کیا امام خمینیؒ کشمیری تھے؟
تحریر: ثاقب اکبر
حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے بارے میں یہ سوال ہم ایک عرصے سے سنتے آئے ہیں تو کیا وہ کشمیری یا ہندی (ہندوستانی) تھے۔ یہ سوال اس وقت بھی اٹھایا گیا، جب آپ اسلامی تحریک کی قیادت کر رہے تھے۔ سابق شاہ ایران اور اس کے حواری بھی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے یہ بات کرتے تھے کہ امام خمینی ایرانی الاصل نہیں ہیں بلکہ وہ ہندی یا کشمیری ہیں۔ آئیے امام خمینیؒ کی 32ویں برسی کے موقع پر اس سوال کا قدرے تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔
اسلام سرحدوں سے ماورا ہے
پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ خود امام خمینی کے بقول ’’اسلام مرز را نمی شناسد‘‘ یا ’’اسلام مرز ندارد۔‘‘ یعنی اسلام کسی سرحد کو نہیں جانتا یا اسلام کے لیے کوئی سرحد نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ عراق سے طویل جلاوطنی کے بعد، وہاں سے نکلے تو کویت کی سرحد پر پہنچے، وہاں ان سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کیا گیا تو امام خمینیؒ نے اس کلمہ کی تلاوت کی: ’’لا الہ الا للّٰہ محمد رسول اللہ۔‘‘ گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ میں ایک اسلامی ملک سے دوسرے اسلامی ملک میں داخل ہو رہا ہوں تو میری شناخت یہی کلمہ ہے، کسی اور شناخت کی ضرورت نہیں۔ خدا کرے کہ ایک ایسا دور آجائے کہ ایک مسلمان ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے یہی شناخت کفایت کر جائے۔
امام خمینیؒ کے برادر بزرگ کی گواہی
اب آتے ہیں اپنے پیش نظر سوال کی طرف۔ امام خمینی ؒکے برادر بزرگ آیت اللہ سید مرتضیٰ پسندیدہ موسوی اپنے آباء اور سلسلۂ نسب کے بارے میں کہتے ہیں: ’’جد اعلای ما ’’سید بزرگ‘‘ ملقب به ’’دین شاه‘‘ از سادات هند بوده و در کشمیر سکونت داشته است و کلمه ’’شاه‘‘ پس از نام ایشان به معنی سید است۔ پدر بزرگ ما مرحوم سید احمد معرف به سید احمد هندی به شهادت اوراق قباله جات موجود فرزند دین علیشاه است۔۔۔۔ ایشان بین سالهای 1240 و 1250 قمری از مسقط الرأس خود در هند و کشمیر به عتبات عالیات به قصد زیارت و یا جلای وطن مسافرت کردند و شاید به مناسبت فرار از ما لایطاق و قدرت دولت انگلیس ترک موطن خود را ترجیح داده باشند۔‘‘
’’ہمارے جد اعلی ’سید بزرگ‘ جن کا لقب ’دین شاہ‘ ہے، سادات ہند سے تعلق رکھتے تھے اور کشمیر میں رہتے تھے۔ لفظ ’شاہ‘ جو ان کے نام کے بعد آیا ہے، ’سید‘ کے معنی میں ہے۔ ہمارے دادا مرحوم سید احمد المعروف سید احمد ہندی جو سرکاری دستاویزات کی گواہی کے مطابق دین علی شاہ کے بیٹے ہیں۔۔۔ انھوں نے 1240 تا 1250 ہجری قمری کے دوران میں کسی وقت ہندوستان اور کشمیر میں اپنی جنم بھومی سے عتبات عالیہ کی زیارت کے لیے یا جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے سفر اختیار کیا اور شاید تنگ دستی کی مشکلات اور انگریز حکومت کے اقتدار کے باعث ترک وطن کو ترجیح دی۔‘‘
ہماری رائے یہ ہے کہ سید احمد کے والد محترم کا نام دین علی شاہ ہی تھا، کیونکہ برصغیر میں سادات کے نام اسی طرح رکھے جاتے ہیں اور عوام اسی انداز سے انھیں پکارتے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ “شاہ” کا لفظ “سید” کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ “سید بزرگ” انھیں احترام کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور آج بھی سادات کے بزرگوں کو اس طرح کے القاب سے پکارا جاتا ہے اور یہ بات ہمارے ہاں رواج سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔
سید احمد موسوی کی ہندوستان سے ہجرت کا پس منظر
ہجرت کا کچھ پس منظر آیت اللہ پسندیدہؒ کے بیان میں آچکا ہے، ہم کچھ مزید وضاحت کرتے ہیں: ایک روایت کے مطابق “سید بزرگ” کی لکھنؤ میں ایک ایرانی تاجر سے دوستی ہوگئی۔ سید احمد کی شادی اس ایرانی تاجر کی دختر سے ہوئی۔ لکھنؤ سے وہ ایک مرتبہ پھر کشمیر گئے اور وہاں سے پھر ہمیشہ کے لیے ایران چلے گئے۔ کشمیر میں فرقہ وارانہ اختلافات پھوٹ پڑے۔ تکفیریوں نے سرینگر میں سات سو سے زیادہ شیعوں کے گھر جلا دیے۔ “سید بزرگ” بھی ان فسادات میں زخمی ہوگئے، وہاں سے انھیں لکھنؤ لایا گیا، جہاں وہ وفات پا گئے اور انھیں لکھنؤ ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خاندان کے لیے اب کشمیر میں رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ دوسری طرف ایک ایرانی تاجر کے ذریعے ان کی عزیزداری ایک ایرانی خاندان سے قائم ہوچکی تھی۔ بعید نہیں کہ اسی خاندان نے انھیں عتبات عالیہ کی طرف ہجرت کی تجویز دی ہو نیز سید احمد سے نجف اشرف میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہا ہو۔ جہاں پہلے ہی عربوں کے علاوہ ایرانی اور ہندی طلاب موجود تھے۔
نجف اشرف سے ایران کی طرف مراجعت
جیسا کہ آیت اللہ پسندیدہ کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ 1240 تا 1250ھ کے دوران میں سید احمد عتبات عالیہ پہنچے۔ وہاں انھوں نے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہاں ان کی ملاقات یوسف خان ولد محمد حسین سے ہوئی، جو ایران کے صوبہ اصفہان کے شہر خمین کے نزدیک ایک گائوں فرفاہان کے رہنے والے تھے۔ یوسف خان نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے علاقے میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے، ان کے ہاں تشریف لے چلیں۔ سید احمد نے ان کی درخواست قبول کرلی اور خمین تشریف لے گئے۔ سید احمد نے یوسف خان کی بیٹی سے دوسری شادی کی، جن سے سید مصطفیٰ پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی سے ان کا بیٹا سید مرتضیٰ تھا، جو خمین میں حفظان صحت کے شعبے میں مامور ہوا۔ البتہ وہ جوانی ہی میں وفات پا گیا۔ امام خمینیؒ سید احمد کے چھوٹے فرزند سید مصطفیٰ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ امام خمینیؒ کے خاندان کے بارے میں لکھنے والوں میں سے بعض کی رائے ہے کہ سید احمد کی دونوں شادیاں ایران میں ہوئیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ چونکہ ان کی دونوں ازواج ایرانی تھیں، اس لیے یہ اشتباہ پیدا ہوا ہے، ورنہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سید مرتضیٰ جو سید احمد کی پہلی بیوی سے تھے، باقی اولاد سے عمر میں بڑے تھے۔
امام خمینیؒ کے بزرگ کشمیر کب اور کیوں گئے؟
یہاں سے نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ سید دین علی شاہ کے آباء کشمیر میں کب اور کہاں سے پہنچے۔ نیز ان کی کشمیر کی طرف ہجرت کے مقاصد کیا تھے۔ ایران کی سرکاری دستاویزات کے مطابق امام خمینی کے اجداد کا تعلق نیشا پور سے تھا۔ امام کے تیرھویں جد اعلی سید حیدر موسوی اردبیلی کردی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ ان کی ہجرت کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے: سید حیدر موسوی معروف عالم، مبلغ اور عارف میر سید علی ہمدانی کے بھانجے اور داماد تھے۔ انہی کے فرمان پر انھوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ میر سید علی ہمدانی نے ایک وفد تشکیل دیا اور سید حیدر موسوی کو اس کا سربراہ بنایا اور تبلیغ اسلام کے لیے کشمیر روانہ کر دیا۔ سید حیدر موسوی خود بھی ایک عالم اور عارف تھے۔ ان کی دو تالیفات کا ذکر ملتا ہے ایک “نفحۃالعرفان” جو عرفان کے موضوع پر تھی اور دوسری “ہدایۃ المستشرقین” جو عقائد کے موضوع پر تبلیغی مقاصد کے لیے لکھی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ خود امام خمینی کے بقول ’’اسلام مرز را نمی شناسد‘‘ یا ’’اسلام مرز ندارد۔‘‘ یعنی اسلام کسی سرحد کو نہیں جانتا یا اسلام کے لیے کوئی سرحد نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ جب وہ عراق سے طویل جلاوطنی کے بعد، وہاں سے نکلے تو کویت کی سرحد پر پہنچے، وہاں ان سے پاسپورٹ اور ویزا طلب کیا گیا تو امام خمینیؒ نے اس کلمہ کی تلاوت کی: ’’لا الہ الا للّٰہ محمد رسول اللہ۔‘‘ گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ میں ایک اسلامی ملک سے دوسرے اسلامی ملک میں داخل ہو رہا ہوں تو میری شناخت یہی کلمہ ہے، کسی اور شناخت کی ضرورت نہیں۔ خدا کرے کہ ایک ایسا دور آجائے کہ ایک مسلمان ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے یہی شناخت کفایت کر جائے۔
امام خمینیؒ کے برادر بزرگ کی گواہی
اب آتے ہیں اپنے پیش نظر سوال کی طرف۔ امام خمینی ؒکے برادر بزرگ آیت اللہ سید مرتضیٰ پسندیدہ موسوی اپنے آباء اور سلسلۂ نسب کے بارے میں کہتے ہیں: ’’جد اعلای ما ’’سید بزرگ‘‘ ملقب به ’’دین شاه‘‘ از سادات هند بوده و در کشمیر سکونت داشته است و کلمه ’’شاه‘‘ پس از نام ایشان به معنی سید است۔ پدر بزرگ ما مرحوم سید احمد معرف به سید احمد هندی به شهادت اوراق قباله جات موجود فرزند دین علیشاه است۔۔۔۔ ایشان بین سالهای 1240 و 1250 قمری از مسقط الرأس خود در هند و کشمیر به عتبات عالیات به قصد زیارت و یا جلای وطن مسافرت کردند و شاید به مناسبت فرار از ما لایطاق و قدرت دولت انگلیس ترک موطن خود را ترجیح داده باشند۔‘‘
’’ہمارے جد اعلی ’سید بزرگ‘ جن کا لقب ’دین شاہ‘ ہے، سادات ہند سے تعلق رکھتے تھے اور کشمیر میں رہتے تھے۔ لفظ ’شاہ‘ جو ان کے نام کے بعد آیا ہے، ’سید‘ کے معنی میں ہے۔ ہمارے دادا مرحوم سید احمد المعروف سید احمد ہندی جو سرکاری دستاویزات کی گواہی کے مطابق دین علی شاہ کے بیٹے ہیں۔۔۔ انھوں نے 1240 تا 1250 ہجری قمری کے دوران میں کسی وقت ہندوستان اور کشمیر میں اپنی جنم بھومی سے عتبات عالیہ کی زیارت کے لیے یا جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے سفر اختیار کیا اور شاید تنگ دستی کی مشکلات اور انگریز حکومت کے اقتدار کے باعث ترک وطن کو ترجیح دی۔‘‘
ہماری رائے یہ ہے کہ سید احمد کے والد محترم کا نام دین علی شاہ ہی تھا، کیونکہ برصغیر میں سادات کے نام اسی طرح رکھے جاتے ہیں اور عوام اسی انداز سے انھیں پکارتے ہیں اور یہ بات درست ہے کہ “شاہ” کا لفظ “سید” کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ “سید بزرگ” انھیں احترام کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور آج بھی سادات کے بزرگوں کو اس طرح کے القاب سے پکارا جاتا ہے اور یہ بات ہمارے ہاں رواج سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتی ہے۔
سید احمد موسوی کی ہندوستان سے ہجرت کا پس منظر
ہجرت کا کچھ پس منظر آیت اللہ پسندیدہؒ کے بیان میں آچکا ہے، ہم کچھ مزید وضاحت کرتے ہیں: ایک روایت کے مطابق “سید بزرگ” کی لکھنؤ میں ایک ایرانی تاجر سے دوستی ہوگئی۔ سید احمد کی شادی اس ایرانی تاجر کی دختر سے ہوئی۔ لکھنؤ سے وہ ایک مرتبہ پھر کشمیر گئے اور وہاں سے پھر ہمیشہ کے لیے ایران چلے گئے۔ کشمیر میں فرقہ وارانہ اختلافات پھوٹ پڑے۔ تکفیریوں نے سرینگر میں سات سو سے زیادہ شیعوں کے گھر جلا دیے۔ “سید بزرگ” بھی ان فسادات میں زخمی ہوگئے، وہاں سے انھیں لکھنؤ لایا گیا، جہاں وہ وفات پا گئے اور انھیں لکھنؤ ہی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خاندان کے لیے اب کشمیر میں رہنا مشکل ہوگیا تھا۔ دوسری طرف ایک ایرانی تاجر کے ذریعے ان کی عزیزداری ایک ایرانی خاندان سے قائم ہوچکی تھی۔ بعید نہیں کہ اسی خاندان نے انھیں عتبات عالیہ کی طرف ہجرت کی تجویز دی ہو نیز سید احمد سے نجف اشرف میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہا ہو۔ جہاں پہلے ہی عربوں کے علاوہ ایرانی اور ہندی طلاب موجود تھے۔
نجف اشرف سے ایران کی طرف مراجعت
جیسا کہ آیت اللہ پسندیدہ کی روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ 1240 تا 1250ھ کے دوران میں سید احمد عتبات عالیہ پہنچے۔ وہاں انھوں نے دینی تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ وہاں ان کی ملاقات یوسف خان ولد محمد حسین سے ہوئی، جو ایران کے صوبہ اصفہان کے شہر خمین کے نزدیک ایک گائوں فرفاہان کے رہنے والے تھے۔ یوسف خان نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کے علاقے میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے، ان کے ہاں تشریف لے چلیں۔ سید احمد نے ان کی درخواست قبول کرلی اور خمین تشریف لے گئے۔ سید احمد نے یوسف خان کی بیٹی سے دوسری شادی کی، جن سے سید مصطفیٰ پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی سے ان کا بیٹا سید مرتضیٰ تھا، جو خمین میں حفظان صحت کے شعبے میں مامور ہوا۔ البتہ وہ جوانی ہی میں وفات پا گیا۔ امام خمینیؒ سید احمد کے چھوٹے فرزند سید مصطفیٰ کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ امام خمینیؒ کے خاندان کے بارے میں لکھنے والوں میں سے بعض کی رائے ہے کہ سید احمد کی دونوں شادیاں ایران میں ہوئیں۔ ہماری رائے یہ ہے کہ چونکہ ان کی دونوں ازواج ایرانی تھیں، اس لیے یہ اشتباہ پیدا ہوا ہے، ورنہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ سید مرتضیٰ جو سید احمد کی پہلی بیوی سے تھے، باقی اولاد سے عمر میں بڑے تھے۔
امام خمینیؒ کے بزرگ کشمیر کب اور کیوں گئے؟
یہاں سے نیا سوال پیدا ہوتا ہے کہ سید دین علی شاہ کے آباء کشمیر میں کب اور کہاں سے پہنچے۔ نیز ان کی کشمیر کی طرف ہجرت کے مقاصد کیا تھے۔ ایران کی سرکاری دستاویزات کے مطابق امام خمینی کے اجداد کا تعلق نیشا پور سے تھا۔ امام کے تیرھویں جد اعلی سید حیدر موسوی اردبیلی کردی وہ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ ان کی ہجرت کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے: سید حیدر موسوی معروف عالم، مبلغ اور عارف میر سید علی ہمدانی کے بھانجے اور داماد تھے۔ انہی کے فرمان پر انھوں نے کشمیر کی طرف ہجرت کی۔ میر سید علی ہمدانی نے ایک وفد تشکیل دیا اور سید حیدر موسوی کو اس کا سربراہ بنایا اور تبلیغ اسلام کے لیے کشمیر روانہ کر دیا۔ سید حیدر موسوی خود بھی ایک عالم اور عارف تھے۔ ان کی دو تالیفات کا ذکر ملتا ہے ایک “نفحۃالعرفان” جو عرفان کے موضوع پر تھی اور دوسری “ہدایۃ المستشرقین” جو عقائد کے موضوع پر تبلیغی مقاصد کے لیے لکھی گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Share this content: