ایک بڑی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ شام میں اسی اندھیرے کے خلاف بنت علی نے ہدایت کے چراغ روشن کیے تھے۔ شام کا حاکم پہلے مرحلے میں اس بات میں کامیاب ہوا تھا کہ حسین ؑکو باغی قرار دے اور ان کے اہل خانہ کو باغی کے اہل خانہ کی حیثیت سے شام میں لائے۔ وہ سمجھا تھا کہ مجبور خواتین کو شام لایا جا رہا ہے، جو میرے پراپیگنڈہ کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ عوام ان کو باغی ہی سمجھیں گے اور ان کی حقیقت کو جانے بغیر ان سے نفرت جاری رکھیں گے، لیکن اس اندھیروں کے تاجر کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا سامنا روشنی اور ہدایت کے چراغوں سے ہے۔
اس کی تمام چالاکیاں خود اس کی جانب پلٹ جائیں گی۔ یزید کو اہل بیت (ع) کو شام لانے کی غلطی کا احساس اس وقت ہوا، جب علی کی علی بیٹی نے دربار شام میں یزید کو للکارا اور اسے اس کی حیثیت اور اپنی شان یاد دلائی۔ جب اہل شام کے سامنے باغی کے فرزند نے خطاب شروع کیا تو یزید کی بے چینی اور پریشانی نے پراپیگنڈہ کی تاریک رات کو روشن دن میں بدل دیا، جس میں یزید شپرے کی مانند دیواروں سے سر ٹکراتا تھا۔ پس ضروری ہے کہ حقائق کو عیاں کرنے کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے، جس کی بنیادیں فرزند حسین اور بنت علی نے مستحکم کی ہیں۔ یہی آپ کی سمع خراشی کی غرض و غایت ہے۔ اللہ ہمارے تمام لکھاریوں، اہل قلم، اہل سخن کو آج کے تاریک اور گھٹن زدہ ماحول میں حق کے چراغ روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
میں نے سوشل میڈیا کے ایسے ایسے مریض دیکھے ہیں کہ اگر آدھے گھنٹے بعد کوئی پوسٹ نہ لگا لیں تو ان کو چین نہیں آتا۔ اب آپ خود اندازہ کریں کہ پوسٹیں پڑھنے پر وہ کتنا وقت صرف کرتے ہوں گے۔ ہم سوشل میڈیا پر اکثر ایسی ویڈیوز اور تصاویر مشاہدہ کرتے ہیں، جس میں ایک کمرے میں مختلف عمروں اور صنف کے پانچ چھے افراد تشریف فرما ہوتے ہیں اور تقریباً سب کے سب ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے بجائے موبائل، لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ کی سکرین میں گم ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے جہاں انسان کے قریبی رشتوں کو کمزور کیا ہے، وہیں اس نے انسان کے غیر مادی روابط میں اضافہ کر دیا ہے۔ وہ حضرات جو معاشرے سے تعامل کے زیادہ شوقین نہیں ہوتے، سوشل میڈیا پر ان کے ہزاروں دوست ہوتے ہیں۔ بہرحال سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس کو نہ ہی مکمل طور پر مثبت قرار دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر منفی۔
اعتدال کی راہ ہی مناسب راہ ہے۔ ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ پہلے سنتے تھے کہ بزرگ ٹیکنالوجی کی ایجادات سے زیادہ شغف نہیں رکھتے۔ ان کی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے، جس میں وہ گم رہتے ہیں، تاہم اب میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ بزرگ جوانوں سے زیادہ موبائل فون سے جڑ چکے ہیں۔ اپنی دلچسپی کے اعتبار سے ان کو موبائل کی دنیا میں ایسا بہت کچھ مل جاتا ہے کہ جو انھیں اس دنیا میں نہیں آنے دیتا، جس میں ان بزرگوں کے والدین رہا کرتے تھے۔ بیٹھکیں، ڈیرے، حقے، موڑھے، پیڑھے سب ویران ہوچکے ہیں، اب موبائل ہے، اس کی ٹوٹیاں (ہیڈفون) ہیں اور بابا جی۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد بزرگوار مجھے اکثر ڈانٹا کرتے تھے کہ ہر وقت کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں نہ گھسے رہا کرو، کوئی کتاب وغیرہ بھی دیکھ لیا کرو، وہ یہ تو نہ کہتے تھے کہ میرے پاس بیٹھا کرو، تاہم ان کا اصرار اس بات پر تھا کہ میں اس دنیا میں رہا کروں، جس میں وہ رہتے ہیں۔
وہ یہ بات کہتے کہتے دنیا سے چلے گئے، تاہم اب کیا دیکھتا ہوں کہ بزرگ خود سے موبائل اٹھائے گھروں میں گھوم رہے ہیں، وہ کسی کو کیا روکیں گے، خود ہی ان کو موبائل سے فرصت نہیں ہے۔ صبح نماز کے لیے بیدار ہوئے تو بلاناغہ تقریباً تمام عزیزوں اور دوستوں کو ’’السلام علیکم‘‘ کا ایک میسیج روانہ کیا۔ اگر کسی دن موڈ کچھ بہتر ہوا یا کوئی مناسبت ہوتی ہے تو اس میسیج کے ہمراہ ایک آدھی تصویر یا ویڈیو بھی بھیج دی۔ اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، کوئی کتاب بھیج رہا ہے، کوئی حدیث، کوئی شعر، کوئی عکس، غرضیکہ جو جس کے ہاتھ چڑھتا ہے، اپنے عزیزوں کے علم میں لانا ازحد ضروری سمجھتا ہے۔ اس سے صلہ رحمی بھی قائم رہتی ہے اور نیک پیغامات کی ترویج کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔
بات کہیں سے کہیں جا نکلی، مجھے یاد ہے کہ میرے والد بزرگوار صبح اٹھ کر اونچی آواز سے تلاوت کلام پاک کیا کرتے تھے، تلاوت کا یہ سلسلہ نماز کے بعد ایک آدھ گھنٹہ جاری رہتا تھا۔ والد محترم نے ہی بتایا کہ ان کے والدین تو سحری کے وقت بیدار ہوتے تھے اور تلاوت و تسبیح کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہتا تھا۔ اپنے تایا جان کے گھنٹوں مصلے پر بیٹھنے کا تو میں خود شاہد ہوں۔ حیرت بھی ہوتی تھی کہ یہ اتنی دیر بیٹھ کر کیا سوچتے رہتے ہیں، تاہم اب یہ مناظر بڑے بوڑھوں میں بھی ناپید ہوچکے ہیں۔ پھر وہی بات کہ ایسا بھی نہیں کہ ٹیکنالوجی نے ہمیں دین سے دور کر دیا ہے، میں کئی ایسے بزرگوں کی بھی جانتا ہوں، جو اب موبائل پر جب بھی فرصت ملے قرآن حکیم کی تلاوت کرتے یا سنتے ہیں۔
آج جبکہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں تو یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ معلومات کے اس سیلاب میں ایک نیا طوفان کھڑا کرنے کی تجھے کیا ضرورت ہے۔ کیا یہ تیرے اظہار کی خواہش ہے، جس کے سبب تو لکھ رہا ہے یا کوئی اور وجہ۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اظہار کی خواہش تو بہرحال ہے ہی، تاہم اصل وجہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس طوفان میں بہنے کے مناظر کا مشاہدہ کرکے انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اگر اس نے کلام نہ کیا تو لوگ جھوٹ کو سچ سمجھنے لگ جائیں گے، لہذا بولنا ضروری ہے۔ اگرچہ مثالیں تو بہت ہیں، تاہم ذہنوں کو قریب کرنے کے لیے میں فقط قضیہ یمن کی مثال دوں گا۔ سوائے معدودے چند کے دنیا بھر میں نشریاتی ادارے، ویب سائٹس، سوشل میڈیا چینلز حوثی کے ہمراہ باغی کا لفظ لازما استعمال کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ معلومات کی دنیا میں بہنے والے لوگ اکثر انجانے میں حوثی کے ہمراہ باغی کا لفظ ضرور استعمال کرتے ہیں، جیسے باغی حوثی کے نام کا حصہ ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے، جیسے عرب دنیا میں شیعہ کے ساتھ رافضی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
معلومات پر سرسری نگاہ کرنے والا فرد لفظ باغی یا رافضی پڑھ کر ہی ایک تاثر قائم کرتا ہے اور پھر معلومات کی سیلاب میں کہیں آگے بہ جاتا ہے۔ اب ایسے شخص کو جب بھی کہیں اظہار کا موقع ملتا ہے، خواہ تقریر ہو، تحریر ہو یا سوشل میڈیا پوسٹ، وہ اپنی اسی معلومات کا اظہار کرے گا، جو اس نے پڑھی ہے، یعنی باغی اور رافضی۔ جہالت اور کذب کا یہ اندھیرا پھیلتے پھیلتے ایک بڑی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ شام میں اسی اندھیرے کے خلاف بنت علی نے ہدایت کے چراغ روشن کیے تھے۔ شام کا حاکم پہلے مرحلے میں اس بات میں کامیاب ہوا تھا کہ حسین ؑکو باغی قرار دے اور ان کے اہل خانہ کو باغی کے اہل خانہ کی حیثیت سے شام میں لائے۔ وہ سمجھا تھا کہ مجبور خواتین کو شام لایا جا رہا ہے، جو میرے پراپیگنڈہ کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ عوام ان کو باغی ہی سمجھیں گے اور ان کی حقیقت کو جانے بغیر ان سے نفرت جاری رکھیں گے، لیکن اس اندھیروں کے تاجر کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا سامنا روشنی اور ہدایت کے چراغوں سے ہے۔
اس کی تمام چالاکیاں خود اس کی جانب پلٹ جائیں گی۔ یزید کو اہل بیت (ع) کو شام لانے کی غلطی کا احساس اس وقت ہوا، جب علی کی علی بیٹی نے دربار شام میں یزید کو للکارا اور اسے اس کی حیثیت اور اپنی شان یاد دلائی۔ جب اہل شام کے سامنے باغی کے فرزند نے خطاب شروع کیا تو یزید کی بے چینی اور پریشانی نے پراپیگنڈہ کی تاریک رات کو روشن دن میں بدل دیا، جس میں یزید شپرے کی مانند دیواروں سے سر ٹکراتا تھا۔ پس ضروری ہے کہ حقائق کو عیاں کرنے کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے، جس کی بنیادیں فرزند حسین اور بنت علی نے مستحکم کی ہیں۔ یہی آپ کی سمع خراشی کی غرض و غایت ہے۔ اللہ ہمارے تمام لکھاریوں، اہل قلم، اہل سخن کو آج کے تاریک اور گھٹن زدہ ماحول میں حق کے چراغ روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: