فاطمہ(س) کا گھرانہ
تحریر: سید اسد عباس
ولادت سید ہ فاطمۃ الزھراء (س) کی مناسبت سے خصوصی تحریر
نہج البلاغہ میں امیر المومنین (ع) رسالت مآب سے اپنے قرب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وقد علمتم موضعی من رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم بالقرابۃ القریبۃ،والمنزلتۃ الخصیصۃ،وضعنی فی حجرہ وانا ولد (ولید)یضمّنی الی صدرہ ،و یکنفنی فی فراشہ،ویمسّنی جسدہ،ویشمّنی عرفہ وکان یمضغ الشی ء ثم یلقمنیہ،وما وجد لی کذبۃ فی قول ،ولا خطلۃ فی فعل”۔1
”تمہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مجھے کس قدر قریبی قرابت اور مخصوص منزل حاصل ہے۔ انہوںنے بچپنے سے مجھے اپنی گود میں اس طرح سے جگہ دی ہے کہ اپنے سینے سے لگائے رکھتے تھے ،اپنے بستر پر جگہ دیتے تھے ،مجھ سے اپنے جسد اطہر کو مس فرمایا کرتے تھے۔ مجھے مسلسل اپنی خوشبوسے سرفراز فرمایا کرتے تھے اور غذا کو اپنے دانتوںسے چباکر مجھے کھلاتے تھے ، انہوںنے میرے کسی بیان میں جھوٹ نہ پایا اور نہ میرے کسی عمل میں غلطی دیکھی”۔
علی (ع) کب رسول خدا (ص ) سے جدا ہوئے تاریخ کچھ نہیں کہ سکتی ، علی (ع) نے جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اور اپنے گھر والے ہوئے اس وقت بھی رسالت مآب (ص) نے پسند نہ کیا کہ علی (ع) اور آپ کے گھر کے مابین چند قدم کا ہی فاصلہ ہو۔ تاریخ کہتی ہے کہ فاطمہ (ع) اور علی (ع) کے ازدواج کے بعد رسالت مآب (ص) کی خواہش تھی کہ انکی بیٹی اور داماد کا گھر ان کے حجرے کے قریب ہو تاہم وہ اس بات کا اظہار نہ کرتے تھے ۔ مورخین کہتے ہیں کہ حارثہ بن نعمان جن کا گھر رسالت مآب (ص) کے حجرے سے قریب تھا ،نے رسالت مآب کی خواہش کو بھانپتے ہوئے آپ سے عرض کی کہ میں بذات خود اور جو کچھ میرے پاس ہے سب آپ کے اختیار میں ہے۔خدا کی قسم ! میں یہ زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میرا مال آپ (ص) کے پاس رہے ۔ اس دن کے بعد علی (ع) و فاطمہ(ع) حارثہ کے گھروں میں سے ایک گھر میں منتقل ہو گئے۔2
اب انسان اس چیز کا موازنہ کرنے بیٹھ جائے کہ رسالت مآب (ص) نے ایسا بیٹی کی محبت میں کیا یا داماد کی چاہت میں نادانی نہیں تو اور کیا ہے۔روایات کی تخریج کرتے ہوئے یا شرح لکھتے ہوئے بعض افراد نے ایسا بہت کیا کہ بجائے یہ کہ فضیلت کو تسلیم کرتے ہر معاملہ نزاعی بنانے کی کوشش کی اور بحث اس بات پر شروع ہو گئی کہ ایسا واقعہ ہوا کیوں؟ عجب ثم العجب
اس میں شک نہیں کہ فاطمہ (س) شجر رسالت کا وہ پاکیزہ پھل ہے جس سے رسول خدا (ص) کو بے پناہ محبت تھی۔ محبت تو ایک جانب یہ بات راویوں کے مابین متفق الیہ ہے کہ رسالت مآب (ص) جناب فاطمہ زھراء (ع) کا استقبال ہمیشہ کھڑے ہو کر کیا کرتے تھے۔
امام ترمذی حضرت بریدہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا :
میں نے کسی کو راہ رست پر قائم ہونے اور سیرت کے لحاظ سے اٹھنے بیٹھنے میں سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) سے بڑھ کر حضور اکرم (ص) کے مشابہ نہیں دیکھا ۔فرمایا جب بھی وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتیں تو نبی کریم (ص) ان کے لیے کھڑے ہو جاتے پھر انہیں بوسہ دیتے اور انھیں اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔3
’’کبھی کبھی نہیں بلکہ جب بھی سیدہ تشریف لاتیں رسالت مآب(ص) ان کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے۔‘‘
کسی شاعر نے اس مفہوم کو کیا خوبصورت انداز میں شعر کے پیرائے میں ڈھالا ہے:
کھڑے ہو کر تھے استقبال کرتے مصطفی ان کا
خدا ہی جانتا ہے کس قدر ہے شان زہرا کی
رسالت مآب (ص) نے اپنی اسی بیٹی کے بارے میں فرمایا :
فاطمۃ بضعۃ منی فمن اغضبھا فقد اغضبنی4
فاطمہ میرا ٹکڑہ ہے جس نے اس کو غضب ناک کیا گویا اس نے مجھے غضب ناک کیا
ایک اور مقام پر فرمایا:
فاطمۃ بضعۃ منی من اذاھا فقد اذانی ومن اذانی فقد اذی اللہ
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی گو یا اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے گویا خدا کو تکلیف پہنچائی ۔
قال رسول اللہ :فاطمہ سیدۃ النساء اھل الجنۃ5
فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔
قال رسول اللہ :فاطمۃ سیدۃ نساء العالمین6
فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔
ایک مقام پر رسالت مآب سیدہ کی مرضیوں کو اللہ کی مرضیاں قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
انّ اللہ یرضی لرضا فاطمہ و یغضب لغضبھا7
خداوند متعال ، فاطمہ زہرا علیہا السلام کی رضا سے راضی اور اْن کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ سیدہ کا ہر نام اور ہر لقب الہامی ہے جو سیدہ کو اس زبان سے عطا ہوا جس کے بارے میں قرآن شاہد ہے کہ
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی [] اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی []8
روایات اور تاریخ کو کھنگال لیجیے آپ کو کسی بھی خاتون کے بارے میں پیغمبر گرامی کی مذکورہ بالا موضوعات کی حامل احادیث نہیں ملیں گی۔ ایک نظریے کے مطابق رسالت مآب کی اور بھی بیٹیاں تھیں تاہم ہم نے کہیں نہیں پڑھا کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہو کہ ام کلثوم بضعۃ منی ۔۔۔۔۔۔۔زینب بضعۃ منی ۔ یہ طرز تخاطب فقط فاطمہ(س) سے ہی مخصوص ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ قرآن میں متعدد آیات سیدہ اور ان کے گھر کی شان میں نازل ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ https://albasirah.com/urdu/inna-atenaka-alkousar/
کوثر کی تفسیر فاطمہ،آیۃ تطہیر کی پانچویں مصداق فاطمہ، آیت مباہلہ میں نساء کی نمائندہ فاطمہ ، سورہ دھر اس بی بی کے خانوادے کے بارے میں نازل ہوئی۔ آیۃ مودت نے فاطمہ (س) کے گھرانے کے شرف کو آشکار کیا۔ اسی طرح فاطمہ کے شوہر علی( ع ) کی ذات والا صفات ہجرت کی رات خدا کی مرضیاں خریدنے والی ٹھہری ، مواخات میں رسول (ص) نے دنیا اور آخرت کا بھائی بنایا، علی (ع) کی ایک ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل قرار پائی، نبی کریم (ص) کی ایک دعا کے مطابق حق اس جانب مڑ جاتا ہے جس جانب علی (ع) جائے ، علی (ع) اور قرآن کبھی جدا نہیں ہوتے ۔کون کون سا موقع گنوایا جائے ، کس کس آیت کا شان نزول بیان کیا جائے۔ مباہلہ میں نفس رسول (ص) کا مصداق ہے تو علی (ع) ، رکوع میں زکوۃ دینے والے کو تلاش کرو تو علی(ع) ، جوانان جنت کے سرداروں کا باپ ہے علی (ع)،موسی اور ہارون کی مانند وزیر رسول (ع) کو ڈھونڈنے نکلو تو علی (ع) ، من کنت مولا کا معاملہ ہو تو نظر انتخاب علی (ع) ،کل کفر کا مقابلہ ہو تو علی(ع)۔
تربیت رسول (ص) کے ان دو عظیم شاہکاروں علی (ع) وبتول (س)کا بھلا کون اور کیونکر ثانی ہو سکتا تھا۔ اسی لیے تو رسول مقبول (ص) نے فرمایا :
اگر علی (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ(ع) کا کوئی کفو نہ ہوتا۔9
فرزند رسول امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
لو لا ان اللہ تعالی خلق امیر المومنین لم یکن لفاطمۃ کفو علی وجہ الارض10
اگر خدا وند کریم امیر المومنین کو خلق نہ کرتا تو روئے زمین پر فاطمہ کا کوئی کفو نہ ہوتا۔
تاریخ کہتی ہے کہ فاطمہ جب شادی کی عمر کو پہنچیں تو بہت سے سر برآوردہ صحابہ نے رسول (ص) سے فاطمہ(س) کا رشتہ مانگا۔ رسالت مآب (ص) نے کسی کو بھی مثبت جواب نہ دیا۔ روایات کو پرکھیں تو کہیں بڑھاپا آڑے آیااور کہیں خدا کی مرضیاں 11۔ رشتے کے خواہشمند صحابہ کی دانشمندی دیکھیئے کہ انھیں فورا محسوس ہو گیا کہ یہ سعادت علی (ع) کے سوا کسی کے حصے میں آنے والی نہیں۔
بعض روایات کے مطابق مہاجر صحابہ اور بعض روایات کے مطابق انصار صحابہ نے حضرت علی (ع) کو اس امر کی جانب متوجہ کیا کہ اے علی (ع) آپ فاطمہ(س) کا رشتہ کیوں نہیں مانگتے ۔ روایات تو یہ بھی کہتی ہیں کہ علی (ع) نے کہا کہ میرے پاس مال دنیامیں سے ہے کیا ؟ کیا رسول خدا (ص) مجھے رشتہ دیں گیں؟ رسول اکرم (ص) کے ایک محترم صحابی نے کہا کہ تمھیں نہیں دیں گے تو اور کس کو دیں گے۔سلام ہو ان صحابہ کی معاملہ فہمی پر کہ وہ حالات کو درک کرکے معاملے کی تہ تک پہنچ گئے۔
جیسے تیسے علی (ع) نے رسالت مآب (ص) سے اپنا مدعا بیان کیا ۔ بیان مدعا کے حوالے سے بہت سی روایات کتب احادیث و تاریخ میں مذکور ہیں لیکن نہیں معلوم کیوں میرا دل کہتا ہے کہ علی (ع) سوال نہ کر سکے ہوں گے ۔ شرم و حیا اور ہیبت رسول (ص) اس قدر مانع ہوئی ہوگی کہ خاموش بیٹھے رہے ہوں گے اور رسول خدا (ص) نے خود ہی بات کا آغاز کیا ہوگا۔ بہر حال علی (ع) کے دل کی بات زبان پر آگئی ۔ رسالت مآب (ص) نے فرمایا کہ علی (ع) تم سے پہلے بھی بہت سے لوگ خواستگاری کے لیے آئے میں نے ہر دفعہ فاطمہ (س) سے پوچھا۔تم بھی مجھے مہلت دو کہ تمہارے بارے میں فاطمہ (ع) کی رضایت حاصل کرلوں۔
روایات کے مطابق رسالت مآب سیدہ (س) کے پاس آئے اور جناب امیر (ع) کی آمد اور مدعا کا ذکر کیا۔ علی (ع) فاطمہ (س) کے لیے بھلا کب انجان تھے، فاطمہ (س) جانتی تھیں کہ اگر میرے بابا کو اس کائنات میں کسی سے بے پناہ محبت ہے تو وہ علی (ع) کے سوا کوئی دوسرا نہیں اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ علی (ع) رسالت مآب (ص) کو اس سے بھی زیادہ چاہتے ہیں ۔بھلا فاطمہ(س) کیسے بھول سکتی تھیں کہ ہجرت کی رات کو، جب علی (ع) رسول (ص) کے بستر پر سوئے جبکہ قاتل تلواریں سونتے حملہ کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ بھلا فاطمہ (س)کیسے بھلا سکتی ہیں کہ علی (ع) بچپن سے رسول اللہ (ص) کے زیر تربیت رہے، غار حرا ہو یا بیت اللہ فاطمہ نے محمد مصطفی اور علی کو ہمیشہ اکٹھے پایا۔ فاطمہ(س) کیسے بھول سکتی ہیں علی اور ان کے والدین کو جو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں رسالت مآب (ص) کے گرد پروانوں کی مانند منڈ لاتے رہے۔ فاطمہ (س) کیسے بھلا سکتی تھیں اپنے بابا کی فداکار چچی فاطمہ بنت اسد کو جن کی قبر میں رسول اکرم (ص) خود اترے اور انہیں اپنی قمیص میں کفن دیا۔ فاطمہ کیسے بھلا سکتی ہیں اپنے ابن عم کے والد ابو طالب کو جو شعب ابی طالب میں رات بھر اپنے بھتیجے کے بستر کو بار بار بدلتے تھے کہ کہیں اس کی جان کے دشمن اس پر حملہ نہ کردیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علی (ع) ، فاطمہ(س) ، خدیجہ (س) ایک ہی گھر کے افراد تھے، جس کے سرپرست زمانوں کے رسول(ص) تھے۔فاطمہ(س) نے علی (ع) کا نام سن کر سر جھکا لیا۔
روایات کہتی ہیں کہ رسول اکرم (ص) نے تکبیر بلند کی ۔ نکاح فاطمہ(س) کی تقریبات کے حوالے سے دو طرح کی روایات کتب حدیث و تاریخ میں درج ہیں۔ ایک قسم اصحاب کے اقوال ہیں جبکہ دوسری قسم اسی خاندان کے فرزندوں کی روایات ہیں۔ مجھے صحاح ستہ میں فرزندان زھراء جو اپنے وقتوں کے متفق علیہ ائمہ تھے سے مروی روایات بہت کم ملیں۔ اس کا سبب کیا ہے نہیں معلوم لیکن دل کہتا ہے گھر والوں کی باتیں گھر والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے ایک عرب محاورہ بھی معروف ہے صاحب البیت ادری بما فیھا۔
بہرحال مسلمانوں کے مابین متفق علیہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کی دختر کا نکاح انتہائی سادہ مگر باوقار انداز میں منعقد ہوا۔ سیدہ اپنے بابا کے گھر سے امیر المومنین (ع) کے حجرے میں تشریف لائیں۔ سید الکونین نو بیاہتا جوڑے کے پاس آئے اور اپنی صاحبزادی سے فرمایا:
میری بیٹی ! لوگوں کی طرف دھیان نہ دینا ، مبادا پریشان ہو جائو کہ تمھارا شوہر غریب ہے۔ فقر دوسروں کے لیے باعث ذلت ہے لیکن پیغمبر اور ان کے خاندان و اہل بیت کے لیے مایہ افتخار ہے۔میری بیٹی اگر تیرا باپ چاہتا تو زمین کے خزانوں کا مالک بن سکتا تھا لیکن اس نے رضائے الہی کو اختیار کیا ۔ بیٹی جو کچھ تیرا باپ جانتا ہے اگر تو جان لے تو دنیا تیری نظروں میںحقیر ہو جائے ۔12
میں نے تیرے حق میں کوتاہی نہیں کی ۔تجھے میں نے اپنے خاندان کے بہترین فرد کے سپرد کیا ۔تیرا شوہر دنیا و آخرت میں عظیم ہے۔13
الہی و روحانی تربیت اور کفالت کا عظیم شاہکار ایک خانوادہ کی صورت میں زندگی بسر کرنے لگا۔یہ زمانہ مسلمانوں کے لیے انتہائی کٹھن تھا تاہم مکہ کی نسبت زندگی بہت آسودہ تھی۔ نبی کریم (ص) اکثر و بیشتر بیٹی کے گھر تشریف لاتے ، کبھی تسبیح کی تعلیم دیتے تو کبھی تقسیم کار کرتے ۔سید المرسلین (ص) کا دستور تھا کہ سیدہ کے دروازے پر تشریف لاتے اونچی آواز سے سلام کہتے ۔مدینہ کے لوگ رسول اکرم (ص) کے اس حسن ترتیب اور طریقہ کار کو بغور دیکھتے رہے۔ ایک دن وہ بھی آیا کہ مسجد نبوی میں کھلنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی کے گھروںکے دروازے سوائے دروازہ رسول (ص) و علی (ع) کے بند کروا دیے گئے۔رسول خدا (ص) کا یہ رویہ اہل مدینہ کے لیے نیا تھا ۔ امہات المومنین (رض) جو اس وقت خانہ رسول (ص) میں موجود تھیں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں کہ فاطمہ (س) و علی(ع) سید کائنات کو دنیا میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
اسی اثنا میں ہجرت کے تیسرے سال علی(ع)ا ور فاطمہ(ع) کے آنگن میں ایک کلی کھلی۔ سید المرسلین (ع) نے بچے کا نام ہارون علیہ السلام کے فرزند ’’شبر‘‘ کے نام پر ’’ حسن ‘‘ رکھا ۔ ائمہ اہل بیت کی روایات میں ملتا ہے کہ علی و بتول علیہم السلام نے اپنے بچوں کے نام سید المرسلین (ص)کے سپرد کیے کہ آپ ہی ان کے نام تجویز فرمائیں ۔14
ہجرت کے چوتھے سال خانوادہ عصمت و طہارت(احزاب :33) میں حسین (ع) نے آنکھیں کھولیں ، نوارانی گھر حسین (ع) کی آمد سے اور بھی نورانی ہو گیا۔مدینہ کی فضائیں بالخصوص مسجد نبوی، علی و بتول علیہم السلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک حسن و حسین علیہما السلام کی معصوم صدائوں سے گونجنے لگیں۔ میرا دل کہتا ہے کہ جب یہ شہزادے اپنے نانا کو یا جدی ، یا رسول اللہ کہ کر پکارتے ہوں گے تو سید المرسلین (ص) کا دل خوشی سے چھلک اٹھتا ہوگا۔ بدر و احد، خیبر و خندق کی تمام تر سختیاں، اہل مکہ کی چیرہ دستیاں، منافقین مدینہ کی سازشیں سب بھول جاتی ہوں گی۔رسالت مآب (ص) نے ان بچوں سے اپنی برملا محبت کا اظہار منبر و محراب سے شروع کیا۔
کہیں فرمایا:
عن ابی سعید الخدری قال: قال رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الحسن والحسین سید ا شباب اہل الجنۃ۔15
حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
کبھی اس خانوادے کے افراد کو جمع کیا اور فرمایا:
عن ام سلمۃ رضی اللہ عنھا، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جمع فاطمہ وحسنا وحسینا ثم دخل تحت ثوبہ ثم قال: اللٰھم ھولاء اھل بیتی۔16
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام کو جمع فرما کر اپنی چادر میں لے لیا اور پھر فرمایا: اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔
پھر ایک روز رسول خدا (ص) کی لسان صدق، گویا ہوئی کہ فاطمہ کی اولاد میری اولاد ہے اور میرا نسب روز قیامت بھی منقطع نہ ہو گا۔
عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:کل سبب و نسب منقطع یوم القیامۃ ما خلاسببی و نسبی کل ولد اب فان عصتھم لابیھم ما خلا ولد فاطمہ فانی انا ابوھم و عصبتھم۔17
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سوا ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا۔ ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی ہے ماسوائے اولاد فاطمہ کے کہ ان کا باپ بھی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بھی میں ہی ہوں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک دن مسجد نبوی کی جانب کھلنے والے تمام دروازے بند کرواتے ہوئے کہا:
عن ام سلمۃ رضی اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الا۔۔۔ !لا یحل ہذا المسجد لجنب ولالحائض الا لرسول اللہ و علی وفاطمۃ والحسن والحسین۔ الا! قد بینت لکم الاسماء ان لا تضلوا۔18
حضرت ام سلمہ(رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار!یہ مسجد کسی جنب(مرد) اور حائضہ(عورت) کے لیے حلال نہیں سوائے اللہ کے رسول، علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم الصلوٰۃ والسلام کے۔(ان برگزیدہ ہستیوں کے علاوہ کسی کے لیے اس مسجد میں آنا جائز نہیں) آگاہ ہو جائو! میں نے تمہیں نام بتا دیے ہیں تاکہ تم گمراہ نہ ہو جائو۔
سید الانبیاء نے حسنین کریمین سلام اللہ علیہما کی محبت کو خدا کی محبت قرار دیتے ہوئے فرمایا:
عن سلمان رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول: من احبھما احبنی، ومن احبنی احبہ اللہ ومن احبہ اللہ دخلہ الجنۃ۔19
سلمان فارسی(رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ سے سنا: آپ فرماتے ہیں جس نے حسنین کریمین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اس سے اللہ نے محبت کی اور جس سے اللہ نے محبت کی، اسے اس نے جنت میں داخل کردیا۔
کئی ایک مقامات پرسید المرسلین نے اس خانوادے سے جنگ اور دشمنی کو اپنے سے جنگ اور دشمنی قرار دیا:
عن زید بن ارقم ، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لعلیّ و فاطمۃ والحسن والحسین رضی اللہ عنہم انا حرب لمن حاربتم و سلم لمن سالمتم۔20
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ علیہم سے فرمایا:جس سے تم لڑوگے میری بھی اس سے لڑائی ہوگی، اور جس سے تم ضلح کروگے میری بھی اس سے صلح ہوگی۔
مسجد نبوی میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارواحنا لہ الفداہ محو نماز ہیں کہ علی و بتول علیہما السلام کے پیارے مسجد میں پہنچے اور اپنے نانا کی پشت پر سوار ہوگئے ۔لوگوں نے روکا تو رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما قال: کان النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم یصلی والحسن والحسین علی ظہرہ، فباعدہما الناس، و قال النبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم دعوہما بابی ہما وامی۔21
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نماز ادا کر رہے تھے تو حسن و حسین علیہما لسلام آپ کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے۔ لوگوں نے ان کو منع کیا تو آپ نے فرمایا: ان کو چھوڑ دو ان پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔
ایک اور روایت میں یہ واقعہ یوں مذکور ہے:
عبداللہ بن شداد اپنے والد شداد بن ہاد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لیے ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ حسن یا حسین علیہما السلام (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ نے انہیں زمین پر بٹھا دیا اور نماز کے لیے تکبیر فرمائی اور نماز پڑھنے لگے۔نماز کے دوران آپ(ص) نے طویل سجدہ کیا،(شداد نے کہا): میں نے سر اٹھا کر دیکھا کہ شہزادہ سجدہ کی حالت میں آپ(ص) کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پھر سجدہ میں چلا گیا۔ جب حضور (ص) نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ(ص) آپ نے نماز میں اتنا طویل سجدہ فرمایا کہ ہمیں خیال ہونے لگا کہ کوئی امر الٰہی واقع ہو گیا ہے یا آپ(ص) پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ(ص) نے ارشاد فرمایا: ایسی کوئی بات نہ تھی مگر میرا بیٹا مجھ پر سوار تھا اس لیے مجھے سجدہ سے اٹھنے میں عجلت کرنا اچھا نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔22
روایات اور بھی بہت ہیں ۔ اکثر مورخین اور محدثین نے اس محبت کو رسول اکرم (ص) کی بچوں اور بیٹی سے محبت پر محمول کیا۔ آپ نے بھی اکثر سنا ہو گا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بچوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم عربوں کے وطیرے کے برخلاف بیٹی کا بہت احترام کرتے تھے۔ آپ ڈھونڈ لیجیے اس دعوی کی تصدیق میں آپ کو اکثر یہی روایات ملیں گی۔شک نہیں کہ رحمت للعالمین بچوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ ان سے شفقت سے پیش آتے تھے۔بیٹی سے محبت آپ نے ہی زمانے کو سکھائی لیکن یہ کہنا کہ نبی کریم (ص) اس محبت میں اس حد تک بڑھ گئے کہ مسجد نبوی کو ہر حال میں ان پر حلال کر دیا، نماز میں بھی ان کے بارے میںسوچنے لگے، ان کی مرضیوں کو اللہ کی مرضی بنادیا ۔ میری نظر میں عصمت و عدالت نبوی پربہت بڑا بہتان ہے۔ اگر مذکورہ بالا روایات سچ اور صحیح ہیں تو عام فہم انسان بھی کہنے کا حق رکھتا ہے کہ ختمی مرتبت(ص) کا اس خانوادے سے خصوصی محبت کا برملا اظہار کسی بڑے ہدف و مقصد کے تحت تھا۔رسالت مآب (ص) کی اس روش پر غور و فکر کے بعد جو ہدف و مقصد مجھے سمجھ آیا حسب ذیل ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہم سے پہلی اقوام پر بھی الہی کتب کا نزول ہوا اور ہمارا یہ عقیدہ بھی ہے کہ ان کتب میں تحریف کی گئی۔ اسی سبب خدا وند کریم نے اپنی آخری نازل کردہ کتاب جسے قیامت تک کے انسانوں کی ہدایت کا فریضہ انجام دینا تھا کی حفاظت کا ذمہ لیا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ []23
ہم نے ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں
رسالت مآب (ص) کی حدیث مبارکہ ہے جس میں امام علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
انت منی بمنزلۃ ہارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی24
(اے علی) تمہاری منزلت میرے نزدیک وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک حدیث مسند احمد ، اور صحیح بخاری میں بھی ان الفاظ میں درج ہے
او ما ترضی ان تکون منی بمنزلہ ہارون من موسی الا النبوۃ25
کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ نبوت کے علاوہ تیری نسبت مجھ سے وہی ہو جو ہارون کو موسی سے تھی۔
رسول مقبول (ص) نے اسی نسبت سے اپنے نواسوں کے نام ہارون علیہ السلام کے فرزندوں کے نام ’’شبرو شبیر‘‘ پر ’’ حسن و حسین ‘‘ رکھے۔اس خانوادے کی مرضیوں کو اللہ کی مرضی قرار دینا ، اس خانوادے سے جنگ کو اپنے ساتھ جنگ کہنا ، ان کی محبت کو محبت خدا قرار دینا، انہیں سردار جنت کہنایہ فقط پدری محبت نہیں بلکہ میری نظر میں یہ حسن ترتیب ہے جس کے ذریعے رسول اکرم(ص) دین الہی کی بقا ء کا ایک ایسا انتظام کرنا چاہتے ہیں جسے وقت اور زمانے سے تحریف کا خطرہ لاحق نہ ہو۔
موسی علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو وزیر بنا کرتیس روز کے لیے کوہ طور پر گئے، ابھی اکتیسواں دن شروع نہ ہوا تھا کہ بنی اسرائیل طریق موسوی سے منحرف ہونا شروع ہو گئے اور جب موسی علیہ السلام کوہ طور سے واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ بنی اسرائیل گوسالہ پرستی کر رہے ہیں ۔ ہارون علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ تم کو میں اپنا وزیر بنا کر گیا تھا تو ہارون علیہ السلام نے معذرت چاہی اور فرمایا کہ قوم نے مجھے بے بس کر دیا تھا۔ رسول خدا (ص) جناب امیر کو کلی طور پر اپنے بعد اپنا وزیر بنا گئے یا صرف ایک موقع پروزیر بنایا سے فرق نہیں پڑتا ۔ میری نظر میں خانوادہ علی وبتول (ع) کو رسالت مآب (ص) نے دین کے ایک حقیقی مدافع کے طور پر متعارف کروایا۔ لوگوں کے سامنے اس خانوادے کے اس قدر مناقب بیان کیے کہ کسی کو شک نہ رہے کہ اس خانوادے کا رسالت مآب (ص) کی بارگاہ میں کیا مقام تھا ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ رسول اکرم (ص) کی اس تدبیر نے واقعی اپنا کام دکھایا۔ علی (ع) نبی کریم (ص) کے فوری بعد خلیفہ وقت بنے یا نہیںیہ حقیقت اپنی جگہ مگر امت مسلمہ کاکوئی اہم معاملہ ایسا نہ تھا جس میں امیر المومنین (ع) نے اپنے سے قبل آنے والے خلفاء کی راہنمائی نہ کی ہو۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسی عنوان سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر آج علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔26
اس حوالے سے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو بھی بطور مثال پیش کیا جاسکتا ہے۔ 60ہجری میں حسین ابن علی علیہ السلام کے سوا کوئی بھی ایسا نہ تھا جو فی ذاتہ معیار حق ہوتا۔ فی ذاتہ معیار حق بن جانا فقط اور فقط رسول اکرم (ص) کے اس حسن ترتیب کے سبب ہوا جو آپ نے مدینہ میں اس خانوادے کے متعلق اپنایا۔امت جانتی ہے کہ مستند احادیث رسول اکرم (ص) کی روشنی میں حسین (ع) جوانان جنت کے سردار ہیں اب جو بھی حسین (ع) کے مخالف آیا چاہے وقت کا حاکم ہی کیوں نہ ہو باطل ہے اور اس کااسلام سے کچھ لینا دینا نہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی آج ان احادیث کو پڑھ کر سنی ان سنی نہ کردیں، رسالت مآب (ص) کے ان اقوال کو ہلکا نہ لیں بلکہ غور و فکر کریں ۔ خدا وند کریم ہم سب کوصراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
حوالہ جات
1۔ نہج البلاغہ خطبہ:192،ترجمہ علامہ سید ذیشان حیدر جوادی
2۔ ابن سعد ، طبقات ج8ص 14،اصابہ ج 8ص158،الموفقیات ص 376
3۔ سنن الترمذی ص 874رقم 3872,، سنن ابی داود ج 4ص 458رقم 5217
4۔ بخاری الصحیح 1361:3، رقم :3510 ،مسلم الصحیح ،19034، رقم :2449
5۔ صحیح البخاری ج 3کتاب الفضائل باب مناقب فاطِمَۃ ص 1374/ سنن الترمذی ج 3 ص 226/ کنز العمّال ج 13 ص 93
6۔ . اسد الغابۃ ابن اثیر، ج4، ص16
7۔ مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۵۴، المعجم الکبیر، ج۲۲ ص ۴۰۱ اور صحیح بخاری، ج۵، ص ۳۸
8۔ والنجم 3-4
9۔ بحار الانواار ، ج 43، ص 58،98
10۔ بحار الانوار ، ج 43ص 107
11۔ ابن سعد طبقات ج8ص11
12۔ کشف الغمۃ ج 1ص363
13۔ کشف الغمۃ ج 1ص 351
14۔ ارشاد مفید ج 2ص403
15۔ ترمذی، الجامع الصحیح،252:5،ابواب المناقب، رقم3768
16۔ طبرانی ، المعجم الکبیر،53:3، رقم:2663،حاکم، المستدرک، 58:3، رقم4705
17۔ احمدبن حنبل، فضائل الصحابہ626:2
18۔ بیہقی، السنن الکبریٰ،65:7،رقم:13178-13179
19۔ حاکم، المستدرک،181:3،رقم:4776
20۔ ترمذی، الجامع الصحیح،299:5، ابواب المناقب، رقم:3870
21۔ طبرانی، المعجم الکبیر،47:3،رقم:2644
22۔ نسائی، السنن،229:2،کتاب التطبیق، رقم:1141
23۔ الحجر:9
24۔ الکافی ، شیخ کلینی، ج 8، ص107
25۔ مسند احمد، الامام احمد بن حنبل ، ج 1،ص170،صحیح بخاری ، البخاری ، ج 5، ص129،باب غزوہ تبوک
26۔ تاویل مختلف الحدیث ، ابن قتیبۃ ، ص 152۔مواقف ، ایجی ، ج 3 ، ص 627 و 636-شرح مقاصد ، تفتازانی ، ج 2 ، ص 294 -التفسیر الکبیر ،فخررازی ، ج 21 ، ص 22-شرح نہج البلاغۃ ، ابن ابی الحدید، ج 1 ، ص 18و ج 12 ، ص 179-تمھید الاوائل ، باقلانی ، ص 476 -مناقب علی ابن ابیطالب ، ابن مردویہ اصفہانی ، ص 88-ینابیع المودۃ ، قندوزی حنفی ، ج 1 ، ص 216و ج 2 ، ص 172و ج 3 ، ص 147 -تاویل مختلف الحدیث ، ابن قتیبہ، ج 1 ، ص 162-تمھید الاوائل فی تلخیص الدلائل ، باقلانی ، ج 1 ، ص 476 و 547 -الحاوی الکبیر ، ماوردی شافعی ، ج 12 ، ص 115 و ج 13 ، ص 213 – تفسیر سمعانی ، ج 5 ، ص 154 – المفصل فی صنعۃ الاعراب ، زمخشری ، ج 1 ، ص 432 – العواصم من القواصم ، ابوبکر بن عربی ، ج 1 ، ص 203-حاشیہ الرملی ، رملی ، ج 4 ص 39 -الجد الحثیث ، سعودی غزی عامری ، ج 1 ، ص 186-بریقہ محمودیہ ، محمد بن محمد خادمی ، ج 2 ص 108-منع الجلیل ، محمد علیش ، ج 9 ، ص 648- دستور العلماء، قاضی عبدالنبی نکری، ج 1 ، ص 80