کامیابیاں طالبان کا امتحان بھی ہیں
دنیا بھر کے نشریاتی ادارے طالبان کی مسلسل اور تیز رفتار کامیابیوں کی خبریں دے رہے ہیں۔ اس مرتبہ طالبان کی عسکری پیش رفت اعلیٰ منصوبہ بندی اور فوجی ذہانت کی بھی عکاس ہے۔ اگر یہ منصوبہ بندی خود طالبان کمانڈروں نے کی ہے تو یہ انتہائی حیران کن بھی ہے۔ اس سلسلے میں یہ نکات بہت اہم ہیں:
1۔ زمینی پیش رفت میں طالبان نے صوبائی دارالحکومتوں کے اردگرد کے شہروں، قصبوں اور دیہات پر یلغار کی ہے۔ یوں انھوں نے بڑے شہروں کا ایک طرح سے محاصرہ کر لیا ہے۔ زیادہ علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے جبکہ سرکاری افواج بڑے شہروں میں موجود ہیں لیکن وہ اصولی طور پر طالبان کے نرغے میں آتی جا رہی ہیں۔ کم انسانی اور فوجی وسائل خرچ کرکے طالبان زیادہ علاقوں پر قابض ہوگئے ہیں۔ اب وہ آہستہ آہستہ بڑے شہروں کی طرف پیش رفت کا ارادہ رکھتے ہیں اور بعض شہروں کی طرف انھوں نے پیش قدمی شروع بھی کر دی ہے۔
2۔ دوسری طرف طالبان نے تیز رفتاری سے تمام سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق افغانستان کی بیشتر سرحدوں پر طالبان پہنچ چکے ہیں۔ کل (14 جولائی 2021ء) کی صبح وہ پاکستان کے چمن بارڈر پر سپین بولدک کے سرحدی قصبے پر قابض ہوگئے تھے۔ ایران افغان سرحد کے اہم راستوں پر وہ پہلے ہی قابض ہوچکے ہیں۔ کل ہی کی خبر کے مطابق وہ واخان کی تنگ اور مشکل وادی میں چین کی سرحد پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ تاجکستان کی سرحد پر وہ سب سے پہلے پہنچے ہیں۔ ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحدوں پر بھی وہ پیش رفت کر رہے ہیں۔
3۔ شمال میں وہ علاقے جہاں پر پہلے کبھی طالبان کا قبضہ نہیں رہا، وہاں بھی انھیں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ 2001ء میں امریکی جارحیت سے پہلے کابل میں قائم طالبان حکومت کے مقابل افغانستان کے شمال میں ’’شمالی اتحاد‘‘ کے نام سے ایک علاقے پر طالبان مخالفین کی حکومت قائم تھی۔
4۔ بظاہر طالبان نے مذاکرات کا دروازہ نہ فقط یہ کہ بند نہیں کیا بلکہ کابل میں قائم حکومت کا ایک وفد دوحہ میں ان سے مذاکرات کے لیے روانگی کے لیے آمادہ ہے۔ اس سے پہلے تہران میں طرفین ایرانی میزبانی میں مذاکرات کرچکے ہیں۔ تاہم یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان مذاکرات مذاکرات بھی کھیلتے رہیں گے اور جنگ بندی بھی نہیں کریں گے اور میدان میں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، جس کے نتیجے میں کابل میں قائم حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلے جائے گی اور مذاکرات کی میز پر بھی طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ نکات تو طالبان کی جنگی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ طالبان کے نمائندے اور ترجمان دنیا بھر کے اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے آپ کو پہلے سے مختلف اور پوری دنیا کے لیے قابل قبول ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے تمام قبائل اور مذہبی مسالک کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں گے۔ البتہ بعض مذہبی سوالوں کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ ’’شریعت‘‘ کے مطابق کیا جائے گا۔ یا اس کے بارے میں مفتیان کرام ہی رائے دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے بھی وہ اپنے مذہبی کاموں کو انہی مفتیان کرام کے فتاویٰ کی روشنی میں شریعت کے مطابق قرار دیتے رہے ہیں۔ اب یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان مفتیان کرام کا فہم شریعت تبدیل ہوگیا ہے۔
بعض علاقے جن پر طالبان کا قبضہ ہے وہاں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ محرم کے بغیر عورتوں کا گھر سے نکلنا ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ وہ عورتیں جو روزگار کے سلسلے میں باہر نکلتی تھیں، اب گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ لڑکیوں کے تعلیمی سلسلے بھی منقطع ہوگئے ہیں۔ مردوں کو داڑھی اور پگڑی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض افراد کی رائے یہ ہے کہ قیادت کا فہم اگرچہ تجربات کے نتیجے میں تبدیل ہوچکا ہو، تاہم نچلے درجے کے کمانڈروں اور طالبان سپاہیوں کا فہم ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔ دیکھتے ہیں کہ یہ خیال پختہ ثابت ہوتا ہے یا خام اس کے لیے کچھ مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ طالبان کی افغانستان میں کامیابیوں کے نتائج پاکستانی معاشرے پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کئی علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گرد باہر نکل آئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی طالبان کے جھنڈے لہرائے گئے ہیں۔ ایک خاص مذہبی ذہنیت رکھنے والے طبقے میں ایک خاص طرح کا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔ ان مظاہر کی ابھی تو ابتداء ہے، آئندہ یہ کیا صورت اختیار کریں گے، اس کے لیے عسکری اور حکومتی اداروں کے عملی اقدامات کو دیکھنا ہوگا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں افغان طالبان کیا فیصلہ کرتے ہیں، کیونکہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے مطابق وہ ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کے امیر جنھیں ہم افغان طالبان کا سربراہ کہتے ہیں، یعنی ملا ہیبت اللہ کی بیعت کرچکے ہیں۔ افغان ترجمان اس ضمن میں کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اگر وہ اس اصول پر قائم ہیں اور قائم رہتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان کو مطلوب دہشت گرد پاکستان کے حوالے کرنا ہوں گے اور ٹی ٹی پی کا افغانستان میں خاتمہ کرنا ہوگا، کیونکہ پاکستان کے نزدیک ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد گروہ ہے، جو پاکستان کے عسکری اور شہری علاقوں اور شخصیات کے خلاف مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین کو بھی طالبان کے اقتدار سے تشویش لاحق ہے، کیونکہ ان ممالک میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایسے گروہ ماضی میں ملوث رہے ہیں، جو طالبان کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی طرح ان گروہوں کے خلاف بھی طالبان کو کارروائی کرنا پڑے گی۔ ماضی میں القاعدہ اور اس کی قیادت کو اپنا مہمان قرار دے کر طالبان بہت بڑی غلطی کرچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیس سال تک امریکہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان کو تباہ و برباد کرتا رہا ہے۔ طالبان کو ان تمام غیر ملکی عناصر کو متعلقہ حکومتوں کے حوالے کرنا پڑے گا، جو ان حکومتوں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔
ترکی نے امریکہ کی ایما پر کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کا جو فیصلہ کیا ہے، طالبان نے اسے مسترد کر دیا ہے اور اسے امریکہ کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہماری نظر میں طالبان کا یہ ایک مثبت فیصلہ ہے۔ ضروری ہے کہ افغانستان میں حقیقی امن قائم کرنے کے لیے خود افغانوں کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور تمام غیر ملکی افواج اور سکیورٹی ادارے افغان سرزمین سے نکل جائیں۔ اس حوالے سے بھارت کو فوجی مداخلت کا پیغام دینے والی کابل حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ جب نیٹو کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افواج ان کے درد کی دوا نہ بن سکیں اور آخرکار پرامن انخلا کے لیے انھیں طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا تو بھارتی افواج ان کے اقتدار کو کتنا عرصہ سہارا دے سکیں گی۔ ایسا ہوا تو یہ ایک انتہائی غلط اور خطرناک فیصلہ ہوگا۔ اسے طالبان قبول کریں گے اور نہ ہمسایہ ممالک۔ بھارتیوں کے لیے بھی یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہوگا۔ بھارت جو پہلے ہی داخلی طور پر طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے، افغانیوں کے ہاتھوں رسوائی اسے مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔
بہرحال ہم نے جن امور کی طرف سطور بالا میں توجہ دلائی ہے، ان کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو اب میدان عمل میں ثابت کرنا ہوگا کہ انھوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے اور اب وہ بدلے ہوئے طالبان ہیں۔ حکومت سازی کے لیے انھیں یا تو موجودہ آئین کو قبول کرنا ہے یا پھر دوسرے گروہوں کے ساتھ مل کر عوامی منظوری کے ساتھ نیا آئین بنانا ہے۔ موجودہ آئین میں باہمی رضا مندی کے ساتھ ترامیم بھی کی جاسکتی ہیں، لیکن دنیا کو یہ بات قابل قبول نہیں ہوگی کہ افغانستان ایک بے آئین سرزمین کے طور پر باقی رہے۔ جمہوریت کا مغربی تصور نہ سہی، تاہم عوام کی محسوس اور مشہود تائید کا کوئی نظام افغانستان کو اپنانا ہوگا، ورنہ برسراقتدار حکومت کو زبردستی کی حکومت ہی سمجھا جائے گا۔
جہاں تک شریعت کا معاملہ ہے تو طالبان کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے فہم شریعت کو دوسروں کے فہم شریعت پر زبردستی نافذ نہیں کریں گے۔ جب افغانستان میں مختلف مذہبی گروہ اور مسالک موجود ہیں تو پھر کسی ایک مسلک کا فہم شریعت دوسرے مسلک پر طاقت کے ذریعے نافذ کرنا ہرگز معقول اور مطلوب قرار نہیں پاسکتا۔ یہ تمام امور طالبان کے فہم اور بصیرت کا امتحان ہیں۔ فوجی کامیابی سے بڑی کامیابی ان کی یہ ہوگی کہ وہ ان پہلوئوں پر ایک قابل قبول حکمت عملی اختیار کریں، تاکہ ملک کے تمام قبائل، مسالک، مذاہب اور علاقے افغان حکومت کو خوش دلی سے اپنی حکومت کہہ سکیں۔
2۔ دوسری طرف طالبان نے تیز رفتاری سے تمام سرحدی علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کا کام شروع کر رکھا ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق افغانستان کی بیشتر سرحدوں پر طالبان پہنچ چکے ہیں۔ کل (14 جولائی 2021ء) کی صبح وہ پاکستان کے چمن بارڈر پر سپین بولدک کے سرحدی قصبے پر قابض ہوگئے تھے۔ ایران افغان سرحد کے اہم راستوں پر وہ پہلے ہی قابض ہوچکے ہیں۔ کل ہی کی خبر کے مطابق وہ واخان کی تنگ اور مشکل وادی میں چین کی سرحد پر بھی پہنچ چکے ہیں۔ تاجکستان کی سرحد پر وہ سب سے پہلے پہنچے ہیں۔ ترکمانستان اور ازبکستان کی سرحدوں پر بھی وہ پیش رفت کر رہے ہیں۔
3۔ شمال میں وہ علاقے جہاں پر پہلے کبھی طالبان کا قبضہ نہیں رہا، وہاں بھی انھیں قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ یاد رہے کہ 2001ء میں امریکی جارحیت سے پہلے کابل میں قائم طالبان حکومت کے مقابل افغانستان کے شمال میں ’’شمالی اتحاد‘‘ کے نام سے ایک علاقے پر طالبان مخالفین کی حکومت قائم تھی۔
4۔ بظاہر طالبان نے مذاکرات کا دروازہ نہ فقط یہ کہ بند نہیں کیا بلکہ کابل میں قائم حکومت کا ایک وفد دوحہ میں ان سے مذاکرات کے لیے روانگی کے لیے آمادہ ہے۔ اس سے پہلے تہران میں طرفین ایرانی میزبانی میں مذاکرات کرچکے ہیں۔ تاہم یوں معلوم ہوتا ہے کہ طالبان مذاکرات مذاکرات بھی کھیلتے رہیں گے اور جنگ بندی بھی نہیں کریں گے اور میدان میں اپنی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے، جس کے نتیجے میں کابل میں قائم حکومت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلے جائے گی اور مذاکرات کی میز پر بھی طالبان مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جائیں گے۔
یہ نکات تو طالبان کی جنگی حکمت عملی کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ طالبان کے نمائندے اور ترجمان دنیا بھر کے اداروں کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے آپ کو پہلے سے مختلف اور پوری دنیا کے لیے قابل قبول ظاہر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے ماضی کے تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ملک کے تمام قبائل اور مذہبی مسالک کو ساتھ لے کر حکومت بنائیں گے۔ البتہ بعض مذہبی سوالوں کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ اس کا فیصلہ ’’شریعت‘‘ کے مطابق کیا جائے گا۔ یا اس کے بارے میں مفتیان کرام ہی رائے دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے بھی وہ اپنے مذہبی کاموں کو انہی مفتیان کرام کے فتاویٰ کی روشنی میں شریعت کے مطابق قرار دیتے رہے ہیں۔ اب یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ ان مفتیان کرام کا فہم شریعت تبدیل ہوگیا ہے۔
بعض علاقے جن پر طالبان کا قبضہ ہے وہاں سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ محرم کے بغیر عورتوں کا گھر سے نکلنا ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ وہ عورتیں جو روزگار کے سلسلے میں باہر نکلتی تھیں، اب گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور مشکلات کا شکار ہیں۔ لڑکیوں کے تعلیمی سلسلے بھی منقطع ہوگئے ہیں۔ مردوں کو داڑھی اور پگڑی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بعض افراد کی رائے یہ ہے کہ قیادت کا فہم اگرچہ تجربات کے نتیجے میں تبدیل ہوچکا ہو، تاہم نچلے درجے کے کمانڈروں اور طالبان سپاہیوں کا فہم ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔ دیکھتے ہیں کہ یہ خیال پختہ ثابت ہوتا ہے یا خام اس کے لیے کچھ مزید انتظار کرنا پڑے گا۔ طالبان کی افغانستان میں کامیابیوں کے نتائج پاکستانی معاشرے پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کئی علاقوں میں چھپے ہوئے دہشت گرد باہر نکل آئے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں میں بھی طالبان کے جھنڈے لہرائے گئے ہیں۔ ایک خاص مذہبی ذہنیت رکھنے والے طبقے میں ایک خاص طرح کا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔ ان مظاہر کی ابھی تو ابتداء ہے، آئندہ یہ کیا صورت اختیار کریں گے، اس کے لیے عسکری اور حکومتی اداروں کے عملی اقدامات کو دیکھنا ہوگا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں افغان طالبان کیا فیصلہ کرتے ہیں، کیونکہ ٹی ٹی پی کی قیادت کے مطابق وہ ’’امارات اسلامی افغانستان‘‘ کے امیر جنھیں ہم افغان طالبان کا سربراہ کہتے ہیں، یعنی ملا ہیبت اللہ کی بیعت کرچکے ہیں۔ افغان ترجمان اس ضمن میں کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اگر وہ اس اصول پر قائم ہیں اور قائم رہتے ہیں تو پھر انھیں پاکستان کو مطلوب دہشت گرد پاکستان کے حوالے کرنا ہوں گے اور ٹی ٹی پی کا افغانستان میں خاتمہ کرنا ہوگا، کیونکہ پاکستان کے نزدیک ٹی ٹی پی ایک دہشت گرد گروہ ہے، جو پاکستان کے عسکری اور شہری علاقوں اور شخصیات کے خلاف مسلسل دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
وسطی ایشیائی ریاستوں اور چین کو بھی طالبان کے اقتدار سے تشویش لاحق ہے، کیونکہ ان ممالک میں کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ایسے گروہ ماضی میں ملوث رہے ہیں، جو طالبان کے ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی طرح ان گروہوں کے خلاف بھی طالبان کو کارروائی کرنا پڑے گی۔ ماضی میں القاعدہ اور اس کی قیادت کو اپنا مہمان قرار دے کر طالبان بہت بڑی غلطی کرچکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیس سال تک امریکہ اپنے ساتھیوں سمیت افغانستان کو تباہ و برباد کرتا رہا ہے۔ طالبان کو ان تمام غیر ملکی عناصر کو متعلقہ حکومتوں کے حوالے کرنا پڑے گا، جو ان حکومتوں اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک کی نظر میں دہشت گرد ہیں۔
ترکی نے امریکہ کی ایما پر کابل ایئر پورٹ کی سکیورٹی سنبھالنے کا جو فیصلہ کیا ہے، طالبان نے اسے مسترد کر دیا ہے اور اسے امریکہ کے ساتھ کیے گئے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ہماری نظر میں طالبان کا یہ ایک مثبت فیصلہ ہے۔ ضروری ہے کہ افغانستان میں حقیقی امن قائم کرنے کے لیے خود افغانوں کو فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے اور تمام غیر ملکی افواج اور سکیورٹی ادارے افغان سرزمین سے نکل جائیں۔ اس حوالے سے بھارت کو فوجی مداخلت کا پیغام دینے والی کابل حکومت کو سوچنا چاہیئے کہ جب نیٹو کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افواج ان کے درد کی دوا نہ بن سکیں اور آخرکار پرامن انخلا کے لیے انھیں طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا تو بھارتی افواج ان کے اقتدار کو کتنا عرصہ سہارا دے سکیں گی۔ ایسا ہوا تو یہ ایک انتہائی غلط اور خطرناک فیصلہ ہوگا۔ اسے طالبان قبول کریں گے اور نہ ہمسایہ ممالک۔ بھارتیوں کے لیے بھی یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہوگا۔ بھارت جو پہلے ہی داخلی طور پر طرح طرح کی مشکلات کا شکار ہے، افغانیوں کے ہاتھوں رسوائی اسے مزید کمزور کرنے کا باعث بنے گی۔
بہرحال ہم نے جن امور کی طرف سطور بالا میں توجہ دلائی ہے، ان کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ طالبان کو اب میدان عمل میں ثابت کرنا ہوگا کہ انھوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھا ہے اور اب وہ بدلے ہوئے طالبان ہیں۔ حکومت سازی کے لیے انھیں یا تو موجودہ آئین کو قبول کرنا ہے یا پھر دوسرے گروہوں کے ساتھ مل کر عوامی منظوری کے ساتھ نیا آئین بنانا ہے۔ موجودہ آئین میں باہمی رضا مندی کے ساتھ ترامیم بھی کی جاسکتی ہیں، لیکن دنیا کو یہ بات قابل قبول نہیں ہوگی کہ افغانستان ایک بے آئین سرزمین کے طور پر باقی رہے۔ جمہوریت کا مغربی تصور نہ سہی، تاہم عوام کی محسوس اور مشہود تائید کا کوئی نظام افغانستان کو اپنانا ہوگا، ورنہ برسراقتدار حکومت کو زبردستی کی حکومت ہی سمجھا جائے گا۔
جہاں تک شریعت کا معاملہ ہے تو طالبان کو یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے فہم شریعت کو دوسروں کے فہم شریعت پر زبردستی نافذ نہیں کریں گے۔ جب افغانستان میں مختلف مذہبی گروہ اور مسالک موجود ہیں تو پھر کسی ایک مسلک کا فہم شریعت دوسرے مسلک پر طاقت کے ذریعے نافذ کرنا ہرگز معقول اور مطلوب قرار نہیں پاسکتا۔ یہ تمام امور طالبان کے فہم اور بصیرت کا امتحان ہیں۔ فوجی کامیابی سے بڑی کامیابی ان کی یہ ہوگی کہ وہ ان پہلوئوں پر ایک قابل قبول حکمت عملی اختیار کریں، تاکہ ملک کے تمام قبائل، مسالک، مذاہب اور علاقے افغان حکومت کو خوش دلی سے اپنی حکومت کہہ سکیں۔
Share this content: