کشمیر کے ناگفتہ حقائق

Published by fawad on

خواجہ شجاع عباس وادی کشمیر اوراس سے متصل مسلمان اکثریتی اضلاع میں مسلمانوں کے بھرپور اور بے مثال احتجاج نے بالآخر امرناتھ یاترا کے لئے ہندو شرائین بورڈ کو مقبوضہ ریاست کی کٹھ پتلی انتظامیہ کی طرف سے زمیں کی منتقلی کو منسوخ کرنے کے لئے مجبور کردیا۔ اس واقعہ کے ردِ عمل میں شہر جموں اوراس کے ارد گرد کے ہندواکثریتی علاقے کے ڈوگروں نے تحریک شروع کی۔ ڈوگروں نے جموں سے گزرنے والی اورہندوستان کو وادی کشمیر سے ملانے والی واحد شاہراہ بھی بلاک کی۔بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے والا سامان لے جانے والے ٹرکوں کونذر آتش کیا گیا۔اس طرح وادی کشمیر کا مکمل معاشی مقاطعہ کرنے کا آغاز ہوا۔ ڈوگروں کے اس شرانگیز اقدام نے وادی کشمیر اور متصل مسلمان اکثریتی اضلاع کے عوام کو برانگیخت کیا اورانھوں نے تحریک آزادی کے نئے تاریخ ساز دور کا سلسلہ شروع کردیا۔ سری نگر راولپنڈی شاہراہ کو کھولنے کے لیے لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سری نگر سے راولپنڈی کی طرف چل پڑا۔ لاکھوں لوگوں پر مشتمل اس کاروانِ آزادی کی قیادت بزرگ حریت پسند رہنما جناب شیخ عبدالعزیز کررہے تھے۔ بھارتی سیکورٹی اہلکاروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے بہت سے لوگوں کوشہید کردیا۔ ان شہید ہونے والوں میں شیخ عبدالعزیز بھی شامل تھے۔ اس کے بعدوقفے وقفے سے مختلف دنوں میں تین ایسے اجتماعات ہوئے جن میں شرکاء کی تعداد کم وبیش ایک ملین ہوتی تھی۔ اجتماعات میں لوگ سبز ہلالی پرچم اٹھائے آزادی کے لئے اپنے ارمانوں کا اظہار کرنے والے فلک شگاف نعرے بلند کررہے تھے۔ جیوے جیوے پاکستان، پاکستان زندہ باد،ہم کیا چاہتے ہیں آزادی، بھارت تیری موت آئی، ہماری منڈی راولپنڈی جیسے بلند بانگ نعروں سے کشمیر کی فضائیں گونج رہی تھیں۔ لبوں سے نکل کر فضائوں میں گشت کرنے والے نعرے لوگوں کے دلوں کا حال بیان کرنے کے لئے کافی ہیں۔ مسلمانان ریاست ان نعروں کے ذریعے اعلان کررہے تھے کہ ان کو آزادی کشمیر کی تاریخی بنیادوں کا بھرپور شعور ہے اورجدوجہد کی نظریاتی اساسوں سے ان کی قلبی وابستگی لازوال اوردائمی ہے ۔ وہ یہ بھی بتا رہے تھے کہ ہماری سیاسی آرزوئوں کا منتہاکل بھی مملکت خداداد پاکستان رہا ہے اورآج بھی ہے اورآئندہ بھی رہے گا۔ کشمیر کے مسلمانوں کی ایمان افروز استقامت اوران روح پرور اداؤں کوخراج تحسین پیش کرنے کے لئے سطور ذیل میںمسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کے بارے میں ان بنیادی حقائق کو پیش کروں گا جن کو بعض مکروہ عزائم کی تکمیل کے لئے دانستہ طورپر بعض حلقوں کی طرف سے چھپایا اور مسخ کیا جاتاہے : 1۔ ریاست جموں وکشمیر اورکشمیر دراصل دومختلف حقیقتیں ہیں۔ بعض اوقات مجازی طور پر لفظِ کشمیر ریاست جموںوکشمیر کے لئے اختصار اًستعمال کیا جاتا ہے۔جیسے سویت یونین کے لئے روس کا لفظ بھی استعمال ہوتا تھا۔ علمی لحاظ سے اورسنجیدہ مکالمہ میں یہ بات نادرست ہے۔کشمیر سے مراد حقیقت میں صرف وادی کشمیر ہے جس کی لمبائی تقریباً سو میل اورچوڑائی تیس میل ہے۔ یہی وہ خطہ ہے جواپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا بھرمیں مشہور ہے اوربہشتِ ارضی کہلاتا ہے۔ یہاں کے لوگ کشمیری زبان بولتے ہیں اور کشمیری کہلاتے ہیں۔ آج کل یہاں کی آبادی 100فیصد مسلمان ہے۔کشمیر کے شمال میں گلگت، مغرب میں کوہستان پونچھ، مشرق میں بلتستان اورجنوب میں کوہستان کشتواڑواقع ہیں۔دریائے جہلم اس وادی کے بیچوں بیچ سے گزرتا ہے اس لئے وادی کشمیر کو جہلم کی وادی بھی کہتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر جن پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے ان میں پہاڑی اورگجری زبان بولنے والی برادریاں بھی رہتی ہیں۔ یہ برادریاں بھی 100فیصد مسلمان ہیں۔سرینگر،سوپور، اسلام آباد،بارہ مولا ،بڈگام وغیرہ کشمیر کے مشہورشہر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کیا امام خمینی کشمیری تھے؟ https://albasirah.com/urdu/imam-khomeini-was-kashmiri/

اس کے برعکس جموںوکشمیر سے مراد وہ ریاست ہے جو ہندو ڈگرہ مہاراجوں کی عملداری میں رہنے کے لئے انگریزوں کی سرپرستی میں تشکیل پائی ۔پنجاب کی فتح کے بعد انگریزوں نے ریاست پرانتظامی سہولت اورمخصوص سیاسی مفادات کے لئے ہندو ڈوگرہ شاہی کے ذریعے بالواسطہ طور پر حکومت کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ اس طرح کی اوربہت ساری نوابی ریاستوں کو (Princely Indian States) کہا جاتا تھا۔ جن علاقوں پر انگریز بلاواسطہ حکومت کرتے تھے ان کوبرطانوی ہندوستانی صوبوں(British Indian Provinces )میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ڈوگرہ ریاست میں کشمیر کے علاوہ اوربھی پانچ علاقے شامل تھے۔

(i) شمال میں گلگت کا علاقہ تھا۔ بلندوبالا پہاڑوں اورچھوٹی چھوٹی وادیوں پر مشتمل اس علاقے کی اکثریت شینا زباں بولتی ہے۔ بعض وادیوں میں دیگر مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اس علاقے کے مشہور شہروں اورقصبوں میں گلگت ، استور، چلاس، نگر، ہنزہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔یہاں کی سو فیصد آبادی مسلمان ہے۔ اس علاقے کے لوگوں نے1947 ء میں ڈوگروں اوربھارتی فوجوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کے بعد نوزائدہ مملکت پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ (ii) سابقہ ریاست کا رقبے کے لحاظ سے سب سے وسیع علاقہ بلتستان ولداخ ہے ،بلتستان کے لوگوں نے بھی 1947ء میں اپنے سارے علاقوں کوآزاد کرا لیا اور پاکستان میں شامل ہوگئے۔ بعد میں بھارتی فوجوں نے بلتستان کے جنوبی علاقے یعنی کرگل پر پھر سے قبضہ کرلیا ۔کرگل ہنوز بھارت کے قبضے میں ہے ۔بلتستان کی بھی سو فیصد آبادی مسلمان اورزبان بلتی ہے۔بلتستان کا مرکزی شہر اسکردوہے۔ بلتستان کے مزید مشرق میں ضلع لداخ واقع ہے۔ اس ضلع کا صدر مقام شہر لیہہ س ہے۔ اس ضلع کی اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے اورمقبوضہ جموں کشمیر سے کٹ کے بھارت کے ساتھ ضم ہونے کے پرجوش حامی ہیں۔ (iii) کوہستان پونچھ میں سابقہ ریاست پونچھ اوراس سے ملحق مسلمان اکثریتی علاقے شامل ہیں۔ 1947ء میںاس علاقے سے ڈوگرہ مہاراجہ اور بھارتی فوجوں کے خلاف مسلح مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ یہ سارا علاقہ شہر پونچھ کے سوا مقامی مسلمانوں نے زورِ بازو سے آزاد کرایا تھا۔ بعد میں بھارت راجوری اورضلع پونچھ پر پھر سے قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ باقی علاقے آزاد کشمیر میں شامل ہیں۔ اس علاقے کی زبان ہندکو ہے جو پنجابی کا ایک لہجہ ہے۔ اس علاقے کے مشہورشہر اور قصبے باغ، راولا کوٹ، پونچھ ، راجوری، کوٹلی، میرپور وغیرہ ہیں۔ اس علاقہ کے مشرق میں کشمیرہے۔ مغرب میں دریائے جہلم اسے پنجاب سے الگ کرتا ہے۔ اس علاقے کا بڑا حصہ 1940ء تک جموںو کشمیر سے الگ ریاست پونچھ میں شامل تھا۔ اس علاقے کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 95فیصد سے زیادہ ہے۔ (iv) کوہستان کشتواڑکا پہاڑی خطہ تاریخی،تہذیبی،مذہبی ، سیاسی اورجغرافیائی طور پر دراصل وادی کشمیر کا عقبی علاقہ (Backyard) ہے۔ یہ وادی کشمیر کے جنوب میں واقع ہے۔ اس علاقے کی عظیم اکثریت مسلمانوں پرمشتمل ہے اوریہاں کے مشہور شہریا قصبے کشتواڑ، دوڑہ، بدرواہ وغیرہ ہیں۔ یہاں پر کشمیری، پہاڑی، کشتواڑی اوربدرواہی زبانیں بولی جاتی ہے۔ (v) جموں کا ڈوگرہ دیش بھی سابقہ ریاست جموں وکشمیر کا ایک اہم علاقہ تھا۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکور بالا تمام علاقوں میں مقامی زبانوں کے علاوہ اردو بھی عام بول چال اور علمی زبان کے طور پر سیکھی اوربولی جاتی ہے۔ مسلمان اس کو اپنی ملی شناخت کی زبان مانتے ہیں۔ اس وقت اردو مقبوضہ کشمیر ،آزاد کشمیر اورشمالی علاقہ جات میں سرکاری زبان کے طور پر بھی رائج ہے۔

2۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عام طور پر تقسیم کشمیر کی باتیں سننے میں آتی ہیں۔ یہ بحث کلی طور پرفضول اور لایعنی ہے۔ تقسیم کشمیر کا سوال تب کھڑا ہوگا جب کہیں سے وادی کشمیر کو تقسیم کرنے کی بات ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسی بات کا دور دور تک حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اورنہ آئندہ اس کا کوئی امکان نظرآتا ہے۔ اگر تقسیم کشمیر سے مراد سابقہ ریاست جموں وکشمیر کی تقسیم ہے تو یہ بات بھی لغو ہے۔ عملاً ڈوگر ریاست جموں وکشمیر کا کب کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ مسلمانوں کے لئے ڈوگرہ ریاست جموں وکشمیر کا احیا ایمانی تقاضوں اوران کے سیاسی نظریات ومقاصد کے خلاف ہے۔ اس ریاست کا قیام عملاً بھی مسلمانوں کے لئے منحوس عمل تھا اوروہ ہمیشہ ایسا ہی سمجھتے رہے ہیں۔اگر ان علاقوں کوانگریزبرطانوی ہندوستانی صوبوں(British Indian Province)کی طرح رکھتے تو اس صورت میںنہ تو ریاست کی غالب مسلم اکثریت کو بدترین ڈوگرہ مظالم دیکھنے پڑتے اور نہ بھارت ان پر 1947 ء میں قبضہ کر پاتا کیونکہ یہاں کے لوگوںکو بھی دیگر مسلم اکثریتی صوبوں کی طرح پاکستان میں شامل ہونے کے لئے حق خود ارادیت مل جاتا۔

سابقہ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں کے لئے اس ریاست کا صد سالہ دورانیہ اندوہ ناک اورتلخ ماضی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ کی صرف الف با جاننے والے لوگ بھی جانتے ہوں گے کہ سابقہ ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان ہمیشہ آرزو کرتے تھے کہ کاش ان کو ڈوگرہ محکومی سے نجات مل جائے اورانھیں برطانوی ہندوستان میں شامل کیا جائے۔ کئی بار ریاست جموں وکشمیر کے مسلمان اکابرین نے ڈوگر مظالم سے نجات کی خاطر اپنی فریاد دہلی میں انگریز حکمرانوں کے سامنے پیش کی۔ ریاست پونچھ کے لوگ ہری سنگھ کے اس عمل کو منسوخ کرانے کے لئے ہاتھ پیر مارتے رہے ،جس سے اُس نے اس ریاست کو ہڑپ کرکے جموں وکشمیر میںضم کیا تھا۔ انگریزوں نے دوسری عالمگیر جنگ کے پیش نظر اس مسئلہ کو التوا میں ڈال دیا تھا۔ اگر انگریز برصغیر کو چھوڑنے کا ارادہ نہ کر چکے ہوتے تو اس وقت کے قانون اورروایات کے مطابق ریاست پونچھ کا پھر سے قائم ہونا قطعی اوریقینی تھا۔ برصغیر کی آزادی کی منزل قریب آئی تو سیاسی منظر نامہ بالکل بدل گیا تھا۔اب برصغیرمیں سیاسی اجتماعیت(Poltical formations) کی بنیاد مذہب قرار پا چکی تھی اور اکثریتی اصول پر جنوبی ایشیاء دو ملکوں میں تقسیم ہونے جارہا تھا۔ تقسیم کے اصول میں اتنی جاذبیت، پختگی اورگہرائی پائی جاتی تھی کہ برطانوی ہندوستان کے سب سے بڑے دو صوبے پنجاب اوربنگال لسانی، انتظامی اور جغرافیائی لحاظ سے یکساں ہونے کے باوجود دو دوحصوں میں بٹ رہے تھے۔ نئے حالات کے مطابق دیگرمسلمانوں کی طرح مسلمانانِ پونچھ کی ترجیحات بھی بدل چکی تھیں۔اس لئے اس موقع پر مسلمانان پونچھ نے نہ صرف ریاست پونچھ کومملکت خداداد پاکستان میں شامل کرنے کے لئے جہاد کا آغاز کیا بلکہ انھوں نے ساری مسلمان اکثریتی ریاست جموںوکشمیر کوپاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کا ہر اول دستہ بن کر سر دھڑ کی بازی لگائی۔ پونچھ کے غیور اور با ایمان مسلمانوںکی کوشش اورجہاد کا ہی ثمر ہے کہ آزاد کشمیر بھارت کے قبضے میں جانے سے بچ گیا۔

گلگت اوربلتستان کے لوگ اور مقامی راجے بھی ہمیشہ ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت کو غیرملکی ہندوئوں کی غلامی سمجھتے تھے۔وہ ہمیشہ اس غلامی سے نجات کے لئے پرتولتے رہتے تھے۔ تاریخ میں یہ بات ثبت ہے کہ جوں ہی ان کو 1947ء میں حالات قدرے موافقِ نظر آئے تو انھوںنے فوراً غلامی کا طوق گردن سے اتار پھینکا اورمملکت خداداد پاکستان سے بغلگیر ہوگئے۔ گلگت اور بلتستان کے مسلمانوں کی طرح کشمیر کے مسلمان بھی ڈوگرہ شاہی کو غیر ملکی ہندوئوں کی غلامی سے تعبیر کرتے تھے۔ اس کی بہترین مثال شیخ عبداللہ کی(Quita Kashmir )کشمیر چھوڑ دو تحریک ہے۔ ریاست پونچھ اوراس کے ملحقہ علاقوں،گلگت، بلتستان اورکوہستان کیشتواڑ کی طرح کشمیر کے مسلمان ہمیشہ اس ڈوگرہ ریاست کے منحوس وجود کی نابودی اورخاتمہ کی آرزئوں اورامنگوں کو دل میں بسائے رہے۔

یہ بات اہم ہے کہ سابقہ ریاست جموں وکشمیر تنازع کے حل کے عمل میں صرف ایک حوالہ ہے۔اس لیے اس کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا۔مسلمانوں یا پاکستان کواس لئے بھی پوری ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کو حل طلب قراردینے پر اصرار تھا کیونکہ وہ ساری ریاست کو مسلمانوں کا حق سمجھتے ہوئے پورے طورپرپاکستان میں شامل کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ ڈوگرہ ریاست کے احیا اور اس کی وحدت کی باتیں کرنے والے لوگ یا تو بے خبر ہیں اور آزادی کشمیر کی جدوجہدکے ظاہروباطن اور حقیقی روح کودراصل جانتے ہی نہیں۔ یا تووہ شر پسند طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دانستہ طور پر اس طرح کا نعرہ بلند کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی کو نظریاتی طور پر بانجھ بنانے، تاریخی لحاظ سے کھوکھلا کرنے اور سیاسی طور پر اس کو ناقابل حل انتشار و افتراق میں بدلنے کی کوشش نامسعود میں سرگرمی سے مصروف عمل ہے۔ بھارت کا بباطن ہمدرد اورگاندھی کے مریدوں کا یہ ٹولہ تحریک آزادی کے صفوں میںگھسا ہوا ہے اوراسے بھارت اور مغربی دنیا کی سرپرستی اوربھرپور مددو حمایت حاصل ہے۔ ان ساری باتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سابقہ ریاست جموں وکشمیر کی وحدت کا مسلمانوں کی نظرمیں کوئی تقدس ہوسکتا ہے اور نہ اس ریاست کو از سر نو قائم کرنے میں کوئی کشش ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی ریاست ومملکت مسلمانانِ مقبوضہ جموں وکشمیر کی نظر میں مقدس ہے اور1947ء سے ڈوگروں اوربھارت سے آزادی کے لئے جاری سرگرمیاں اسی نظریاتی مملکت کے ساتھ سیاسی طور پر ملحق ہونے کے لئے ہیں جس کے ساتھ اسلام کے لازوال تعلق کے علاوہ ریاست جموںوکشمیر کے سارے علاقے جغرافیائی، تاریخی ،تہذیبی اورجذباتی لحاظ سے قدرتی طورپر خود بخود ہی روزِ اول سے ملحق ہیں۔

حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ اقبال فرمایا کرتے تھے کہ برصغیر کے شمال مغربی علاقوں پر مشتمل پٹی میں مسلمانوں کو خدائے حکیم خبیروعلیم نے خاص مصلحت کے لئے عددی طورپر غلبہ عنایت کیاہے تاکہ یہ علاقہ اسلامی تہذیب کا عظیم گہوارہ بننے کے لئے مسلمانوں کی الگ اورآزاد مملکت میں ڈھل جائے ۔ دریائے سندھ اوراس کے معاون دریائوں کی یہ اسلامی سرزمین کوہِ قراقرم سے لے کر ساحلِ کراچی تک پھیلی ہوئی ہے اورسابقہ ریاست جموں وکشمیراس کا جزو لاینفک ہے۔

3۔ جموں کی حدود اربع: جموں دراصل ایک شہر کا نام ہے۔ یہ شہر ریاست جموں وکشمیر میں شامل ڈوگرہ دیس کے وسط میں واقع اس علاقے کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس شہر کی نسبت سے ڈوگرہ دیس کو جموں کہا جاتا ہے۔ انگریزوں نے سکھوں سے غداری کرنے والے اس علاقے کے ایک ہندو ڈوگرہ گلاب سنگھ کوبعض شرائط پر مہاراجہ مقرر کرکے ریاست جموں وکشمیر کی تشکیل اورحکمرانی پرمامورکیا تھا۔ ڈوگروں کا سکونتی علاقہ دریائے چناب کے جنوب میں واقع ریاست کے ان علاقوںکا دو تہائی مغربی حصہ ہے ۔انتہائی گنجان آبادی والایہ علاقہ مقبوضہ جموں وکشمیر کا جنوب مغربی کونہ ہے۔ اس علاقے کے مغرب اورجنوب مغرب کی طرف پاکستان کا خطہ سیالکوٹ اورجنوب مشرق میں پاکستان سے سازش اورخیانت کی بنیاد پر چھینا گیا ضلع گورداسپور کی تحصیل پٹھانکوٹ واقع ہے۔ مشرق میں نالہ بدرواہ کے بائیں بازو پرواقع سلسلہ کوہ کی بلندیاں ڈوگرہ دیس کومسلم اکثریتی خطہ سے الگ کرتی ہیں۔ انہی بلندیوں پر مشہور سیاحتی مقام بٹ وٹ واقع ہے۔ دوسرے لفظوں میں ڈوگرہ دیس یا جموں موجودہ اڈھائی اضلاع پر مشتمل ہے۔ یعنی ضلع کٹھوعہ، ضلع جموں اورآدھا ضلع ادھمپور۔ بھارت نے 1947ء کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کو انتظامی طور پر تین ڈویژنوں میں تقسیم کر رکھا ہے ۔ (۱) لداخ ڈویژن، اس میں بلتستان کے جنوبی حصے یعنی کرگل کو بھی شامل کیا گیا ہے جوکہ وادی کشمیر سے ملحق ہے۔ (۲) کشمیرڈویژن، اس میں وادی کشمیر شامل ہے۔ (۳) جموں ڈویژن۔ اس میں ڈوگرہ دیس یا جموں کے ساتھ ساتھ بھارت کے زیر تسلط کوہستان پونچھ کے مسلمان اضلاع اورکوہستان کشتواڑ بھی ایک گہری سازش کے تحت رکھے گئے ہیں تاکہ ہندوئوں کے تسلط اوراستحصال کے لئے ان وسیع وعریض علاقوں میں آسان مواقع میسر رہیں۔ یہ دونوں علاقے کشمیر سے ملحق بھی ہیں اور قریب تر بھی ۔ اس لئے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ حقیقی جموں دراصل ڈوگرہ دیس کے اڑھائی اضلاع تک محدودہے اورجموں ڈویژن میں ان دو وسیع وعریض مسلمان اکثریتی علاقوں کوجبراً انتظامی طورپررکھا گیا ہے جن کادراصل جموں کے ساتھ کسی طرح کا ربط اورتعلق نہیں ہے۔ ان علاقوں کی اپنی الگ شناخت ہے۔پونچھ اور راجوری جغرافیائی اورتہذیبی طور پرآزاد کشمیر کا حصہ ہیں۔ جبکہ کوہستان کشتواڑ کشمیر کا عقبی علاقہ ہے۔ مقبوضہ ریاست میں ان علاقوں کا تعلق کشمیر سے مسلمان اکثریتی علاقہ ہونے کے علاوہ جغرافیائی قرب کے لحاظ سے بھی بہت ہی نزدیک کا ہے جبکہ جموں کے ساتھ ان کا کوئی بھی رشتہ نہیں بنتا۔

یہ بات بھی قابل ذکرہے کہ خاص ڈوگرہ علاقوں میں بھی 1947ء سے پہلے آبادی کے لحاظ سے مسلمانوں اورہندوئوں میں بڑا توازن پایا جاتا تھا۔ شہر جموں میں مسلمان آبادی کا تناسب 40% سے زیادہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پنجاب کی طرح بے شمار مسلمانوں کو یا تو موت کی گھاٹ اتار دیاگیا یا پھر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پرمجبور کردیا گیا۔ اب جموں کے ڈوگرہ علاقوں میں مسلمانوںکی تعداد نہایت ہی قلیل ہے۔

4۔ تحریک آزادی کشمیر کی جعلی قیادت: یہ بات جاننا نہایت ضروری ہے کہ ایک آدھ قابل احترام مستثنیٰ کو چھوڑ کر ساری قیادت بے ضمیر،بکائو اور جعلی ہے۔ یہ ان لوگوں کی طرح ہے جنھوںنے تحریک پاکستان کو کامیاب ہوتا دیکھ کر حصول مفادات کے لئے اس تحریک کا ساتھ دینا شروع کردیا تھا۔ اگر پاکستان نہ بنتا تو یہی لوگ سب سے پہلے جا کرکانگریس کے قدموں میں گر پڑتے اورکانگریس کی مسلم دشمن پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے چابکدستی سے کام کرتے۔ پاکستان کے عوام اگر نہیں بھی جانتے مگر مسلمانانِ مقبوضہ جموں وکشمیر انھیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ تحریک آزادی کشمیر کے سنجیدہ اورمخلص کارکن ان سے ان کی منافقت کی وجہ سے بے انتہا نفرت کرتے ہیں۔جنرل مشرف نے مقبوضہ کشمیر کی بھی ایک ق لیگ بنائی تھی۔ یوںان لوگوں کو کشمیر کے حقیقی قائدین کے طور پرمتعارف کروانا شروع کیا جانے لگا۔ یہ لوگ کسی بھی نظریاتی دھارے سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کا کام ہی چڑھتے سورج کی پوجا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 1947ء سے چلنے والی تحریک آزادی میں ایک مدت سے ابھار آیا ہوا ہے۔ اس لئے یہ لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے کود پڑے ہیں۔ جوں ہی عوامی تحریک میں ذراسا ٹھہرائو آتا ہے یہ بھارت کے ساتھ کھلے عام پینگیں بڑھانا شروع کردیتے ہیں اور غیورعوام میں بددلی پھیلانے کے لئے شرانگیز باتیں کرنا شروع کرتے ہیں۔ ان ہی بے ضمیراورخود فروش لیڈرنما لوگوں نے جنرل مشرف کی تحریک آزادی کشمیر کا گلا گھونٹنے والی بھارت نواز پالیسی کی بھرپور حمایت کی تھی۔ان میں اور بھارت کے گھسے پٹے مہروں فاروق عبداللہ، مفتی سعید ،افتخار انصاری وغیرہ میں حقیقت میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔

5۔ پاکستان نے کشمیر کے لئے کوئی جنگ نہیں لڑی۔ پاکستان میں عوام کو یہ بات باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لئے مسلح مزاحمت یا جنگ کوئی آپشن نہیں رہا کیونکہ یہ آپشن ناکام ہوچکا ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے ۔جہاں تک جنگ کی بات ہے تو یہ بات ثابت ہے کہ پاکستان نے کشمیر کی آزادی کے لئے ڈھنگ سے کوئی جنگ آج تک نہیں لڑی۔ 65ء میں اور99ء میں کرگل میں پاکستانی فوج کے مہم جوئوں نے صحیح منصوبہ بندی کے بغیر ہی نیم دلی کے ساتھ مہم جوئی کی اور حشر وہی ہوا جواس طرح کی مہم جویوں کا ہونا چاہیے تھا۔ جہاں تک عوامی مسلح مزاحمت کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سابقہ ریاست جموں وکشمیر کے جتنے بھی علاقے آزاد ہوئے (آزاد جموں وکشمیر،گلگت اور بلتستان) وہ عوامی مسلح مزاحمت کا ہی ثمر ہے۔ 1990 ء میں شروع ہونے والی مزاحمت بھی تیزی سے کامیابی کی طرف رواں دواں تھی اوربھارت کا غرور خاک میں ملا کر اس کو کشمیر سے بھگانے کی کوششیں بار آورہوہی رہی تھیں کہ پاکستان کی بدنصیب مملکت پر قابض ایک جرنیل نے اپنی استبدادی حکومت کو طول بخشنے کے لئے امریکہ کے دبائو میںآکر دس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے جاری اورکامیابی سے ہمکنار ہوتی مسلح مزاحمت کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا اورنتیجتاً مقبوضہ کشمیر میں مزاحمت کمزورپڑتی گئی۔ان حقائق کے پیش نظر اوربھارت کی ذہنیت اوربرتائوکے گزشتہ تجربے سے البتہ یہ بات ثابت ہے کہ کشمیر مذاکرات اور کھوکھلے سیاسی عمل سے کبھی بھی بھارتی چنگل سے آزاد نہیں ہوسکتا۔