کیا امام خمینیؒ کشمیری تھے؟(2)

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

امام خمینیؒ کے جد اعلیٰ سید حیدر موسوی کشمیر میں
سید حیدر موسوی 776ھ میں کشمیر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ ماں باپ دونوں کی طرف سے حسینی سید تھے۔ جس زمانے میں سید حیدر کشمیر پہنچے، اس زمانے میں وہاں سلطان شہاب الدین شاہ میری کی حکومت تھی۔ یاد رہے کہ شاہ میری خاندان 1339ء تا 1561ء کشمیر پر حکمران رہا۔ سلطان شہاب الدین شاہ میری سید حیدر موسوی اور دیگر سادات کا بہت احترام کرتا تھا۔

سید حیدر موسوی کئی برس تک تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے، وہ وقتاً فوقتاً اپنی کوششوں کے نتائج سے اپنے ماموں میر سید علی ہمدانی کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔

میر سید علی ہمدانی کی کشمیر آمد
جب میر سید علی ہمدانی نے محسوس کیا کہ اب ان کے کشمیر جانے کے لیے حالات سازگار ہیں تو انھوں نے 700 افراد کا انتخاب کیا، جن میں مختلف فنون کے ماہر سادات شامل تھے۔ سید علی ہمدانی 774 یا 776ھ ق میں عازم کشمیر ہوئے۔ ان مبلغین کی کوششوں سے بت پرستوں اور ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہوگئی۔ یہاں تک کہ بہت سوں نے اپنے عبادت خانوں اور مندروں کو خود سے مسجدوں میں تبدیل کر دیا۔ میر سید علی ہمدانی نے انھیں مبلغین میں سے کئی ایک کو کاشغر، تبت، کارگل اور دیگر پہاڑی خطوں میں تبلیغ کے لیے روانہ کیا۔ وہ خود بھی کشمیر سے تاجکستان تشریف لے گئے۔ ان کی وفات 786ھ میں ہوئی۔ ان کا مزار آج بھی تاجکستان میں موجود ہے۔ تاہم سید حیدر اور میر سید علی ہمدانی کے بیٹے سید محمد نے دیگر سادات و مبلغین کے ساتھ مل کر تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔

سید حیدر موسوی کی شہادت
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست، گلگت و بلتستان، سینکیانگ، پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقوں اور پوٹھوہار کے خطے میں اسلام کے وسیع طور پر پھیلائو میں میر سید علی ہمدانی کی اولاد اور امام خمینیؒ کے اجداد کی بے پناہ خدمات شامل رہی ہیں۔ یہاں تک کہ امام خمینیؒ کے جد اعلیٰ سید حیدر کو اسی راستے میں خدمات انجام دیتے ہوئے کفار نے شہید کر دیا۔

سید حیدر موسوی کی اولاد، تبلیغ اور قربانیاں
سید حیدر موسوی شہید کے دو بیٹوں میں سے ایک سید محمد تھے، جو جبل العاملی بھی کہلاتے ہیں۔ ہمیں اس نسبت کی وجہ معلوم نہیں، تاہم ان کی بیوی سیدہ بارعہ تھیں، جو میر سید ہمدانی کی بیٹی تھیں۔ سید محمد جبل العاملی کو نور بخش ثانی کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شادی میر محمد ہمدانی بن میر سید علی ہمدانی کی بیٹی سے ہوئی۔ کشمیر میں تبلیغی سلسلے کے سربراہ میر سید علی ہمدانی کے بعد ان کے فرزند میر سید محمد ہمدانی تھے۔ انھوں نے سید محمد موسوی جو سید حیدر موسوی کے فرزند تھے، کو تبلیغ کے لیے تبت اور کاشغر روانہ کیا۔ تبلیغ ہی کے راستے میں اپنے باپ کی طرح وہ بھی کفار کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ انھیں مالوہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ سید محمد کے بیٹے سید عبدالغنی تھے۔ وہ بہت بڑے عارف تھے، انھیں لوگ قدوۃ المرتاضین اور سراج الملۃ والحق کے القاب سے یاد کرتے تھے۔

سید عبدالغنی کو اللہ نے تین فرزند عطا کیے، جن کے نام یہ ہیں: سید عبداللہ، سید حسین اور سید حسن۔ ان میں سے سید عبداللہ بڑے عالم تھے، ان کی ایک کتاب "انوار الہدیٰ” کا ذکر ملتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مل کر تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ سید عبدالغنی کے دوسرے دو بیٹے سید حسین موسوی اور سید حسن موسوی یکے بعد دیگرے اپنے بزرگوں کی طرح خدمت اسلام کے راستے میں مقام شہادت پر فائز ہوئے۔ ان میں سے سید حسن امام خمینی کے اجداد میں سے ہیں۔ سید حسن عقلی و نقلی علوم کے جامع تھے۔ ان کا شمار اپنے دور کے بڑے علماء و عرفاء میں ہوتا ہے۔ ان کے دو بیٹے سید نوروز اور سید باقر تھے۔ یہ دونوں بھی اپنے آبائے کرام کی طرح تبلیغ اسلام کرتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ ان میں سے سید نوروز امام خمینیؒ کے جد اعلیٰ ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام خمینیؒ کے اجداد تمام تر مصیبتیں جھیلتے ہوئے اور یکے بعد دیگرے شہادت کے مقام پر فائز ہونے کے باوجود اسلام کی تبلیغ کرتے رہے۔ آج اس سارے خطے میں اسلام موجود ہے تو وہ انہی عظیم المرتبت شہداء کی عزیمت، جدوجہد اور قربانیوں کی بدولت ہے۔

امام خمینی کے جد اعلیٰ سید ہادی کا مرتب کردہ شجرۂ نسب
سید نوروز کے بیٹے سید ہادی موسوی نے اپنا شجرۂ نسب مرتب کیا، جو امام موسیٰ کاظمؑ تک پہنچتا تھا۔ یہ شجرۂ نسب انھوں نے حاکم کشمیر نواب محمد ابراہیم کے حوالے کیا۔ اس شجرۂ نسب کے ساتھ انھوں نے خط کوفی میں لکھا ہوا قرآن مجید بھی حاکم کشمیر کو ہدیہ کیا۔

سید ہادی کی اولاد، علم و فضل اور خدمات
سید ہادی کی رحلت کے بعد ان کے فرزند سید یحییٰ موسوی دولت آباد میں مقیم ہوئے۔ زہد و تقویٰ میں ان کی بڑی شہرت تھی۔ ان کے ایک فرزند سید حسن تھے، جو آقا حسین کے نام سے معروف ہوئے۔ ان کی متعدد کتب یاد گار ہیں، جن میں شرح قانون بو علی سینا اور ریاض الامۃ شامل ہیں۔ ان کے دو فرزند تھے، ایک حکیم سید امیر الدین اور دوسرے سید ہادی۔ امام خمینی حکیم سید امیر الدین کی اولاد و اخلاف میں سے ہیں۔ سید امیر الدین بھی بہت بڑے عالم تھے۔ علم و حکمت میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کی بھی متعدد تالیفات کا ذکر ملتا ہے۔ حکیم سید امیر الدین کے بیٹے سید صفدر تھے۔

امام خمینیؒ کے پڑدادا کی لکھنؤ آمد
1246ھ میں کشمیر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ اٹھے۔ سید صفدر اپنے دو بیٹوں سید بزرگ (دین علی شاہ) اور سید عبداللہ کے ہمراہ دولت آباد سے لکھنؤ چلے گئے۔ سید عبداللہ بڑے عالم اور لائق و فائق شخصیت تھے۔ یہاں تک کہ وہ لکھنؤ کے نواب واجد علی شاہ کے استاد مقرر ہوئے۔

سید احمد موسوی کی شادی اور ہندوستان سے ہجرت
سید بزرگ کے پانچ بیٹے تھے، وہ بھی طبابت اور علم کے دیگر شعبوں میں نامور ہوئے۔ سید بزرگ ایک مرتبہ پھر اپنے بڑے فرزند سید احمد کے ہمراہ کشمیر آئے۔ اسی دوران میں انھوں نے اپنے ایک ایرانی تاجر دوست کی بیٹی سے سید احمد کی شادی کر دی۔ سید بزرگ کی رحلت کا ذکر سطور بالا میں ہم کرچکے ہیں۔ کشمیر میں پیش آنے والے واقعے کے بعد سید احمد اپنے والد محترم سید بزرگ کے ساتھ جو زخمی تھے، لکھنو لوٹ آئے، جہاں ان کی رحلت ہوئی۔ انھیں کولہ کنج میں سپرد خاک کیا گیا۔ اس کے بعد سید احمد جنھیں سید احمد ہندی کہا جاتا ہے، نجف اشرف تشریف لے گئے اور وہیں ان کی ملاقات خمین کے یوسف خان سے ہوئی، جس کے بعد وہ ان کی خواہش پر آج کے ایران کے عالمگیر شہرت کے حامل شہر خمین جا پہنچے۔ وہیں انھوں نے دوسری شادی کی، جس کے نتیجے میں امام خمینیؒ کے والد سید مصطفیٰ پیدا ہوئے۔ یوں ایک سابق ایرانی خاندان نے پھر سے ایرانی شہریت حاصل کر لی۔ خمین کا نام سید احمد کے عظیم المرتبت پوتے امام سید روح اللہ موسوی الخمینی کی نسبت ہی سے عالمی سطح پر پہچانا گیا۔

امام خمینیؒ کے والد سید مصطفیٰ موسوی
امام خمینیؒ کے والد سید مصطفیٰ موسوی خمینی29 رجب 1278ھ کو خمین میں پیدا ہوئے، بعدازاں اسی گھر میں امام سید روح اللہ خمینی بھی پیدا ہوئے۔ امام کے والد مصطفیٰ خمینی 8 برس اپنے والد سید احمد موسوی المعروف ہندی کے زیر شفقت خمین میں رہے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اصفہان چلے گئے۔ وہاں سے کسب علم کے لیے 27 برس کی عمر میں نجف اشرف تشریف لے گئے اور شب و روز کی محنت سے درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ آپ آیت اللہ مرزا شیرازی کے ہم عصر تھے۔ نجف اشرف سے خمین واپس آکر دینی امور میں مشغول ہوگئے۔ ان کے تین بیٹوں میں سے ایک نور الدین بھی تھے، جنھیں آغا نور الدین ہندی کہا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہندی انھیں ان کے دادا سید احمد ہی کی مناسبت سے کہا جاتا تھا کہ انھوں نے ہندوستان سے نجف اشرف کے راستے خمین کی طرف ہجرت کی۔

امام خمینیؒ کے والد، خدمات اور شہادت
امام خمینیؒ کے والد جہاں دینی امور میں لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے، وہاں ان کی مشکلات میں بھی ہمیشہ ان کی مدد کے لیے آمادہ رہتے۔ اس علاقے کے سرداروں اور وڈیروں کے ظلم و استبداد سے بھی مظلوموں کو بچانے کے لیے ہمیشہ کمر بستہ رہتے۔ اسی سلسلے میں خمین کے ظالم سرداروں کی شکایت کے لیے اور ان سے لوگوں کو بچانے کی غرض سے ایک موقع پر وہ قریب کے ایرانی مرکزی شہر اراک روانہ ہوئے۔ خمین کے سرداروں کے علم میں تھا کہ وہ وہاں جا کر حاکم اراک سے ان کی شکایت کریں گے، لہٰذا انھوں نے آیت اللہ سید مصطفیٰ خمینی کو اراک جانے سے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ کمر بستہ رہے اور اراک روانہ ہوگئے۔ راستے میں سرداروں نے انھیں شہید کروا دیا۔ ان کا جنازہ اراک لے جایا گیا، جہاں امانتاً دفن کر دیا گیا، بعدازاں ان کی وصیت کے مطابق پیکر شہید کو نجف اشرف لے جایا گیا اور امام علیؑ کے جوار میں وادی السلام میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

امام خمینی نے اپنے بڑے بیٹے کا نام اپنے والد ہی کے نام کی مناسبت سے مصطفیٰ رکھا، جنھیں بعدازاں شاہ ایران کے ایجنٹوں نے نجف اشرف میں شہید کر دیا۔ والد کی شہادت کے وقت امام روح اللہ خمینیؒ کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہ تھی۔ امام خمینیؒ اور ان کے بہن بھائیوں کو والد کی شہادت کے بعد ان کی پھوپھی صاحب خانم نے پالا۔ انھوں نے اپنے بھائی کے بہیمانہ قتل کا قصاص لینے کے لیے باقاعدہ مقدمہ لڑا۔ اس مقصد کے لیے انھیں کئی بار تہران کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ وہ ایک بہت مدبر، منتظم، باصلاحیت، با ایثار اور با عزم خاتون تھیں۔ آخر کار قاتلوں سے قصاص لے کر رہیں۔

محققین کو دعوت
جہاں تک ہمارے علم میں ہے، امام خمینیؒ کے خاندانی پس منظر پر اردو زبان میں یہ نسبتاً پہلا تفصیلی مضمون ہے، لیکن یہ بھی آپ کے خاندان کے بارے میں تفصیل کا اجمال ہے۔ اس کا مقصد محققین کے لیے راستہ کھولنا اور اس سلسلے میں مزید کام کے لیے دعوت دینا ہے۔ اس سلسلے میں ہم مقبوضہ کشمیر میں موجود کاظمی سادات کی خدمت میں خصوصی درخواست کرتے ہیں کہ وہ امام خمینیؒ کے خاندان کے بارے میں مزید تفصیلات بہم پہنچائیں۔ اس بارے میں کچھ ریکارڈ ایران کے متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہے لیکن وہ نہایت ناکافی ہے۔ امام خمینیؒ کے آبائو اجداد نے تبلیغ اسلام کے لیے کشمیر اور اس کے گرد و نواح میں جو خدمات انجام دی ہیں، ان کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے۔

مزید تفصیلات کے لیے مندرجہ ذیل لنکس پر نظر ڈالیں۔
https://www.jamaran.news/%D8%A8%D8%AE%D8%B4-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-431/1503667-%D8%A7%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AA-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%B4%D8%AC%D8%B1%D9%87-%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%A7%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D9%86

https://www.jamaran.news/%D8%A8%D8%AE%D8%B4-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-431/1498064-%D9%BE%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C-%D8%B2%D9%86%D8%AF%DA%AF%DB%8C%D9%86%D8%A7%D9%85%D9%87-%D9%86%D8%AD%D9%88%D9%87-%D8%B4%D9%87%D8%A7%D8%AF%D8%AA

https://fa.wikipedia.org/wiki/%D8%AA%D8%A8%D8%A7%D8%B1_%D8%B3%DB%8C%D8%AF_%D8%B1%D9%88%D8%AD%E2%80%8C%D8%A7%D9%84%D9%84%D9%87_%D8%AE%D9%85%DB%8C%D9%86%DB%8C