عراق سے امریکی افواج کے انخلاء کی خبریں
عراقی اور امریکی حکام نے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ رواں برس کے اختتام تک عراق سے امریکی زمینی دستوں کی واپسی پر دونوں حکومتوں کے مابین اتفاق رائے ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ اس طرح کے اعلانات گذشتہ برس سے جاری ہیں۔ 2020ء میں اعلان کیا گیا تھا کہ امریکا ستمبر 2020ء تک اپنے 2500 سو فوجیوں میں سے 2200 فوجیوں کو واپس بلا لے گا، تاہم ایک برس گزرنے کے بعد بھی اس اعلان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکی فوج کے انخلاء کا مطالبہ سال 2020ء کے آغاز میں بغداد حملے کے بعد سے زور پکڑتا گیا۔ امریکہ نے وقتی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اپنے انخلاء کا اعلان تو کیا، تاہم عملاً کوئی اقدام نہ اٹھایا۔ سال 2021ء میں جب امریکی افواج پر حملوں کا آغاز ہوا تو ایک مرتبہ پھر یہ اعلان سامنے آنے کو ہے کہ امریکا عراق سے اپنی افواج کو واپس بلا لے گا۔ یہ اعلان عراقی وزیراعظم کے دورہ امریکا جو 26 جولائی بروز سوموار کو متوقع ہے، پر سامنے آسکتا ہے۔
اس خبر سے منسلک دوسری خبریں بھی گردش میں ہیں، جیسا کہ عراقی وزیر خارجہ فواد حسین کا امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کو انٹرویو جس میں انھوں نے کہا کہ اب ہمیں امریکہ کے زمینی دستوں کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے پاس عراقی زمینی دستے موجود ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق فواد حسین کا کہنا تھا کہ ہمیں امریکہ سے انٹیلیجنس، تربیت اور فضائی مدد کی ضرورت ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ امریکی فوج کے انخلاء کا متوقع اعلان عراقی وزیراعظم پر مقاومتی گروہوں کی جانب سے بڑھنے والے دباؤ کو کم کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ متوقع اعلان سے مراد اعداد و شمار کی تبدیلی نہیں بلکہ امریکا کے عراق میں کردار کا تعین ہوگا۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ امریکی اور عراقی حکام کی جانب سے جاری ہونے والا یہ اعلان عراق میں موجود مقاومتی محاذ اور عراقی وزیراعظم کی اپوزیشن کو مطمئن کرے گا یا نہیں، کیونکہ جو عراقی جنگجو امریکی افواج پر ڈرون اور راکٹ حملے کر رہے ہیں، وہ امریکی فوج کے مشن یا سٹیٹس کے بارے فرق نہیں کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں امریکی جارح ہیں اور ان کو عراق سے نکلنا ہے۔ امریکی فوج کے عراق سے انخلاء کے حوالے سے ابھی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں، نہ ہی یہ وضاحت کی گئی ہے کہ یہ انخلاء کس طریقے سے عمل پذیر ہوگا، کیونکہ امریکی افواج عموماً اپنے ائیر ڈیفنس یونٹ کو بھی زمینی دستے ہی شمار کرتی ہیں، اب نہیں معلوم کہ اس اعلان کے مطابق یہ دستے بھی عراق چھوڑیں گے یا نہیں۔ اگر یہ دستے بھی عراق چھوڑتے ہیں تو امریکا کے زمینی یا دوسرے فوجی کوئی بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ اسی طرح عراق میں تعینات امریکی فوجی شام میں تعینات نو سو امریکی فوجیوں کی مدد کرتے ہیں، اگر عراق سے امریکی افواج کا انخلاء ہوتا ہے تو اس سے مراد شام سے بھی امریکی فوج کا انخلاء ہے۔
عراقی وزیراعظم کے دورہ امریکہ سے قبل ان خبروں کا گردش کرنا اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ اور عراقی حکومت اب اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ امریکی عراق میں موجود اپنی مسلح افواج کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں اور حکومت عراق کی مجبوریوں کو بھی سمجھ رہے ہیں۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا حل نکالا جائے کہ ان دونوں مسائل سے نبرد آزما ہوا جاسکے۔ امریکی عراق اور مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کو بھی نہیں چھوڑنا چاہتے اور ساتھ ساتھ چاہتے ہیں کہ عراقی اپوزیشن اور مقاومتی محاذ کو بھی مطمئن کر دیا جائے۔ خبر عام کرنے کا مقصد ردعمل کو جاننا ہے۔ یقینا اس اعلان کے بعد عراقی مزاحمتی قوتیں بھی اپنا ردعمل ضرور دیں گی، جس سے امریکا اور عراقی حکومت اس بات کا اندازہ لگا سکیں گے کہ وہ کس حد تک جا سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو امریکی حکام اس حقیقت کو باور کر رہے ہیں کہ اب عراق میں امریکی افواج کا وجود ممکن نہیں رہا، وہ ایک مکمل شکست سے بچنے کے لیے محفوظ راستے کے متلاشی ہیں۔
مزاحمتی محاذ کی کوآرڈینیشن کمیٹی نے عراقی حکومت اور امریکی حکام کے مابین ہونے والی بات چیت کے بارے ایک مشترکہ بیانیہ جاری کیا ہے، جس میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ تمام اسلامی مزاحمتی گروہ اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کو جلد از جلد عراقی سرزمین چھوڑ دینی چاہیئے۔ بیانیے میں مزید کہا گیا ہے کہ اسلامی مزاحمت ہرگز امریکی فوجیوں کو اپنی سرزمین پر مزید موجود رہنے کی اجازت نہیں دے گی۔ کوآرڈینیشن کمیٹی نے اپنے بیانیے میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ عراق میں موجود امریکی فورسز اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے دفاع اور اسلامی مزاحمتی گروہوں کی جاسوسی کیلئے یہاں موجود ہیں۔
عصائب اہل الحق کے سیکرٹری جنرل قیس خز علی نے وزیر خارجہ فواد حسین کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عراقی وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ عراقی سکیورٹی فورسز بدستور امریکی فوجیوں کی مدد کی محتاج ہیں، انتہائی افسوسناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ عراقی وزیر خارجہ کا یہ موقف ہمارے اور ہر ایسے عراقی شہری کی نظر میں ناقابل قبول ہے، جو اپنی سکیورٹی فورسز پر فخر کرتا ہے۔ قیس خز علی نے کہا کہ وزیر خارجہ کا یہ بیان ہماری آرمی، فیڈرل پولیس، حشد الشعبی، اینٹی ٹیروریزم فورسز اور دیگر قوتوں کی ان صلاحیتوں اور تجربے کی عکاسی نہیں کرتا، جن کے بل بوتے پر انہوں نے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو شکست دی ہے۔
النجباء کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نصر الشمری نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خارجہ کا بیان قابل افسوس ہے۔ ان کا یہ موقف امریکی خواہش کے مطابق ہے، جو کسی نہ کسی بہانے سے عراق میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھنے کے درپے ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکی فوجی ہمارے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کیلئے یہاں ہیں۔ نصر الشمری نے مزید کہا کہ اس قسم کے بیانات عراق کی سکیورٹی فورسز اور ان کی صلاحیتوں کی توہین ہے۔ عراقی سکیورٹی فورسز اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کے باعث ہر قسم کے اندرونی اور بیرونی خطرے کے مقابلے میں ملک کی حفاظت کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
یہ بات اب واضح ہے کہ فیصلہ اب عراقی مزاحمتی محاذ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ امریکی حکام اور عراقی وزیراعظم کے مابین ہونے والے معاہدے کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ مزاحمتی محاذ کی کوارڈینیشن کمیٹی اور مختلف گروہوں کے سربراہان کے بیانات سے تو واضح ہے اب عراقی عوام امریکی افواج کی کسی بھی شکل میں عراق میں موجودگی کو برداشت نہیں کریں گے، نیز یہ کہ دسمبر یا ستمبر کی تاریخیں بھی اب ان کے لیے قابل قبول نہ ہوں گی۔ وہ چاہیں گے کہ کل ہی امریکا عراق سے اپنے پر پرزے سمیٹے اور چلتا بنے۔ میرے خیال میں یہی انتقام سخت ہے، جس کا وعدہ رہبر انقلاب اسلامی نے کیا تھا۔ امریکا عراق میں کی گئی سرمایہ کاری، اپنے جانی و مالی نقصان سمیت خالی ہاتھ اس سرزمین سے نکلنے پر مجبور ہے۔ نہ فقط عراق اب اسے شام سے بھی نکلنا ہے اور ایک مرتبہ پھر اپنی سرگرمیوں کو خلیجی اڈوں تک محدود کرنا ہے، یہ مقاومتی محاذ کی ایک عظیم فتح ہے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: