دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو
دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے بحث کوئی نئی نہیں۔برصغیر میں سر سید احمد خان کی تحریک کے زمانے میں یہ بحث اپنے عروج پر جاپہنچی تھی۔ خود مدارس کے بزرگ علماء نے اس نصاب کے حوالے سے جو مقالے سپرد قلم کیے ہیں ان میں بھی اس نصاب کو بہتر بنانے کیلئے بہت عمدہ تجاویز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مدارس نے قابل تقلید اقدامات بھی کیے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب ، مصر اور ایران وغیرہ میں جدید اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام اسی حوالے سے ایک امید افزاء پیش رفت کی مثالیںہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی یونیورسٹیوں میں اصول فقہ، اسلامیات اور سیرت النبیؐ کے خصوصی شعبوں کا قیام بھی ان موضوعات پر جدید انداز سے تحقیقات اور مطالعات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
فقہ ، تفسیر ، حدیث ،تاریخ اور ادب اسلامی کے حوالے سے ان علماء کی زحمتوںاور مفید کوششوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو مروجہ دینی مدارس سے وابستگی کا پس منظر نہیں رکھتے۔ علاوہ ازیں ٹھیٹھ مذہبی مدارس سے نکلنے والے ایسے علماء کی قابل ذکر تعداد موجود ہے جنھوں نے اپنے زمانے کے تقاضوں کے مطابق دینی تعلیمات کو اجتہادی بصیرت کے ساتھ پیش کیا ہے اور دین و مذہب کے بارے میں جدید ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کے مدلل اور عمدہ جوابات دیے ہیں۔ تا ہم ان سب باتوں کے باوصف اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مجموعی طور پر جمود کی ایک کیفیت دینی مدارس کے نصاب اور کتب پر حکم فرما ہے۔ اس کے برعکس جتنی مثالیں ذکر کی جا سکتی ہیںان کی حیثیت ایک استثناء کی ہے۔
شاید عام قاری بات کا یقین نہ کر سکے لیکن وافقان حال سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ قرآن حکیم بلاواسطہ دینی مدارس کے نصاب میں شامل نہیں۔ جن مدارس میں دورہ حدیث کے سلسلے موجود ہیں ان میں بھی دورہ تفسیر قرآن یا دورہ قرآن کا سلسلہ نہیں ۔ درس تفسیر جن مدارس میں رائج ہے اول تو وہ بہت کم ہیں اور ان میں بھی بعض میں اسے اضافی درس کی حیثیت حاصل ہے، نصاب کے حصے کے طور پر تدریس نہیں ہوتی۔ اسی طرح تاریخ کا موضوع بھی شامل نصاب نہیں۔ سیرت نبوی تک کو اکثر مدارس نے نصاب میں شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ احکام کی تدریس ہوتی ہے تو فلسفہ ء احکام کی تدریس کا اہتمام ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ دین انسان کے لیے ہے مگر معرفت انسان کیلئے کتا ب شاملِ نصاب نہیں ۔ اسلام یا قرآن انسان کے بارے میں کیا نظر یہ رکھتا ہے، اسے ذہن نشین کروائے بغیر ایک طالب علم یا عالم دین کو انسان کی ہدایت کی اہلیت کا سر ٹیفکیٹ کیونکر دیا جا سکتا ہے؟ دین کی ضرورت ، مقصد بعثت انبیاء ، فلسفہ ختم نبوت ،قرآن حکیم کی عظمت اور دیگر کتب مذاہب کے ساتھ اس کا تقابلی مطالعہ ، دیگر ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ، ان کی تعلیمات کے اسلام کے ساتھ مشترکات اور متفرقات کا تجزیہ، غرض کتنے ہی انتہائی اہم موضوعات ہیں جو سالہاسال کی تدریس میں عموما زیر بحث نہیںآتے۔
علاوہ ازیں اسلامی مصادر تک رسائی اور ان کے فہم کے لیے بلاشبہ عربی زبان سے اعلی درجہ کی آگاہی ضروری ہے لیکن جس زبان یا جن زبانوں میں ایک طالب علم کودین کا پیغام پہنچانا ہے ان کی تدریس کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس حوالے سے المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں بالعموم اردو زبان کی تدریس کا بھی کوئی اہتمام نہیں ۔ سائنسی انکشافات اور سائنسی نظریات نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے ،نئی نئی ایجادات نے انسانی زندگی کو کچھ کاکچھ بنا دیا ہے ،ابلاغ و تبلیغ کے موضوع نے نئے علم کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ان ساری حقیقتوں سے عدم آگہی اور بدلتی دنیا کے بدلتے تقاضوں سے نا واقفیت سے ہم اپنے دین کو کیسے آج کی دنیامیں کما حقہ پیش کر سکتے ہیں؟ دینی علماء اور دینی مدارس کے اہل حل و عقد کو سنجیدگی سے اس موضوع پر غورو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری رائے میں مذکورہ بالا بہت سی باتیں اور بہت سی ان کہی باتیںــــ اجتہاد کے موضوع میں سما جاتی ہیں۔
ضرورت اجتہاد کا عصری شعور دینی حوالے سے ہمارے اصل مخمصے کا حل ہے۔
ہماری رائے میں دینی مدارس کے نصاب پر عصری تقاضوں کی روشنی میں غور کرکے اسے بہتر بنانے کی کوششوں سے فرقہ وارانہ افکار پر بھی زد پڑے گی۔ نئے ضروری موضوعات اورعلوم کے شامل ہونے سے مسالک کے مابین ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے گا۔
مشترکہ نصاب کمیٹی۔۔۔ایک تجویز
مختلف مکاتبِ فکر کے مابین ہم آ ّہنگی پیدا کرنے کے لیے ممکن حد تک مشترکہ اجزائے نصاب کا ہونا بہت ضروری۔ اس مقصد کے حصول کے لیے راقم کی رائے میں ایک ’’مشترکہ نصابِ کمیٹی‘‘ قائم کی جاسکتی ہے۔ مستقبل میں اگر حکومت پاکستان کی طرف سے تنظیماتِ مدارس سے ہم آہنگی کے ساتھ ایک بورڈ اور نصاب کمیٹی قائم ہوسکے تو زیادہ مؤثر اقدام ہوگا۔
مشترکہ نصاب کمیٹی میںتمام مکاتبِ فکر کی نمائندگی ضروری ہے – اس کمیٹی کو موجودہ نصاب کا جائزہ لینے، اسے بہتر بنانے اور مستقبل میں نـصاب کی تیاری کا کام سپرد کیا جاسکتا ہے۔اس کے لیے وسائل فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لیے راہنما اصول اور حدود کا تعین بھی ضروری ہوگا۔
’’مشترکہ نصاب‘‘ کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ دینی مدارس کے بعض موضوعات اور علوم اس وقت بھی ایسے ہیں کہ جو تمام مکاتب میں مشترک ہیں۔ مثلاً صرف، نحو، معانی و بیان اور منطق وغیرہ –
جن مدارس میں جدید تعلیم کے ادارے قائم ہیں یا جنھوں نے اپنے ہاںداخلے کے لیے میٹرک یا انٹر کی شرط عائد کر رکھی ہے ان کے طلبہ پہلے ہی بہت سا مشترکہ نصاب پڑھ چکے ہیں۔
مختلف مکاتب فکر کے مدارس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے مشترکہ نصاب کمیٹی بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قدم بقدم آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ اختلاف رائے باقی رہے گا اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس کا ادراک تمام مکاتب فکر کے علماء کو ہے۔
راقم کی رائے میں اس کام کے مختلف مراحل ہوںگے، مثلاً:
(i) موجودہ نصاب میں مشترک اجزاء کی نشاندہی اوراُن کے لیے ممکنہ طور پر موجود کتب میں سے مشترکہ انتخاب اور تنظیمات مدارس کی تائید سے اُن کی اشاعت۔
(ii) عصری ضروریات کے مطابق نصاب میں نئے اجزاء کی شمولیت اوراُن کے لیے موجود کتب کی نشاندہی۔
(iii) مشترکہ اجزائے نصاب کے لیے نئی کتب کی تیاری اور اُن کی اتحاد تنظیمات مدارس کے پلیٹ فارم سے اشاعت۔
(iv) اختلافی موضوعات کا جائزہ اوراُن کے بارے میں ایسی کتب کی تیاری جن میں مختلف نظریات کو اُن کی ادلہ کے ساتھ اچھے انداز سے ذکرکر دیا جائے۔
ان میں سے چوتھے مرحلے تک ہم کب پہنچ سکیں گے، اس کے بارے میں فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن راقم کی رائے میں اس کے بغیر حقیقی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوسکتی اوراختلاف رائے کے ساتھ جینے کا سلیقہ نہیں آسکتا۔ اختلاف رائے کا ہونا، ایک دوسرے کی دلیل کو جاننا اورہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دینا،یہ وہ منزل ہے جسے امت مسلمہ کو حاصل کرنا ہے۔ ممکن ہے پاکستان میں ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور پھر یہ مبارک قدم دیگر ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک اچھا نمونہ عمل بن جائے۔
اس مرحلے کی کچھ علمی اور عملی وضاحت ضروری ہے، جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے۔
ضعلم اصول
علم اصول سے متعلقہ کتاب کو اس طرح سے مرتب کیا جاسکتا ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے نمائندہ علماء یا آئمہ کا نقطہ نظر شامل ہوجائے اور اس میں یہ بیان کردیا جائے کہ اس مسئلے میں فلاں کا نظریہ یہ ہے اوراس کی دلیل یہ ہے۔اصول فقہ پر لکھی گئیں بعض کتب راقم کی نظر میں ایسی ہیں جنھیں ابتدائی مطالعے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
ضفقہ اور احکام
فقہ اوراحکام پر بھی ایسی ہی کتاب مرتب کی جاسکتی ہے۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ رائج طرز استنباط میں عام طور پر عمیق اختلاف نہیں ہے۔ جہاں پراصولی اختلاف آئے اُسے عمدہ پیرائے میں اور سلجھے ہوئے انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ منابع حدیث میں اختلاف کو مبنیٰ کا اختلاف کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح رفتہ رفتہ احکام کا ایک جامع دورہ بھی مرتب ہوجائے گا۔ تدریسِ احکام کے ساتھ فلسفۂ احکام کا موضوع بھی شامل نصاب کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں مشترکہ نصاب کی تیاری بظاہر مشکل معلوم نہیں ہوتی۔فلسفہ ٔاحکام کامطالعہ اختلافی مسائل کی ضمنی اور فرعی حیثیت کو سمجھنے میں بھی مدد دے گا اور قربت پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔
ضمشترکہ احادیث
فقہی احکام پر کام کرتے کرتے احادیث کا ایک مشترکہ ذخیرہ سامنے آجائے گا البتہ اس مقصد کے لیے الگ سے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ عالم اسلام میں بعض علماء اوراداروں نے پہلے ہی اس پر بہت عمدہ اورمفید کام کیا ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر ’’مشترکہ نصاب کمیٹی‘‘ کوئی مختصر کتاب بھی شائع کر سکے تو اس کے دور رس مفید اثرات مرتب ہوں گے۔
ض علم کلام اور عقائد
عام طورپر قدیمی کتب اوراُن کی شروح رائج ہیں۔ اس حوالے سے بھی نئی کتب تیار کی جاسکتی ہیں جن میں متفقہ نظریات بھی آجائیں اوراختلافی نظریات بھی۔ اس میں بھی علم اصول کی کتاب کی طرح اختلافی نظریات کے بیان میں ادلہ ذکر کی جانا چاہئیں۔ البتہ جدید علم کلام کی کتب میں اختلاف کم ہوگا اوراگر ہو بھی تو بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ضعلوم اسلامی کا تاریخی ارتقا
علم حدیث، علم اصول فقہ، علم فقہ، علم کلام اور فلسفہ وغیرہ کے تاریخی ارتقا پر مبنی ایک مضمون دینی مدارس کے نصاب میں شامل کرنا بہت مفید ہوگا۔ الگ الگ مکاتب فکر کے علماء کے افکار سے اس میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مضمون سے طالب علم کو جہاں علوم کے تاریخی اور تدریجی ارتقا کی تاریخ سے واقفیت ہوگی وہاں اُسے یہ بھی اندازہ ہوگا کہ علوم میں جمود نہیں پایا جاتا بلکہ وہ ارتقا پذیر ہیں اورآئندہ بھی ان میںارتقا جاری رہے گا اور مستقبل کے علماء کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ضاسلامی فلسفہ
اس بات کا تاریخی تناظر اورخارجی حقائق کے پیش نظر انکار نہیں کیا جاسکتا کہ علم فلسفہ کے فروغ اور اسلامی عقائد کو فلسفی روش سے پایہ ثبوت تک پہنچانے اورمبداء کائنات، کائنات اور انسان کی شناخت کے حوالے سے بہت سے مسائل کو مسلمان فلاسفہ نے اپنی اپنی روش کے مطابق پیش کیا ہے۔ اس میدان میں فارابی، ابن سینا، سہروردی اور ملاصدرا کے مکاتب فکر اور فلسفی روش نے عالم اسلام ہی کو نہیں دنیا بھر کی فلسفی فکر کو متاثر کیا ہے۔راقم کی رائے میں یہ مضمون اسلامی مدارس کے طلبہ کو ضرور پڑھایا جانا چاہیے۔ اس امر سے قطع نظر کہ کوئی مسلمان مفکر یا امام فلسفی روش فکر کو پسند کرتا ہے یا نہیں اوراسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ ایسے مفکرین کی آرا اوردلائل کو بھی اسلامی فلسفے کی تدریسی کتاب میںشامل کیا جاسکتا ہے۔
ضعرفان وتصوف
عرفان و تصوف کا ایک عملی پہلو ہے اور دوسرا نظری اور علمی۔ نظری اورعلمی پہلو پر اس کے ماہرین نے بہت کچھ لکھا ہے۔ عرفا اورصوفیا کے مختلف مسالک کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ آج بھی امت مسلمہ کی کثیر تعداد عرفان و تصوف کے مختلف سلسلوںسے وابستہ ہے یا کم ازکم ان سلاسل کا احترام کرتی ہے۔ اس امر کے پیش نظر اس موضوع پر بھی ایک کتاب مذہبی مدارس کے نصاب میں شامل کی جانی چاہیے۔ البتہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک اسلامی مکتب فکر اس روشِ علم و عمل کی تائید نہیں کرتا۔ اس کی رائے اور دلائل کو نصاب کا حصہ بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عرفان نظری کی کسی بنیادی کتاب کو جسے مقبول سلاسل عرفان وتصوف قبول کرتے ہوں نصاب میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں برصغیر کی تاریخ پر تصوف اور بعض اکابر صوفیا کے بہت اثرات ہیں ان کے بارے میں بنیادی معلومات کو ہمارے ہاں کے تدریسی مواد میںشامل کیا جانا چاہیے۔
ضسیرت نبویؐ
سیرت نبوی پر ایک مشترکہ نصاب اور بعدازاں مشترکہ کتاب کی تیاری اوراشاعت بھی مجوزہ مشترکہ نصاب کمیٹی کے اہداف میں شامل ہونی چاہیے۔ اس سلسلے میںیہ بات قابل ذکر ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کی تاریخ اورآپؐ کی سیرت دو جداجدا عنوان ہیں۔ سیرت روشِ حیات سے عبارت ہے۔ راقم کی تجویز اصولی طور پر سیرت نبوی کے بارے میں ہے۔ شاید یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہ ہو کہ اگر امت اسلامیہ کے مسلمہ چند مکاتب فکرسیرتِ نبوی کے بنیادی خدوخال واضح کرنے والی ایک مشترکہ کتاب نہ بنا سکیں تو یہ بات افسوس ناک ہوگی۔
ضفہم قرآن کے اصول
’’فہم قرآن کے اصول‘‘ کا مضمون دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ضرور ہونا چاہیے۔ البتہ مختلف مفسرین وعلماء نے اس سلسلے میں مختلف روشیں اختیار کی ہیں۔ اس بارے میں کوئی لگے بندھے مکتب فکر کی پابندی بھی نہیں ہے۔ یہ مضمون دلچسپ بھی ہوگا اورقرآن فہمی میں دینی طلبہ کے لیے مددگار بھی۔ ظاہر ہے کہ قرآن حکیم ہی مسلمانوں کی بنیادی کتاب ہے اسے سمجھنے کے اصولوں سے دینی طلبہ کی آگاہی بہت ضروری ہے۔
ضاخلاق اسلامی
اسلام کا اپنا نظریۂ اخلاق اورفلسفۂ اخلاق ہے اگرچہ بہت سی اخلاقی تعلیمات کو دنیا بھر کے مذاہب و ادیان درست ہی نہیں ضروری بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس موضوع پر بھی مشترکہ نصاب اور کتاب کا تیار کرنا کچھ مشکل نہیں ہونا چاہیے البتہ ہماری رائے میں صرف اخلاقی تعلیمات کی تدریس کافی نہیں ،فلسفۂ اخلاق کو بھی شامل نصاب کیا جانا چاہیے۔اس کتاب کے درسی مواد میں مسلمانوں کے باہمی حقوق اوردیگر معاشرتی حقوق کا تعارف بھی شامل کیا جانا چاہیے۔
ضجدید علوم لسانیات
اصول فقہ میں ’’مباحث الفاظ‘‘ کا موضوع بہت اہم ہے۔ اس میں اگر جدید علوم لسانیات سے آگاہی کا کچھ حصہ بھی شامل کر لیا جائے تو متون فہمی میں ضرور مددگار ہوگا۔
ضعالمی ادیان و مذاہب
دنیا کے دیگر اہم ادیان ومذاہب کی شناخت بھی ایک مسلمان دینی طالب علم کے لیے ضروری ہونی چاہیے۔ ان کی بنیادی کتب، اہم شخصیات، بنیادی عقاید، مختصر تاریخ، فرقے ، ان کی آبادی اور ان کی رسوم وروایات جیسے موضوعات کو شامل نصاب کیا جاسکتا ہے۔ البتہ ہر مذہب یا دین کی کتاب خود اس کے ماننے والے کسی فرد یا افراد کی لکھی ہو یا شامل مواد کو ان کی تائید حاصل ہوتبھی وہ قابل اعتماد اورمفید قرار پا سکتا ہے۔اسی کے تحت مکالمہ بین المذاہب کا موضوع بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
ضانسان شناسی
علم دین حاصل کرنے والے طالب علم کے لیے اس سوال کو بنیادی اہمیت کا حامل ہونا چاہیے کہ کیا دین انسان کے لیے ہے یا انسان دین کے لیے ہے ،اس سوال کا علمی جواب تو اپنے مقام پر لیکن ہمارے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ دین کے مخاطب اللہ کے بندے ہیں اور دین انسانوں ہی کے لیے آیا ہے ۔انسان اور انسانی معاشرے کی مناسب پہچان ایک مبلغ اور عالم دین کی بہت مدد کر سکتی ہے ۔لہٰذا انسان شناسی یا معرفت انسان کا موضوع دینی نصاب کا حصہ بنانا ضروری ہے ۔اس حوالے سے دنیا میں بہت سے علوم کی دانشگاہوں میں تدریس کی جاتی ہے ان سے کلی آگاہی اور معرفت انسان کے حوالے سے کچھ ضروری مواد پر مبنی ایک کتاب تما م مدارس کے لیے تیار کی جاسکے تو یہ بہت عمدہ بات ہوگی۔اس میں انسان کے اشرف المخلوقات ہونے،انسان کی جان اورآبرو کی اہمیت ، حرّیت فکر کا انسانی حق ،مذہبی آزادی،انسان اور کائنات کا باہمی تعلق جیسے عناوین کو بھی ایسی کتاب کے درسی مواد میں شامل کیا جانا چاہیے۔
ضواقفیت عامہ
دینی طالب علم کو اپنے علاقے، ملک،خطے اور دنیا کے بارے میں عمومی آگاہی دینا بھی ضروری ہے۔ اہم ملکی اور بین الاقوامی اداروں کے بارے میں معلومات، اہم عالمی تنازعات مثلاً مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر، قبرص کے قضیہ وغیرہ سے آگاہی، دنیا میں رائج اور زیربحث موضوعات مثلاً دہشت گردی، خواتین کے حقوق، گلوبلائزیشن، جمہوریت،سیکولرزم وغیرہ سے ابتدائی واقفیت کو شامل نصاب کیا جانا چاہیے۔
سطور بالا میں بعض عناوین کے ضمن میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ بعض مکاتب فکر بعض علوم کو اسلام شناسی کے لیے ضروری نہیں سمجھتے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ کسی نظریے کو رد کرنے کے لیے بھی اُس کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے ،اس لیے مطالعے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر مسلک، مذہب اور دین کو درست طورپر بیان کرنے کا حق اس کے ماننے والے ہی کو پہنچتا ہے۔ اس مقصد کو رفتہ رفتہ جس حد تک بھی حاصل کیا جاسکے بہتر ہے۔
اس تجویز اوراس کی تفصیلات کو علمائے کرام اور اہل فکرو نظر کی مزید آراء اور باہمی مشاورت کے نتیجے میں یقینی طور پر بہت بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ہمیں اپنی کسی رائے پر اصرار نہیں ہے، ہم اہل علم کی ہر رائے پر غوروفکر کرنے اور اُسے خوش آمدید کہنے کے لیے حاضر ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بات بنا کہے واضح ہے کہ نصاب کی تشکیل درجات تعلیم کے اعتبار اور ضرورت و صلاحیتِ طلبہ کو ملحوظ رکھ کر ہی کی جانی چاہیے،ہماری گفتگو کلیات کے اعتبار سے ہے۔
Share this content: