دنیا میں مہنگائی اور سرمایہ دارانہ نظام

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس
امریکی معاشرہ اس وقت گذشتہ چالیس برسوں میں مہنگائی کی بلند ترین شرح کو محسوس کر رہا ہے۔ گذشتہ ایک برس کی مدت میں مختلف اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ خوراک کی قیمتیں 7 فیصد، تیل اور گیس کی قیمت 40 فیصد، بجلی کی قیمت 10فیصد، ملبوسات کی قیمتیں 5 فیصد اور رہائش کے لیے درکار اخراجات میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اعداد و شمار امریکا کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کے جاری کردہ ہیں۔ چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مراد غربت زدہ آبادی کی غریبی میں مزید اضافہ ہے۔ امریکہ اگرچہ دنیا کا ایک امیر ملک شمار ہوتا ہے، تاہم اس کی متعدد ریاستیں ایسی ہیں، جہاں 2018ء تک غربت کی شرح 20 فیصد یا اس سے زیادہ تھی۔ یہ اس وقت کی غربت کی شرح ہے، جب امریکا میں خوشحالی کا دور دورہ تھا، تاہم آج جبکہ امریکا میں مہنگائی کی شرح میں گذشتہ برس کی نسبت 7 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے تو یقیناً اس کے اثرات پسماندہ طبقات تک ضرور پہنچیں گے۔

مہنگائی فقط امریکا میں نہیں ہے بلکہ یہ مہنگائی دنیا بھر میں محسوس کی جا رہی ہے۔ پیو ریسرچ نے مہنگائی کے حوالے سے 46 ممالک کے اعداد و شمار اکٹھے کیے، ان اعداد و شمار کے مطابق ان ممالک میں سے 39 ممالک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکا میں ہونے والی مہنگائی ان 46 ممالک میں سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس مہنگائی کی بنیادی وجہ ’’گلوبل سپلائی چین‘‘ میں مسائل کو قرار دیا جا رہا ہے۔ گلوبل سپلائی چین کرونا کی وبا کے سبب متاثر ہے، جس کے سبب کئی کمپنیوں نے اپنی پیداوار کو یا تو بند کر دیا یا کم ترین سطح پر لے آئے ہیں اور ایک مصنوعی قسم کی مہنگائی کو جنم دیا جا رہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کی حکومتیں مہنگائی کے اس طوفان سے نمٹنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ جس میں اکثر ترقی یافتہ ممالک کو بھی ناکامی ہو رہی ہے۔ اس مہنگائی کے جہاں ملکوں کی معیشت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہیں اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ امریکا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب بائیڈن حکومت تنقید کا سامنا کر رہی ہے، اسی طرح وہ ممالک جہاں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے، حکومتیں مشکلات کا شکار ہیں۔ پاکستان کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔

ایسی صورتحال میں ریاستیں اپنے وسائل میں اضافہ کی کوشش کرتی ہیں، تاکہ مہنگائی کے طوفان کو روکا جاسکے۔ جو سودا کسی ریاست کے پاس ہے، وہ بیچنے کی کوشش کرتی ہے۔ امریکا دنیا میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے، اسے ایسے جنگی میدان چاہییں، جہاں وہ اپنا سودا بیچ سکے۔ وہ یقیناً نہیں چاہے گا کہ اپنی معیشت پر کوئی اضافی بوجھ لے۔ شاید اسی وجہ سے امریکہ نے عجلت میں افغانستان کو خیر آباد کہا، ایسے ہی عراق سے انخلاء کے معاہدے پر دستخط کیے، تاہم وہ نہیں چاہے گا کہ دنیا اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کے مسائل میں کمی آئے، کیونکہ یہ مسائل ہی اس کی اسلحہ کی منڈیاں ہیں۔ ظاہراً تو امریکا یہ کہتا ہے کہ یمن پر سعودیہ کو حملے میں مدد نہیں کی جائے گی، تاہم سعودیہ کو ہتھیاروں کی ترسیل کا سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔ ایسے ہی عرب امارات کو بھی ہتھیار فروخت کیے جا رہے ہیں۔

نہ فقط امریکا بلکہ دنیا میں ہتھیاروں کے دوسرے تاجر برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین بھی اپنی مصنوعات کو مختلف مقامات پر فروخت کرکے زر مبادلہ کما رہے ہیں۔ گذشتہ صدیوں میں یہ تاجر علاقوں پر قبضہ کرکے اس کے وسائل کو لوٹتے اور اپنی معشیت کے پہیے کو چلاتے رہے۔ اب قبضوں کا سلسلہ تو اگرچہ محدود ہوگیا ہے، تاہم مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ آج لوگوں کے وسائل کو لوٹنے کے لیے زیادہ تکنیکی طریقے اختیار کیے جا چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے نام سے ایک سودی بینک کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ جس کے قرضوں پر سود کی قسطیں ادا کرتے کرتے تیسری دنیا کے ممالک کی معیشتیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں اور اصل قرض اپنی جگہ پر قائم ہے۔

دیکھا جائے تو اس سارے فساد کی جڑ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جو اس وقت دنیا پر حاکم ہے۔ سرمایہ اکٹھا کرنے کی ہوس نے انسان کو بھیڑیا بنا دیا ہے۔ دوسری اقوام تو ایک طرف ریاست کے اندر ہی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کے عمل نے واضح طور پر دو طبقات کو جنم دے دیا ہے۔ ایک کم تعداد پر مشتمل امیر طبقہ اکثریت کے وسائل پر سانپ بن کر بیٹھا ہے، جبکہ غریب دو وقت کی روٹی کا محتاج ہے۔ آج انسانیت جس عذاب سے دوچار ہے، اس سے نکالنے کی کاوش کیمونزم نے کی، تاہم وہ دوسری حد کو پار کر گیا۔ سرمایہ داری نظام کے شکنجوں میں جکڑی انسانیت آج کسی مسیحا کی منتظر ہے، کئی اقوام کو مسئلے کی حقیقت کا اندازہ ہی نہیں، وہ جن کو مسئلہ کی حقیقت کا ادراک ہے، وہ اس سے نکلنے کے لیے اپنے آپ کو لاغر و لاچار پاتے ہیں۔ آج انسانیت ایک ایسے نظام زندگی کی متلاشی ہے، جس میں وسائل کی تقسیم برابری کی بنیاد پر ہو، ریاست کمزور طبقات کے حقوق کی محافظ ہو اور وسائل کو منصفانہ تقسیم کرنے کا اہتمام کرے۔ معاشرتی روابط کی بنیاد تجارت اور منافع پر نہیں بلکہ خدا خوفی، رحمدلی پر ہو۔

یہاں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قائم صحت کے ایک مرکز کے احوال کا تذکرہ نہ کروں تو زیادتی ہوگی۔ دارالحکومت اسلام آباد میں بانی پاکستان کے نام پر قائم ایک پرائیویٹ ہسپتال میں جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ہمارے ایک قریبی دوست ایڈمٹ تھے۔ ہم اس دوست کو ایک سرکاری ہسپتال میں علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب پرائیویٹ ہسپتال میں لائے۔ صاف و شفاف فرنیچر، فرش، دیواروں اور مستعد سٹاف کے حامل اس ہسپتال کی حقیقت اس وقت واضح ہوئی، جب متعلقہ سٹاف کو بتایا گیا کہ مریض کا علاج صحت سہولت کارڈ پر کروایا جائے گا۔ یہ مستعد سٹاف خونخوار بھیڑیوں کا روپ دھار گیا۔ معالج جو انسانیت کا مسیحا ہوتا ہے اور جسے ایک مقدس پیشہ تصور کیا جاتا ہے، ایک بے رحم تاجر کا روپ دھار گیا۔ مریض جسے فوری طور پر آئی سی یو کی ضرورت تھی، دو گھنٹے معالج کا منتظر رہا، یہ سرمایہ کی ہوس ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی آفت ہے، جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز