بیوہ کو زندہ جلانے کی رسم کو ختم کرنیوالا انگریز
تحریر: سید اسد عباس
ہم جانتے ہیں کہ برصغیر پر قبضہ کے لیے انگریز سامراج نے ہندوستان میں بہت سے مظالم کیے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت وہ آہستہ آہستہ پورے برصغیر پر قابض ہوگئے، ریاستوں کے حکمرانوں اور وزراء کو خریدا ،1857ء کی جنگ آزادی میں برصغیر کے باسیوں کا بے دریغ قتل عام کیا۔ برصغیر پاک و ہند کے وسائل لوٹے، یہاں کی تاریخ کو مسخ کیا، ہمارے تاریخی اثاثہ جات کو چرا کر برطانیہ لے گئے۔ ہم پر انگریزی نظام تعلیم، ثقافت اور انگریزی زبان مسلط کی، تاہم اس کے ساتھ ساتھ انگریزوں نے کچھ اچھے کام بھی کیے۔ برصغیر میں ریلوے کا نظام، دریاؤں پر لوہے کے پل، ڈیم، بیراج جو آج بھی کام کر رہے ہیں، یہ سب انگریزوں کے دور کے قائم کردہ ہے۔ یہ سب کام اگرچہ انگریزوں نے اپنی سہولت کے لیے ہی کیے تھے، تاہم اس سے برصغیر کے عوام کو بھی فائدہ پہنچا۔
پاکستان اور ہندوستان کا تعزیرات کا سسٹم جسے پینل کوڈ کہا جاتا ہے، یہ بھی انگریزوں کا ہی عطا کردہ ہے، جس میں آزادی کے بعد دونوں ممالک نے کچھ ترامیم کی ہیں، تاہم اب بھی پاکستان اور ہندوستان میں اکثر فیصلے اسی پینل کوڈ کے تحت کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس پینل کوڈ سے غیر اسلامی شقوں کو نکالنے کے لیے ایک ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل قائم کیا گیا ہے، جو پینل کوڈ میں موجود غیر اسلامی تعزیرات اور قوانین کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرچکا ہے، تاہم فی الحال ان تعزیرات کو بدلنے کے حوالے سے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔ انگریز حکومت کا ایک اہم کارنامہ پاکستان میں مردم شماری تھا، یہ مردم شماری بنیادی طور پر تو انھوں نے امور حکومت کو احسن انداز سے چلانے کے لیے کی تھی، تاہم اس کے نتیجے میں ہونے والی منصوبہ بندی سے بہرحال عوام کو بھی فائدہ ہوا۔
میری نظر میں انگریز حاکموں کا برصغیر میں کیا جانے والا سب سے اہم کام ہندو سماج میں ستی کی رسم کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرنا اور طاقت سے اسے روکنا ہے۔ مسلمانوں نے برصغیر میں تقریباً ہزار سال حکومت کی، تاہم وہ انسانی قتل کے اس مکروہ عمل کو نہ روک سکے۔ وہ لوگ جو مسلمان ہوگئے وہ ستی کی رسم سے باز آئے، تاہم جو لوگ ہندو رہے، وہ کسی نہ کسی طرح اس عمل میں ملوث رہے۔ ستی کی رسم پر پابندی کا سہرا برطانیہ کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنک کے سر ہے۔ یہ رسم ظہور اسلام سے قبل بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم جیسی ہی ایک رسم تھی، جس میں ایک بیوہ کو اپنے شوہر کی موت پر اس کے ہمراہ نذر آتش کر دیا جاتا تھا۔ انسانی قتل کی یہ مذموم روایت ہندو سماج میں صدیوں سے چل رہی تھی۔
لارڈ ولیم بینٹنک نے دسمبر 1829ء میں ہندوؤں کی قدیم مذہبی رسم ستی پر پابندی عائد کی۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس رسم کو ایک لمحے کے لیے بھی برقرار رکھنے کی حمایت کرتا ہے تو اس جہان میں اور اگلے جہان میں اس کے سر پر انتہائی سنگین ذمہ داری عائد ہوگی۔ ولیم بینٹنک نے خواتین کے ساتھ ہونے والے دیگر مظالم پر بھی پابندی لگائی۔ لارڈ بیننٹک نے انگریز فورس کے افسران اور عدلیہ کے اراکین کو اپنے ساتھ ملا کر اس رسم کے خلاف اقدام کیا، انھوں نے جو ضابطہ تیار کیا، اس کے تحت کہا گیا کہ “بیوہ کو جلانے میں مددگار اور اس کی حوصلہ افزائی میں مرتکب افراد کو مجرم قرار دیا جائے گا، چاہے یہ عمل رضاکارانہ ہو یا جبر کے ساتھ کیا گیا ہو، ایسے افراد اقدام قتل کے مرتکب قرار دیے جائیں گے۔”
انھوں نے عدالتوں کو یہ اختیار دیا کہ “طاقت کا استعمال کرکے ایک بیوہ خاتون کو زندہ جلانے میں مدد کے مرتکب افراد کو سزائے موت دی جا سکے گی، جو اس عمل کے لیے خاتون کو کسی نشہ آور محلول کے زیر اثر بھی لے آتے ہیں، جس سے اس خاتون کی اپنی آزاد مرضی کا استعمال بھی ظاہر نہیں ہوتا۔” بعض ہندو راہنماؤں نے لارڈ بینٹنک کے اس اقدام کو سراہا، تاہم شدت پسند ہندو اس کے مخالف ہوگئے اور انھوں نے اس ضابطے کو چیلنج کرنے ہوئے کہا کہ ستی کی رسم مذہب کے تحت لازمی یا فرض نہیں، لہذا کسی ضابطے کی ضرورت نہیں ہے۔ درخواست گزار آخری حربے کے طور پر پریوی کونسل کے پاس اپنی پٹیشن لے گئے، تاہم 1832ء میں کونسل نے اس ضابطے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا کہ ستی معاشرے کے خلاف برملا اور واضح جرم ہے۔
انڈین پینل کوڈ کے مصنف برطانوی قانون دان تھامس میکالے نے لارڈ بینٹنک کی قانون سازی کو یہ کہہ کر کمزور کرنے کی کوشش کی کہ اگر کوئی اپنے دعویٰ میں یہ ثبوت پیش کرے کہ اس نے بیوہ کے کہنے پر اسے چتا کے ساتھ جلایا تو اسے بری کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے ایک مسودہ نوٹ میں یہ بھی کہا کہ خود کو جلانے والی خواتین مذہبی فرض اور بعض اوقات غیرت کے مضبوط احساس سے جڑی ہوتی ہیں۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد یہ قانون مزید نرم کر دیا گیا اور ستی کرنے والوں کو اپیل کا حق دے دیا گیا۔ 1913ء میں موتی لال نہرو ایسے ہی چار مردوں کے دفاع میں عدالت میں پیش ہوئے، جنھوں نے ایک خاتون کو ستی کرنے پر آمادہ کیا تھا، عدالت میں ان مردوں نے موقف اختیار کیا کہ مرنے والے کی چتا مذہب پسند بیوہ کے اس اقدام سے خود ہی معجزانہ طور پر بھڑک اٹھی۔ انگریز ججوں نے اس معجزاتی عمل کے نظریہ کو مسترد کرتے ہوئے اس پر پردہ ڈالنے کی مذمت کی اور مردوں کو اس خاتون کی خودکشی پر اکسانے کا قصوروار ٹھہرایا۔ اس کیس میں ملوث دو ملزمان کو سزائے موت کے بجائے چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: نسائیات چند متفرق تحریریں https://albasirah.com/urdu/nisaiyat-chnd-tehreeren/
1987ء میں موتی لال نہرو کے پڑپوتے راجیو گاندھی کی زیرقیادت حکومت نے ایک قانون نافذ کیا، جس میں ستی کے عمل میں شامل افراد کو پہلی بار باقاعدہ مجرم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس عمل کو جائز قرار دینے والے، ستی کی حمایت، جواز فراہم کرنے والے یا پروپیگنڈہ کرنے والے تمام افراد کو سات سال کی سزا ہوسکتی ہے۔ راجیو گاندھی کی حکومت میں بنائے جانے والے اس قانون میں ستی کے عمل کو اقدام قتل گردانا گیا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کے لیے سزائے موت متعارف کروائی گئی۔ یہ اقدام انڈیا کی شمالی ریاست راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ستی کا واقعہ رپورٹ ہونے کے شدید عوامی ردعمل کے بعد سامنے آئے تھے۔ اس واقعہ میں راجھستان میں ایک کم عمر دلہن روپ کنور کو اس کے شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ ستی کر دیا گیا تھا اور اس پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ 1947ء میں آزادی کے بعد باضابطہ طور پر درج کیا جانے والا ستی کا یہ 41واں مقدمہ تھا۔ ہندوستانی مصنف منوج میتا کے مطابق راجیو گاندھی کے قانون کی تمہید لارڈ بینٹنک کے ضابطے سے ہی مستعار لی گئی۔
انگریزوں کے برصغیر میں کیے جانے والے جرائم کی فہرست یقیناً طویل ہے، تاہم لارڈ بینٹنک کا ستی کی رسم کو ختم کرنے کا یہ اقدام انتہائی انسانی فعل ہے، جسے بعد کے برطانوی حاکموں نے اگرچہ سیاسی وجوہات کی بنا پر نرم کرنے کی کوشش کی، تاہم لارڈ بینٹنک کی ابتداء بہرحال ایک مکروہ فعل کے خاتمے کا باعث بنی، جس کو نہ سراہنا بھی غلط ہے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: