Skip to content

پاک سعودی تعلقات، مقامات آہ و فغاں

تحریر: ثاقب اکبر

پاک سعودی تعلقات کے خوبصورت اور مثبت پہلو تو بیان ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اس سفر میں کچھ مقامات آہ و فغاں بھی آتے ہیں، ان کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 4 اگست 2020ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو کے موقع پر سعودی عرب کے حوالے سے کہا تھا: ’’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے مسلمان اور پاکستانی جو آپ کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں،پاک سعودی تعلقات، مقامات آہ و فغاں

ناموس رسالت کے قانون کے خلاف یورپی پارلیمان کی قرارداد اور ملی یکجہتی کونسل کا ردعمل

تحریر: ثاقب اکبر

یورپی پارلیمان نے 29 اپریل 2021ء کو بھاری اکثریت سے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں حکومتِ پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ توہینِ رسالت کے قانون کی دفعات 295بی اور سی کا خاتمہ کرے۔ اس قرارداد میں یورپی کمیشن سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ 2014ء میں پاکستان کو جی ایس پی (جنرلائزڈ سکیم آف پریفرینسیز) پلس کے تحت دی گئی تجارتی رعائتوں پر فی الفور نظرثانی کرے۔ قرارداد میں حکومتِ پاکستان سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ 1997ء کے انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں بھی ترمیم کرے، تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جاسکے اور توہین رسالت کے ملزمان کو ضمانتیں مل سکے۔ناموس رسالت کے قانون کے خلاف یورپی پارلیمان کی قرارداد اور ملی یکجہتی کونسل کا ردعمل

انصار اللہ یمن شہر ماٰرب کے دروازے پر

تحریر: ثاقب اکبر

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یمن کی عوامی رضاکار فوج ماٰرب شہر سے تقریباً دو کلو میٹر کے فاصلے پر پہنچ چکی ہے۔ مرکز شہر سے یہ فاصلہ پانچ کلو میٹر رہ گیا ہے۔ عالمی سطح پر یہ توقع کی جا رہی ہے کہ سید عبدالمالک حوثی کی قیادت میں جارحین کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے تاریخ میں ایک نیا باب مکمل کرنے کو ہیں۔ امریکی سرپرستی میں 6 سال سے زیادہ عرصہ سے مسلط کردہ جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کو ہے۔ آج (27 اپریل2021ء) صبح سے خبر رساں ادارے یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ یمنی افواج ماٰرب شہر کی طرف بڑھتے ہوئے اس وقت تومۃ العلیا کو آزاد کروا چکی ہیں۔انصار اللہ یمن شہر ماٰرب کے دروازے پر

اقبال اور ملا کی تنگ نظری

تحریر: ثاقب اکبر

ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم لکھتے ہیں: ’’علامہ اقبال ایک روز مجھ سے فرمانے لگے کہ اکثر پیشہ ور ملا عملاً اسلام کے منکر، اس کی شریعت سے منحرف اور مادہ پرست دہریہ ہوتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک مقدمے کے سلسلے میں ایک مولوی صاحب میرے پاس اکثر آتے تھے۔ مقدمے کی باتوں کے ساتھ ساتھ ہر وقت یہ تلقین ضرور کرتے تھے کہ دیکھیے ڈاکٹر صاحب آپ بھی عالم دین ہیں اور اسلام کی بابت نہایت لطیف باتیں کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ آپ کی شکل مسلمانوں کی سی نہیں، آپ کے چہرے پر ڈاڑھی نہیں۔ میں اکثر ٹال کر کہہ دیتا کہ ہاں مولوی صاحب آپ سچ فرماتے ہیں۔اقبال اور ملا کی تنگ نظری

مسلح افواج کا تمسخر اُڑانا

پاکستان میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے ایک مجوزہ بل کی منظوری دی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی پاکستان کی مسلح افواج یا اس کے کسی رکن کا ارادتاً تمسخر اڑاتا ہے، وقار کو گزند پہنچاتا ہے یا بدنام کرتا ہے، وہ ایسے جرم کا قصور وار ہوگا جس کے لیے اتنی مدت کے لیے سزائے قید جو دو سال تک ہوسکتی ہے یا مع جرمانہ جو پانچ لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔ یہ بل ابھی قائمہ کمیٹی نے منظور کیا ہے، اب اسے قومی اسمبلی میں پیش کیا جانا ہے۔ بل پاکستان تحریک انصاف کے رکن امجد علی خان نے پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر پیش کیا تھا۔مسلح افواج کا تمسخر اُڑانا

آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

پاکستان میں جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ برس ہا برس سے چلا آرہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ تحریکیں چلیں، لوگوں نے مارچ کیے، دھرنے دیے، ٹی وی چینلز پر پروگرامز ہوئے، سوشل میڈیا نے آواز اٹھائی، مظاہرے کیے گئے، سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیے، وعدے وعید ہوئے لیکن مسئلہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ اصولی طور پر پاکستان میں رائج قانون اور آئینی دفعات کے مطابق کسی ریاستی یا حکومتی ادارے کی جانب سے کسی فرد کو زبردستی اغوا کر لینے یا غائب کر دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی

پاکستان اور خطے کے بدلتے حقائق

اگر گذشتہ تقریباً ایک ماہ کے دوران میں خطے کے چند بڑے واقعات کو سامنے رکھا جائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے خطے کے حقائق نہایت تیز رفتاری سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ پاکستان کسی صورت بھی اس تبدیلی کے اثرات سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکے گا۔ ان میں ایک بڑا واقعہ یمن میں سعودیہ کی جانب سے جنگ بندی کی پیشکش ہے۔ اس سلسلے میں انصار اللہ، امریکہ اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کی متعدد ملاقاتیں عمان میں ہوچکی ہیں۔پاکستان اور خطے کے بدلتے حقائق

پاکستان، عوام نے بنایا تھا اور عوام ہی بچا سکتے ہیں

23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان لاہور میں منظور ہوئی۔ اس قرارداد کو برصغیر کے مسلمانوں کی پرجوش حمایت حاصل تھی۔ پورے ہندوستان میں انگریزوں سے آزادی کی عوامی تحریک چل رہی تھی۔ ہندو مسلم انگریزوں سے آزادی کے لیے متحد تھے، تاہم مسلمان انگریزوں کے انخلا کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل اپنے لیے علیحدہ وطن کے خواہاں تھے۔ اسی آرزو کو 23 مارچ 1940ء کو قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کے عظیم الشان تاریخی جلسے میں ’’قرارداد لاہور‘‘ کی شکل دی گئی۔پاکستان، عوام نے بنایا تھا اور عوام ہی بچا سکتے ہیں

جلا صوفہ

جب سے مولانا عبدالعزیز نے صوفے پر بیٹھنے کو بدعت قرار دے کر اسے جلوایا ہے، اس واقعے پر طرح طرح کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہماری رائے میں یہ ایک سادہ اور معمولی واقعہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرز فکر کا غماز ہے، جس کے نتائج بڑے خطرناک اور بھیانک برآمد ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ دنیا میں اسلام کے نام پر معرض شہود میں آنے والے تمام شدت پسند گروہوں کے پیچھے یہی جامد اور بدعتی فکر کارفرما ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسی فکر کے حامل افراد دلیل سے بات کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔جلا صوفہ

دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

دینی مدارس کے نصاب کے حوالے سے بحث کوئی نئی نہیں۔برصغیر میں سر سید احمد خان کی تحریک کے زمانے میں یہ بحث اپنے عروج پر جاپہنچی تھی۔ خود مدارس کے بزرگ علماء نے اس نصاب کے حوالے سے جو مقالے سپرد قلم کیے ہیں ان میں بھی اس نصاب کو بہتر بنانے کیلئے بہت عمدہ تجاویز موجود ہیں۔ اس سلسلے میں بعض مدارس نے قابل تقلید اقدامات بھی کیے ہیں۔ پاکستان، سعودی عرب ، مصر اور ایران وغیرہ میں جدید اسلامی یونیورسٹیوں کا قیام اسی حوالے سے ایک امید افزاء پیش رفت کی مثالیںہیں۔ علاوہ ازیں بہت سی یونیورسٹیوں میں اصول فقہ، اسلامیات اور سیرت النبیؐ کے خصوصی شعبوں کا قیام بھی ان موضوعات پر جدید انداز سے تحقیقات اور مطالعات کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل نو

طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش

یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی نئی حکومت داعش کے بہانے افغانستان میں رہنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے اشارے سامنے آرہے ہیں۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ عراق اور افغانستان میں امریکہ کو فوجی مداخلت بہت مہنگی پڑی ہے۔ گویا ان کے نزدیک امریکی فوجیوں کے عراق اور افغانستان سے انخلاء کی بنیادی وجہ امریکی فوج اور مشینری کی وہاں موجودگی کا مہنگا ہونا ہے۔ ویسے بھی امریکہ کے لیے یہ تجربہ بہت کامیاب رہا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سے کام لیا جائے اور ملکوں کو غیر مستحکم کرکے وہاں سے اپنے مالی اور تزویراتی مفادات حاصل کیے جائیں۔طالبان امریکہ امن معاہدہ اور داعش

یمن سے سعودی عرب کی ’’آبرومندانہ‘‘ واپسی کی تیاری

یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں سعودی عرب یمن کی دلدل سے ’’آبرومندانہ‘‘ انخلا کی تیاری کر رہا ہے۔ علاقے میں اس کے اتحادیوں کو بھی فکر لاحق ہے اور امریکہ نے بھی سعودی عرب اور امارات پر مزید اسلحے کی فراہمی کو روکنے کا اعلان کرکے آنے والے وقت میں اپنے دوستوں کو بچانے کی ہی ایک تدبیر کی ہے۔ اس تدبیر سے خود امریکہ کو بھی اپنی آبرو بچانے کی فکر لاحق ہے، کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ سعودی اتحاد یمن کے خلاف امریکی سرپرستی ہی میں چھ سال سے مصروف جنگ ہے۔یمن سے سعودی عرب کی ’’آبرومندانہ‘‘ واپسی کی تیاری