انتخابات کے بعد کا خطبہ جمعہ اور اس پر ایک تبصرہ
تحریر: سید اسد عباس
جامعۃ العروۃ الوثقی، چنگی امر سدھو، لاہورکے مہتمم، تحریک بیداری امت کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے 9 فروری 2024ء کے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تقوی اختیار کرنا چاہیئے، ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اس کے حال پر نہیں چھوڑا، انسان کو ہدایت و نظام کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تخلیق کے مرحلے میں انسان کا ارادہ نہیں ہے لیکن زندگی کے مرحلے میں ارادہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ علامہ جواد نقوی کا کہنا تھا کہ تقوی کو زندگی کے نظام کی حفاظت کا ذریعہ قرار دیا ہے، جتنی زندگی وسیع ہے اتنا ہی یہ حفاظتی نظام وسیع ہے۔ خطبہ میں انہوں نے کہا کہ عدالت دین اور تقوی کی بنیاد ہے، عدل ترک کرو گے تو عدالت، تقوی متاثر ہوگا، سماج بگڑ جائے گا، اس کے فقدان سے ساری عمارت حل جاتی ہے، یہ انسانی زندگی کا مرکزی ستون ہے۔
انہوں نے کہا کہ انبیاء کو کتب، بینات اور میزان دیا تاکہ وہ عدل قائم کریں، لوہا بھی عدل کے لئے نازل کیا۔ علامہ جواد کا کہنا تھا کہ انسانی زندگی کا اصل میدان سماج ہے، ہم ثانوی چیزوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں یعنی انفرادی تقوی و عدالت کا اہتمام کرتے ہیں امام جمعہ، قاضی، حاکم عادل ہو تاہم مرکزی شاہراہ یعنی سماج کی اصلاح نہیں کرتے۔ علامہ جواد نے کہا غیر عادلانہ معاشرے میں جب انسان عادل بننے کی کوشش کریں وہ ناکام ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بغیر عدالت تقوی نہیں ہے، اقتدار اور مال معاشرے میں تعادل کے لیے بنیادی ہیں، معاشرہ عملی طور پر حکومت کی مٹھی میں ہوتا ہے، لوگ حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں۔
علامہ جواد نے کہا کہ آج جمہوریت ہمارا دین ہے خواہ ہم امامت کا سبق پڑھتے رہیں، توحید ہمارا عقیدہ ہے دین نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل انتخاب کا دن گزرا ہے لوگوں نے اپنی تقدیر لکھی ہے۔ قبلہ نے فرمایا کہ جمہوریت عوام کی رقابت کا میدان ہے۔ اس کے لئے انہوں نے شادی ہالوں میں کھانا کھلنے کے وقت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ شادی ہالوں میں کھانا کھلنے پر جمہوریت دکھائی دیتی ہے، جمہوریت اقتدار کو ایسے ہی عوام کے مابین رکھتی ہے کہ جس میں ہمت ہے اس پر قبضہ کرلے، کیا ایسا معاشرہ متعادل ہوسکتا ہے؟ ایسا معاشرہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے، آج ملک کی حالت اسی لئے خراب ہے کہ اقتدار کو رقابت کے میدان میں رکھ دیا گیا۔ ہمارا معاشرہ اسی وجہ سے طبقاتی تقسیم کا شکار ہے، کمزور ملک سے بھاگ رہا ہے، طاقتور جرم سے مال بنا رہا ہے، کیا خدا نے اقتدار اور ثروت کے لیے یہی نظام بنایا ہے، اس کے لیے خدا نے امامت کا نظام دیا،۔
شریعت کا حکم ہے جس میں اقتدار، شہرت اور ثروت کی جانب جھکاؤ وہ قیادت کے لیے نا اہل ہے، اس لئے انبیاء آئمہ اور ان جیسوں کا انتخاب کیا، جمہوریت میں امام کی لگام جمہور کے ہاتھ ہے، امامت میں جمہور کی لگام امام کے ہاتھ ہے، ولی صاحب اختیار کو کہتے ہیں، ایسے ہی وقف کا متولی، امت کا اختیار اقتدار و ثروت کے رجحان نہ رکھنے والے کا ہے۔ جواد نقوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں کہا کہ الیکشن کے سبب آج معاشرتی تقسیم کو دیکھیں، انتخاب نے عدالت کو نابود کر دیا ہے۔ انسان کو رسولوں، اماموں کی اطاعت سے عدل قائم کرنا ہے۔ امام عدل قائم کرکے اللہ کی طرف لے جاتا ہے، معاشرے کو تقسیم کرنا جیسے بنو امیہ نے کیا یہ عادلانہ نہیں۔ انتخابات نے پاکستان کو کمزور کیا ہے امام پہلے جوڑتا ہے تنظیموں کو ختم کرتا ہے امت بناتا ہے۔ بنو امیہ نے اہل بیتؑ کو سیاسی جماعت سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی۔
علامہ نے کہا پاکستانی معاشرے میں لوگ کٹر ہیں لیکن اتنا ہی یہ مذہبی تقاضوں کو پامال کرتے ہیں۔ آپ نے ووٹ دیا فاسقوں کے ہاتھوں دین بیچا ۔ تقوی نظر انداز کیا ۔کیا اپ کو کسی نے حاکم بنانے کا اختیار دیا ہے ؟ گھر آپ کو کس چیز کا اختیار ہے، جب آپ کو گھر اختیار نہیں تو حاکم بنانے کا اختیار کہاں سے آ گیا ۔اللہ کے نظام میں اپ کو کس نے اختیار دیا حاکم بنائیں۔ خطبے کے اختتام پر مولانا نے کہا کہ آج تقوی عرب و عجم سے اٹھ گیا تا ہے، لوگ غزہ کی صورتحال دیکھ رہے ہیں لیکن ان میں احساس نہیں۔اٹھاون مسلم ممالک کے سربراہان، جرنیل، علماء خاموش ہیں ۔قرآن نے ایسے لوگوں کو جانوروں سے بدتر قرار دیا ہے۔ اسی لاکھ یہودی دو ارب مسلمانوں کا منہ چڑا رہے ہیں پھر بھی تم عاشق رسول، عاشق اہل بیت ، عاشق صحابہ ہو۔
تبصرہ:
برسوں سے قبلہ جواد نقوی کے پیروکاروں سے سن رہے ہیں کہ ان کی باتوں پر اعتراض کرنے سے قبل پوری بات سن لیں، لیں جی نہ فقط ہم نے پوری گفتگو سنی ہے بلکہ لکھ بھی دی ہے۔ اب آتے ہیں قبلہ کی گفتگو اور اس میں موجود مغالطوں کی جانب، مغالطے سے یاد آیا اہل فلسفہ کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ مغالطے پیدا کرکے لوگوں کو اس موضوع کا یقین دلواتے ہیں جسے وہ باور کروانا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ علامہ جواد قدیم فلسفہ کے طالب علم ہیں۔ فلسفے کا طالب علم اس لئے کہا کہ بعض دانشوروں کے نزدیک وہ شخص جو گذشتہ فلسفی مباحث کو حفظ کرکے ان کی ترویج کر رہا ہے اسے حافظ فلسفہ قدیم تو کہا جاسکتا ہے تاہم فلسفی نہیں کہا جاسکتا۔
جہاں تک اس خطبہ میں قبلہ نے تقویٰ الہی کو اختیار کرنے اور اس کی مذہبی و معاشرتی ضرورت کی بات کی اس سے اختلاف نہیں لیکن ایک مرتبہ پھر قبلہ نے اپنی سابقہ روش کے مطابق جمہوریت کو آڑے ہاتھوں لیا، انتخابات میں ووٹ دینے کو فاسقوں کے ہاتھوں دین بیچنا قرار دیا۔ اس خطبہ میں انہوں نے بتایا کہ جمہوریت کے سبب معاشرہ تقسیم ہوگیا ہے، لوگ ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوگئے ہیں، انتخابات میں معاشرتی عدالت کو نابود کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو حاکم کے انتخاب کا حق نہیں ہے، دین یہ حق عوام کو نہیں دیتا ہے، یہ تقریباً وہی باتیں ہیں جو قبلہ عرصہ دراز سے اپنے پیروکاروں کا پڑھا رہے ہیں۔
سپریم لیڈر ایران آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ابھی چند روز قبل فضائیہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
انتخابات میں عوام کی بھرپور شرکت ملک کے اقتدار اورسیکورٹی کے ضامن ہیں۔ (رسالت اخبار ایران)
اسی طرح ایک اور خطاب میں کہا :
انتخابات میں شرکت کرنا عوام کا حق ہے۔ (صبح نو اخبار )
آئمہ جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
انقلاب اسلامی عوام کی موجودگی، خواہش اور اقدام کے بغیر ممکن نہیں۔ (جوان اخبار ایران )
بندہ جواد نقوی صاحب سے پوچھے کہ آپ کیسے جمہور کی رائے، انتخابات اور اپنے نمائندے چننے کو فسق و فجور کہ رہے ہیں۔ کیا آپ مراجع سے زیادہ دین کو سمجھتے ہیں؟ ممکن ہے قبلہ کہیں کہ ایران میں اسلامی نظام ہے وہاں انتخابات، جمہور کی رائے، پارٹیاں جائز ہیں پاکستان میں یہ سب ناجائز ہے تو قبلہ آپ کو مرجع شیعان جہان صاحب کتاب کفایۃ الاصول آیت اللہ آخوند خراسانی کی بارگاہ میں لئے چلتے ہیں۔ آخوند خراسانی نے اگرچہ جمہوریت کو شرعی حکومت نہیں کہا لیکن اسے اسلامی جوہر کے مطابق قرار دیا۔ وہ لکھتے ہیں: “ایران کی بری و بحری حدود کی حفاظت اور موجودہ بادشاہت کا دفاع شرعی ذمہ داری نہیں ہے، آئینی جمہوریت کے لئے ہماری حمایت دراصل اسلام کے جوہر کا تحفظ کرنا ہے”۔
آخوند خراسانی نے ایران میں بادشاہت کے خاتمے کے لئے آئینی و جمہوری جدوجہد یعنی مشروطہ کی تحریک کی نہ فقط حمایت کی بلکہ اس کی مکمل سرپرستی کی اور اس تحریک میں آیت اللہ اسماعیل محلاتی، آیت اللہ عبد اللہ مازندرانی، آیت اللہ نائینی اور دیگر مراجع شامل تھے۔ آیت اللہ خمینی بھی اس تحریک کے حامیوں میں سے تھے اور انہوں نے اپنی اوائل انقلاب کی تقاریر میں جگہ جگہ مشروطہ، پارلیمان کے تحفظ اور عوامی مینڈیٹ کے تحفظ کی بات کی۔ مراجع ثلاثہ یعنی آیت اللہ آخوند خراسانی، آیت اللہ مازندرانی اور آیت اللہ اسماعیل محلاتی نے تو عدل و انصاف کے قیام کے لئے اٹھنے والی جمہوری تحریک کی مخالفت کو امام زمانؑ سے جنگ کے مترادف اور یزید کی حمایت قرار دیا۔
قبلہ جواد سے ایک معصومانہ سوال ہے کہ یہ مراجع عظام جن کی کتب پڑھ کر آپ نے دین کو سمجھا ہے کیسے جمہوریت کو جوہر اسلام قرار دے رہے ہیں اور عدل و انصاف کے قیام کے لیے اٹھنے والی جمہوری تحریک کی مخالفت کو امام زمانؑ سے جنگ قرار دے رہے ہیں، یہ مراجع کیسے عوام کو اپنا نمائندہ چننے کا اختیار دے رہے ہیں۔ حاکم شرع کا انتخاب واقعا عوام کا حق نہیں ہے لیکن کیا ہم اپنے وکیل بھی متعین نہیں کر سکتے۔ قبلہ کی گفتگو میں بہت سے مغالطے ہیں، انتخابات اقتدار کو میدان رقابت میں رکھ دینا ہے جیسے شادی ہال میں کھانا کھول دیا جاتا ہے کہ جس میں طاقت ہے کھا لے، اس مغالطے میں قبلہ نے انتخاب کے تمام قوانین کو پس پشت ڈال دیا۔
وہ کہتے ہیں جمہوریت کے سبب معاشرے میں تقسیم پیدا ہوتی ہے، وہ بھول گئے کہ اسی جمہوریت اور آئینی نظام کے سبب سندھی، بلوچ، پنجابی، پٹھان، مہاجر، سنی، شیعہ، اہل حدیث، دیوبندی غرضیکہ مختلف معاشرتی گروہ ایک اکائی کے طور پر شرکت کرتے ہیں اور ملک کی تقدیر کو سنوارنے کے لیے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ جس چیز کو وہ تقسیم کہہ رہے ہیں وہ دراصل مختلف قومیتوں، نسلوں کو مشترکہ مقاصد پر مجتمع کرنے کا نام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارا جمہوری نظام مثالی نہیں ہے، اس میں جمہوریت کی روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ نظام بہرحال عوام کو صاحب اختیار بناتا ہے، کسی نہ کسی سطح پر نمائندوں کو عوام کے سامنے جوابدہ بناتا ہے۔ قبلہ چاہتے ہیں کہ ملک میں امامت قائم ہو لیکن ان کے پاس وہ امام نہیں ہے جسے انہوں نے اس مقام پر متعین کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں جس میں شہرت، اقتدار اور ثروت کا لالچ ہو وہ امام نہیں بن سکتا۔ قبلہ امام امت کے لیے پہلی شرط اس کا خدا کی جانب سے متعین ہونا ہے۔ آپ جتنا مرضی پاکیزہ انسان لے آئیں اس کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھ سکتے کہ اس کے اندر کس چیز کا لالچ موجود ہے نیز خواہ کوئی بھی ہو ہم حاکم شرح متعین نہیں کر سکتے۔ یہ خداوند کریم کا اختیار ہے۔ بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے جس کے لیے مراجع کے مابین ولایت مطلقہ اور ولایت خاصہ کی بحث کو دیکھا جا سکتا ہے۔ قبلہ نے اپنے خطبے کے اختتام میں اہل غزہ کی حمایت کی بات کی لیکن اس تقریر میں تقریبا سبھی مسلمان ممالک کو ایک ہی صف میں کھڑا کرکے رگڑ گئے کہ مسلم ممالک کے سربراہ، علماء اور جرنیل سب خاموش ہیں اور ان افراد کے لئے جس قرآنی تشبیہ کا انھوں نے استعمال کیا وہ میں دہرا نہیں سکتا۔ اپنی گفتگو سے وہ اپنے پیروکاروں کو یہ باور کروا رہے تھے کہ ہمارے سوا اہل غزہ کا کوئی حامی نہیں رہ گیا، کوئی بھی متقی نہیں ہے، کسی کو بھی اسلام کا پاس نہیں رہا، کوئی بھی قرآنی تعلیمات کو مدنظر نہیں رکھ رہا۔
قبلہ کے یہ مغالطے نوجوان اذہان کو آلودہ کر رہے ہیں جس کے سبب اکثر وہ اہل مذہب، مراجع، مذہبی تنظیموں اور دوسروں کے عقائد کی توہین کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ قبلہ کہتے ہیں کہ امام کا کام جوڑنا ہے لیکن وہ خود تقسیم در تقسیم کے منشور پر عمل پیرا ہیں۔ قبلہ کہتے ہیں شہرت، اقتدار اور ثروت کا لالچ رکھنے والا امام نہیں ہو سکتا حالانکہ خود تقریباً ہر جمعہ بلا تعطیل ایسی بات ضرور کرتے ہیں جس سے ان کی شہرت میں اضافہ ہو، کسی کا اقتدار ان کو نہیں بھاتا اسی وجہ سے وہ ہر کسی کو کوستے ہوئے اور اس پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مدرسے کے اقتدار سے لے کر تحریک بیداری کے اقتدار تک اور وہاں سے لے کر امت کے اقتدار تک ان کو اپنے علاوہ کوئی اور شخص دکھائی نہیں دیتا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار
Share this content: