امیر المومنین حسن ابن علی علیہ السلام
خلافت سے شہادت تک
خواجہ شجاع عباس (مرحوم)
امام حسن مجتبیٰ کی مبارک ولادت۲ ہجری میں رمضان المبارک کی پندرہ تاریخ کو ہوئی۔ آپ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے بڑے صاحبزادے ہیں۔ آپ کا نام آپ کے نانا جان حضرت محمدؐ پیامبر خدانے حسن رکھا۔ آپ کی کنیت ابو محمد تھی۔ آپ کی ولادت کے تقریباً ایک سال بعد خاتون جنت کے ہاں ایک اورصاحبزادے کی ولادت ہوئی۔ خاتون جنت کے دوسرے صاحبزادے چونکہ امام حسن کے چھوٹے بھائی تھے اس لیے نبی اکرمؐ نے اُن کا نام حسین رکھا۔عربی میں حسین کے معنی’’ چھوٹا حسن‘‘ ہیں۔
یہ بات قابل توجہ ہے کہ نبی پاک نے خاتون جنت فاطمہ زہرا کے ان دو صاحبزادوں کے لیے کبھی بھی نواسے کا لفظ استعمال نہیںکیا۔ تمام احادیث میں انھیں نبی پاک نے میرے بیٹے کہا ہے۔
ان کی والدہ ماجدہ کی طرح ان دونوں بچوں کے ساتھ بھی امام الاانبیاء اورسید المرسلین حضرت محمدؐ کو بے انتہا محبت اور بے نظیر الفت تھی۔خداوند قدوس نے ان دونوں صاحبزادوں کے ذریعے سے ہی دنیا میں رسول پاک ؐکی نسل کو جاری رکھنا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں انتہائی نامساعد حالات میں امت کی امامت و رہبری کے فرائض انجام دینے تھے۔ حضرت محمدؐ کے بعد کسی نبی نے مبعوث نہیں ہونا تھا کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔ تاہم انسانوں کے لیے روحانی کمالات کے حصول کی خاطر رشد و ہدایت کے الٰہی سلسلے نے قیامت تک جاری رہنا تھا۔نبی پاکؐ کے یہ دونوں نواسے اپنے نانا جان رسالت مآبؐاور اپنے والد گرامی وصی الرسول علی ابن ابی طالب کے بعد، رسالت مآبؐ کی جانشینی کے مسندہدایت پر جلوہ افروز ہوئے۔دنیائے اسلام میںروحانی رشد و ہدایت کا مرکزی دھارا ان سے ہی آگے بڑھا۔ عالم ملکوت کے سالکوں اورخدا کے اولیائے مقربین کے سلاسل روحانی انہی ذوات قدسیہ کے ذریعے سے نبی محترمؐ تک رسائی پاتے ہیں۔اس حقیقت کی گواہی امت محمدیہؐ کے صاحبان حال عرفا اور باکمال صوفیا بیک زبان دیتے آئے ہیں۔
امام حسنؑ اور امام حسین ؑکی عظمت و کمالات اوررفعت درجات کا بیان خود رسالت مآبؐ کی زبان حق ترجمان سے ہوا ہے۔ آپ دونوں کے بارے میں خیر خلق اللہ محمد المصطفیٰؐ کے اس ارشاد گرامی سے کون مسلمان واقف نہ ہوگا کہ حسن اور حسین جوانانِ بہشت کے دوسردار ہیں۔ اس حدیث مبارک کو نبی پاکؐ سے حضرت حذیفہؓ ابن یمان، حضرت ابو سعید الخدریؓ، حضرت عبداللہ ؓابن عمر، حضرت عبداللہؓ ابن مسعود و غیرہ صحابہ کرامؓ نے نقل فرمایا ہے۔حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ ابن مسعود سے یہ حدیث مندرجہ ذیل عبارت کے ساتھ نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ذہبی نے بھی تلخیص میں اسے صحیح قرار دیا ہے:
عن عبداللہ قال! قال رسول اللہؐؐ ’’الحسن ولحسین سیدا شباب اھل الجنہ وابوھما خیرٌ منہا۔
عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: حسن اورحسین جوانان جنت کے سردار ہیں اوران کے والد ان سے بھی بہتر ہیں۔
حدیث کساء میں جوسرورِ عالمؐسے تواتر سے روایت کی گئی ہے میںبیان ہوا ہے کہ نبی پاکؐ نے اپنے اہل بیت کے طورپر جن چارذوات قدسیہ کو اپنے ساتھ چادر میں لپیٹ کرآیۃ تطہیر کی تلاوت کی وہ حسن و حسین اور ان کے والدین ہی تھے۔ اس لیے کائنات کے ان پانچ عظیم ترین اورافضل ترین بندگانِ خدا کو خمسۃ آلِ عبا کہا جاتا ہے۔حاکم نے مستدرک میں حضرت ام المومنین عائشہؓ سے یہ واقعہ بیان کیا اوراسے صحیح علیٰ شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ ذہبی نے بھی اسے تلخیص مستدرک میں صحیح علی شرط البخاری و مسلم قرار دیا ہے۔ اسی طرح کے واقعات بالترتیب حضرت ام المومنین ام سلمہؓ اورنبی محترمؐ کے غلام واثلہؓ ابن الاسقح سے بھی حاکم نے مستدرک اور ذہبی نے تلخیص مستدرک میں روایت کیے ہیں۔
حضرت ام سلمہؓ والی روایت کو دونوں حاکم اور ذہبی نے صحیح علی شرط البخاری اور واثلہ والی روایت کو حاکم نے صحیح علی شرط الشیخین جبکہ ذہبی نے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے۔ ان روایات کو پڑھ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی پاکؐ نے امت کو متعارف کرانے کے لیے اس واقعے کو باربار دہرایا تاکہ ان ذوات مقدسہ کے مقام کی عظمت و رفعت کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ اہلبیت کے لفظ سے اصطلاح نبوی میں کون لوگ مراد ہیں۔
پیغمبر براکرمؐ کی ایک اورتواتر سے منقول شدہ حدیث ثقلین میں آپؐ نے کتاب اللہ اوراہل بیت نبوی کو امت میں اپنے جانشین کے طور پر پیش کیا۔ تیس سے زیادہ اصحابؓ الرسولؐ سے روایت کی گئی اس حدیث میں سرورکائنات و فخر موجوداتؐ نے فرمایاہے۔
انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ واہل بیتی عترتی، واحدھم اعظم من الآخر وانھما لن یتفرقا حتیٰ یردا علیّ الحوض۔
میںتم میں دو گراں قدرچیزیں چھوڑے جارہاہوں،خدا کی کتاب اوراپنے اہل بیت وعترت۔ان دو میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کرہے۔ یہ کبھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھے مل جائیں۔
امام حسنؑ و حسینؑ کے اوربھی بہت فضائل ومناقب لسان نبوت سے بیان ہوئے ہیں۔ان کی زندگیوں کا نقشہ ایک ہی جملے میں کھینچ کر ساری داستانِ حیات بیان ہوسکتی ہے۔ اپنی سیرت وکردار میں جوانان جنت کے یہ دونوں سرداراپنے نانا رسولؐ اللہ اوروالد علی المرتضیٰ ؐکی ہوبہو تصویر تھے۔
ہم لوگ جانتے ہیں کہ امام حسن ؑکے چھوٹے بھائی امام حسین ؑنے کربلا میں باطل کے سامنے ڈٹ کر ایسی بے مثال قربانی پیش کی جس کی وجہ سے وہ ظلم و باطل کے خلاف سردھڑ کی بازی لگانے کا استعارہ بن گئے۔ اس مزاحمت کے عظیم کارنامے کو جوعاشورہ ٔ محرم کے دن 61ھ میں قرطاس تاریخ پر رقم ہوا سے مربوط براہ راست واقعات کا سلسلہ تقریباً چھ مہینے پہلے معاویہ کے مر جانے اور حسینؑ سے یزید کی طرف سے بیعت کے تقاضے سے شروع ہوتا ہے۔ شہادت کے وقت امام حسین کی عمر مبارک 55برس کے قریب تھی۔ نیرنگی سیاست اور حالات کی نزاکت کی وجہ سے امام حسینؑ کو اپنی ساری زندگی انفرادی طورپر اور خاموشی سے گزارنی پڑی۔ جب امام حسنؑ کو زہر سے شہید کرکے منظر سے ہٹایا گیا تو جاہلیت کے نمائندہ حکمران طبقے کی خلاف مزاحمت کی باگ ڈور امام حسینؑ کے ہاتھوں میں آگئی۔ انھوں نے اپنے پیش رو بھائی کی طرح کوئی نئی سیاسی سرگرمی کرنے کو موقع ومحل کے تقاضوں کے خلاف سمجھا۔ اقدام کرنے کا مطالبہ کرنے والے اپنے مخلصین کے جواب میںامام حسینؑ نے شہید بھائی کے الفاظ دہرائے اورانھیں نصیحت کی کہ وہ فاسق کی موت کا انتظار کریں۔ پھر جب وہ وقت آگیا تو امام حسین ؑ نے حالات کا جائزہ لے کر فعال تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کا نقطہ عروج اورانجام عاشورہ کے دن واقعہ کربلا کی صورت میں برآمد ہوا۔ چھ ماہ پرمشتمل یہ تحریک ہی تاریخ میں امام حسینؑ کا تعارف ثابت ہوئی۔ کربلا کے دن بلیات وآفات کا حسین ؑنے جس پامردی سے مقابلہ کیا یہ انتہائی دردناک اوردلاآویز واقعہ دنیائے اسلام کے حریت پسندوں اورانقلابیوں کے لیے حوالہ بن گیا۔
امام حسین ؑکے برادر بزرگوار امیرالمومنین حسنؑ ابن علی ؑکی تقریباً ساری کی ساری زندگی بھی بالعموم خاموشی اورگوشہ نشین میں گزری۔ پہلے اپنے والد گرامی امام علیؑ کے ساتھ مدینہ میں اورخلع خلافت کے بعد پھر سے وہ مدینہ میں ہی اپنے جدنامدار حضرت پیغمبر اکرامؐکے مزارمبارک کے جوار میں رہائش پذیر رہے۔امیرالمومنین حسنؑ نے اپنے بھائی حسینؑ کی طرح صرف چھ ماہ امت کی قیادت فعال طور پرانجام دی۔ یہ زمانہ ان کی خلافت کے مختصر دورانیہ پرمحیط ہے۔امام علی کی شہادت کے بعد دارالخلافہ کوفہ میں سابقون اولون صحابہؓ اورنبیؐ پاک اوران کے وصیؑ کے دیگر باوفا اصحاب نے امام حسنؑ کی خلیفۃ المسلمین کے طور پر بیعت کی۔
امیرالمومنین حسنؑ زمام خلافت کو ہاتھ میں لیتے ہی امام المتقین علی ابن ابی طالب کے ادھورے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہوگئے۔امام علی المرتضیٰؑ زندگی کے آخری ایام میں لوگوں کو بڑی مشکل کے بعد دوبارہ شام کے باغی گروہ کے استیصال کے لیے متحرک کرکے لشکر جرار لے کر کوچ کرنے والے ہی تھے کہ ابن ملجم کی تلوار کی ایک قاتل ضرب کی وجہ سے آپ شہادت سے سرفراز ہوئے۔ امیرالمومنین حسنؑ اپنے والد بزرگوار کی طرح امام المسلمین کی حیثیت سے باغیوں کو نابودی سے ہمکنار کرنا اپنا اولین فرض منصبی سمجھتے تھے۔ اس کی ایک جھلک ان کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ شام پر قابض باغیوں کی طرف سے جاسوسی اورفساد کرنے کے لیے بھیجے گئے دو افراد کو پکڑا گیا۔ جرم ثابت ہونے پرامیر المومنین حسنؑ ابن علیؑ نے ان کو قتل کرنے کا حکم جاری فرمایا اور ان دونوں کو جہنم رسید کیاگیا۔ امیرالمومنین حسنؑ ابن علی نے پہلی فرصت میں شام کے باغیوں پرچڑھائی کرنے کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔ سب سے پہلے مقدمۃ الجیش یعنی ہراول دستے کے طورپر بارہ ہزار افراد پرمشتمل لشکر کو روانہ کیا گیا۔ امیر المومنین حسنؑ ابن علی نے اس ہر اول دستے کا امیر اپنے چچا زاد عبیداللہ ابن عباس کو مقرر کردیااور بدری صحابی حضرت قیس ابن سعد ابن عبادہ الانصاری کو اس کے ساتھ کردیا۔ عبیداللہ کو امیرالمومنین حسنؑ ابن علی ؑنے بتاکید نصیحت کی کہ پیش آمدہ امور میں قیس سے مشاورت کیا کرے۔
عبیداللہؓ ابن عباس کو ہر اول دستے پر امیر مقرر کرنااورحضرت قیسؓ ابن سعد ابن عبادہ کو اس کے ساتھ کرنے سے بھی امیرالمومنین حسن ؑابن علی ؑکا باغیوں سے فیصلہ کن جنگ کے لیے پر عزم ہونے کی وضاحت ہوتی ہے۔ امام المتقین علیؑ ابن ابی طالب کی خلافت کے دوران لڑی گئی جنگ صفین و نہروان کی جنگوں کے بعد معاویہ نے عراق،حجاز اوریمن میں دہشت گرد دراندازوں کوبھیجنا شروع کردیاجو خلیفۃ المسلمین کے مطیع اورفرماں برادار لوگوں پر مشتمل آبادیوں میں آتش زنی اور قتل وغارت گری کرتے تھے۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی اس دہشتگردی کی مہم میں ایک بار بسر ابن ارطاہ کو ایک ٹولی کے ساتھ حجاز و یمن کی غارتگری کے لیے بھیجا گیا۔ اس ظالم اور سفاک درندے نے یمن میں عبیداللہ ابن عباس کے دو کم سن بچوں کو ان کی ماں کے سامنے ذبح کرڈالا۔عبیداللہ یمن کا والی تھا اور اس وقت امام المتقین علی ؑابن ابی طالب سے ملنے کے لیے کوفہ گیا ہوا تھا۔اس حقیقت کے پیش نظر باغی گروہ کے خلاف عبیداللہ کا جذبہ دو آتشہ ہونا فطری بات تھی۔ اسی طرح قیسؓ ابن سعد ؓابن عبادہ البدری کی ایمانی وجوہ کی بنا پر معاویہ سے انتہائی شدید نفرت و عداوت حدیث، سیر اور تاریخ کی کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
شام میں خیمہ زن اسلام میں ملبوس جاہلیت کے علمبردار اورکسی بھی قسم کی اخلاقیات سے عاری اذہان کھلے میدان میں لڑنے کے بجائے سازشی جنگ میں مصروف تھے۔ صفین میں نیزوں پر قرآن چڑھانے اوردومۃ الجندل میں شرمناک دھوکا بازی کے ارتکاب سے برآمد ہونے والے نتائج نے انھیں اور جری کردیا تھا۔ اس گروہ نامسعود نے امیرالمومنین حسن ؑکے لشکرمیں انتشار پھیلانے کے لیے سازش کا ایسا تیر پھینکا جس سے بیک وقت کئی شکار نشانہ بن گئے۔ لشکر لے کر جب عبیداللہ دشمن کے آمنے سامنے ہوا تو خفیہ پیغام کے ذریعہ معاویہ نے اسے کہلا بھیجا کہ حسن میرے ساتھ صلح کرنے والے ہیں۔ ایسا ہوجانے کے بعد تجھے کیا ملے گا۔ اگر تم اس وقت میرے ساتھ مل جاتے ہو تومیںتجھے پچاس لاکھ درہم نقد اورباقی پچاس لاکھ کوفے میں داخلے کے بعد دوں گا۔ عبیداللہ کی مت ماری گئی اور اس نے اپنے ایمان کا سودا کرکے امیرالمومنینؑ سے خیانت کی۔ اگر امیرالمومنین صلح کرکے حکومت معاویہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ کرچکے تھے تو معاویہ کو بھلا عبیداللہ کو خریدنے کی کیا ضرورت ہوتی۔
عبیداللہ جیسے اہم منصب پر فائز شخص کو خرید کر وہ البتہ امیرالمومنین حسنؑ کے لیے ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا جن میں امیرالمومنین صلح کرنے پرمجبور ہوں۔ رات کے دوران چپکے سے عبیداللہ امیرالمومنین کے لشکر سے نکل کر معاویہ کے پاس چلا گیا۔ صبح کے وقت لشکری نماز کی صفیں باندھ کر امامت کے لیے عبیداللہ کا تادیر انتظار کرتے رہے۔ آخر میں حضرت قیسؓ ابن سعدؓ ابن عبادہ نے انھیں عبیداللہ کی شرمناک حرکت سے آگاہ کیا، لشکر کی قیادت سنبھالی اوربڑی استقامت اورجواں مردی کا مظاہرہ کیا۔ اس واقعے سے ہر اول دستے میں سراسیمگی پھیل گئی۔
اس ہر اول دستے کے پیچھے پیچھے امیرالمومنین حسنؑ خود لشکر جرار لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے۔ اس لشکر میں بھی سازشی عناصر صلح کی جھوٹی افواہ پھیلانے لگے۔ عبیداللہ کی خیانت کی وجہ سے ان جھوٹی افواہوں پراعتبار کیا جانے لگا۔ اس کی وجہ سے اس با عزم لشکر میں پہلے بددلی اورپھرپھوٹ پڑ گئی۔ خارجی رجحانات رکھنے والے عناصراپنی طبیعت سے مجبور ہوکر بغیر تحقیق کیے امیرالمومنین کے خلاف آگ بگولا ہوگئے۔ مال غنیمت اوردنیوی انعام و اکرام سے غرض رکھنے والوں کوباغیوں کے خلاف مہم میں کوئی دلچسپی نہ رہی اوروہ بھی ہڑبونگ پر اتر آئے۔ معاویہ سے رشوت لینے والے عناصر ایک طرف خوارج کو بھڑکاتے اوردوسری طرف دیگر لوگوں میں بددلی اور سراسیمگی پھیلاتے رہے۔ اس سفرمیں دو انتہائی افسوسناک واقعات نے امیرالمومنین ؑکو اتنا بے بس کیا کہ وہ ارادہ بدلنے پرمجبور ہوگئے۔ آپ اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے کہ ایک ٹولی نے آکر آپ پر حملہ کیا اورآپ کے نیچے سے چٹائی تک چھین لی۔ اس کے بعد جب آپ گھوڑے پر رونق افروز تھے تو ایک خارجی سنان ابن جراح اسدی نے یہ کہتے ہوئے کہ اے حسن! تو بھی اپنے باپ کی طرح کافر ہوگیاہے(نعوذ باللہ) آپ کی ران مبارک میں چھرا گھونپ کر آپ کو شدید زخمی کردیا۔ پھرآپ کو کئی دن تک مدائن میں سعد ابن مسعود ثقفی کے گھر صاحب فراش ہونا پڑا۔ چلنے کے قابل ہوئے تو آپ نے کوفہ کی طرف مراجعت فرمائی۔ اس مرحلے پر چالاک دشمن نے آپ کو خلع خلافت کے عوض مشروط صلح کی پیشکش کی۔
آپ نے نئے سرے سے حالات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ آپ نے بیعت کرنے والے فریب خوردہ عراقیوں سے دو ٹوک اور واضح لفظوں میں معاملے کو زیر بحث لانا مناسب سمجھا۔ آپ نے اس بارے میں گفتگو اور تقاریر کا سلسلہ شروع فرمایا۔ آپ نے لوگوں کی عزم کی پستی اور لاابالی پن اوران میں آنے والی منفی تبدیلی پر افسوس کرتے ہوئے فرمایا’’ صفین میں تمھارا دین دنیا سے آگے آگے تھا اور اب تمھاری دنیا تمھارے دین پر مقدم ہوچکی ہے۔‘‘ گویا آپ لوگوں کی طرف سے حق کے غلبے اوراہل باطل سے نبرد آزما ہونے کے عمل میں عدم دلچسپی کو دنیا پرستی سے تعبیر فرما رہے ہیں۔ ایک بار آپ نے اپنی تقریر میں فرمایا: ’’ تم صفین میں مرنے والوں پر روتے ہو اور نہروان میں مرنے والوں کا انتقام چاہتے ہو۔‘‘ اس بلیغ جملے میں بھی آپ لوگوں کو ان کی سخت گمراہی کی طرف متوجہ کررہے ہیں۔ صفین میں باغیوں سے لڑتے ہوئے خلیفۃ المسلمین امام علیؑ کے لشکر کے پچاس ہزارافراد نے جام شہادت نوش فرمایا جن میں حضرت عمارؓ یاسر بھی شامل تھے۔عمار ؓکے بارے میں آنحضورؐ حدیث فئتہ باغیہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ بخاری میں باب تعاون علی بناء المسجد میں یہ حدیث اس طرح آئی ہے:
اے عمار! تجھے ایک باغی جماعت قتل کرے گی، تُو انھیں جنت کی طرف بلا رہا ہوگا اوروہ باغی جماعت تمھیں جہنم کی آگ کی طرف بلا رہی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: امام حسنؑ اور امام حسینؑ، باہم https://albasirah.com/urdu/imam-hassan-as-or-imam-hussain-2/
یہ حدیث تواتر کے انتہائی اعلیٰ درجے سے روایت ہونے والی گنتی کی ان چند احادیث میں سے ہے جسے بیسیوں صحابہؓ نے بیان کیا ہے۔ اس طرح کی نص صریح کے بعد کسی مسلمان کے لیے ایسی گمراہ جماعت کے خلاف لڑتے ہوئے مرنے والوں پرافسوس کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ انھیں ان شہدا پر فخر ہونا چاہیے اور ان کی سعادت مندی پررشک کرنا چاہیے۔ دوسری طرف نہروان میں خارجی باغیوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کے تین ہزار کے قریب لوگ تہ تیغ ہوئے۔ عراق میں موجود خارجی رجحانات والے لوگ اس کا انتقام لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ حالانکہ اس جماعت کی گمراہی پر بھی نبی پاکؐ کی قطعی الثبوت احادیث موجود ہیں۔امیرالمومنین حسن ؑاپنے مذکورہ بالا جملے میں عام مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ صفین میں راہ حق میں جو لوگ کام آئے ان پر صرف ماتم نہیں فخربھی کرنا چاہیے اور ان کے قاتلین سے انتقام لینے اورانھیں نابود کرنے کے لیے نئے ایمانی ولولے کے ساتھ اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اس طرح نہروان کے خارجی مقتولین سے ہمدردی رکھنے والے اوران کا انتقام لینے کی باتیں کرنے والوں سے امیرالمومنین حسن فرما رہے ہیں کہ شریف انسانوں اوربا ایمان مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ گمراہ نہروانی مقتولین سے کوئی ہمدردی رکھیں۔ نہروانی اپنی گمراہی کے ہاتھوں انجام بد سے دوچارہوئے ہیں۔ اس وقت پرخدا ترس مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ میری ساتھ شام کے باغیوں کی گمراہ جماعت کا بھی نہروانیوں کی طرح قلع قمع کرنے کے لیے نکل پڑیں۔
قلیل اقلیت کے سوا باقی مسلمان تیز رفتاری سے ادبار و انحطاط کی طرف جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ امام المتقین علی مرتضیٰ ؑکی طرح اب امیرالمومنین حسنؑ ابن علی ؑکی صدائیں انسان نما پتھروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ امیرالمومنینؑ نے سلسلے کو تاخیر کے بغیر کسی انجام تک پہنچانے کے لیے مجمعٔ عام سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں جو کچھ آپ نے فرمایا اس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔
دیکھو تم مجھے دھوکا نہیں دے سکتے۔ مجھے معاویہ نے صلح کی پیشکش کی ہے۔ ایسا کرنا ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہترہے ۔ اگر تم عزت کے ساتھ جینا چاہتے ہو تو تمھیں لڑنے اورمرنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔ یہی حق کا راستہ ہے۔ اگر تم اس کے لیے تیار نہیں تو مجھے بتائو کیا تم آبرو مندانہ موت کے بجائے ذلت کی زندگی ہی چاہتے ہو۔
جواباً الحیاۃ الحیاۃیعنی ہم ہر صورت زندہ رہنا اورجینا چاہتے ہیں کی بلند آواز نعروں میں باقی آوازیں دب گئیں۔
لوگوں کی طرف سے مایوس ہوکر امیرالمومنین حسنؑ ابن علیؑ نے معاویہ سے حکومت و امارت کی سپردگی کے عوض مشروط صلح کی۔جس سلسلۂ حالات کے نتیجے میں امیرالمومنین حسن ؑکو صلح کرنی پڑی وہ ان حالات سے کہیں دردناک اورغم انگیز ہیں جو کر بلا میں خانوادۂ نبوت کے قتل عام پر منتج ہوئے۔اسلام اورامت کے عظیم تر اوردوررس مفادات میں خدا اورخانوادہ نبوت کے جانی دشمنوں کے ساتھ صلح کے عمل کو انجام دینا اس سے بڑھ کر جواں مردی اور صبر وثبات کا تقاضا کرتا تھا جس کا مظاہرہ بعد میں امام حسینؑ نے کربلا میں کیا۔ہاں البتہ امیرالمومنین حسنؑ ابن علی ؑجب ان صبر آزما حالات سے عہدہ برآ ہورہے تھے تو امام حسینؑ ان کے ساتھ تھے مگر کربلا میں امام حسینؑ اکیلے تھے۔ جس اقتدار نے کربلا میں امام حسین ؑکو اپنے تمام انصار واقربا کے ساتھ شہید کیا اس نے پہلے ہی امیر المومنین حسن ؑکو زہر دے کر موت کی نیند سلادیا تھا۔ وگرنہ کربلا میں بھی جوانان جنت کے دونوں سردار اوررسول اللہ کے دونوں فرزند ہم رکاب ہوکرشہادت سے بغل گیر ہوتے۔
(صلح کی تفصیلات اور شہادت تک کے واقعات اگلی قسط میں)
نوٹ: یہ مقالہ 20اگست 2010کو لکھا گیا۔
Share this content: