امام حسین علیہ السلام مولانا طارق جمیل کی نظر میں(2)
پاکستان کے انتہائی معروف خطیب اور مبلغ مولانا طارق جمیل کی نگرانی اور سرپرستی میں کچھ عرصہ پہلے ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اس میں انھوں نے اہل بیت رسالت کے فضائل اور تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوتھے باب کی ایک فصل امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ اس باب میں امام حسینؑ کے بارے میں موجود مطالب کا ایک انتخاب ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ پہلی قسط میں کتاب کا پس منظر امام حسن و حسینؑ کے مشترکہ فضائل، امام حسین علیہ السلام کا بچپن اور چند دیگر مطالب اس کتاب سے پیش کیے ہیں۔ ذیل میں کچھ مزید مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں، جو واقعۂ کربلا کے پس منظر کے بیان سے شروع ہوتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ سانحہ کربلا کا پس منظر اور واقعات کتاب میں قدرے تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ کوفہ میں امام حسینؑ کے نمائندہ خصوصی حضرت مسلم بن عقیلؑ کی جواں مردی اور پھر مظلومانہ شہادت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح سے مکہ مکرمہ سے قافلہ حسینی کی روانگی کے موقع پر پیش آنے والے بعض واقعات بھی سپرد قلم کیے گئے ہیں۔ حضرت علی ؑ کے بھتیجے اور داماد حضرت عبداللہ بن جعفرؑ کے بارے میں لکھا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو جب آپؓ کی روانگی کا علم ہوا تو انھوں نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں حضرت حسینؓ کو خط روانہ کیا، جس میں ان کو مکہ واپسی کا مشورہ دیا۔ جب یہ خط حضرت حسینؓ کو پہنچایا گیا تو آپ نے اپنے اس عزم کوفہ کو اسی طرح برقرار رکھا اور اپنے اس عزم کی ایک اور وجہ بھی بیان کی کہ میں نے رسول اللہﷺ کو خواب میں دیکھا ہے۔ مجھے آپﷺ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے، میں اس حکم کی بجا آوری کی طرف جارہا ہوں، خواہ مجھ پر کچھ بھی گزر جائے۔ (گلدستہ اہل بیتؑ: ص ۳۴۹) کوفہ کے قریب پہنچ کر امام حسینؑ کا سامنا حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ہوا۔ اس کے حوالے سے لکھتے ہیں: حُر نے کہا: مجھے آپ سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ یہ حکم ہے کہ میں آپ سے اس وقت تک جدا نہ ہوں، جب تک آپ کو کوفہ نہ پہنچا دوں۔ حُر مع اپنے لشکر کے، حضرت حسینؓ کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔اسی اثناء میں حضرت حسینؓ نے ایک اہم تقریر کی، جو حضرت حسینؓ کے اس سفر کوفہ کی غرض واضح کرتی ہے، چنانچہ آپؓ نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا: أَیُّهَا النّاسُ؛ إِنَّ رَسُولَ اللّهِ(صلى الله علیه وآله) قالَ: «مَنْ رَأى سُلْطاناً جائِراً مُسْتَحِلاًّ لِحُرُمِ اللهِ، ناکِثاً لِعَهْدِ اللهِ، مُخالِفاً لِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ، یَعْمَلُ فِی عِبادِاللهِ بِالاِثْمِ وَ الْعُدْوانِ فَلَمْ یُغَیِّرْ عَلَیْهِ بِفِعْل، وَ لاَ قَوْل، کانَ حَقّاً عَلَى اللهِ أَنْ یُدْخِلَهُ مَدْخَلَهُ». ألا وَ إِنَّ هؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طاعَةَ الشَّیْطانِ، وَ تَرَکُوا طاعَةَ الرَّحْمنِ، وَ اَظْهَرُوا الْفَسادَ، وَ عَطَّلُوا الْحُدُودَ وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَیءِ، وَ أَحَلُّوا حَرامَ اللّهِ، وَ حَرَّمُوا حَلالَہُ۔۔۔ “اے لوگو! رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے، جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے افعال و اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ) میں پہنچا دے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ یزید اور اس کے امراء و حکام نے شیطان کی پیروی کو اختیار کر رکھا ہے، رحمن کی اطاعت کو چھوڑ رکھا ہے، زمین میں فساد پھیلا دیا ہے، حدود الٰہیہ کو معطل کر دیا ہے، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا ہے اور اللہ کے حرام کو حلال اور حلال کو حرام ٹھہرا رکھا ہے۔۔۔‘‘(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۰)
معرکۂ کربلا کی تاریخ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ لشکر یزید کا سپہ سالار عمر بن سعد آپ سے مذاکرات کرتا رہا اور اس کی خبر کوفہ میں یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو دیتا رہا، لیکن بالآخر ابن زیاد نے شمر ابن ذی الجوشن کے ہاتھ عمر ابن سعد کے نام ایک مکتوب روانہ کیا۔ کتاب میں اس مکتوب کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’اما بعد! میں نے تمھیں اس لیے نہیں بھیجا کہ تم جنگ سے بچو، یا ان کو مہلت دو، یا ان کی سفارش کرو۔ سنو! اگر حسین اور ان کے ساتھی میرے ہی حکم پر صلح کرنا اور میرے پاس حاضر ہونا چاہتے ہیں تو ان کو صحیح سالم یہاں پہنچا دو، ورنہ ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ ان کو قتل کر دو۔ مُثلہ کرو (یعنی۔ نعوذ باللہ۔ ان کے ناک، کان، ہاتھ، پائوں کاٹ دو) کیونکہ وہ اس کے مستحق ہیں اور پھر قتل کے بعد ان کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند ڈالو۔ اگر تم نے ہمارے اس حکم کی تعمیل کی تو تم کو ایک فرمانبردار کی طرح انعام ملے گا اور اگر اس کی تعمیل نہیں کرتے تو ہمارے لشکر کو فوراً چھوڑ دو اور چارج شمر کے سپرد کردو۔ والسلام۔‘‘ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۲)
امام حسینؑ لشکر یزید کے سامنے آئے اور بقول مصنف ’’دشمن کی فوج کو مخاطب کرکے ایک درد انگیز اور دلوں کو ہلا دینے والی تقریر کی۔‘‘ اس تقریر کا ایک اقتباس ان الفاظ میں درج کیا گیا ہے: “اے لوگو! تم میرا نسب دیکھو، میں کون ہوں؟ پھر اپنے دلوں میں نگاہ ڈالو: کیا تمھارے لیے جائز ہے کہ تم مجھے قتل کرو اور میری عزت پر ہاتھ ڈالو؟ کیا میں تمھارے نبیﷺ کی صاحبزادی سلام اللہ و رضوانہ علیہا کا بیٹا نہیں ہوں؟ کیا یہ مشہور حدیث تمھیں معلوم نہیں ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھے اور میرے بھائی حسنؓ کو جنت کے نوجوانوں کا سردار فرمایا ہے؟” (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۳و۳۵۴) شہدائے کربلا میں سے مختلف شخصیات کا ذکر کرنے کے بعد امام حسینؑ کی شہادت کو ان الفاظ میں بیان کو گیا ہے: اس کے بعد شمر دس آدمی ساتھ لے کر حضرت حسینؓ کی طرف بڑھا (کہ عمر بن سعد نے شمر کو لشکر کے بائیں حصے کا امیر مقرر کر رکھا تھا)۔
آپؓ کی جب اس پر نظر پڑی تو فرمایا: اللہ اور اس کے رسولﷺ سچ فرماتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: كَأَنّي أنظُرُ إلى كَلبٍ أبقَعَ يَلَغُ في دِماءِ أهلِ بَيتي’’ گویا میں ایک دھبے دار جسم والے کتے کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ میرے اہل بیت کا خون پی رہا ہے۔‘‘(بدبخت شمر کو برص کی بیماری تھی، جس سے جسم پر سفید دھبے بن جاتے ہیں)۔ حضرت حسینؓ شدید پیاس اور اپنے زخموں کے باوجود ان کا دلیرانہ مقابلہ کر رہے تھے اور جس طرف بڑھتے تو یہ لوگ ایسے بھاگتے نظر آتے تھے، جیسے شیر کے سامنے بکریاں بھاگتی ہیں۔ اہل تاریخ نے کہا ہے کہ یہ ایک بے مثل واقعہ ہے کہ جس شخص کی اولاد اور اہل خانہ قتل کر دیے گئے ہوں، خود اس کو شدید زخم لگے ہوں اور وہ شدت پیاس کے باوجود پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم ہو اور وہ اس حالت میں اس طرح ثابت قدمی سے مقابلہ کر رہا ہے کہ جس طرف رخ کرتا ہے، مسلح سپاہی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگنے لگتے ہیں۔ شمر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت حسینؓ کو قتل کرنے سے ہر شخص بچنا چاہتا ہے تو آواز دی کہ سب مل کر اکٹھے حملہ کرو۔ اس پر بہت سے بدنصیب آگے بڑھے، نیزوں اور تلواروں سے ایک دم اکٹھے حملہ کیا اور رسول اللہﷺ کے اس صاحبزادے اور اس وقت کی روئے زمین کی سب سے عظیم ہستی نے ظالموں کا دلیرانہ مقابلہ کرتے ہوئے حق کی خاطر جان دے دی اور شہید ہوگئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۵۵و۳۵۶)
امام حسینؑ کے فضائل کے حصے میں متعدد احادیث نقل کی گئی ہیں۔ چند ایک ملاحظہ کیجیے:
۱۔ حُسَیْنُ مِنّی وأنا مِنَ الحسین، أحَبَّ اللہُ مَنْ أحَبَّ حُسَیْنًا، حُسَینٌ سِبطٌ مِنَ الا سباطِ ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں(یعنی حسین کا مجھ سے گہرا تعلق ہے)۔ اللہ اس سے محبت کرے، جو حسین سے محبت کرے۔ حسین (میرا خاص) نواسہ ہے۔”(بحوالہ:سنن ابن ماجہ:۱/۵۱)
۲۔ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک لایا گیا، تو وہ بدبخت آپؓ کے سر کو ایک ’’طشت‘‘میں رکھ کر اسے چھڑی سے کریدنے لگا اور آپؓ کے حسن و جمال کے بارے میں کوئی نازیبا بات بھی کہی۔ مشہور صحابی حضرت انسؓ وہاں موجود تھے، انھوں نے جرأت کرکے اس سے کہا: ’’یہ تو حضورﷺ کے بہت مشابہ تھے۔‘‘ اس وقت حضرت امام حسینؓ کے بالوں میں ’’وسمہ‘‘ کا خضاب لگا ہوا تھا۔(بحوالہ:صحیح البخاری:۵/۲۶)
۳۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اُحِبُّہٗ فَاَ حِبَّہٗ ۔۔۔اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں، تو بھی اس سے محبت فرما۔( بحوالہ:المستدرک علی الصحیحین للحاکم:۳/۱۹۶)
۴۔ حضورؐ نے حضرت امام حسینؓ کے بارے میں فرمایا: مَنْ أَحَبَّ ھَذَا فَقَدَ أَحَبَّنِی۔ جس نے اس سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی۔(بحوالہ:مجمع الزوائد و منبع الفوائد:۹/۱۸۶ )(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۶۹و۳۷۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: اس حصے میں تمام عبارتیں جن میں قوسین کے اندر موجود عبارتیں بھی شامل ہیں، اصل کتاب سے من و عن نقل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ راقم کے مضمون کی عبارتیں واضح طور پر جدا موجود ہیں۔ حوالہ جات بھی کتاب ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ ہی سے درج کیے گئے ہیں۔
Share this content: