امام حسن ؑاورامام حسین ؑکی روش سید مرتضیٰ اورشیخ طوسی کی نظرمیں

Published by fawad on

Shuja abbas

ترجمہ: خواجہ شجاع عباس 
٭ جب عام لوگ دیکھتے ہیں کہ امام حسنؑ نے صلح کا راستہ اختیار کر لیا تھا جبکہ امام حسینؑ نے کم تعداد ہونے کے باوجود جنگ کا راستہ اختیار کیا تو وہ اس کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ یہ سوال کوئی تازہ اور نیا نہیں بلکہ ہر دور میں لوگ اس سلسلے میں اہل علم سے پوچھتے رہے ہیں اوراہل علم اپنے مطالعے، معلومات اورطرز فکر کی روشنی میں اس کا جواب دیتے رہے ہیں۔ سید مرتضیٰ جنھیں ان کی جلالت علمی کی وجہ سے علم الھدیٰ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اور بعدازاں شیخ ابو جعفر طوسیٰ نے جنھیں شیخ الطائفہ کہا جاتا ہے نے بھی اس سوال کا جواب دیا ہے۔ شیخ طوسی نے تقریباً سید مرتضیٰ ہی کا جواب اختیار کر لیا ہے۔ ذیل میں اس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔یہ ترجمہ جناب ش ۔ع۔ خواجہ نے کیا ہے۔

اگر پوچھا جائے کہ امام حسینؑ کی روش دشمنوں کے مقابلے میں امام حسن سے مختلف کیوں تھی اور یہ کہ بظاہر مختلف ہونے کے باوجود دونوں اماموں کا طرز عمل ایک جیسا کیسے مانا جاسکتا ہے۔[اس سوال کی تفصیل کچھ یوں ہے۔]
(۱) امام حسینؑ اپنے اہل وعیال سمیت اس زمانے میں کوفہ کی طرف کوچ کرتے ہیں جب کہ وہاں پر دشمن کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اوریزید کی طرف سے نامزد گورنر کا حکم چلتا ہے۔ امام حسین ؑاپنے والد اوربھائی کے ساتھ کوفہ والوں کاغلط طرزِ عمل خود مشاہدہ کر چکے تھے اورجانتے تھے کہ وہ بے وفا اورخائن ہیں۔

(۲) امام حسینؑ کا نقطۂ نظر ان کے دیگر ساتھیوں سے کیوں مختلف تھا۔ حضرت ابن عباس رحمۃ اللہ علیہ نے خطرے کو بھانپتے ہوئے انھیں سفر کوفہ ترک کرنے کا مشورہ دیا جبکہ ابن عمر نے الوداع کے وقت خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔’’اے قتل ہونے والے! تجھے خدا کے سپرد کیے دیتا ہوں‘‘۔ امام حسینؑ کے بھائی محمد[ابن حنفیہ] نے اور دیگر افراد نے بھی جن کا ذکر [تاریخ میں] کیا گیا ہے، اس بارے میں یہی کچھ کہا تھا۔

(۳)پھر جب امام حسین ؑمسلم ابن عقیل کے قتل ہوجانے کے بارے میں جان جاتے ہیں تو واپس کیوں نہیں چلے جاتے حالانکہ کوفے سے بلانے والوں کی بے وفائی اوردھوکا دہی ان پرعیاں ہوچکی تھی۔

(۴) اس کے بعد امام نے ساتھیوں کی قلیل جماعت کے ساتھ دشمن کے اس بہت بڑے لشکر سے کیوں جنگ کی جن کی پشت پر شام میں قائم حکومت وقت بھی تھی۔

(۵) اس کے بعد جب ابن زیاد نے امام حسینؑ کو امان کی پیشکش کی اوریزید کی بیعت کرنے کو کہا تو انھوں نے اپنے ساتھیوں کی جان بچانے کی خاطر اسے کیوں قبول نہیں کیا؟ امام حسینؑ نے کیوں خطرہ مول لیا جبکہ امام حسنؑ کو اتنے نامساعد حالات کا سامنا نہ تھا مگر پھربھی انھوں نے حکومت معاویہ کے سپرد کردی۔

ان دونوں [حسن وحسین علیہما السلام] کے [بظاہرمختلف] طرز عمل کو مبنی برحق سمجھتے ہوئے کیسے آپس میں تطبیق دی جاسکتی ہے۔
جواب: (الف) ہم جانتے ہیں کہ امام کو جب یہ اندازہ ہوجائے کہ وہ عادلانہ حکومت تشکیل دے سکتا ہے اورامت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے تو ایسی صورت میں اس پر اقدام کرنا واجب ہوجاتا ہے ،چاہے اسے اس کے لئے قابل برداشت سختی جھیلنی پڑے۔ کوفہ والوں کی طرف سے یقین دہانی کروانے، عہد وپیمان باندھنے اوررضا کارانہ ابتدا کرتے ہوئے اپنی طرف بلانے کے بعد ہی امام حسینؑ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔

[امیر]معاویہ کے دورِ حکومت میں بھی صلح ہوجانے کے بعد اہل کوفہ اوران کے اشراف اورقاریوں [علماء] کی طرف سے امام حسینؑ کو قیام کے لئے خطوط لکھے گئے تھے۔ امام حسینؑ نے تب کوئی اقدام نہیں فرمایا اورخطوط لکھنے والوں کو مناسب جواب دے دیا۔
امام حسنؑ کی وفات کے بعد پھرانھوں نے امام حسینؑ کو خط لکھے اورحکومت کے خلاف قیام کے لئے کہا جبکہ[امیر] معاویہ ابھی فوت نہیں ہوئے تھے۔ امام حسین ؑنے آئندہ مناسب موقعے پر قیام کرنے کا وعدہ کرکے اورامید دلا کر ٹال دیا کیونکہ[امیر] معاویہ کی حکومت کی قوت وسطوت کو دیکھتے ہوئے کامیابی کے امکانات ناپید تھے۔

[امیر]معاویہ کی وفات پر تیسری بار اہل کوفہ نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے ،اطاعت کا یقین دلایا اوربھرپور خواہش کے ساتھ کوفہ آنے کی دعوت دی۔ امام حسینؑ نے دیکھا کہ کوفہ کی انقلاب پسندجماعت طاقتورہے اورمقابلے میں یزیدی گورنر کمزوراور مغلوب ہے[یاد رہے کہ ابن زیاد کو بعد ازاں منصوب کیا گیا]۔امام کی رائے میں ان حالات میں حکومت قائم کرنے کے امکانات اتنے روشن تھے کہ قیام واجب عینی ہوچکا تھا۔ ان حالات میں ترتیب دیے گئے لائحہ عمل میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جاسکتا تھا جو بعض کوفیوں کی غداری اوربعض دیگر کی کم ہمتی کی وجہ سے بعد میں وقوع پذیر ہوئیں اور نتیجتاً کوفہ والوں کی طرف سے مدد و نصرت نہ ملنے کی وجہ سے حالات بالکل دگرگوں ہوگئے۔ مسلم ابن عقیل کوفہ آئے تو اکثر کوفیوں نے امام حسینؑ کے لئے ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔

عبیداللہ بن زیاد کوفہ میں وارد ہوا تو اس نے سنا کہ مسلم ہانی بن عروہ المرادی کے گھر میں ہیں، جیسے کہ کتب سیر میں بیان ہوا ہے۔
شریک ابن الاعور بھی مسلم کے ساتھ ہانی کے گھر پر موجود تھا۔ شریک اورمسلم کے درمیان یہ بات طے ہوچکی تھی کہ جب ابن زیاد ہانی کی عیادت کے لئے آئے گا تو مسلم اس پر[پیچھے سے] وار کرکے موت کے گھاٹ اتاردیں گے۔ ابن زیاد طے شدہ پروگرام کے مطابق عیادت کے لئے آیا اورمسلم کے لئے بآسانی قتل کرنا ممکن بھی ہوچکا تھا۔مگر مسلم نے اسے قتل کرنے سے اجتناب کیا۔ بعد میں مسلم نے اسے قتل نہ کرنے کا یہ عذر پیش کیا تھا کہ نبیؐ نے فرمایا ہے کہ ایمان کسی کو پیچھے سے وار کرنے سے روکتاہے۔اگر مسلم ابن زیاد کو موت کے گھاٹ اتاردیتے تو ابن زیاد کے منصوبے خاک میں مل جاتے۔ ایسی صورت میں امام حسینؑ بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ کوفہ میں تشریف لے آتے اورلوگ جوق در جوق ان سے مل جاتے۔ ایسے میں جو کوئی بھی دل سے امام حسین ؑکا مدد گار بننا چاہتا تھا وہ ان کے لشکر میں شامل ہوکر دشمن سے نبردآزما ہوتا۔

اس وقت بھی جب ابن زیاد نے ہانی کو قید کر لیا تھا مسلم نے پوری ایک جماعت کے ساتھ جا کر ابن زیاد کے محل کو یوں محاصرے میں لے لیا کہ ابن زیاد ڈر کے مارے سہم گیا اورمحل کے دروازے بند کردیے۔ بعد میں ابن زیاد نے لوگوں کو مسلم کے رفقاء اور پیروکاروں کے پاس بھیجا اورترغیب و ترہیب سے کام لے کر مسلم کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ کیا۔ ساتھیوں کے منتشر ہونے کے بعد مسلم کا وہ انجام ہوا جسے سب جانتے ہیں۔

ان واقعات کا ذکر اس لئے کیا گیا تاکہ ثابت ہوجائے کہ امام حسینؑ کی کامیابی کے تمام ترامکانات موجود تھے مگر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ دنیا ہی بدل گئی اور وہ سب کچھ ہوا [جو نہیں ہونا چاہیے تھا]۔

مسلم کے قتل ہونے کی خبر پانے پر امام حسینؑ نے اپنے رفقا کے ساتھ تازہ حالات کی روشنی میں مشاورت کی۔ مسلم کے بھائیوں نے کہا یا توہم مسلم کے خون کا بدلہ لیں گے[یعنی کوفے میں جانے کے بعد کامیاب ہوکر قاتلینِ مسلم کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے] یا پھر مسلم جیسے انجام سے دوچار ہوںگے[یعنی حکومتِ وقت سے لڑتے ہوئے شہادت پائیں گے]۔امام حسینؑ نے کہا کہ اولاد عقیل کے بغیر زندگی کا کیا مزہ ہے۔ گویا آپ نے ان کی رائے کی تائید فرمائی (اورحسینی لشکر آگے کی طرف چل پڑا)۔ آگے بڑھے تو حرا بن یزید نے سپاہیوں کی ایک ٹولی کے ساتھ جسے ابن زیاد نے بھیجا تھا امام کو روکا اورابن زیاد کے پاس چلنے کو کہا تاکہ اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کریں۔ امام نے یہ ماننے سے انکارکردیا۔ جب ان پر واپسی کا راستہ بند کیا گیا اورکوفہ میں آزادانہ داخلے کی کوئی صورت نہ رہی تو امام حسینؑ نے شام کی طرف جانے والے راستے پر سفر شروع کیا تاکہ جا کر یزید سے براہ راست معاملہ طے کریں۔۔۔ امام کا (شام کی طرف) یہ سفر جاری تھا کہ عمر ابن سعد بڑے فوجی لاؤلشکر کے ساتھ پہنچا اور وہ سب کچھ ہو گزرا جو اس بارے میں لکھا گیاہے۔
اس لئے یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ امام حسینؑ نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر ہلاکت میں ڈالا جبکہ روایت کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے عمر بن سعد سے کہا کہ مجھے تین راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنے دو۔
(۱) جہاں سے میں آیا ہوں وہاں مجھے واپس جانے دو۔
(۲)مجھے یزید سے روبرو معاملہ طے کرنے کے لئے شام جانے دو…
(۳) مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد پر جانے دو تاکہ میں دوسرے مسلمانوں کی طرح عمل کروں۔(۱)
ابن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کوامام حسینؑ کی طرف[منسوب کرتے ہوئے]یہ تجاویز لکھ کر بھیجیں مگر اس نے کوئی ایک بھی ماننے سے انکار کیا اورامام حسین ؑکے خلاف جنگ کا فرمان تحریر کرتے ہوئے یہ معروف شعر لکھا:
ترجمہ: جب ہمارے شکنجے میں پھنس گیا ہے وہ نجات کی امید کرتا ہے درحالیکہ اب نجات کا وقت نہیں ہے۔

امام حسینؑ نے حکومت کوفہ کا یہ رویہ دیکھا تو سمجھ گئے کہ ان لوگوں نے دین سے بالکل ہی ناتا توڑ دیا ہے۔ وہ جان گئے کہ اگر اپنے آپ کو ابن زیاد کے سپرد کریں گے تو ذلت و پستی کے ساتھ قتل کیے جائیں گے۔ کوئی اور آبرومندانہ راستہ نہ پا کرانھوں نے مجبوراً اپنا دفاع کرتے ہوئے جنگ کا راستہ انتخاب کیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں دو سعادتوں میں سے ایک ان کی منتظر تھی۔ دشمن پر غلبہ یا فخر انگیز شہادت۔

جواب:(ب) اب رہی بات کہ اپنے تمام تر نصیحت کرنے والوں جیسے ابن عباسؓ وغیرہ کے برعکس امام حسینؑ نے حالات کی تشخیص میں مختلف رائے کیسے قائم کی۔ کسی رائے پر پہنچنے میں قرائن کاکافی دخل ہوتا ہے اورممکن ہے وہ قرائن اگر کسی کے نزدیک مضبوط ہوں تو دوسرے کی نظرمیں کمزور ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ابن عباسؓ اہل کوفہ کی امام حسینؑ سے کوفہ آنے کے لئے پرزور درخواست اوراس حوالے سے ہونے والی خط و کتابت اوران کی طرف سے کیے گئے وعدوں اورعہدو پیمان کی تفصیلات سے بے خبر رہے ہوں۔یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں لوگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں اوران کے بارے میں تفصیل میں جائے بغیراجمالی طور پر اشارتاً بتایا جاسکتا ہے۔

جواب:(ج) ابن زیادلعنۃ اللہ علیہ نے امام حسینؑ کے لئے کسی ایسی امان کی پیشکش نہیں کی جس پر اطمینان کیا جاسکتا تھا۔ وہ تو صرف یہ چاہتا تھا کہ امام اس کے سامنے سرتسلیم خم کریں تاکہ وہ امام کی تذلیل و توہین کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے اوران کی قدرومنزلت کو داغدار کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتارے۔ بالفرض اگر اس کے دل میں امام کے لئے کوئی خیر خواہی کا جذبہ ہوتا تو وہ یزید کو ناراضی کا موقع فراہم کیے بغیر امام حسینؑ کو اس کی طرف جانے دیتا اورامام کے ساتھ نگرانی کے لئے وہ اپنا لشکر بھی بھیج سکتا تھا۔ اس کے برعکس بدر کا جذبۂ انتقام اور دور رسالت سے پلتا ہوا حسد و عناد رنگ لایا اورموقعے کو غنیمت جانتے ہوئے خانوادہ رسول کو بدترین درندگی اورسفاکیت کا نشانہ بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امام حسنؑ اور امام حسینؑ، باہم https://albasirah.com/urdu/imam-hassan-as-or-imam-hussain-2/

اس بات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ امام حسینؑ نے ان حالات میں بھی یہ امید کی ہو کہ جن لوگوں نے کوفیوں میں سے ان کی بیعت کی تھی اورعہد وفا باندھا تھا، مگر پھر عملی طورپر مدد کرنے سے قاصر رہے تھے، وہ انتہائی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں حسینی صبروثبات دیکھ کر دینی جذبے یا انسانی غیرت سے متاثر ہوکر امام حسین سے آکر ملیں گے۔ عملاً بھی کچھ لوگ اس دن امام حسینؑ کے مختصر لشکر سے ملحق ہوکر لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔ ہمیشہ اس طرح کے حالت میں ایسی توقع کرنا فطرت انسانی سے کچھ بعید نہیں۔

جہاں تک امام حسینؑ کی (یزید کے مقابلے میں) روش کو ان کے بھائی امام حسنؑ کی (معاویہ کے مقابلہ میں )روش سے تطبیق یا مطابق ہونے کا سوال ہے تو ایسا ہونا واضح ہے۔ امام حسنؑ نے جب دیکھا کہ ان کے لشکر کے افراد غداری اور بے وفائی پر تلے ہوئے ہیں تو انھوںنے اپنی،اپنے خاندان اور دوستوں کی جان بچانے اور فتنے سے محفوظ رہنے کے لئے دشمن کوحکومت سپرد کرکے صلح کی۔ یوں امام حسین نے جب دیکھا کہ جن لوگوں نے انھیں خطوط لکھے ہیں وہ ضرور ان کی مدد و نصرت کریں گے۔ علاوہ ازیںوہ سمجھ رہے تھے ان کے طرفدار اہل حق طاقتور اور دشمن [اہل باطل] کمزور ہوچکا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس صورت حال میں [حکومت کے قیام کے پہلے قدم کے طور پر] کوفہ پر قابض ہونے کے لئے اقدام کرنا واجب ہوچکا ہے۔ پھر جب لوگوںنے بے وفائی و کم ہمتی سے کام لیا اورحالات کے ناپسندیدہ صورت اختیار کرجانے سے [انقلاب کے امکانات معدوم ہوگئے] تو آپ نے اپنے بھائی امام حسنؑ کی روش کی پیروی کرتے ہوئے واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا اور دشمن کی حکومت سے لڑنے سے اجتناب کرنے کا راستہ انتخاب کیا مگر یزیدی حکومت کے کارندوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

اس لئے امام حسنؑ اورامام حسینؑ دونوں کی روش بالکل ایک جیسی ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ امام حسنؑ کے برعکس امام حسینؑ کی صلح کی پیشکش کو ٹھکرایا گیا اوران کا خون بہانے کے لئے دشمن تل گیا تو امام حسین نے بھی دفاع کرتے ہوئے لڑتے لڑتے شہید ہونے کا فیصلہ کیا اور جنت کے باغوں کے مکین اورخدا کی رحمتوں کے حقدار ٹھہرے۔
(تنزیہ الانبیاء از سید مرتضیٰ اور تلخیص الشافی از ابو جعفر طوسی سے ماخوذ معمولی اختلاف کے ساتھ)

(۱)بہت سے محققین نے ان شرائط کے راویوں پر جرح کی ہے اوراس سلسلے میں طبری اوردیگر مورخین کے سلسلۂ روایت میں سے ایک راوی کے جعل ساز ہونے کا اثبات کیا ہے۔بعض نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ عمر ابن سعد نے اپنی جان خلاصی کے لئے امام حسینؑ کی طرف منسوب کرتے ہوئے بعض شرائط عبیداللہ ابن زیادہ کو لکھ بھیجی تھیں۔ بعض نے امام حسینؑ کے دیگراقوال سے موازنہ کرتے ہوئے بھی یزید سے براہ راست معاملہ کرنے والی بات کو قبول نہیں کیا۔(ث۔۱)