علامہ اقبال اور حقیقی آزادی
عصر حاضر میں پاکستان میں حقیقی آزادی کے حصول کا نعرہ سب سے مقبول نعرے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ حقیقی آزادی کا کیا معنی ہے، اس پر خاصی گفتگو کی جا رہی ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عوام اس کے مفہوم کو بہت حد تک سمجھ چکے ہیں۔ علامہ اقبال کے روز ولادت کی مناسبت سے پاکستان میں تقریبات جاری ہیں۔ انھیں پیامبر حریت اور شاعر آزادی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ وہ ایک غلام ہندوستان میں آزادی کی جدوجہد کے نقیب بن کر سامنے آئے۔ انھوں نے نہ فقط برصغیر کی برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا بلکہ انہوں نے مسلمانوں کی نظریہ توحید کی روشنی میں ایک کامل تر آزادی کا خواب بھی دیکھا۔ اسی سلسلے میں انھوں نے مسلمانوں کی الگ سے ریاست کا نظریہ پیش کیا، جس کی وجہ سے انھیں مصور پاکستان کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے فارسی اور اردو کلام میں غلامی اور آزادی کی حقیقت کو مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ وہ توحید پر ایمان کو ہر طرح کی غلامی سے آزادی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ معروف شعر اسی امر کی نشاندہی کرتا ہے۔
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
علامہ اقبال واقعہ کربلا سے بھی پیغام حریت کشید کرتے ہیں، یہاں تک کہ رموز بے خودی میں انھوں نے اس حوالے سے جو نظم شامل کی ہے، اس کا عنوان یہ رکھا ہے ’’در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہء کربلا۔‘‘ یہ نظم وہ اپنے تصور توحید سے ہی شروع کرتے ہیں:
ہر کہ پیمان با ہوالموجود بست
گردنش از بند ہر معبود رست
یعنی “جس نے بھی اللہ تعالیٰ سے اپنا پیمان باندھ لیا ہے اور اس کی عبودیت کو اختیار کر لیا ہے، اس کی گردن ہر دوسرے معبود کی غلامی سے آزاد ہوگئی ہے۔” اس کے بعد وہ عقل و عشق کے مابین تمیز کرتے ہوئے عشق کی خصوصیات بیان کرتے ہیں۔ اس موضوع کو سمیٹتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
عشق را آرام جان حریت است
ناقہ اش را ساربان حریت است
“صاحب عشق کی جان کو آرام تب نصیب ہوتا ہے، جب وہ حریت اور آزادی حاصل کر لیتا ہے۔”
اسی پس منظر میں وہ امام حسینؑ کا ذکر یوں شروع کرتے ہیں:
آن امام عاشقان پور بتول
سرو آزادی زبستان رسول
کہ “فاطمۃ الزہراؑ کی اولاد میں سے وہ عاشقوں کے امام ہیں اور رسول اللہؐ کے گلستان میں وہ سرو آزاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔” اس کے بعد کے اشعار میں وہ اپنے اسی پیغام حریت کی تفسیر امام حسینؑ کے کردار کی مثال سے پیش کرتے ہیں:
موسی و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
امام حسینؑ کے کردار سے حریت کا پیغام ساری امت کے لیے بلکہ ساری انسانیت کے لیے اخذ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
چون خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تاقیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
بہر حق در خاک و خون علتیدہ است
پس بنائے لا الہ گردیدہ است
“جب خلافت نے قرآن سے اپنے رشتہ کو توڑ لیا تو امام حسینؑ نے ملوکیت سے نجات کے لیے مسلمانوں کو حریت کا پیغام دیا۔ امام حسینؑ کربلا کی زمین پر بادلوں کی طرح آئے اور برس کر اس طرح سے چلے گئے کہ ویرانوں میں لالہ زار بو دیے۔ انھوں نے قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی اور اس سرزمین پر اپنے خون سے چمن پیدا کر دیے۔ وہ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہوئے، اسی لیے انھیں بنائے لا الہ کہا جاتا ہے۔” آگے چل کر وہ مزید کہتے ہیں:
ماسوی اللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونی سرش افکندہ نیست
خون او تفسیر این اسرار کرد
ملت خوابیدہ را بیدار کرد
یعنی “مسلمان اللہ کے علاوہ کسی کا بندہ نہیں بن سکتا اور اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ امام حسینؑ نے اس بھید کی اپنے خون کے ذریعے تفسیر کی ہے اور اپنی اور اپنے انصار و اہل بیتؑ کی قربانی دے کر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا ہے۔”
ایک اور نظم میں وہ کہتے ہیں کہ اہل حق نے حریت کا سبق امام حسینؑ سے حاصل کیا ہے:
در نوائے زندگی سوز از حسین
اہلِ حق حریت آموز از حسین!
“زندگی میں سوز امام حسینؑ کے دم سے ہے اور اہل حق نے حریت و آزادی کا سبق امام حسینؑ سے سیکھا ہے۔” جہاں علامہ اقبال آزادی کی عظمت و حقیقت کو بیان کرتے ہیں، وہاں وہ غلامی کی آفتوں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ کس طرح سے غلامی انسان کے ضمیر کو سلا دیتی ہے اور اسے حرکت و جرأت سے محروم کر دیتی ہے۔ ایک مقام پر وہ کہتے ہیں:
از غلامی دل بمیرد در بدن
از غلامی روح گردد بار تن
از غلامی ضعف پیری در شباب
از غلامی شیر غاب افگندہ ناب
از غلامی بزم ملت فرد فرد
این و آں با این و آن اندر نبرد
“غلامی سے دل انسانوں کے بدن میں مر جاتے ہیں اور غلامی سے روح انسان کے تن کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ غلامی کی وجہ سے شباب میں بھی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے اور انسان کچھ کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔ غلامی سے کچھار میں موجود شیر بھی حرکت اور جرأت سے عاری ہو جاتا ہے۔ غلامی کی حالت میں ملت کی انجمن فرد فرد ہو جاتی ہے اور معرکے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابلہ نہیں کرتی۔”
یہ بھی پڑہیں: حقیقی آزادی کا خواب
ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
از غلامے ذوق دیدارے مجوے
از غلامے جان بیداری مجوے
“عالم غلامی میں ذوق دیدار اور محبوب کی محبت کے لیے جستجو کی تمنا جاتی رہتی ہے۔ لہٰذا غلام سے اس ذوق کی توقع کریں نہ بیداری کی۔” علامہ اقبال کا پیغام خودی درحقیقت خود شناسی اور معرفت نفس کا پیغام ہے۔ انسان جب اپنی خودی کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ ایک مرد آزاد کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ایک مضبوط قوت ارادی اس کے اندر سے جلوہ افگن ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں:
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
وہ ماضی سے بھی مثالیں لاتے ہیں، تاکہ اپنے جوانوں کو بتا سکیں کہ کیسے ان کے اسلاف نے آزادی حاصل کی اور باقی دنیا کو بھی آزادی کا پیغام دیا۔ وہ اس امر کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ کون سی خصوصیات انسانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ظلم و استبداد کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدرؓ، فقر بوذرؓ، صدق سلمانیؓ
وہ آج کے جوانوں کو آمریت، ملوکیت اور بادشاہت کی چکا چوند سے نکال کر بلند پروازی کا سبق دیتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
Share this content: