اس شہر خرابی میں۔۔۔۔۔
غم ہے کہ کم ہونے کو نہیں آتا۔ درد ہے کہ سوا ہوا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے میری ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ میرا بدن چور چور کر دیا گیا ہے۔ جیسے مجھے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ہڈیوں سے چٹخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا۔ مجھے تو کئی مرتبہ قتل کیا گیا ہے۔ کبھی ہتھوڑوں سے میرے سر کو پھوڑا گیا ہے۔ کبھی بارود سے اُڑا دیا گیا ہے۔ کبھی آری سے آڑا ترچھا کاٹا گیا ہے۔ میں تو کب سے اپنی لاش کندھے پر لیے پھرتا ہوں۔ سیالکوٹ کے مظلوم مقتول کو تو وارث مل گئے ہیں۔ یہ نصیب ہر مقتول کا تو نہیں ہوتا۔ بیرون ملک سے، کسی اور ملک کے صدر کا، مقتول کے لیے فون آئے یا ہمارے وزیراعظم کا مظلوم کی حمایت میں فون جائے۔ چلیں کوئی مرہم رکھنے والا ہاتھ مل گیا۔ غم تو غم ہے، سانجھا ہے۔ درد انسانیت کا ہو تو پھر سارے انسانوں کا ہے لیکن وہ بھی تو انسان ہی تھے، جو مارے گئے، خبر آئی، کچھ شور ہوا، کچھ پوسٹیں لگیں مگر چیف آف آرمی اسٹاف بھی اظہار رنج و غم کرے اور وزیراعظم بھی سانحے کو المناک قرار دے کر مظلوم کے خون کا پہرے دار ہو جائے، یہ تو بہت کم ہوتا ہے، شاذ ہی کسی کی قسمت میں اس درجے کی شنوائی ہوتی ہے۔
میں تو ہر اُس لاش کے غم میں غمزدہ ہوں، جسے ستم کے وارثوں نے خون میں نہلا دیا ہو، اس لیے کہ میں انسان ہوں اور میرے سینے میں انسان کا دل دھڑکتا ہے۔ کبھی کسی استاد کو مار دیا گیا، کبھی کسی بے گناہ سپاہی کو خون میں غلطاں کر دیا گیا، کبھی کسی کو گھر میں بیٹھے آگ کا نوالہ بنا دیا گیا۔ بینک کا منیجر، یونیورسٹی یا کالج کا پروفیسر، وکیل، کان کن، مزدور، خطیب، فریادی، عزادار، نعت خواں، طالب علم، معلم اور معلمہ ہر کوئی ستمگروں کے نشانے پر ہے۔ ہسپتال، جنازہ گاہیں، کالج، سکول، دفاتر، عدالتیں، قبرستان، بازار، دربار، مسجدیں اور امام بارگاہیں سب ہولناک تباہیوں کی زد پر ہیں۔ چیخیں، فریادیں، خون، دھماکے، دھواں اور آگ کہیں سے بھی کسی بھی وقت اُٹھ سکتی ہے۔
کہنے کو تو میں زندہ ہوں لیکن یہ جینا کیا جینا ہے۔ صرف اس لیے کہ قاتل کی ترجیح یا لاٹری میں کسی اور کا نام نکل آیا یا پھر قدرت کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ کتنے ہی قیمتی ساتھی جو یقیناً مجھ سے گراں قدر اور بیش قیمت تھے، بچھڑ گئے، کتنے بدن چیتھڑے ہوگئے، کتنوں کے چھلنی جسم ان وحشت زدہ آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ برستی آنکھوں نے کیا کیا نظارے کیے ہیں۔ پیاروں کی چھلنی لاشوں کو دیکھنا اور جنازوں کو اٹھانا کوئی درد کے ماروں سے پوچھے۔ جوانوں کی لاشوں پر رونے والی مائوں اور بیوائوں کے بین سنے نہیں جاتے۔ شعروں میں ان کا غم سما نہیں سکتا اور نثران ہوشربا سانحات کی لفظوں میں تصویر کشی سے عاجز ہے۔ لرزتے ہاتھوں اور چور چور پوروں میں کہاں یہ تاب کہ ان واقعات کو لکھ سکیں۔ جملے بے ترتیب اور لفظ ٹوٹے ہوئے حروف کی صورت دکھائی دینے لگتے ہیں۔
یہ سب کچھ اگر مذہب کے نام پر ہو رہا ہے تو مجھے لامذہب ہی جان لیں کہ:
ایسا مذہب جو مجھے دولتِ تہذیب نہ دے
ایسے مذہب کی مری آنکھ میں عزت کیا ہے
وحشی جس نے حضرت حمزہؓ کا مثلہ کیا تھا، وہ ’’مسلمان‘‘ ہوچکا ہے، رحمۃ للعالمینؐ نے اس سے منہ موڑ رکھا ہے، میں حمزہؓ کی مثلہ شدہ لاش پر انصار پیمبرؓ کے گھرانوں کے ساتھ مل کر نوحہ کناں ہوں، اشک رواں رحمت عالمؐ کی خدمت میں پرسہ پیش کر رہے ہیں اور کفر و توہین کا الزام لگانے والے حمزہؓ کا کلیجہ چپانے والی کو رضی اللہ عنہا اور وحشی کو رضی اللہ عنہ کہ رہے ہیں۔ حبیب جالب یاد آتے ہیں:
اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے