آنے والی نسلیں اقبال کو انگریزی میں پڑھیں گی؟
سید ثاقب اکبر
ستمبر1994کی بات ہے ،میں استنبول میں تھا۔ میزبان مہربان علامہ حمید توران نے انجینئرنگ کے ایک طالب علم یوسف ایکسل کو میرے ساتھ کردیا تھا۔ وہ کسی قدر انگریزی بول سکتا تھا۔ اس کے ساتھ میں استنبول کے معروف عجائب گھر توپ کاپی میں پہنچا۔ میری اہلیہ اور دو بچیاں ساتھ تھیں۔عظیم الشان عجائب گھر میں قدیم نوادرات، تحریریں اور کتبے موجود تھے۔ ترکی کا قدیمی رسم الخط عربی وفارسی کے حروف ابجد سے عبارت تھا۔ عربی و فارسی قطعے اورکتبے تو میں پڑھ ہی رہا تھا، ترکی زبان کی قدیم تحریریں بھی کسی حد تک سمجھ میں آرہی تھیں۔ وہ نوجوان ان تحریروں کو بٹ بٹ اورمجھے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ میں اُسے اُس کی تاریخ کی یاد گاروں کا پتہ دے رہا تھا۔ وہ اپنی ہی زبان سمجھنے سے محروم تھا۔ میرے بدن میں اچانک بجلی سی کوند گئی۔ اس نوجوان کو ’’جدید ترکی‘‘ کے بانی نے اس کی تاریخ اور میراث سے کاٹ دیا تھا۔ جدید ترکی کے ’’معمار‘‘ نے ترکی زبان کو یورپ کے مستعار حروف ابجد کا لباس پہنا دیا تھا۔ رفتہ رفتہ آنے والے نسل اپنی اصلی قدیم ترکی تحریروں سے بیگانہ ہوگئی۔ اب وہ بولتی ترکی زبان ہے لیکن اپنے آباء کی تاریخ اور تحریریں نہیں پڑھ سکتی۔اب ترک اپنے سرمایۂ افتخار جلال الدین رومی کو پڑھنے کے لیے غیروں کا سہارا لینے کے احتیاج مند ہیں۔جدید ترکی کے بانی کا خیال تھا کہ اس طرح وہ ترکی کا پس ماندہ عرب وعجم سے رشتہ کاٹ کر ترقی یافتہ یورپ سے جوڑ دے گا۔
نئی ترکی زبان سیکھنے سے ترک قوم کسی یورپی زبان کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوجاتی بلکہ اسے ہر یورپی زبان سیکھنے کے لیے کم وبیش نئے حرف ابجد بھی سیکھنا پڑتے ہیں اور ترکی کی بگڑی یا بدلی ہوئی شکل اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی۔ ترکی کو طویل جدوجہد کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت بھی نہیں حاصل ہوسکی۔یورپ کی خوشنودی کے لیے اس نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی نہیں بلکہ عسکری روابط بھی استوار کیے ہیںلیکن یورپی یونین کے سابق صدر نے برسر عام کہہ دیا کہ ہم ایک مسیحی پلیٹ فارم پرایک مسلمان ملک کو شامل نہیں کرسکتے۔
ترکی کا نوحہ پڑھتے پڑھتے ہم اپنا مرثیہ نہ بھول جائیں ۔ہمیںبھی رفتہ رفتہ ’’جدید ‘‘بنایا جارہا ہے۔ ہمارا آئین تو کہتا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ اسے ہی ہماری دفتری اور تعلیمی زبان ہونا چاہیے بلکہ 1973ء کے آئین کا تقاضا تھا کہ پندرہ برس کے اندر اندر اردو کو دفتری زبان بنایا جاتا۔ دفتری اصطلاحات کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اور آئینی تقاضے پورے کرنے کے لیے ہی’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا وجود عمل میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کی ذمہ داری تھی کہ مذکورہ مدت میں اس ضرورت کو پورا کرے۔ اس نے اپنی ذمہ داری پوری کردی لیکن آئین کے محافظوں نے ابھی تک اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔
انگریزی کو اس طرح سے ہمارے اوپر مسلط کردیا گیا ہے کہ اب ہمارے بچے روزمرہ الفاظ کا تلفظ بھی صحیح بولنے کے قابل نہیں۔ ٹی وی کے اردو پروگراموں کے میزبان اورمہمان یوں اردو انگریزی کا آمیزہ بول رہے ہوتے ہیں کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر ہوجاتاہے۔ اردویا مقامی زبان میں سوچنا اور غیر زبان میں مافی الضمیرکے اظہار کا فیشن اعتماد اورعزت نفس کے احساس سے عاری ایک ڈب کھڑبی قوم ہی کی تشکیل کا باعث بن سکتا ہے۔ میر نے پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی :
اُس کا خرام دیکھ کر جایا نہ جائے گا
اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا
دنیا یہ تجربہ کر چکی ہے کہ کوئی قوم اپنی زبان ہی کو اختیار کرکے ترقی کر سکتی ہے اور یہی راستہ قومی تفاخر اور خوف اعتمادی کو باقی رکھ سکتا ہے اورآزادی وخود مختاری کی حفاظت کاجذبہ پیدا کرسکتاہے۔
موبائل فون جس طرح سے ہمارے بچوں کی زندگی میں داخل ہوگیا ہے اُس کے سماجی اور نفسیاتی اثرات کا ابھی سنجیدگی سے جائز نہیں لیا گیا۔ موبائل فون، ای میل اور چیٹ کا طریق کار ہمیں رفتہ رفتہ ’’جدید ترکی‘‘ کی طرح’’جدید پاکستان‘‘ کی طرف لے جارہا ہے۔ ہماری موجودہ نسل اردو میں سوچتی ہے اوراسے انگریزی رسم الخط میں بیان کرنے لگی ہے۔عجیب بات ہے اس کے لیے ہمیں’’اتاترک‘‘ کی ضرورت نہیں پڑی۔ سابقہ فوجی حکومت کے ’’اتاترک‘‘نما سربراہ نے اپنا آئیڈیل ہی اتاترک کو بیان نہیںکیا بلکہ انگریزی کو ہماری نسلوں پر مزید مسلط کرنے کے لیے بھی تدابیر اختیار کیں۔
لائق افسوس یہ ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت نے بھی اس طرز عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ عدلیہ نے بھی اس مسئلے کو اس قوم کا ایک بنیادی مسئلہ نہیں سمجھا۔ موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری خود اس تجریے سے گزرچکے ہیں۔عدلیہ بحالی کی تحریک کے آغاز میں وہ انگریزی زبان میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ اس کا عوام پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوتا تھا۔ پھر انھوں نے اردو میں تقریریں شروع کردی تھیں۔انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ عوام تک اپنی بات پہنچانے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔آخر اب وہ عوام کے اس بنیادی انسانی ،آئینی اور قانونی حق کی طرف کیوں متوجہ نہیںکہ انھیں اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی زبان میں ترقی کرنے کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں ۔
ہمارے صدر محترم آصف علی زرداری نے اب گویا یہ روایت بنا لی ہے کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے انگریزی میں خطاب کریں۔ اُن کے تمام سامعین اردود بہتر سمجھ پارہے ہوتے ہیں اور وہ خود بھی انگریزی کی نسبت اردو بہتر بول سکتے ہیں لیکن خدا جانے وہ کس کے لیے انگریزی میں تقریر کرتے ہیں۔ہم ان سے پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہماری طرف منہ کرکے آپ کس سے باتیں کررہے ہیں۔
ایسے میں جب ہم اقبال کا یوم ولادت یا یوم وفات مناتے ہیں تو خیال آتا ہے کہ یہی روش رہی تو ہماری آنے والی نسلوں کا رابطہ حکیم الامت علامہ اقبال سے منقطع ہوجائے گا۔ یہی نہیں اردو ہمیں ایک وسیع تر اسلامی ثقافت اور عالمی اسلامی خاندان کا حصہ بناتی ہے،اگرہم نے اسے اس کا جائز مقام نہ دیا تو ’’جدید ترکی‘‘ کی طرح عرب وعجم سے منقطع ہوجائیں گے،ہم قرآن کی زبان سے دور ہوتے جائیں گے اورہم رومی وسعدی وحافظ کی زبان سے ناآشنا ہوتے جائیں گے۔
اصل سوال یہ ہے کہ ایسا ہم کس کے لیے کررہے ہیں ۔کیا اُن کے لیے جنھوں نے ترکی کو مسلمان ہونے کے ’’جرم‘‘ میں یورپی یونین کا حصہ نہیں بنایا جبکہ اسے ناٹو کا حصہ بنا رکھا ہے تاکہ حسب ضرورت اس کی عسکری قوت کو تو استعمال میں لایا جاسکے لیکن اُسے دیگر اقتصادی اورسماجی فوائد سے محروم رکھا جائے۔
خدا را رک کر یہ سوچنے میں کیا ہرج ہے کہ کیا ہم اپنے ساتھ اور اپنی آنے والی نسلوں کے ساتھ انصاف کررہے ہیں۔ خود اعتمادی سے محروم اور اپنی شناخت سے عاری قوم عزت وافتخار سے قوموںکی صف میں کیسے کھڑی ہوسکتی ہے۔ یاد رکھیے کہ زبان کا مسئلہ صرف ماضی الضمیرکے اظہار کامسئلہ نہیں، یہ تہذیب وتمدن، ثقافت وتاریخ اورقومی افتخار سے جڑا ہوا ایک ہمہ گیر انسانی اور عوامی مسئلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال اور حقیقی آزادی
https://albasirah.com/urdu/iqbal-haqeeqi-azadi/