مسئلہ کشمیرپر KMS کے سربراہ شیخ تجمل الاسلام کا اہم انٹرویو
اینکر و ترتیب: سید اسد عباس
شیخ تجمل الاسلام کا تعلق وادی کشمیر سے ہے ۔ ان کی پیدائش 1954ء میں سرینگر میں ہوئی۔ وہیں پلے بڑھے اور یونیورسٹی تک کی تعلیم حاصل کی ۔وہ ایک عرصے سے پاکستان میںتحریک آزادی کشمیر کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔1999ء سے کشمیر میڈیا سروس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں اور مسئلہ کشمیر پر گہری نگاہ رکھتے ہیں ۔ شیخ تجمل الاسلام مقبوضہ وادی میںکئی سال تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے ۔ سرینگر میں روزنامہ ’’اذان ‘‘کے چیف ایڈیٹر کے علاوہ کئی ہفت روزوں اور روزناموں میںمدیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ سرینگر میں ہی وکالت بھی کی ۔ 1975میں شیخ عبد اللہ اور اندرا گاندھی کے معاہدے کے خلاف اور اس کے مضر اثرات کو لوگوںپر آشکار کرنے کے لیے کافی کام کیا ۔ اس سلسلے میں آپ ایک موثر آواز تھے ۔ متعدد بار قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں جس کے بعد آپ کو وادی سے پاکستان کی جانب ہجرت کرنی پڑی ۔
اسلامی دعوت کے حوالے سے نیپال میںکافی عرصہ کام کیا اور افسو نامی ادارے سے وابستہ رہے ۔ ایران کے انقلاب اسلامی کے بعد اسکی حمایت میں مقبوضہ وادی میںآپ کی آواز سب سے موثر تھی۔پاکستان میںانسٹی ٹیوٹ آف کشمیر افیرز(IKA)کی بنیاد رکھی ۔ بعد میں کے ایم ایس میں شامل ہوئے اور اب تک اس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کر رہے ہیں۔ کئی ایک قومی اور بین الاقوامی سیمیناروںمیںکشمیر کے موضوع پر لیکچر دے چکے ہیں۔ کشمیر سے متعلق انگریزی ماہنامہ ’’ Kashmir Insight‘‘کے نام سے ایک مجلہ کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔اسی طرح کشمیر سے متعلق تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے حوالے سے ایک ویب سائٹ بھی آپ کے زیر نگرانی فعال ہے۔
س: مسئلہ کشمیر کے حل میںحقیقی رکاوٹیں کیار ہیں؟ذیلی سوال : مسئلہ کشمیر کے حل میںرکاوٹ کے عنوان سے قادیانی تھیوری کا کیا کردار ہے؟
جواب: انڈین نیشنل کانگریس کا برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی یہ منصوبہ تھا کہ وہ کشمیر کو مستقبل کے بھارت کا حصہ بنائے۔ کانگریسی راہنما جواہر لال نہرو اور موہن داس کرم چند گاندھی کی خواہش تھی کہ کشمیر نئی اسلامی ریاست پاکستان کا حصہ نہ بن جائے ۔ کانگریسی راہنماوں کی سازشوںکے نتیجے میںکشمیر کی قیادت میںبھی دراڑیں پڑ چکی تھیں ۔ جموںو کشمیر میںمسلمانوںکی ایک مضبوط اور فعال تنظیم مسلم کانفرنس تھی جسے نیشنل کانفرنس میں بدلا گیا۔ اس واقعے سے قیادت بھی تقسیم ہوئی اور لوگ بھی تقسیم ہوئے ۔27اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوجیوں نے جموں و کشمیر پر قبضہ کیا اور پاکستان ردعمل میں کوئی فوجی اقدام کرنے سے قاصر رہا۔ شیخ محمد عبداللہ کشمیری عوام کے ایک بڑے حصے پر اپنا اثر و نفوذ رکھتے تھے اور پنڈت جواہر لعل نہرو ا ن کو اپنے شیشے میں اتارنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ شیخ عبداللہ نے قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے مشوروں کو ٹھکرادیا۔ تقسیم کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ کے تحت جب سرحدیں متعین کرنے کا کام کیا گیا تو مشرق اور مغرب دونوں طرف دھاندلی کی گئی۔ پنجاب کا ضلع گرداسپور بھارت کو دیا گیا اور کمیشن کو ایسا کرنے کا کوئی جوا ز نہیں تھا۔ ایسا انگریزوں اور کانگریسی رہنمائوں کی ملی بھگت سے ہوا۔ اس طرح بھارت کو جموں کشمیر تک پہنچنے کا راستہ مل گیا ورنہ کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں۔ جموںو کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ الحاق کیا جبکہ دستاویزالحاق ایک متنازعہ دستاویز بن چکی ہے۔ یہ الحاق تقسیم کے اصولوں کی روح کے بھی خلاف تھا اور کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس بھی۔ تقسیم برصغیر جنوبی ایشیا کے بعد بھی بھارتی رہنمائوں کی سازشوں کا سلسلہ جارہی رہا، وہ وعدے کرتے رہے اور توڑتے رہے۔انہوںنے لوگوں کو دھوکے میں رکھاکہ الحاق عارضی ہے اورجموںوکشمیر کے حتمی فیصلے کے لئے رائے شماری کا انعقاد ہوگا۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ کانگریس نے کشمیری عوام کی تحریک کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ دوسری طرف کشمیر میںہمیشہ جبر کا ماحول رہا ، ابتدا سے ہی پاکستان چاہنے والوںکے ساتھ مظالم کا سلسلہ جاری رہا ۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ شیخ عبد اللہ بھی عوام کو دھوکا دیتے رہے ۔ وہ کانگریسی نظریات کے حامل شخص تھے ،قائد اعظم کے نظریات کے حامی نہیں تھے اوران کا رجحان کشمیر کو بھارت کے ساتھ جوڑنے کی طرف تھا ۔ وہ اپنے شخصی مفادات کے لئے مختلف اوقات میںمختلف نعرے لگاتے رہے۔ پہلے نیشنل کانفرنس ، پھر باضابطہ طور پر رائے شماری کا مطالبہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوںکے مطابق لوگوںسے پوچھا جائے کہ وہ کس ملک کے ساتھ جانا چاہتے ہیں۔ کشمیری عوام ان کے بہکاوے میں آتے رہے ۔کشمیری قیادت کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی مثالی قیادت نہیں تھی، یعنی یہ بھی اس مسئلے کے حل میں ایک رکاوٹ تھی۔ یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کشمیر میں ہمیشہ کچھ محدود اثر و رسوخ والے گروہ موجود رہے جو آزادی کے لئے کوشش کرتے رہے اور عوام کی بھی یہی خواہش تھی کہ بھارتی قبضے سے نجات حاصل کریں۔مسئلہ کشمیر کے حل میں حائل رکاوٹوںمیںبھارت کا زیادہ طاقتور ہونا، بھارتی فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کشمیر میں بڑے پیمانے پر موجودگی اور مقبوضہ کشمیر کے عوام تک بھارت کی براہ راست رسائی ہوناشامل ہے ۔ پاکستان کو اس طرح کی رسائی کشمیری عوام تک نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ بھارت مقبوضہ وادی میںاپنے کٹھ پتلی اور گماشتے بناتا رہا ۔پیسے ، مراعات اورسہولیات کی بنیاد پر اپنے حامی بناتا رہا ۔ دوسری جانب پاکستان کی کمزوریاں اپنی جگہ رہیں ، 1971 کا سانحہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا جب پاکستان سے اس کا بازو ہی کٹ گیا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان جس قدر مضبوط رہتا کشمیریوںکے لیے آزادی کی منزل اسی قدر قریب ہوتی ۔ادھر بین الاقوامی سطح پربھی وعدے پورے نہیں ہوئے۔عالمی اداروں نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ سرد جنگ کے دوران مسئلہ کشمیر پر جوں کی توں صورتحال دونوں امریکہ اور سوویت یونین کیلئے موافق رہی۔ یہ سب رکاوٹیں مسئلہ کشمیر حل نہ ہونے کا باعث بنیں ۔
جہاںتک آپ کے قادیانیوں سے متعلق ذیلی سوال کا تعلق ہے تو1931 میں جب مسلم کانفرنس بنی تو اس وقت کچھ قادیانی شیخ عبد اللہ کیساتھ کام کرتے رہے جن میںمولوی عبداللہ وکیل قادیانی خاص طورپر شامل تھے۔ شیخ عبداللہ خود بھی قادیانیت سے متاثر تھے لیکن اپنی کتاب ’’آتش چنار‘‘میں لکھتے ہیںکہ وہ جب قادیان گئے تو وہاں ان پر حقیقت کھل گئی اور قادیانیت سے الگ ہوگئے۔ قادیانی نیشنل کانفرنس کے پلیٹ فارم پر اپنے عقائد کی تبلیغ بھی کرتے رہے۔1931ء کے سرینگر کے سینٹرل جیل کے واقعے کے ردعمل میں جو کل ہند کشمیر کمیٹی بن گئی اس کے پہلے سربراہ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین تھے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قادیانیوں کا عمل دخل ختم ہوگیا اوران کے اثرات باقی نہیں رہے۔
سوال : اقوام متحدہ کی قراردادوں میںکیا سقم ہے کہ مسئلہ کشمیر آج تک ناقابل حل ہے؟
جواب: یہ ایک بحث موجود ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوںکی کیا حیثیت ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں باب 6کے تحت ہیں لہذا ان پر عمل درآمد لازمی نہیں ہے اور اگر یہ قراردادیں باب 7کے تحت ہوتیں تو ان پر عمل درآمد لازمی ہوتا ۔ میری نظر میںباب 6اور باب7کی بحث بے معنی ہے ۔ ان قراردادوںکی حیثیت بین الاقوامی معاہدوں کی ہے ۔ قانونی اعتبار سے اگر دو افراد بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو ان دونوںپر اس کی پابندی کرنا لازمی ہے ۔ اسی طرح اگر دو ممالک آپس میں معاہدہ کرتے ہیں جیسے بھارت اور پاکستان نے اقوام متحدہ میں معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور بڑی طاقتوںکی رضا مندی بھی شامل تھی تو دونوں ممالک ان معاہدوں کے پابند ہیں۔ ان قراردادوںپر بین الاقوامی سطح پر سردمہری کے شاخسانے کے طورپر عمل نہیں ہوا ورنہ ان قراردادوںپر عمل درآمد ہونا چاہیے تھا۔
سوال : اقوام متحدہ کی قرارداد 47کے بارے ایک تاثر یہ ہے کہ یہ قرارداد پاکستان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنے شہریوںکو کشمیر سے نکالے تاہم بھارت پر ایسی کوئی قد غن نہیںہے ۔اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: بھارت کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان نے چونکہ اپنے فوجیوں کوکشمیر سے نہیں نکالااس لیے رائے شماری نہیں ہوسکی۔ یہاںایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1948،1949 اور1950میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی بھارت اورپاکستان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہے ۔ عالمی وفود کشمیر آتے رہے اور آخرمیںایک قرارداد پاس ہوئی جسے قرارداد نمبر 98کہا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 23دسمبر1952 کومنظور ہوئی ۔ قرارداد کی شق4 میں کہاگیا ہے کہ جموںوکشمیر میں پاکستان کی طرف 3000سے 6000تک کے مسلح فوجی اور بھارت کی طرف 12000سے 18000تک فوجی رہیں گے۔ بھارت نے تو فوجی نہیں نکالے بلکہ وہ تو فوجیوں کی تعداد بڑھاتا ہی رہا ۔ ایسے میں صرف پاکستان کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے کہ اس نے اپنے فوجی نہیں نکالے۔
سوال : جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا مقبوضہ علاقوںکے انتظامات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد یا سفارش موجود ہے؟
جواب: اس ضمن میںاقوام متحدہ کی قرارداد یںموجود ہیں جن کی رو سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں مقامی انتظامیہ ہونگی جنہیں اقوام متحدہ کے تحت چلایا جائے گا ۔ گلگت بلتستان کے لیے 1950 میںایک قرارداد آئی جس میںاگرچہ اس علاقے کا براہ راست حوالہ موجود نہیں ہے لیکن ایک رپورٹ کا تذکرہ کیاگیا ہے جس میںکہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کا انتظام بھی اقوام متحدہ کے تحت چلنے والی انتظامیہ کے ذریعے ہوگا۔
سوال :ہندوستان کہتا ہے کہ شملہ معاہدہ کے تحت اب مسئلہ کشمیر دوطرفہ معاملہ ہے ،اسے اقوام متحدہ میںلے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، اس بیانیے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟
جواب: شملہ معاہدے کو اس وقت کے حالات کے تناظر میںدیکھنے کی ضرورت ہے ۔ 1971ء کی جنگ میں نوے ہزار سے زیادہ پاکستانی جن میںاچھی خاصی تعداد فوجیوں کی بھی تھی، بھارت کی قید میںتھے۔پاکستان کے دو حصے ہو چکے تھے ۔ اس وقت اس معاہدے کاہونابھی ایک بڑی بات تھی۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اس معاہدے سے اقوام متحدہ کی مداخلت کی نفی کی گئی ہے ۔ شملہ معاہدے کا پہلا نکتہ ہی یہ ہے کہ دونوںممالک کے تعلقات اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہونگے ۔اقوام متحدہ کے چار ٹر کا آرٹیکل 103کہتا ہے کہ اگر دو ممالک کے مابین ایک عالمی معاہدہ ہے تو اس کو ان کے ما بین کے معاہدے پر فوقیت حاصل ہو گی ۔ ایل او سی یا سیز فائر لائن کی بحث ایسی کوئی اہم نہیںہے۔ 13اگست 1948یا 5جنوری 1949کو منظور کی گئی قراردادوں میںجنگ بندی کی بات کی گئی ہے۔ 1949کی ایک قرارداد میںتو باقاعدہ جگہوںکے نام لیے گئے ہیں کہ اس مقام یا جگہ پرجنگ بندی ہوگی ۔ یہ ایسے ہی ہے کہ بھارت کا چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول ہے اس سے مراد قطعا یہ نہیں ہے کہ چین اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے ۔ اسی طرح ایل او سی یا سیز فائر لائن سے فرق نہیں پڑتا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستان اپنے موقف سے دستبردار ہو گیا ہے، نہ ہی اس سے تنازعہ کشمیر کی حیثیت پر کوئی فرق پڑتا ہے ۔ بھارت ایل او سی کے حوالے سے پروپیگنڈہ کرتا ہے اور ہمارے نادان لوگ جنہوںنے اس مسئلے کو پڑھا ہی نہیں ہے وہ اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو جاتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ شملہ معاہدے سے عالمی قراردادوںپر کوئی اثر نہیںپڑا ۔
سوال : ہمارے معاشرے میںتاثر موجود ہے کہ بھارت نے مذاکرات کی میز پر معاملات کو جیتا ہے ، پاکستان میدان جنگ میںتو جیتا تاہم ہندوستانی سفارتکاری کے سامنے ناکام ہوا اور ہندوستان نے اپنی مرضی کے معاہدے کروائے ؟
جواب : یہ بات درست نہیںہے۔یکم جنوری 1948 کوبھارت اقوام متحدہ میںجاتا ہے ، وہ رائے شماری کی قراردادوںکوحاصل کرنے کے لیے نہیں جاتا نہ ہی اس کا مقصدکشمیریوں کے لئے استصواب کے حق کو قبول کرانا تھا ۔ اس کا کہنا تھا کہ کشمیر پر باہر سے حملہ ہوا ہے اور پاکستان سے کہاجائے کہ وہ اپنے حملہ آوروںکو واپس بلائے ۔ لیکن بات صرف یہاں تک نہیں رہتی ہے ، پاکستان کے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان جوابی درخواست دیتے ہیںجس کے بعد یہ طے ہوجاتا ہے کہ جموںو کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے ۔ بھارت اقوام متحدہ میںکیا مدعا لے کر گیا تھا ؟ اس کا کہنا تھا کہ یہ میرا علاقہ ہے اور پاکستانیوںنے اس پر حملہ کیا ہے ۔ یہاں سفارتکاری کس کی کامیاب ہوئی ؟ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جعلی انتخابات کرانے کا فیصلہ کرتا ہے اوربعد میں ان کو منعقد بھی کرتا ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے یہ دعویٰ کرتا ہے کہ کشمیریوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ بھارت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پاکستان نے 1951 اور 1957 میںدو قراردادیں منظور کروادیں جن میںکہا گیا کہ کشمیر کے انتخابات سے اس متنازعہ خطے کے مستقبل کا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ سفارتکاری کس کی کامیاب رہی ؟ 5اگست 2019 کوہندوستان ایک بڑااقدام کرکے یہ کہنا چاہتا ہے کہ کشمیر ہمارا حصہ ہے دنیااسے قبول کرے۔کس نے دنیا میںاس دعوے کو تسلیم کیا ؟ ٹھیک ہے کوئی نئی قرارداد پاس نہیںہوئی لیکن سلامتی کونسل کے اجلاس تو ہوئے ۔ یہاںسفارتکاری کس کی کامیاب ہوئی؟ ہم بعض اوقات خود انتہائی غیر سنجیدہ ہوتے ہیں، مطالعہ نہیں کرتے اور نہ سوچتے ہیںاور بھارتی مذموم پروپیگنڈے کا حصہ بن جاتے ہیں۔
سوال : امریکہ سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سہولت کاری کی درخواست کی جاتی ہے کیا آپ کی نظر میں امریکہ سے یہ توقع رکھنا درست ہے ؟
جواب : مصالحت کاری اور ثالثی میںفرق ہے ۔ ثالثی سے مراد یہ ہے کہ آپ کسی کو اختیار دیںکہ وہ آپ کی جانب سے فیصلہ کرے ۔ جبکہ مصالحت کاری سے مراد یہ ہے کہ درمیان والا بندہ یا ادارہ یا ملک فریقین کو کسی سمجھوتے پرلانے کی کوشش کرتا ہے۔ مصالحت کار کا فیصلہ کسی فریق پر لازم نہیں ہوتا۔ بھارت ایک اسٹیٹس کو پاور ہے ، وہ نہیںچاہتا کہ کشمیر کی صورتحال میںکوئی تبدیلی ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ حالات بدلیں۔ پاکستان تو مطالبہ کرے گا کہ کشمیر سے افواج کو نکالو، اقوام متحدہ کی قراردادوںپر عملدرکرواور اگر وہ بھی نہیں کرتے تو مصالحت کاری کی جانب بڑھو ۔ بھارت اس کو نہیں مانتا ۔ ہم مصالحت کاری کے لئے کہہ سکتے ہیں خواہ جتنے بھی ملکوں سے کہیں۔
سوال :کیا اس سہولت کاری کا سوال ہم مسلمان ممالک سے نہیں کر سکتے امریکہ سے ہی اس کا تقاضا کیوں؟
جواب: پاکستان یا کشمیری فقط امریکہ سے سہولت کاری یا مصالحت کاری کی اپیل نہیںکرتے بلکہ ان کی اپیل سب سے ہے جس میںایران اور سعودی عرب سمیت سب شامل ہیں۔ امریکہ غلط یا صحیح دنیا کی ایک موثر قوت ہے ۔ یہ امریکہ کی طاقت ہی ہے کہ وہ اگرچہ ایران کے نظام کو توڑنہیں سکا لیکن اس نے ایران کو اقتصادی طور پر پریشان ضرورکیا ۔ ایران فقط اپنی اندرونی طاقت کے سبب بچا ہوا ہے تاہم پریشانی بہرحال امریکہ نے پیدا کی ہے ۔ اس سے انکار نہیںکہ امریکا ابھی تک دنیا میں قابل لحاظ اثر ورسوخ رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض اہل نظر کے نزدیک امریکہ کا یہ اثرنئے حالات میں زیادہ دیر نہیں رہے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکا سے بھی مصالحت کاری کا کہا جائے تو یہ غلط نہیںہے ۔ کشمیریوںاور پاکستانیوںکو اپنے مفادات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ امریکا کا فلسطین کے حوالے سے ایک پس منظر ہے ۔امریکا کے اس مسئلے میںدخیل ہونے کے باوجود انہیں انصاف نہیں مل سکا ۔ یہ ایک تاریخ ہے جسے مدنظر رکھنا چاہیے ۔البتہ خواہ کوئی بھی اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں مدد کرے ہمارے لیے اچھا ہے ۔ان کی سہولت کاری ہوگی ، فیـصلہ بہرحال ہمارا ہوگاجو ہم اپنے اہداف کے پیش نگاہ کریں گے۔
سوال :ہندوستان کی جانب سے دفعہ370کے خاتمے اور گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کے اعلان سے کشمیر کاز پر کیا اثرات ہوں گے ؟
جواب : اگر پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بناتا ہے تو نئے سوالات اٹھیں گے ، نئے چیلنجز سامنے آئیں گے ۔ ہندوستان خاموش نہیںبیٹھے گا۔ کچھ اور حلقے بھی ہیں جو نا واقفیت کی وجہ سے یا جان بوجھ کر سوالات کھڑے کریںگے۔ لیکن چیلنجز سے خوفزدہ ہوکر اچھے اقدام کو روکا نہیںجا سکتا ۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ قرار دیئے جانے کے حوالے سے کہا جار ہا ہے کہ اس سے اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قراردادیں متاثر ہوں گی ۔ ان سے ہم سوال کریںگے کہ کیسے متاثر ہوں گی ؟ ہندوستان نے مقبوضہ وادی کا الحاق کیا اور1954میں آئینی طور پر یہ اعلان کیا کہ جموںوکشمیربھارت کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ 5اگست 2019کو ہندوستان نے مقبوضہ وادی کو بھارت میں مکمل طورپرضم کیا ، کیا ان اقدامات سے اقوام متحدہ کی قراردادیں ختم ہو گئی ہیںکہ گلگت بلتستان کے عبوری صوبہ بننے سے ختم ہو جائیں گی ۔ عبوری صوبہ بنے گا تو کیا سیکورٹی کونسل کے ویٹو پاورز جمع ہوجائیں گے کہ چونکہ پاکستان نے عبوری صوبہ بنایا ہے لہذا کشمیر سے متعلق قراردادیں کالعدم کی جارہی ہیں، ایسا نہیںہوگا ۔ ان قراردادوں کی ایک عالمی حیثیت ہے ۔ یہ قراردادیں پاکستان اور گلگت بلتستان کے لوگوںکے داخلی انتظام سے متاثر نہیں ہوں گی ۔ بلکہ اس عمل سے قراردادیںمضبوط ہوںگی کیونکہ پاکستان اپنے آئین میں اس بات کو دہرائے گا کہ گلگت بلتستان کو اس وقت تک صوبہ بنا یا جارہا ہے جب تک رائے شماری کے ذریعے پورے مقبوضہ جموںو کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ گویا پاکستان کی جانب سے رائے شماری کے موقف کا اعادہ ہو گا۔دوسری بات جو کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ کشمیر کی وحدت پر اثر پڑے گا ۔ گلگت بلتستان کے انتظام کے حوالے سے 1949کے کراچی معاہدے میںآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو دو الگ انتظامات میںدیا گیا جس سے کشمیر کی وحدت پر فرق نہیںپڑا تو اب کیا فرق پڑ سکتا ہے؟ اقوام متحدہ کی قراردادوںکی روشنی میںرائے شماری کے لئے ریاست جموںوکشمیر کی حد ودوہی ہیں جو ڈوگرہ راج کے وقت تھیں لیکن میں ایک اور حقیقت کی طرف آپ کی توجہ منعطف کروں گا وہ یہ ہے کہ اس خطے میں اجتماعیت کی بنیادیں1947میں نئے سرے سے طے ہو گئیں۔علاقوں کی وحدت کا معاملہ ہوتا تو پنجاب تقسیم کیوںہوتاجبکہ ان کی زبان ایک تھی ۔ ہماری تو زبان بھی ایک نہیں ہے ۔ وادی کشمیر کا بندہ جب مظفر آباد پہنچتا ہے تو گویا وہ پنجاب پہنچ جاتا ہے ۔ گلگت بلتستان جائیں تو وہ بلتی اور گلگت کی زبان بولتے ہیںنہ وہ ہماری بات سمجھتے ہیںنہ ہم ان کی بات سمجھتے ہیں۔ اردو نہ ہو تو ہم اپنی بات ایک دوسرے کو سمجھا بھی نہیںسکتے ۔ اسی طرح ہماری ثقافت بھی ایک جیسی نہیں ہے۔ اس اعتبار سے یکسانیت کیا ہے ہمارے درمیان ، وہ صرف ہمارا مذہب اور دین ہے اوراس لحاظ سے پورے پاکستان کے ساتھ ہماری یکسانیت قائم ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اگراقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت رائے شماری ہوتی ہے تومقبوضہ کشمیر ، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان تینوں علاقوں میں ہوگی ۔ میرے خیال میں گلگت بلتستان کو صوبہ بنائے جانے کا معاملہ کچھ دنوں کا معاملہ نہیں۔ پتہ نہیں یہ ابھی کتنا وقت لے گا۔
سوال : آزاد کشمیر کی قیادت اور عوام کی گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ قرار دینے کے حوالے سے کیا رائے ہے ؟
جواب: ہماری اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں باضابطہ ایک اجلاس ہوا ہے جس میںآزاد کشمیر کی پوری قیادت تھی۔ انہوںنے اعتراض نہیں کیا۔ آزاد کشمیر میںپیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نواز اور پی ٹی آئی موجود ہیں اوران تینوںجماعتوں نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے سرتاج عزیز کی سربراہی میںجو کمیٹی بنی، اس نے بھی کہا کہ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جائے۔ یہ کمیٹی تو نواز شریف نے بنائی تھی ۔ پیپلز پارٹی نے تو گلگت بلتستان میں ووٹ ہی اس بنیاد پر لئے کہ وہ اس علاقے کو پاکستان کا صوبہ بنائیں گے۔لہذا اس کو اصولی طور پر دیکھا جائے تو کشمیری قیادت کو عبوری صوبہ بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے البتہ سیاست کچھ اورچیز ہے ۔
سوال :سی پیک کے تناظر میںمسئلہ کشمیر کا مستقبل کیا ہوگا اور اس مسئلے کے حل میںچین کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟
جواب : سی پیک مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے سہولت مہیا کرے گا کیونکہ چین کا اس علاقے سے مفاد وابستہ ہو چکا ہے ۔چین چاہے گا کہ پاکستان اور بھارت اس مسئلے کو حل کریں کیونکہ اس کو سرمایہ کاری کرنی ہے اور اس سرمایہ کاری کا دروازہ ہی شمالی علاقہ جات ہیں۔ چین ایک بڑی طاقت ہے اور اس نے 5اگست کے فیصلے کو مسترد کیا ہے ۔ لہذا سی پیک کی وجہ سے پاکستان اور کشمیریوںکو ایک بڑی حمایت حاصل ہو گئی ہے ۔ چین پہلے بھی کشمیر کے حق خودارادیت کی بات کرتا تھا لیکن سی پیک سے اس کی دلچسپی مزید بڑھ گئی ہے ۔خود پاکستان سی پیک کی وجہ سے زیادہ فعال ہو جائے گا کہ اس مسئلے کا اب کوئی حل نکل آئے ۔
سوال : چین سی پیک کے علاوہ بھی کوئی روٹ سوچ رہا ہے؟ کیا ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا کوئی معاہدہ ممکن ہے اور اس کے مسئلہ کشمیر پر کیا اثرات ہوںگے ؟
جواب: چین نے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے دنیا کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کیا ہے جس میں ایشیا ، افریقہ اور یورپ بھی شامل ہیں جسے وہ ون بیلٹ ون روڈ کا نام دے رہا ہے ۔ہندوستان کے ساتھ بھی اس سلسلے میں بات چیت چل رہی ہے ۔ اس صورتحال سے بھی کشمیر کے معاملے پر اچھا اثر پڑے گا ۔چین چاہے گا کہ یہ سارا علاقہ محفوظ ہو جہاں اس کے سرمائے کو کوئی خطرہ نہ ہو اورتجارتی سرگرمیاں سکون اوراطمینان کے ساتھ جاری رہیں ۔ اورحقیقت تو یہ ہے کہ جب تک مسئلہ کشمیرحل طلب ہے اس خطے کا امن محفوظ نہیں ہے۔
سوال :ہندوستان ، امریکہ اور اسرائیل کے اتحاد کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور خطے کے ممالک کو اس سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہئے ؟
جواب : دنیا میں نئی صف آرائیاںہو رہی ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ ابھی بنائو بگاڑ کا مرحلہ ہے ۔مشرق وسطی کے حوالے سے امریکا اور اسرائیل کے مربوط منصوبے ہیں ۔ امریکا ، یورپ ،عرب ممالک، بھارت اور اسرائیل ایک صف میں آرہے ہیں ۔ دوسری طرف چین اور روس کی دوستی ہیں ۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کسی بڑے تصادم کو روکنے کے لئے عالمی بحرانوں کوحل کرنے کی طرف توجہ دی جائے گی۔ ہمیںیہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر صف بندی دونوں جانب سے مضبوط ہو تو اس میں بھی بڑے تصادم کو روکنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ہم جانتے ہیںکہ سوویت یونین اور امریکا کے مابین پراکسی جنگیں ہوتی رہیں لیکن براہ راست تصادم نہیں ہوا ۔ جس صف آرائی کی ہم بات کر رہے ہیں،اگر دونوںطرف کی طاقتیں مضبوط ہوںتو یہ کسی بڑے تصادم کو روک سکتے ہیںاور مسائل بھی حل ہو سکتے ہیں۔طاقت کاتوازن فیصلہ سازی کے عمل میں معاون بنتا ہے۔
سوال :ہندوستان اور اسرائیل کے روابط اور بالخصوص تحریک آزادی کو دبانے کے لیے دونوںممالک کا تعاون اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل بھارت گٹھ جوڑ خطے کے لیے خطرے کی صورت میںابھر رہا ہے اس بارے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میں نے آپ سے گلگت بلتستان کے سوال کے جواب میں عرض کیا ہے کہ جب آپ کوئی نیا اقدام کرتے ہیں تو نئے چیلنجز سامنے آتے ہیں۔ یہ تو واضح ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے مابین جتنی قربت ہو گی مسئلہ کشمیر کے حل میںاتنی ہی رکاوٹیں پیدا ہوںگی ۔ ان دونوںممالک کے مابین انٹلی جنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ فوجی تعاون موجود ہے ۔ یہ تعاون مزید مضبوطی کی طرف جاسکتا ہے۔شمعون پیریز نے مسئلہ کشمیر کا حل ہی یہ پیش کیا تھا کہ اس متنازعہ علاقے میںآبادی کے تناسب کو بدلا جائے جس پر ہندوستان عمل درآمد کر رہا ہے۔ ان نئے چیلنجز کا کشمیریوں اور پاکستان کو مقابلہ کرنا ہے ۔ آزادی کاحصول اتنا آسان نہیں ہے ۔
سوال : پیام کے صفحات کی وساطت سے آپ پاکستانیوںکو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟
جواب : میری بات پاکستان اورجموںوکشمیر کے ایک ادنیٰ شہری کی حیثیت سے ہے کہ پاکستان جس قدر مضبوط ہوگا وہ کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے ایک اچھی علامت ہوگی اور برصغیر کے مسلمانوںکے لیے بہتر ہوگا۔ عالم اسلام کے لیے بھی یہ اچھی بات ہوگی ۔ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے کہ پاکستان معاشی ، اقتصادی ، دفاعی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط ملک کی حیثیت سے ابھرے۔ 1947سے جو کمزوریاںچلی آرہی ہیں ان کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہماری ایک کمی وقتی اقدامات ہیں۔ ہمیںہر شعبے میں مستقل منصوبوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہے ۔ یہ ملک کشمیر کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود دوسرے مسلمانوںکے تحفظ کی ضمانت ہے ۔ ہندوستان میںبی جے پی حکومت جس طرح سے بے نقاب ہو کر سامنے آئی ہے اس سے ثابت ہوا کہ تحریک پاکستان کی فکر اور فلسفہ درست تھا ۔ قائد اعظم کو ایک بابصیرت قائد کی حیثیت سے تسلیم کیا جانا چاہیے ۔ اگر اس وقت پاکستان نہ بنتا تو اب اس کا بننا لازم تھا ۔پاکستان اللہ کی نعمت ہے ہمیںاس کی حفاظت کرنی ہے ۔ اگر کشمیری عوام میں پاکستان کی محبت نہ ہوتی تو کشمیر کی تحریک کا کوئی وجود نہ ہوتا ۔ پاکستان کی محبت اس تحریک سے نکالیں تو تحریک آزادی ختم ہو جاتی ہے ۔ پاکستان کو نظریاتی ، سیاسی، اقتصادی ، معاشی اور دفاعی اعتبار سے مضبوط بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔