غیر جانبدار رہنے کی قیمت تو دینا ہوگی

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

آج کل پاکستان میں یہ موضوع بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان کے امور میں امریکہ مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے لیے خاص طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے امریکہ ہے۔ وہ اپنے وسائل اور روابط کو بروئے کار لا رہا ہے، تاکہ حکومت کو تبدیل کیا جائے۔ اس کے لیے جو دلائل پیش کیے جا رہے ہیں، وہ قابل اعتنا ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس سے قبل بھی امریکہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ امریکی سیاستدانوں، وزرائے خارجہ نے جو کتب لکھی ہیں، ان میں ایسے شواہد اور دلائل موجود ہیں کہ امریکہ پیہم پاکستان کے امور میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ موجودہ حالات میں جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے، اس میں بھی امریکہ کے اس سب کے پیچھے ہونے کے نظریے کو تقویت ملتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے راہنماؤں جن میں وزیراعظم اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں، انہوں نے 2018ء میں ہی پاکستان کی غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی کی جانب اشارہ کیا تھا۔

ماضی میں امریکہ کی ایک فون کال پر پاکستان اپنی خارجہ پالیسی اور موقف کو تبدیل کرتا رہا ہے۔ روس اور یوکرائن کے معاملے میں بھی یہی توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان غیر جانبدار نہ رہے۔ اطلاعات ہیں کہ دورہ روس سے قبل ہی امریکہ کی جانب سے کال آئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان روس کے قریب ہو۔ پاکستان کے وزیراعظم جب واپس آگئے تو درایں اثناء روس یوکرین پر حملہ کرچکا تھا۔ اس دوران میں پاکستان میں تعینات یورپی سفراء نے ایک خط حکومت پاکستان کو لکھا کہ وہ روس کے خلاف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی جانے والی قرارداد کی حمایت کرے۔ پاکستان میں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا۔ 6 مارچ کو میلسی کے جلسے میں پاکستان کے وزیراعظم نے خود کہا کہ یورپ نے غلط کیا، انھوں نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے یورپی سفراء سے سوال کیا کہ کیا آپ نے اسی طرح کا کوئی خط بھارت کو بھی لکھا ہے۔؟

یہ اس پس منظر میں نہایت اہم سوال تھا کہ پاکستان اس وقت سلامتی کونسل کا رکن نہیں ہے اور بھارت سلامتی کونسل کا رکن ہے۔ یہ زیادہ معنی خیز تھا کہ امریکا نے سلامتی کونسل میں جو قرارداد پیش کی، اسے روس کا ویٹو کرنا تو بدیہی تھا، تاہم چین کا غیر جانبدار رہنا اور ووٹنگ میں حصہ نہ لینا نیز بھارت کا بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا معنی خیز ہے۔ وزیراعظم پاکستان کا یہ سوال اس لحاظ سے درست تھا کہ پاکستان پر ہی کیوں دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ ماضی میں کچھ ہی عرصہ پہلے جب امریکہ افغانستان سے نکل رہا تھا، اس وقت یہ سوال پیدا ہوا کہ امریکا پاکستان میں ایک اڈہ بنا لے، تاکہ وہ یہاں سے افغانستان میں اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکے۔ اس سلسلے میں ایک امریکی صحافی کے سوال کے جواب میں جب اس نے پوچھا کہ کیا آپ امریکا کو یہ اڈہ دیں گے تو وزیراعظم نے کہا کہ (Absolutely Not) یعنی ہرگز نہیں۔ دنیا میں ان کا یہ جملہ بہت معروف ہوا۔ یہ بات امریکا کے خلاف نہ تھی بلکہ غیر جانبداری کی علامت تھی۔

عمران خان نے کہا کہ ہم کسی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ امن کا حصہ بنیں گے۔ اب بھی انھوں نے وضاحت کی کہ اگر ہم ابھی روس کی مذمت نہیں کر رہے تو ہم امریکہ کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں جنگ کے بجائے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہوں، تاہم ہم کسی گروہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ یہ ایک اہم اور قابل ستائش بات ہے۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام کے ایک سینیٹر اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کے اراکین اور قائدین نے پاکستان کے یورپی یونین کے خط پر حکومت پاکستان کے موقف کی مخالفت کی ہے، یعنی پاکستان کے غیر جانبدار موقف کی مذمت کی ہے۔ انھوں نے امریکہ اور نیٹو کی زبان میں بات کی ہے، ان کا نقطہ نظر اختیار کیا ہے۔ اگر ہمارے تجارتی تعلقات امریکہ یا یورپی یونین سے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں تمام مسائل میں ہم ان کی ڈکٹیشن کو قبول کریں۔ امریکہ اور چین کی مخالفت کے باوجود دونوں کے مابین تجارتی روابط موجود ہیں۔

اگر پاکستان ایک ایسا موقف اختیار کرتا ہے کہ وہ امریکا اور یورپ کی ہر بات میں ہم نوائی نہیں کرے گا تو یہ بات ان کو چبھنے والی ہے۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ پاکستان ایک طویل عرصے سے ان کی پالیسیوں کے مطابق عمل کرتا رہا ہے، نیز یہ کہ یہ ملک ایک جوہری ریاست ہے، بائیس کروڑ انسانوں کا ملک ہے، عالم اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، امکانات بہت رکھتا ہے، وسائل، ترقی اور نمو کی استعداد رکھتا ہے۔ اگر اس ملک میں کرپشن نہ ہو تو وہ صلاحیت رکھتا ہے کہ ایک اقتصادی طاقت کے طور پر سامنے آئے۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقیناً پاکستان کسی قسم کی ڈکٹیشن کو قبول نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو مجبور کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے تقریباً تمام مطالبات پورے کر دیے ہیں۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں عدم اعتماد لانے والی تینوں جماعتوں کے قائدین امریکی موقف کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ اس سب کے پیچھے امریکہ موجود ہے۔ اگر ہمیں ایک آزاد اور خود مختار پالیسی اختیار کرنی ہے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔ اب موقع آچکا ہے کہ وہ تمام لوگ، ادارے جو پاکستان کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اس موقف کی حمایت کریں۔ یہ موقف جنگ کی دعوت دینے والا نہیں بلکہ غیر جانبدار رہنے والا ہے۔ چونکہ امریکہ کو ’’یس سر‘‘ اور ’’ڈو مور‘‘ سننے کی عادت ہوچکی ہے، لہذا اس کے لیے پاکستان کا غیر جانبدار ہونا قابل قبول نہیں ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان سے کہا گیا تھا کہ ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دشمن کے ساتھ ہیں‘‘ یعنی وہ تیسرا کوئی راستہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ لہذا جیسا کہ دلائل اور تاثر موجود ہے کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں۔

امریکہ پہلے بھی کھلے بندوں سی پیک کی مخالفت کرچکا ہے، وہ کیسے چاہے گا کہ پاکستان روس اور چین سے قریب ہو، ہم ان کے ساتھ مل کر اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی گزاریں۔ اس موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور وطن دوست حلقوں کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فوج کو بھی آزادی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے اللہ نے ایک موقع دیا ہے، حکومت بھی ایسی موجود ہے، عوام تو پہلے سے امریکا کی کاسہ لیسی نہیں چاہتے۔ عالمی سطح پر بھی وزیراعظم کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے، ان کی اس بات پر خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے کہ کیا ہم آپ کے غلام ہیں کہ آپ کی ہر بات پر عمل کریں۔ ظاہر ہے وزیراعظم نے یہ بات تب کی ہے، جب انھوں نے شدت سے اور قریب سے مغرب کی مداخلت کو دیکھا ہے۔ صحافی اور تجزیہ کار کہہ رہے ہیں کہ ان کے پاس دلائل اور شواہد موجود ہیں، جن کا موقع آنے پر اظہار کیا جائے گا۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز