فراموش شدہ، ہمارا راستہ
6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان لاہور کے عظیم الشان سبزہ زار میں قرآن و سنت کانفرنس کے موقع پر فرزند اسلام قائد شہید و محبوب علامہ عارف حسین الحسینی علیہ الرحمہ نے ملت اسلامیہ پاکستان کی خدمت میں ’’آزادی و نجات کے سفر میں ہمارا راستہ‘‘ کے عنوان سے ایک منشور پیش کیا۔ یہ ایک بہت سوچی سمجھی اور گہرے غور و فکر و مطالعہ کے بعد منصہ شہود میں آنے والی ایک دستاویز تھی، جسے خود قائد شہید کے ماننے والوں کی اکثریت نے فراموش کر دیا۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں اس دستاویز کی طرف ایک مرتبہ پھر رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔اس میں انسان کے مقام اور اس کی حیثیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انبیاء کی تحریک کے عظیم مقاصد اور ان کی شاندار جدوجہد کی نشاندہی کی گئی ہے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے آنے والے کامل ترین پروگرام کا ذکر کیا گیا ہے۔ قرآن کی معجزانہ صداقتوں کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔ آپؐ کے اسوہ حسنہ اور آپ ؐہی کی حکومت کو رہتی دنیا تک ہر فرد اور معاشرے کے لیے بہترین اور کامل ترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ آپؐ کے بعد آپؐ کے اہل بیت علیہم السلام اور آپ کے مخلص و پاکباز اصحاب رضوان اللہ علیہم نے آپؐ کے عالمی اور دائمی مشن کو جاری رکھا۔ پھر یزید جیسے سفاک ظالم، فاسق و فاجر شخص کے ہاتھ میں اسلامی معاشرے کی باگ ڈور کے آجانے کے المیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں طاغوتی قوتوں کے اقتدار کا ذکر کرتے ہوئے برصغیر میں برطانیہ کے نوآبادیاتی نظام کے قیام کا حوالہ دیا گیا ہے۔ برصغیر میں جنگ آزادی اور جہاد و حریت کی تحریک کا ذکر بھی کیا گیا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کی ایک آزاد مملکت کے قیام کے روشن ایام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اگلے مرحلے میں پاکستان کس طرح سے انحراف کے راستے پر چل پڑا، اس سلسلے میں ’’ہمارا راستہ‘‘ میں لکھے گئے یہ جملے توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں:
’’لاالہ الا اللہ کے ولولہ انگیز انقلابی نعروں کی گونج میں پاکستان معرضِ وجود میں آگیا، لیکن اس نوزائیدہ مملکت کو بہت سے مسائل بھی حصہ میں ملے۔ مہاجرین کی آبادکاری، اثاثوں کی تقسیم، معاشی مشکلات اور مؤثر انتظامی ڈھانچہ کی عدم موجودگی اور زیر خطر سالمیت جیسے سنگین مسائل پر عوام کی پُرجوش شرکت اور ہمہ گیر اعتماد کے بغیر صحیح طور پر قابو پانا ممکن نہ تھا۔ ضروری تھا کہ عوام کے اسلامی انقلابی جذبے کو بروئے کار لا کر اس مملکت کی تعمیر کا آغاز کیا جاتا، مگر حکمران طبقہ آہستہ آہستہ عوام سے دور ہوتا چلا گیا۔ شائد حکمران چاہتے بھی یہی تھے کہ عوام امور مملکت میں دلچسپی لینا چھوڑ دیں، تاکہ وہ اقتدار کے ایوانوں میں جو چاہیں کرسکیں۔ حکمرانوں کی اس روش نے مزید کئی ایک سنگین مسائل اور مشکلات کو جنم دیا۔‘‘
جن طبقوں نے روپ بدل بدل کر پاکستان کے وسائل کو لوٹا اور عوام کو بار بار دھوکہ دیا، ان کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ اختیارات کی تقسیم میں کمی بیشی کے ساتھ بہروپ، صورتیں اور ظاہری وابستگیاں بدل بدل کر مخصوص طبقے ہی آج تک حکمران رہے ہیں۔ یہ طبقے ہیں جاگیردار و سرمایہ دار، فوجی جرنیل اور نوکر شاہی۔ پاکستان پر عوام کے نمائندوں کی نہیں بلکہ زر اور زور والوں کی حکومت رہی ہے۔ اقتدار کا حامل طبقہ ہر قسم کی سیاسی اخلاقیات سے ماورا ہو کر صرف اور صرف اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے جوڑ توڑ، سازش اور منافقانہ گٹھ جوڑ میں ہمہ وقت مبتلا رہا ہے۔‘‘
مملکت خداداد کی بڑی طاقتوں سے وابستگی کو سب سے بڑا المیہ قرار دیتے ہوئے ’’ہمارا راستہ‘‘ میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے: ’’ظاہر ہے عوام سے بے نیاز بلکہ عوام کو گمراہ کرنے اور دبانے کی پالیسی پر گامزن حکومتوں کو اِدھر اُدھر سے سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی اسی ضرورت نے پاکستان کو بڑی طاقتوں کا کاسہ لیس اور طفیلی بنا دیا۔ یہاں تک کہ پاکستان کی حکومت پوری طرح امریکہ کی حاشیہ نشیں اور کٹھ پتلی بن کر رہ گئی ہے۔ امریکہ سے وابستگی کی پاکستان کی تاریخ بہت سیاہ ہے۔ امریکہ نے مختلف طریقوں سے حکمرانوں سے ساز باز کرکے پاکستان کے وسائل کو لوٹا ہے، عہد شکنی کی ہے، ظلم و جبر کی قوتوں کو تقویت دی ہے اور گمراہ کرنے کی اپنی عالمی پالیسی پر عمل کیا ہے۔‘‘
ملک کے سنگین مسائل کا خلاصہ اس دستاویز میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’یہ ان سنگین مسائل کے چند پہلو ہیں، جنھوں نے وطنِ عزیز کو اپنی منحوس گرفت میں لے رکھا ہے۔ ان مسائل کے سائنسی تجزیہ کے نتیجہ میں یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان خرابیوں کی وجہ اور موجودگی کا سبب یہ تین عناصر ہیں:
٭ عالمی سامراج
٭ حکمران طبقہ اور
٭ مروجہ نظام تعلیم
ان عناصر کے باہمی تعلق کی اس حوالے سے تشریح کی جاسکتی ہے کہ عالمی سامراج پاکستان میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے حکمران طبقہ کی سرپرستی کرتا رہا ہے اور حکمران طبقہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے سامراج کی کاسہ لیسی اور مروجہ نظام تعلیم کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ر ہا ہے۔‘‘
مسائل کی نشاندہی کے بعد ضروری تھا کہ ان مسائل سے نجات کے لیے جدوجہد کے خطوط کو واضح کیا جاتا۔ چنانچہ ’’ہمہ گیر جدوجہد کا آغاز‘‘ کے زیر عنوان بیان کیا گیا ہے: ’’پاکستان میں جدوجہد اور جنگ کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے اور یہ جنگ کس کے خلاف، کس کی حمایت میں کس کس کو کس انداز سے لڑنا ہے۔
یہ جدوجہد۔۔۔۔۔۔
٭ بیک وقت سامراج، وطن میں موجود اس کے گماشتوں اور مفاد پرست نمائندوں اور حکمرانوں کے خلاف ہے۔ سب سے پہلے ہمیں سامراج پر ضرب کاری لگانا ہے، کیونکہ سامراج ہی تمام تر برائیوں اور سیاہیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس سرچشمے کو بند کیے بغیر اور سامراج کے خون خوار ہاتھ کاٹے بغیر کوئی تدبیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔
یہ جنگ۔۔۔۔۔
٭ عوام کو وسیع پیمانے پر انقلابی شعور دیے بغیر اور انھیں حقیقی دشمن، اس کے مقاصد، ہتھکنڈوں اور سازشوں سے آگاہ کیے بغیر ہرگز نہیں لڑی جا سکتی، اس لیے کہ یہ تمام تر سازشیں درحقیقت عوام ہی کے خلاف ہیں اور بالآخر یہ جنگ عوام ہی کو لڑنا ہے۔‘‘
اس کے لیے جس طرح کی قیادت درکار ہے، اس کی خصوصیات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ منشور میں اس کے بعد پاکستان میں جس طرح کا نظام شہید قائد اور ان کے رفقاء کے مدنظر تھا، اس کے خطوط کو واضح کیا گیا ہے۔ اس میں نظام حکومت، نظام قانون، نظام عدالت، نظام معیشت، خارجہ پالیسی، نظام تعلیم، نظام جہاد، حقوق عامہ اور نظام ثقافت وغیرہ گویا مختلف شعبوں کے بارے میں ترجیحات اور حکمت عملی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آخری حصے میں ملکی اور عالمی سطح کے مسائل کے بارے میں موقف بھی واضح کیا گیا ہے۔ آئندہ سطور میں ہم ان پہلوئوں کے بارے میں ’’ہمارا راستہ‘‘ کے خطوط کو واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ
’’آزادی و نجات کے سفر میں ہمارا راستہ‘‘ میں نظام مملکت کے مختلف شعبوں کے بارے میں راہنمائی کی گئی ہے۔ نظام حکومت جو انسان کی خلافت الٰہی کے تصور سے ماخوذ ہے، اس میں کہا گیا ہے:
* اللہ کی زمین پر اللہ ہی کی حکومت ہو۔
* انسان پر انسان کے غلبے کا خاتمہ ہو، چاہے وہ فرد کی صورت میں ہو یا گروہ کی صورت میں۔
* فرد اور معاشرے کو ہر قسم کے ظلم، جبر اور استحصال سے نجات ملے۔
* انسان باہمی محبت، احترام، رواداری، مواخات اور مساوات کی بنیاد پر اس طرح سے زندگی گزاریں کہ انسانی معاشرہ جنت نظیر ہو جائے۔
* نظم معاشرہ برقرار رہے۔
* معاشرے میں تقویٰ کے علاوہ فضیلت و برتری کا ہر معیار باطل ہو جائے۔
اس میں جماعتی انتخابات کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور ووٹر کی عمر کم از کم 16 سال تجویز کی گئی ہے۔ نیز کہا گیا ہے: “مذکورہ اہداف کے حصول کے لیے سیاسی جماعت بنانے کی آزادی ہوگی۔ سیاست میں حصہ لینے والے کسی فرد یا گروہ کو مشرق و مغرب کی کسی استعماری طاقت سے وابستگی کی ہرگز اجازت نہ ہوگی، البتہ امور مملکت و سیاست میں شرکت کے لیے کسی سیاسی جماعت سے وابستگی ضروری نہ ہوگی۔” مارشل لاء کے بارے میں یہ منشور کہتا ہے کہ ’’مارشل لاء کا نفاذ اصطلاح قرآن میں خدا اور اس کے رسولؐ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔” اس کی وجہ بالکل واضح ہے، کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسولؐ سے بالاتر کوئی قانون ایک اسلامی مملکت میں قبول نہیں کیا جاسکتا اور ایک اسلامی مملکت میں یہی سب سے بڑا قانون (مارشل لاء) ہے اور یہی دو بنیادی چیزیں ہیں، جو اسلامی قانون کا مصدر ہیں۔
شعبہ قانون کے حوالے سے تین راہنماء اصول اس منشور میں بیان کیے گئے ہیں:
* ہر وہ قانون اور قانون کی ہر اس بنیاد کو ختم کر دیا جائے گا، جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔
* مسلمہ اسلامی مکاتبِ فکر کی متفقہ آراء کو اجتماعی قوانین کی حیثیت سے مدوّن کیا جائے گا۔
* مسلمہ اسلامی مکاتبِ فکر کی اختلافی آراء کو ہر مکتب فکر کے مختص قوانین کے زمرے میں مدون کیا جائے گا۔
عدالتی نظام کے حوالے سے دیگر امور کے علاوہ اس منشور میں یہ امور ملحوظ نظر رکھے گئے ہیں:
* عدلیہ کو انتظامیہ سے علیحدہ کرکے مکمل طور پر آزاد اور خود مختار بنا دیا جائے گا۔
* عدالتوں کی درجہ بندی از سرِنو کی جائے گی۔ ابتدائی سماعت جس سطح پر بھی ہو، اس کے خلاف صرف ایک اپیل ہوگی۔
* پورے ملک میں یکساں عدالتی نظام رائج کیا جائے گا۔
نظام معیشت میں اصلاحات کا موضوع اس منشور میں قدرے تفصیل سے پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے: ’’پاکستان میں رائج معاشی نظام بڑی طاقتوں اور ان کے زیرِ تسلّط اداروں کی استعماری پالیسیوں کے تقاضے پورے کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہے اور یہ نظام ظلم و استحصال اور استثمار و احتکار کا سبب بن رہا ہے۔‘‘ ایک ایسا نظام معیشت اس میں تجویز کیا گیا ہے، جس میں ہر قسم کے معاشی استبداد کی نفی، طبقاتی تفاوت کا خاتمہ، بنیادی ضروریات کی فراہمی، ہر شخص کو روزگار کی فراہمی اور خود کفالت کی ضمانت موجود ہو۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ مالکیت کی حدود کا تعین کیا جائے گا، ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ کیا جائے گا، اسراف کا بھی خاتمہ کیا جائے گا، ناجائز منافع خوری اور اجارہ داری کا بھی خاتمہ کیا جائے گا۔ جائز پیشے کے انتخاب کی آزادی ہوگی۔
قدرتی وسائل قومی ملکیت میں ہوں گے۔ بین الاقوامی تجارت قومی کنٹرول میں ہوگی۔ بین الاقوامی سودی نظام کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ بنیادی صنعتیں قومی ملکیت میں ہوں گی۔ مالکیت زمین کی حدود کا بھی تعین کیا جائے گا اور ایسی زمینیں جنھیں خود کاشت نہیں کیا جاتا، انھیں قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ سرمائے کو محنت کی جگہ نہیں لینے دی جائے گی۔ مزدور کو کارخانے کے منافع میں حصہ دار بنایا جائے گا۔ اس منشور میں یہ بھی کہا گیا کہ سول ملازمین کو امور مملکت و سیاست میں حصہ لینے کا حق دیا جائے گا۔ خارجہ پالیسی کے لیے اس منشور میں مندرجہ ذیل اصول بیان کیے گئے ہیں: “ملک کی خارجہ پالسی کی بنیاد ’’لاشرقیہ لاغربیہ‘‘ کا اسلامی اصول ہوگا۔ اس کی روشنی میں کسی بھی طاقت کی اقتصادی، ثقافتی، فوجی اور سیاسی بالادستی ہرگز قبول نہیں کی جائے گی۔ کسی بھی طاقت کے مفادات کی نگہداشت اور ترویج نہیں کی جائے گی اور اس حوالے سے ناوابستگی کے اصول پر سختی سے کاربند رہا جائے گا۔ استعماری اور سامراجی عزائم کی مزاحمت کی جائے گی۔ ملکی مفاد کا تحفظ خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہوگا۔
جو ممالک نسل پرستانہ، صہیونی، سامراجی اور توسیع پسندانہ عزائم کے حامل ہوں یا اسلام دشمن اور مسلم کش پالیسی اپنائے ہوئے ہوں، ان سے دوستانہ تعلقات قائم نہیں کیے جائیں گے۔ محض حکومتوں سے تعلقات کے بجائے دنیا بھر کے عوام سے قریبی رابطے قائم کیے جائیں گے۔ تمام تر سیاسی، اقتصادی، فوجی اور ثقافتی نوعیت کے معاہدوں پر نظرثانی کی جائے گی اور ایسے تمام معاہدے یا کسی بھی معاہدے کے ایسے حصے کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے، جو خارجہ پالیسی کے مندرجہ بالا بنیادی اصولوں سے متصادم ہوں گے۔ قرضوں کی شرائط پر نظرثانی کی جائے گی اور سامراجی سرمایہ کاری اور قرضے ضبط کر لیے جائیں گے۔ ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا جا ئے گا اور نہ روبہ عمل لایا جائے گا، جس کے تحت کوئی غیر ملکی طاقت ملک کے قدرتی وسائل پر تسلط یا تصرف حاصل کرسکے۔ کسی سامراجی طاقت کو فوجی مقاصد کے لیے پاکستان کی زمین، فضا اور پانی استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔
خارجہ پالیسی کے حوالے سے اس منشور میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں محروموں اور مظلوموں کی آزادی کی تحریکوں بالخصوص اسلامی تحریکوں کی حمایت کی جائے گی اور ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائے گا۔ مختلف ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کے حقوق کی بحالی/تحفظ کی کوشش کی جائے گی۔ مسلم اکثریت کے وہ علاقے جو اغیار کے زیرِ تسلط ہیں، ان کی آزادی کے لیے تعاون کیا جائے گا۔ القدس اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی حرمت و آزادی کو بنیادی اہمیت دی جائے گی۔ کشمیر کی آزادی اور اس کے پاکستان سے الحاق کے لیے جدوجہد کی جائے گی۔ بیرونی مداخلت یا فوج کشی کے خلاف مزاحمت میں اسلامی ممالک کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔ علاقے میں ہر قسم کی فوجی مہم جوئی یا بیرونی مداخلت کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ پاکستان کو اس کے جغرافیائی، تاریخی اور دینی تقاضوں کی روشنی میں مغربی ایشیاء کا حصہ قرار دے کر مسلمان ممالک سے قریبی روابط کا احیاء کیا جائے گا۔
جب یہ منشور شائع ہوا تو کئی ایک اخبارات نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ آج تک اس سے زیادہ انقلابی منشور کسی سیاسی جماعت نے پیش نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ منشور ایک مقتدر اور آزاد اسلامی ریاست کے تصور کو واضح انداز سے پیش کرتا ہے اور اس کی بنیادی مجوزہ اصلاحات کو اختیار کیے بغیر پاکستان ایک آزاد اور خود مختار مملکت کا روپ اختیار نہیں کرسکتا۔ اس میں شک نہیں کہ ان تجاویز پر عمل کے لیے پاکستان کے موجودہ آئین میں بہت سی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اس میں بھی شک نہیں کہ ایک مضبوط جرأت مند اور پاپولر قیادت ہی اس منشور کی روح پر عمل کرسکتی ہے، ایسی قیادت جسے عوام کے وسیع حلقوں اور طبقوں کی حمایت حاصل ہو۔ پاکستان میں موجود مفاد پرست عناصر جو مختلف شعبوں کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے ہیں، ان کے ہاتھ مملکت کے نظام سے منقطع کرنا اس منشور کی روح کے حصول کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ ایسی قیادت کے ہاتھ میں نظام مملکت ہو، جو خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرتی ہو اور اللہ کی نصرت پر ایمان رکھتی ہو۔
اس منشور سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی اور ان کے رفقاء کس قدر وسعت نظر رکھتے تھے اور ایک عظیم اسلامی مملکت کے لیے ان کی فکر کس قدر آزاد اور وسیع تھی۔ وہ نہ فقط خود ایک آزاد روح کے مالک تھے بلکہ مملکت کے سارے لوگوں کے اندر وہ ایسی ہی روح پھونک دینا چاہتے تھے۔ عالمی استعماری طاقتیں جنھوں نے پاکستان پر اپنے خونی پنجے گاڑے ہوئے ہیں، انھوں نے علامہ عارف حسینی کو خوب اچھی طرح پہچان کر ان کے قتل کا فیصلہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ علامہ عارف حسینی اس سرزمین پر اگر کچھ عرصہ اور باقی رہ گئے تو پاکستان کے عوام کی اکثریت کو نظام ظلم و ستم اور استعمار و استبداد کے مقابل کھڑا کر دیں گے۔ انھیں نہیں معلوم تھا کہ شہید عارف حسینی کا خون لوگوں کے رگ و ریشہ میں تاثیر کرے گا، جو عوام کی بیداری اور قیام کا ذریعہ بنے گا اور لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر لوگوں کو پیغام آزادی دے گا۔ منشور کے اور بھی حصے ہیں اور آخر میں عالمی اور قومی حالات پر موقفات کو صراحت سے پیش کیا گیا ہے، ہم نے اس کے اہم ترین حصے خلاصۃً اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیے ہیں۔ ہماری درخواست ہے کہ قومی تنظیمیں اور قوم کا درد رکھنے والے افراد دقت نظر سے اس منشور کا مطالعہ کریں۔ وہ اس سے فکر صالح ہی حاصل نہیں کریںگے بلکہ ایک جذبۂ تازہ بھی پائیں گے۔ ان شاء اللہ
علامہ عارف حسین الحسینی شہید کے افکار وحدت پر کتاب “نقیب وحدت” کا مطالعہ فرمائیں: https://albasirah.com/urdu/product/naqeeb-e-wahdat-2/
Share this content: