مغربی طرز کے تعلیمی ادارے معاشرے کیلئے زہر قاتل

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

تحریک انصاف کے قائد اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کا پہلے روز سے نظریہ تھا کہ پاکستان مختلف طبقات کے مابین تقسیم ایک ریاست ہے، جس میں قوم کا مشترکہ ہدف اور لائحہ عمل نہیں ہے۔ وہ اپنی تقاریر میں اکثر کہا کرتے ہیں کہ ایسی ریاست کبھی قائم نہیں رہ سکتی، جہاں امیر اور غریب کے لیے الگ الگ قوانین ہوں۔ وہ ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ ہمیں اس پاکستان کو ایک پاکستان بنانا ہے، جہاں ایک قوم بستی ہو۔ اس عنوان سے وزیراعظم عمران خان نے مشکل کاموں کو اپنے ذمے لیا ہے، جن میں ایک قانون و انصاف کا یکساں اطلاق اور دوسرا یکساں نصاب تعلیم ہیں۔

عمران خان اپنی بھرپور کوشش کے باوجود انصاف کے یکساں اطلاق میں تاحال خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر پائے، تاہم فرق ضرور پڑا ہے۔ آج ادارے بہرحال کسی نہ کسی مقام پر جوابدہ ہیں۔ عمران خان اکثر یہ گلہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں کہ ملک میں کرپشن اور ناانصافی تب تک رواج نہیں پا سکتی، جب تک ادارے تباہ نہ کیے جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بگاڑ لانے میں کم وقت لگتا ہے، تاہم اس کا سدھار وقت کا متقاضی ہے۔ عمران خان کی حکومت کو آتے ہی مختلف چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جس میں معیشت کا مسئلہ سب سے اہم تھا۔ کرونا کی وبا نے صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا۔ اقتصادی اور معاشی اعداد و شمار تو وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہونے لگے، تاہم ملک میں مہنگائی بدستور اپنے عروج پر ہے۔ مسائل کے اس انبار کو سنبھالنا واقعی ایک مشکل کام ہے، تاہم عمران خان جس عزم و ہمت سے مصروف عمل ہیں، اللہ تعالی یقیناً ان کو کامیابی و کامرانی نصیب فرمائے گا۔

عمران کا یہ نظریہ ہے کہ ملک میں مختلف نصاب ہائے تعلیم کی موجودگی میں یک جہت معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ہے، اسی لیے انھوں نے یکساں نصاب تعلیم کی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اس مقصد کے لیے اب تک وزارت تعلیم کے زیر اہتمام متعدد کانفرنسیں، نشستیں اور سیمینارز منعقد ہوچکے ہیں۔ وزارت کی ویب سائٹ کے مطابق یکساں نصاب تعلیم کا مقصد قرآن و سنت کی تعلیم کو فروغ دینے کے علاوہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے افکار سمیت طلباء میں رٹے رٹائے علوم کے بجائے تنقیدی و تخلیقی سوچ پیدا کرنا ہے۔ کافی غور و خوض اور محنت کے بعد ملک کے تعلیمی اداروں میں تین مراحل میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کیا جا چکا ہے۔ اس سلسلے میں بعض طبقات کے تحفظات بھی ہیں، خصوصاً مذہبی طبقات نے دینی نصاب کے حوالے سے اپنے اعتراضات پیش کیے ہیں، جو پاکستانی معاشرے میں ہونا اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ میں اسے پہلی کوشش سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دینی نصاب کے حوالے سے بھی مختلف طبقات کے تحفظات ختم ہوتے جائیں گے۔

یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج غیر ملکی فنڈنگ نیز مغربی فلسفے پر قائم ادارے ہیں، جہاں پاکستانی اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد تعلیم حاصل کرکے ملک کے اہم عہدوں پر فائز ہوتی ہے۔ انہی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد افواج پاکستان کا حصہ بھی بن رہے ہیں، جو میرے خیال میں ایک تشویشناک امر ہے۔ اطلاعات کے مطابق یکساں نصاب کے عنوان سے بیکن ہاوس سکول سسٹم کے پرنسپل مائیکل تھامس نے حکومتی فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ وہی سکول سسٹم ہے، جو ملک میں مغربی کلچر کے فروغ میں پیش پیش ہے، سوشل میڈیا پر اس سکول کے طلباء و طالبات کے مخلوط ڈانس کی تصاویر موجود ہیں۔ اس سکول میں پڑھایا جانے والے نصاب پر بھی اکثر و بیشتر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ سوشل سٹڈیز کے کورس میں ایسے نقشے موجود ہیں، جس میں مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا۔

یہ بھی خبریں ہیں کہ 1996ء میں ان سکولوں میں ورلڈ بینک کے ذیلی ادارے “انٹرنیشنل فائنانس گروپ” نے براہ راست کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کی۔ ایک اندازے کے مطابق بیکن ہاؤس ماہانہ 5 تا 6 ارب اور سالانہ 60 تا 70 ارب روپیہ پاکستانیوں سے نچوڑتا ہے۔ پاکستان کے تیس شہروں میں اس سکول کی 146برانچیں قائم ہیں۔ یہ سکول ہر سال مغربی ثقافت اور مادر پدر آزاد لبرل سوچ کے حامل کم از کم 4 لاکھ طلبہ پاکستانی معاشرے میں داخل کر رہا ہے، جن میں پاکستان کے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے سرکاری اداروں کے بڑے بڑے بیوروکریٹ، صحافی، سیاستدان، بزنس مین اور وڈیرے شامل ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں سرائیت کرنے والے ان طلباء کی اکثریت تقریباً لادین ہے۔ وہ ان تمام نظریات اور افکار کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں، جن پر نہ صرف ہمارا معاشرہ کھڑا ہے بلکہ جن کی بنیاد پر پاکستان بنایا گیا تھا۔ حد یہ ہے کہ ان طلباء کی اکثریت کو اردو سے بھی تقریباً نابلد رکھا جاتا ہے۔ ساہیوال بوائز کیمپس پالیسی لیٹر میں پنجابی زبان کو ’’فاول لینگوئج ‘‘ کے زمرے میں ڈالا گیا ہے، جو سکول میں نہیں بولی جاسکتی۔

اسی تعلیمی نظام کی پیداوار ایاز نظامی نامی سوشل میڈیا بلاگر اور پاکستان میں دہریہ الائنس کا نائب صدر، جسے اسلام کی توہین کے جرم میں2017ء میں گرفتار کیا گیا، کہتا ہے کہ ’’ہم نے تمھارے کالجوں اور یونیوسٹیوں میں اپنے سلیپرز سیلز (پروفیسرز اور لیکچررز) گھسا دیئے ہیں۔ جو تمھاری نئی نسل کے ان تمام نظریات کو تباہ و برباد کر دینگے، جن پر تم لوگوں کا وجود کھڑا ہے۔ انھیں پاکستان کی نسبت پاکستان کے دشمن زیادہ سچے لگیں گے۔ وہ جرات اظہار اور روشن خیالی کے زعم میں تمہاری پوری تاریخ رد کر دینگے۔ انہیں انڈیا فاتح اور تم مفتوح لگو گے۔ انھیں تمہارے دشمن ہیرو اور خود تم ولن نظر آؤگے۔ انہیں نظریہ پاکستان خرافات لگے گا۔ اسلامی نظام ایک دقیانوسی نعرہ لگے گا اور وہ تمہارے بزرگوں کو احمق جانیں گے۔ وہ تمہارے رسول ؐپر بھی بدگمان ہو جائینگے، حتی کہ تمہارے خدا پر بھی شک کرنے لگیں گے۔‘‘

یہ ایک تشویشناک اظہار ہے، جس کا اندازہ شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اور معاشرے میں رہنے والے لوگوں کو عرصہ دارز سے ہے، گذشتہ ادوار میں اس عفریت کی جانب کم ہی توجہ دی گئی، تاہم عمران خان کی موجودہ کوششوں کے تناظر میں ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس اہم مسئلہ کی جانب بھی ضرور توجہ کریں گے۔ اگر وہ واقعی ملک سے اشرافیہ اور دیگر پاکستانی کی تقسیم کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انھیں ان مغربی فرنچائزوں کو نکیل ڈالنی ہوگی، جو ہمارے معاشرے میں فکری زہر گھول رہے ہیں۔ معاشرے میں پھیلی لادینیت، دہریت، مادر پدر آزاد لبرلزم، غریب و امیر کا فرق کی ایک جڑ یہی ادارے اور ان میں پڑھایا جانے والا تعلیمی نصاب ہے، جو برطانوی سامراج نے برصغیر پر حکومت کے لیے تشکیل دیا تھا۔ آزاد پاکستان کو اس مغرب زدہ تعلیمی نظام سے بھی آزادی حاصل کرنا ہوگی، جو ہماری نوجوان نسل کو اغوا کرکے ان کو کالے یا بھورے انگریز بناتا ہے۔ ان کو اپنی ثقافت، تاریخ اور رسوم و رواج کا باغی بنا کر دہریت کی دلدل میں جھونک دیتا ہے۔ یہ نظام ملک میں وہ اشرافیہ تشکیل دیتا ہے، جو انگریزوں کی غلامی کو اپنے لیے افتخار سمجھتی ہے۔ یہی دراصل استعمار کے وہ سلیپر سیل ہیں، جس کے ذریعے وہ تیسری دنیا کے ممالک پر حکمرانی کر رہا ہے۔ جس ملک نے بھی ان سلیپر سیلز سے چھٹکارا حاصل کیا، کامیابی اس قوم کا مقدر ٹھہری۔