فرانس میں جاری فسادات اور الہیٰ منصوبہ
تحریر: سید اسد عباس
فرانس میں مسلسل پانچویں روز سے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں، جس میں کئی ہزار افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گرفتار شدگان میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ فرانسسیسی صدر ڈیوڈ میکرون نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا ان مظاہروں کو ہوا دینے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فرانس کے مختلف شہروں بشمول پیرس، لیون اور مارسلے میں مظاہرے انتہائی متشدد ہیں۔ ان مظاہروں کے سبب فرانس میں کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل ہوچکا ہے۔ مظاہرین نے اب تک دو ہزار کے قریب گاڑیاں اور متعدد املاک کو جلا کر خاکستر کیا ہے۔ ان مظاہروں میں تقریباً 200 کے قریب سکیورٹی اہلکار زخمی ہوچکے ہیں۔ گذشتہ شب پیرس کے میئر کے گھر میں ایک کار گھسا دی گئی اور اس کے بعد گھر کو آگ لگا دی گئی۔ میئر کے مطابق اس حادثے میں میری بیوی اور ایک بچہ زخمی ہوئے ہیں۔
ان مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے تقریباً پینتالیس ہزار پولیس اہلکار، جن میں ایلیٹ یونٹ، بکتر بند گاڑیاں، ہیلی کاپٹر شامل ہیں، اس وقت میدان میں ہیں۔ فرانس میں ہونے والے حالیہ مظاہرے ایک سترہ سالہ عرب نوجوان ناحل کو گولی مارنے کے واقعہ کے بعد شروع ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق یہ عرب نوجوان ٹریفک سنگلز کی پابندی نہ کرنے کے جرم میں روکا گیا۔ پولیس افسر نے اس نوجوان کو روکا اور بغیر کسی ظاہری خطرے کے اسے قریب سے گولی مار دی۔ اس واقعہ کو نسلی تعصب کا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، جس کی اکثر فرانسیسی شہری شکایت کرتے ہیں۔ فرانس میں ہونے والے پرتشدد مظاہرے اور ان میں پایا جانے والا غم و غصہ بھی اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ تشدد کسی ایک واقعہ کا نتیجہ نہیں ہے۔ فرانس کے اکثر پناہ گزین شہریوں کے مطابق پولیس میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو رنگ اور نسل کی بناء پر شہریوں اور سیاحوں کو تنگ کرتے ہیں۔
دوسری جانب سویڈن میں ایک شخص نے آزادی اظہار کے نام پر سٹاک ہوم کی ایک مسجد کے سامنے قرآن کریم کی ہتک کی۔ شاید اس واقعہ نے بھی فرانس میں مظاہروں کو مزید متشدد کیا ہو۔ تاہم میری نظر میں ان دونوں واقعات کے پیچھے یورپی شہریوں کا احساس عدم تحفظ چھلک رہا ہے۔ یورپ میں مسلمان ممالک سے ہجرت کرکے آنے والے پناہ گزینوں اور تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد نے یورپ میں بعض شدت پسند گرہوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ تشویش فقط یورپ کے شدت پسند اور نسلی تعصب کے حامل گروہوں کو ہی نہیں ہے، بلکہ مغرب کے دانشور اور تھنک ٹینکس بھی اس تشویش سے دوچار ہیں۔ پیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق مسلمان تارکین وطن کی پیداواری صلاحیت کے تناظر میں یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ 2025ء تک مسلمان یورپی ممالک میں اکثریت ہوں گے اور پارلیمان میں ان کے نمائندے، حتی کہ حکومتیں ہوں گی۔
آج ہمیں بہت سے یورپی ممالک میں اہم حکومتی عہدوں پر مسلمان تعینات دکھائی دیتے ہیں، ممبران پارلیمان، سیاسی پارٹیوں کے سربراہ اور انتظامی عہدیدار ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح مسلمان کاروباری حلقوں میں بھی کافی ترقی اور پیشرفت کر رہے ہیں، یہ صورتحال یورپ کے قدیم باسیوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ اس عدم تحفظ کے احساس سے نکلنے کے لیے عام یورپی شہری نسلی تعصب، آزادی اظہار کے نام پر اسلامی مقدسات کی توہین اور ایسے ہی منفی اقدامات کا سہارا لیتا ہے، جس سے معاشرے میں نفرتیں اور دوریاں بڑھ رہی ہیں۔
یورپ نے اپنے مفادات کے لیے مسلمانوں اور تیسری دنیا کے ممالک کی زمینوں پر قبضے کیے، اپنی فیکٹریاں چلانے کے لیے ان ممالک سے افرادی قوت کو یورپ کی جانب مائل کیا۔ روشنیاں، ترقی اور پیسے کی ریل پیل دکھا کر مسلمانوں اور تیسری دنیا کی اقوام کو اپنی جانب راغب کیا۔ آج تیسری دنیا کے باسی یورپی ممالک میں ہجرت کے بعد تیسری نسل کے حامل ہیں۔ خواہ ان کا ماضی کچھ بھی ہے، آج وہ دیگر یورپی شہریوں کی مانند اپنے آپ کو یورپ کا باشندہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں حکومتی یا انتظامی ذمہ داران کی جانب سے متعصبانہ رویہ ان کے لیے کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ہے۔ تیسری دنیا کے باشندوں کی تیسری نسل آج بھی یورپی معاشرے میں اہم کارکن کی حیثیت سے کام کر رہی ہے، ملک میں ہونے والی مہنگائی، بے روزگاری کا اثر سب سے پہلے اسی طبقے پر پڑتا ہے۔ ایک جانب نسلی تعصب، دینی مقدسات کی توہین اور دوسری جانب معاشی مشکلات، مسائل کو دو آتشہ کر دیتیں ہیں۔
آج یورپ کے لیے اپنا ہی وضع کردہ سیاسی نظام جو اس نے اپنے شہریوں کے مفادات کے لیے تشکیل دیا تھا، ایک مشکل بن چکا ہے۔ جمہوریت، معاشرتی عدل، انصاف، مساوات جیسی اقدار جن کی بنیاد سرمائے اور اقتدار کا حصول تھی، آج یورپی شدت پسندوں اور دانشوروں کو بے فائدہ بلکہ نقصان دہ دکھائی دینے لگی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں اور تیسری دنیا کے دیگر باسیوں کے ساتھ مغربی معاشروں میں بے اعتدالیاں، عدم مساوات، بے انصافیوں حتی کہ ان کے دینی اور ثقافتی مقدسات کی توہین کے واقعات دیکھنے میں آرہے ہیں۔
یورپ کو اب حوصلے کے ساتھ اپنی اقدار سے جڑے رہنا چاہیئے اور معاشرے میں اعتدال کے لیے مکالمے کا آغاز کرنا چاہیئے، نیز اپنی عالمی پالیسیوں پر بھی نظرثانی کرنا چاہیئے۔ دنیا میں یورپ کے رویئے اس کے اپنے معاشرے میں ترجمہ ہو کر اس کے سامنے آتے ہیں اور ان کی شکل ضروری نہیں کہ ایک جیسی ہی ہو۔ قوانین الہیٰ، اقدامات اور منصوبے انسانی سوچ سے بہت بلند ہوتے ہیں۔ کل اپنے آپ کو فاتح سمجھنے والے اور وسائل لوٹ کر اپنی زندگی کا پہیہ چلانے والے آج اپنے مفتوحین سے خوفزدہ ہیں۔ بہرحال ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ ردعمل ویسا ہی ہو، جیسا انسان نے سوچ رکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی فارن پالیسی کیا ہے؟
https://albasirah.com/urdu/pakistan-ki-foriegn-policy/
Share this content: