علامہ اقبال ، قائداعظم اور فلسطین
تحریر: سید ثاقب اکبر
ان دنوں جب کہ فلسطینی مسلمانوں پر صہیونی ریاست اپنے مغربی آقائوں کی سرپرستی میں آگ اور خون کی بارش جاری رکھے ہوئے ہے اور وحشت و درندگی اپنے عروج پر ہے اہل پاکستان کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ اس اسلامی ریاست کے بانیوں کا فلسطین اور صہیونی ریاست کے بارے میں کیا نظریہ رہا ہے تاکہ حکومت کے ذمے دار بھی اس آئینے میں اپنے آپ کو دیکھ سکیں اور پاکستانی بھی اپنے راہنمائوں کے جرأت مندانہ اوردوٹوک موقف سے آگاہ ہو سکیں۔ ان کے موقف سے آگاہی ہمیں اس مسئلے میں اپنا لائحہ عمل طے کرنے میں بھی مدد دے گی۔
ہم نے اس سلسلے میں خاص طور پر حکیم الامت علامہ اقبال جنھیں بجا طور پر مصور پاکستان کہا جاتا ہے اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کا انتخاب کیا ہے ۔
برطانوی رائل کمیشن کی سفارشات پر علامہ اقبال کا تبصرہ
1937میں برطانیہ کی نیشنل لیگ کی مس فارقوہارسن نے علامہ اقبال سے گذارش کی کہ وہ رائل کمیشن کی چونکا دینے والی سفارشات پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ علامہ اقبال نے 20جولائی 1937کو ان کے جواب میں لکھا:
’’ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ فلسطین برطانیہ کا حصہ نہیں ہے۔ برطانیہ کے ہاتھ میں یہ اس وقت لیگ آف نیشنز کے ایما پر ہے جسے مسلم ایشیا اس وقت ایک اینگلو فرینچ (برطانوی و فرانسیسی)ا دارہ سمجھنے لگاہے جسے کمزور مسلمانوں کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ نہ ہی فلسطین یہودیوں کا ہے جنھوں نے اسے عربوں کے قبضے سے بہت پہلے اپنی آزادمرضی سے ترک کر دیا تھا اور نہ ہی صہیونیت ایک مذہبی تحریک ہے۔۔۔بلاشبہ ایک غیر متعصب قاری کو اس کمیشن کی سفارشات سے جو تاثر ملا ہے وہ یہ ہے کہ صہیونیت کو جان بوجھ کر ایک ایسی تحریک کے طور پر تخلیق کیا گیا ہے جس کا مقصد یہودیوںکو ایک قومی وطن مہیا کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بحیرہ روم کے ساحل پر برطانوی سامراج کو ایک اڈہ مہیا کرنا ہے۔ ‘‘
’’مجموعی طور پر یہ رپورٹ کمیشن نے سامراجی مقاصد کو چھپانے کے لیے بنائی ہے جس میں مستقل مینڈیٹ کی شکل میں مقدس مقامات کو دبائو کے تحت برطانیہ کو فروخت کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد عربوں کے لیے کچھ رقم مہیا کرنے کے علاوہ ان سے ’’سخاوت‘‘ کی درخواست کرنا ہے تاکہ یہودیوں کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا مہیا ہو سکے۔ میں برطانوی سیاستدانوں سے توقع کرتا ہوں کہ وہ اپنی اصل پالیسی جو عربوں سے دشمنی پر مبنی ہے کو ترک کردیں اور ان کا ملک ان کو واپس کردیں۔ ‘‘
جس رائل کمیشن کا اوپر ذکر آیا ہے اس کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ یہ کمیشن برطانیہ نے فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کو آباد کرنے کا منصوبہ بنانے کے لیے قائم کیا تھا۔ اس رائل کمیشن نے جولائی 1937میں لارڈ پیل کی سربراہی میں فلسطین کی تقسیم اور مزید یہودیوں کو وہاں پر آباد کرنے کی منظوری دی تھی۔
علامہ اقبال کے مکتوب کی وضاحت کے لیے یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ تاریخی طور پر فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت بارھویں صدی قبل مسیح سے لے کر سات سو اکیس قبل مسیح تک قائم رہی۔ اس کے بعدکبھی بھی فلسطین پر یہودیوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی بلکہ یہودی صدیوں پہلے اس سرزمین کو چھوڑ کر دنیا کے مختلف خطوں میںآباد ہو گئے تھے۔ مسلمانوں نے 638ء میں اس سرزمین پر قدم رکھا۔ اس وقت یہ علاقہ یہودیوں کے قبضے میں نہ تھا بلکہ مسلمانوں نے یہ علاقہ عیسائیوں سے حاصل کیا تھا۔ اس کے بعد 1917تک مسلسل اس سرزمین پر مسلمان عربوں کا قبضہ رہا سوائے 1099ء تا 1187ء۔ یہ کل 88برس بنتے ہیں جب صلیبیوں نے اس سرزمین پر قبضہ کر لیا تھا جن سے سلطان صلاح الدین ایوبی نے واپس لے کر پھر سے اسے اسلامی سرزمین کا حصہ بنا لیا۔ اس وقت سے پھر یہ سرزمین مسلسل عرب مسلمانوں کے قبضے میں رہی۔ 1917کے بعد سے برطانیہ، فرانس اور پھرامریکا کی ملی بھگت سے پوری دنیا سے یہودیوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا کر انھیں فلسطین میں لا کر آباد کیا گیا اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے محروم کردیا گیا۔ ان سازشوں کے نتیجے میں بالآخر 1947 کے اواخر اور 1948کے اوائل میں اسرائیل کے نام کی صہیونی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی۔
لیگ آف نیشنز اور علامہ اقبال
اس ریاست کے قیام میں برطانیہ ،فرانس اور ان کے اتحادیوں کی قائم کردہ لیگ آف نیشنز نے بہت اہم کردار ادا کیا جس کے بارے میں علامہ اقبال نے سطور بالا میں کہا ہے کہ
’’برطانیہ کے ہاتھ میں یہ اس وقت لیگ آف نیشنز کے ایما پر ہے جسے مسلم ایشیا اس وقت ایک اینگلو فرینچ ا دارہ سمجھنے لگاہے جسے کمزور مسلمانوں کے علاقوں کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔‘‘
لیگ آف نیشنز جواپنے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کے نام سے پھر سے تشکیل دی گئی کے بارے میں علامہ اقبال نے یہ بھی فرمایا تھا :
برفتد تا روشِ رزم درین بزم کہن
دردمندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس انجمن کہن اور پرانی دنیا میں دنیا کے درد مندوں نے جنگ کی ایک نئی طرح کا آغاز کیا ہے اور میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے قبور کی آپس میں تقسیم کے لئے ایک انجمن بنالی ہے ۔
فلسطین کے مسئلے پر عالمی سازشوں کے خلاف ردعمل
مندرجہ بالا خط کے بعد بھی علامہ اقبال کو فلسطین کے بارے میں عالمی سازشوں پر اضطراب نے چین نہ لینے دیا ۔ انھوں نے 27جولائی 1937 کو ایک بیان جاری کیا جس میں انھوںنے کہا:
’’میں لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عربوں کے ساتھ کی گئی نا انصافی اسی شدت کے ساتھ محسوس کررہاہوں جس طرح کوئی اورجو اس علاقے کی صورت حال کا بہتر ادراک رکھنے والا محسوس کرتا ہو۔‘‘
’’اگر اس مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ خالصتاً مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کی روشنی میں فلسطین تیرہ سو سال پہلے جب خلیفہ حضرت عمرؓ بیت المقدس میںداخل ہوئے، اس سے بہت پہلے ایک یہودی مسئلہ کے طور پر ختم ہو گیا تھا۔یہودیوں کا وہاں سے نکل جانا جیسے کہ پروفیسر ہاکنگز نے کہا ہے کامل رضا کارانہ طور پر تھا اور ان کی مقدس کتابیں زیادہ ترفلسطین سے باہر لکھی گئی تھیں۔ اسی طرح یہ کبھی عیسائیوں کا مسئلہ بھی نہیں رہا۔ جدید تاریخی تحقیق پیٹر (دی ہرمٹ) کی موجودگی کو بھی وہاںشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اگر ہم یہ بھی فرض کرلیں کہ صلیبی جنگیں فلسطین کو ایک عیسائی مسئلہ بنانے کی کوشش تھیں تو پھر یہ کوشش بھی صلاح الدین کی فتوحات سے دم توڑ گئی۔ اس لیے میں فلسطین کو خالصتاً ایک مسلم مسئلہ سمجھتا ہوں۔‘‘
’’مشرق قریب میں مسلمانوں کے حوالے سے برطانوی سامراج کے مقاصد اس حد تک کبھی بے نقاب نہیں ہوئے جتنے رائل کمیشن کی صورت میں ہوئے ہیں۔ یہ خیال کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک قومی وطن مہیا کیا جائے صرف ایک چال ہے۔ اصل میں برطانوی سامراج مسلمانوں کے مذہبی گھر میں ایک مستقل مینڈیٹ کی شکل میں اپنے لیے ایک ٹھکانے کے لیے کوشاں تھا۔ بلاشبہ یہ ایک خطرناک تجربہ ہے۔۔۔ مقدس سرزمین کی فروخت جس میں مسجد عمرؓ بھی شامل ہے اور عربوں کو مارشل لاء کی دھمکی کے ساتھ ہی ان کو رام کرنے کے لیے ان سے سخاوت کی اپیل کو کامیابی قرارنہیں دیا جاسکتا بلکہ اس سے برطانوی سیا ست کا دیوالیہ پن ہی ظاہر ہوتا ہے۔ یہودیوں کو قیمتی زمین کا ایک حصہ اور عربوں کو پتھریلا ریگستان اور نقدی پیش کرنا کوئی سیاسی شعور نہیں ہے بلکہ گھٹیا لین دین ہے۔ ‘‘
’’میرے لیے یہ ناممکن ہے کہ میں اس مختصر بیان میں فلسطین کی صورت حال پر تفصیل سے بات کروں۔ اس کے باوجود حالیہ تاریخ میں اہم اسباق پوشیدہ ہیں جن کو ایشیا کے مسلمانوں کو دل پر لینا چاہیے۔ تجربے سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ مشرق وسطی کے عوام کی سیاسی سالمیت ترکوں اور عربوں کے فوری طور پر ملاپ اور اتحاد میں مضمر ہے۔ مسلم دنیا کے باقی حصوں کو ترکوں سے الگ تھلگ کرنے کی پالیسی پر عمل درآمدکیا جارہا ہے ۔ اکثر اوقات ہمیں یہ سننے کو ملتا ہے کہ ترک اسلام سے الگ ہورہے ہیں۔ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے صرف وہ لوگ جن کو اسلامی فقہ کے تصورات کی تاریخ کا کوئی اندازہ نہیں ہے اس شیطانی پروپیگنڈے کا آسان شکار بنتے ہیں۔‘‘
فلسطین کے مسئلے پر عالم اسلام کا موقف اور اقبال
اقبال نے مس فارقو ہارسن کو 6ستمبر1937ء کو دوبارہ لکھا:
’’میں کم و بیش مصر، شام اور عراق کے ساتھ رابطے میں رہا ہوں۔ میں نے نجف سے بھی خطوط موصول کیے۔ آپ نے فلسطین کی تقسیم کے خلاف کربلا اور نجف کے شیعوں کے ایک قوی احتجاج کے بارے میں پڑھا ہوگا۔ ایران کے وزیراعظم اور جمہوریہ ترکی کے صدر نے بھی اس کے خلاف نہ صرف بات کی بلکہ احتجاج بھی کیا۔‘‘
اس خط کے ذریعے سے علامہ اقبال یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ فلسطین کے مسئلے پر پورے عالم اسلام کا ایک ہی موقف ہے۔
قائداعظم کے نام فلسطین کے حوالے سے اقبال کا مکتوب
7اکتوبر 1937کو آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناح کے نام ایک خط میں علامہ اقبال نے لکھا :
’’فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں میں بہت زیادہ ہیجان پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔۔۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ لیگ اس سوال پر ایک مضبوط قرارداد پاس کرے گی اور اس کے علاوہ لیگی راہنمائوں کی ایک باہمی کانفرنس کا انعقاد بھی کرے گی جس میں کسی قسم کی ایک مثبت کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا ایسی کارروائی جس میں عوام بڑی تعداد میں شامل ہو سکیں گے۔ اس فیصلے سے لیگ کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور فلسطین کے عربوں کی مدد بھی ہوسکے گی۔ ذاتی طور پر مجھے ایسے مسئلے کے لیے جیل جانے میں کوئی اعتراض نہیں جس سے اسلام اورہندوستان متاثر ہوتے ہوں۔ مشرق کے دہانے پر ایک مغربی اڈے کی تشکیل دونوں کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘‘
قارئین پر یہ بات واضح ہو گی کہ مشرق کے دہانے پر مغرب کا اڈہ علامہ اقبال نے اسرائیل کو قرار دیا ہے۔ نیز جب آپ یہ خط لکھ رہے تھے اس وقت ابھی پاکستان بننے میں تقریباً دس برس کا فاصلہ تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال 21اپریل 1938کو وفات پا گئے ۔ 1937میں جب رائل کمیشن کے ذریعے سے عالمی سامراج فلسطین کے سینے پر اسرائیل کے نام کا ایک خنجر گھونپنے کی سازشوں کو آگے بڑھا رہا تھا علامہ اقبال بہت بیمار تھے لیکن اس کے باوجود ان کا دل فلسطین کی صورت حال پر کرب و اضطراب میں مبتلا تھا اور وہ فلسطین کی حمایت میں ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار تھے یہاں تک کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے جیل جانے کے لیے بھی اپنی آمادگی کا اظہار کررہے تھے ۔ جس کا اندازہ مندرجہ بالا تحریروں سے ہوتا ہے۔
مسلم لیگ کے اجلاس میں قائداعظم کا خطاب
حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا مذکورہ بالا خط ملنے کے ایک ہفتے بعد بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے15اکتوبر 1937 میں لکھنؤ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے اس مسئلے کا تفصیلی ذکر کیا اور برطانوی حکمرانوں کو تنبیہ کی کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں۔ انھوں نے کہا:
’’اب میں مسئلہ فلسطین کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں، اس کا ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر بہت گہرا اثر پڑا ہے۔ حکومت برطانیہ کی پالیسی رہی ہے کہ اس نے شروع سے لے کر اب تک عربوں کو دھوکا دیا ہے۔ ان کی اعتبار کر لینے والی فطرت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔ برطانیہ نے اس وعدے کو پورا نہیں کیا جو جنگِ عظیم [اوّل] کے دبائو کے تحت کیا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ عربوں کو مکمل آزادی کی ضمانت دی جاتی ہے اور ایک عرب وفاق کی تشکیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ عربوں سے جھوٹے وعدے کر کے ان سے فائدہ اٹھانے کے بعد برطانیہ نے اب بدنام زمانہ اعلان بالفور کے ذریعے اپنے آپ کو ان پر مسلط کر دیا ہے اور یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن بنانے کی پالیسی کے بعد اب برطانیہ فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے اور رائل کمیشن کی سفارشات نے اس المناک داستان کا آخری باب لکھ دیا ہے۔ اگر اس کو نافذ کر دیا گیا تو عربوں کے اپنے وطن میں ان کی تمام تمنائوں اور آرزوئوں کا خون ہو جائے گا۔ اب ہمیں یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم اصل حالات پر غور کریں لیکن سوال یہ ہے کہ حالات پیدا کس نے کیے ہیں؟ یہ برطانوی مدبرین کی پیداوار ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ لیگ آف نیشنز رائل کمیشن کی سفارشات کی تائید نہیں کرے گی اور خدا کرے کہ اس کی تائید نہ کی جائے اور اصل حالات کا از سر نو جائزہ لیا جائے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عربوں کو ان کا صلہ دینے کے لیے یہ کوئی دیانت دارانہ کوشش ہے؟ میں حکومت برطانیہ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر اس نے مسئلہ فلسطین کا جرأت، دلیری اور انصاف کے ساتھ فیصلہ نہ کیا تو یہ برطانوی سلطنت کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ میں صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی نہیں بلکہ پوری دنیا کی بات کررہا ہوں۔ صحیح سوچ اور منصفانہ ذہن رکھنے والے تمام طبقے میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ برطانیہ اپنی قبر خود کھودے گا اگر وہ اپنے ابتدائی اعلان، وعدوں اور ارادوں کا احترام نہیں کرے گا جو اس نے جنگ سے پہلے کیے تھے۔ میں یہ محسوس کررہا ہوں کہ عربوں کے اندر نہایت شدید احساس پیدا ہو چکا ہے اور حکومت برطانیہ جھلاّ کر اور جوش میں آکر فلسطینی عربوں کے خلاف نہایت سخت تشدد پر اتر آئی ہے۔ مسلمانان ہند عربوں کے اس منصفانہ اور جرأت مندانہ جہاد میں ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے میں ان کو یہ پیغام بھیجنا چاہتا ہوں کہ اس منصفانہ جنگ میں وہ جس عزم، ہمت اور حوصلے کے ساتھ لڑ رہے ہیں وہ انجام کار کامیاب ہو کر رہیں گے۔‘‘
قائد کے بیان کے حوالے سے چند وضاحتیں
قائداعظم کے مذکورہ بالا خطاب کے حوالے سے چند وضاحتیں ضروری معلوم ہوتی ہیں:
۱۔ انھوں نے اپنی تقریر میں اعلان بالفور کا حوالہ دیا ہے۔ 1917میں برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک وطن کے قیام کے لیے اپنے تعاون کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان سے پہلے برطانیہ نے اس کی تائید امریکی صدر وڈروولسن سے حاصل کر لی تھی۔
۲۔افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ لیگ آف نیشنز نے بھی 1922میں اعلان بالفور کی تائید کردی تھی۔
۳۔ قائداعظم شروع ہی سے متوجہ تھے کہ برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کی قومی ریاست کے قیام کے بعد اس سرزمین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ انھوں نے اس دو ریاستی نظریے کو شدت سے مسترد کردیا۔ بعدازاں امریکا اوربرطانیہ اس نام نہاد دو ریاستی حل کی طرف زبردستی پیش قدمی کرتے رہے۔ ایک طرف اسرائیل کی دہشت گردی تھی، دوسری طرف عرب حکمرانوں کی بے وفائی اور تیسری طرف فلسطین کی مایوس قیادت۔ جس کے نتیجے میں بالآخر یاسرعرفات نے دو ریاستی حل کو قبول کر لیا لیکن فلسطینیوں کو جس طرح کی بے دست وپا ریاست دی گئی اور جیسے اس نام نہاد آزاد علاقے کو اسرائیل کا دست نگر کر دیا گیا اور اسرائیل نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور دیگر معاہدوں کے ذریعے فلسطینیوں سے جو وعدے کیے انھیںبھی ایفا نہ کیا جس کے بعد یاسر عرفات اس دو ریاستی حل سے بھی مایوس ہو گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے لیکن جیسا کہ بعد میں ثابت ہو چکا ہے اسرائیل نے زہر دے کر انھیں اپنے راستے سے ہٹا دیا۔ اس ساری صورت حال سے قائداعظم کی بالغ نظری کا اظہار ہوتا ہے کہ انھوںنے ابتداء ہی سے مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کو ٹھکرا دیا تھا۔
برطانیہ کو قائد کی تنبیہ
1937 ہی میں قائداعظم نے یہ پیشکش کی کہ اگر برطانیہ فلسطین کے بارے میں معقول پالیسی اختیار کرے تو اس کی بھرپور مدد کی جائے گی، بصورت دیگر ہندوستان کے مسلمان عربوں کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے جو قومی آزادی کے لیے جنگ کر رہے ہیں اور اپنے فرض اور حقوق کی حفاظت کے اجراء پر انھیں بہ نوک سنگین مارشل لاء نافذ کر کے دبایا جا رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کی طرف سے یہودیوں کی امداد اور انھیں دنیا بھر سے اکٹھا کر کے فلسطین میں آباد کرنے کی امریکی سازش کے خلاف قائد نے امریکا پر کڑی نکتہ چینی کی۔ انھوں نے اینگلو امریکی کمیٹی کی طرف سے ایک لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں داخلے کی اجازت دینے کی سفارش کرنے پر بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ نہایت ہی بے ایمانی کا فیصلہ ہے اور اس میں انصاف کا خون کیا گیا ہے۔ قائد نے عربوں سے کہا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے ڈٹ جائیں اور ایک یہودی کو بھی فلسطین میں داخل نہ ہونے دیں۔
اسرائیلی وزیراعظم کو قائداعظم کا جواب
پاکستان کے بننے کے بعد بھی 1947میں جب قائداعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلی گرام قائداعظم کے نام بھجوایا۔ جس کا جواب بانی پاکستان نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا:
’’دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دیگا۔مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوئوںکے خلاف پہلے ہی 5لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انھیں اپنے ہاں بسایا ہے؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہوں گی۔‘‘
اقوام متحدہ پر تنقید
قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلے پر نکتہ چینی کرتے ہوئے قائد نے بی بی سی کے نمائندے کو بتایا کہ
’’اس برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ، ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجہ میں احتجاج کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ برصغیر کے مسلمان امریکا یا کسی اور ملک کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے لیکن ہماری حسِ انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقے سے مدد کریں‘‘۔
بی بی سی کو دیے گئے قائد کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو بھی فلسطین کے مسئلے پر شریک جرم سمجھتے تھے اور اس کے خلاف انھوں نے نہایت بے باکی سے صدائے احتجاج بلند کی۔ ایک اور بات جو ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ قائد کے پیش نظر ظلم کے خلاف انصاف کی حمایت تھی۔ قائداعظم کے پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ خارجہ پالیسی میں اسی اصول کو پیش نظر رکھے۔
انہی دنوں قائداعظم نے رائٹر کے نمائندے کو بتایا کہ
’’فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی صراحت اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے سربراہ محمد ظفر اللہ خان نے کی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا۔ ورنہ ایک خوفناک ترین اور بے مثال چپقلش کا شروع ہو جانا ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ چپقلش صرف عربوں اور منصوبۂ تقسیم کو نافذ کرنے والوں کے مابین نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف عملی طور پر بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے کی حمایت نہ تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارۂ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کرے اور خواہ مخواہ کے اشتعال اور ناجائز دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ اس کے بس میں ہے پورے جوش و خروش اور طاقت سے بروئے کار لائے۔‘‘
قائد، فلسطین اور پاکستان کی خارجہ پالیسی
اس بیان کا آخری جملہ قائداعظم کی شجاعت اور بہادری کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ اس وقت جب کہ پاکستان کے پاس ابھی ایسی منظم اور طاقت ور فوج بھی نہ تھی وہ فلسطین کے مسئلے پر عربوں کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا اعلان کررہے تھے اور واشگاف الفاظ میں کہہ رہے تھے کہ جو کچھ پاکستان کے بس میں ہے وہ فلسطینیوں کی حمایت میں پورے جوش و خروش اورطاقت سے بروئے کار لائے گا۔
پاکستان کئی دہائیوں تک فلسطین کے مسئلے پر اپنے قائد اور بانی کے نقطۂ نظر پر قائم رہا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے قائد اور بانی کی دی ہوئی دانشمندانہ اور مبنی برحق حکمت عملی کو پورے جوش و خروش سے اختیار کرنے کی ضرورت ہے ، اس لیے کہ دنیا میں اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ایک ظلم کو جائز تسلیم کرنا نئے ظلم کے لیے راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینی مہاجرین کی داستان اور نئی ہجرت
https://albasirah.com/urdu/falisteeni-muahjreen-ki-dastan/
https://urdu.sahartv.ir/news/society_culture-i414821
Share this content: