اسرائیل میں عرب وزرائے خارجہ کی بیٹھک
چند برس قبل ایسی نشست کا انعقاد ناممکن تھا۔ یہ بیان ہے امریکی سیکرٹری سٹیٹ انتھونی بلینکن کا، جو قطری نیوز سائٹ الجزیرہ پر شائع ہوا ہے۔ امریکی سیکرٹری سٹیٹ ایک ایسی نشست کا ذکر کر رہے ہیں، جو اسرائیل کے ایک سیاحتی مقام میں منعقد ہوئی۔ اس سیاحتی مقام پر اسرائیل کے پہلے صدر ڈیوڈ بین گورائن کا مقبرہ بھی ہے۔ اس نشست میں ٹرمپ دور میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والے چار عرب ممالک کے وزرائے خارجہ سمیت امریکی وزیر خارجہ بھی شریک تھے۔ وزرائے خارجہ کی اس نشست میں کوئی فلسطینی نہیں تھا، ہاں سعودی وزیر خارجہ کی کمی شدت سے محسوس کی گئی، تاہم بحرین، عرب امارات، مراکش اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ان کی بھرپور نمائندگی کی۔ اسرائیلی حکومت کے لیے یہ نشست بجا طور پر خوشی کا باعث ہوگی، جو ایک طرح سے ان کی سفارتکاری کی فتح ہے۔ اسی لیے تو اس فتح کا جشن منانے کے لیے انھوں نے اسرائیل کے پہلے صدر ڈیوڈ بین گورائن کے مزار کا انتخاب کیا۔ جیسے وہ اپنے صدر سے کہہ رہے ہوں کہ دیکھ لیں، آج ہم نے اسرائیل کو کس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ عرب ممالک جو کل تک اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے، آج ہماری جانب دوستی کا ہاتھ پھیلائے بڑھ رہے ہیں۔
اس موقع پر امریکی سیکریٹری سٹیٹ انتھونی بلینکن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ خطے کی ریاستوں میں تعلقات مزید استوار ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ توانائی، ماحولیات اور سلامتی کے امور پر معاہدے ہوں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یایر لیپیڈ نے کہا کہ اس گروپ نے طے کیا ہے کہ یہ نشست ہر سال منعقد کی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق اردن نے اس نشست میں شرکت نہیں کی بلکہ اس کے مقابل وہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مغربی کنارے گئے ہیں۔ اس نشست کو ’’نارملائزیشن سمٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جسے فلسطینی ’’شرمناک سمٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینی جماعتوں کے قومی اسلامی اتحاد نے نقب کے مقبوضہ علاقے میں اس کانفرنس کے انعقاد کو فلسطینیوں کی پشت میں خنجر قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عربوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ صیہونی رژیم ہے۔ اتحاد کا کہنا تھا کہ عرب صیہونی اتحاد نیٹو کی توسیع کی ایک علاقائی شکل ہے۔
قارئین آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ یہ اسی جزیرہ العرب کے وزرائے خارجہ ہیں، جو چند دن پہلے 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں تمام مسلم ممبران کی آنکھوں میں یہ کہ کر دھول جھونک گئے تھے:We re-emphasize the centrality of the question of Palestine and Al-Quds Al-Sharif for the Muslim Ummah, reaffirming its principled and continued all-level support to the Palestinian people to regain their inalienable legitimate national rights, including their right to self-determination and the independence of the State of Palestine along the 1967 borders, with Al-Quds Al-Sharif as its capital. We also reaffirm our duty to protect the right of Palestinian refugees to return to their homes in accordance with UN General Assembly resolution 194 and to unequivocally counter any denial of these rights
یعنی ہم امت مسلمہ کے لیے مسئلہ فلسطین اور القدس الشریف کی مرکزیت پر ایک بار پھر زور دیتے ہیں، ہم فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی اصولی اور ہر سطح کی حمایت کی از سر نو یقین دہانی کرواتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ناقابل تنسیخ جائز قومی حقوق بشمول رائے شماری نیز فلسطینی ریاست کی 1967ء کی سرحدوں کے مطابق آزادی، جس کا صدر مقام قدس الشریف ہو، کو حاصل کرسکیں۔ ہم یہاں از سر نو فلسطینی مہاجرین کے حقوق کے تحفظ، ان کی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 194 کے مطابق اپنے گھروں کو واپسی، مزید برآن ان کے حقوق سے کسی بھی انکار کا واضح طور پر مقابلہ کرنے لیے اپنے فرائض کا اعادہ کرتے ہیں۔
ہمارے نوجوان اور اہل فکر یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان بے ضمیروں کی کس بات پر اعتماد کیا جائے۔؟ کیا اس بات پر جو انھوں نے او آئی سی کے اجلاس میں کی یا جو کچھ یہ آج اسرائیل میں کہہ اور کر رہے ہیں۔ اسرائیل جا کر ان کا خوش گپیاں اور معاہدے کرنا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی نظر میں آج ان کا اقتدار، دولت اور وسائل اہم ہیں۔ مسلمان کیا سوچتے ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں، کرنا انھوں نے وہی ہے، جو ان کا مفاد کہے گا۔ مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ برطانیہ نے ان کو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ہی استعمال نہیں کیا بلکہ آج کئی دہائیوں کے بعد بھی یہ صیہونی ریاست کے پشت پناہ ہیں۔ امت کی اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ حکمران مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر براجمان ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ کوئی اس جانب بھی متوجہ نہیں کہ اسرائیل خود تو دنیا بھر سے صیہونیوں کو اپنی مقدس سرزمین پر جمع کر رہا ہے اور وہاں ایک صیہونی ریاست کو مضبوط کر رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ایسے لوگوں کے سپرد کر دیا ہے، جو ظاہراً تو مسلمان ہیں، لیکن درحقیقت اسلامی تعلیمات اور امت کے مفادات سے ان کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی تزویراتی فتح ہے۔ امید ہے تو فقط مسلم اور بالخصوص عرب عوام سے کہ وہ ان اقدامات سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار کریں گے، کیونکہ ظلم پر خاموشی رات کی سیاہی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ یہ موقع ہے کہ یمنی عوام کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جو وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اس خائن ٹولے کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں اور اسلامی دنیا کے لیے مقاومت کا ایک استعارہ ہیں۔
اس موقع پر امریکی سیکریٹری سٹیٹ انتھونی بلینکن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ خطے کی ریاستوں میں تعلقات مزید استوار ہوں۔ ہماری کوشش ہے کہ توانائی، ماحولیات اور سلامتی کے امور پر معاہدے ہوں۔ اسرائیلی وزیر خارجہ یایر لیپیڈ نے کہا کہ اس گروپ نے طے کیا ہے کہ یہ نشست ہر سال منعقد کی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق اردن نے اس نشست میں شرکت نہیں کی بلکہ اس کے مقابل وہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مغربی کنارے گئے ہیں۔ اس نشست کو ’’نارملائزیشن سمٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، جسے فلسطینی ’’شرمناک سمٹ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ فلسطینی جماعتوں کے قومی اسلامی اتحاد نے نقب کے مقبوضہ علاقے میں اس کانفرنس کے انعقاد کو فلسطینیوں کی پشت میں خنجر قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ عربوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ صیہونی رژیم ہے۔ اتحاد کا کہنا تھا کہ عرب صیہونی اتحاد نیٹو کی توسیع کی ایک علاقائی شکل ہے۔
قارئین آپ کو یاد کرواتا چلوں کہ یہ اسی جزیرہ العرب کے وزرائے خارجہ ہیں، جو چند دن پہلے 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والی او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس میں تمام مسلم ممبران کی آنکھوں میں یہ کہ کر دھول جھونک گئے تھے:We re-emphasize the centrality of the question of Palestine and Al-Quds Al-Sharif for the Muslim Ummah, reaffirming its principled and continued all-level support to the Palestinian people to regain their inalienable legitimate national rights, including their right to self-determination and the independence of the State of Palestine along the 1967 borders, with Al-Quds Al-Sharif as its capital. We also reaffirm our duty to protect the right of Palestinian refugees to return to their homes in accordance with UN General Assembly resolution 194 and to unequivocally counter any denial of these rights
یعنی ہم امت مسلمہ کے لیے مسئلہ فلسطین اور القدس الشریف کی مرکزیت پر ایک بار پھر زور دیتے ہیں، ہم فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی اصولی اور ہر سطح کی حمایت کی از سر نو یقین دہانی کرواتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ناقابل تنسیخ جائز قومی حقوق بشمول رائے شماری نیز فلسطینی ریاست کی 1967ء کی سرحدوں کے مطابق آزادی، جس کا صدر مقام قدس الشریف ہو، کو حاصل کرسکیں۔ ہم یہاں از سر نو فلسطینی مہاجرین کے حقوق کے تحفظ، ان کی اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 194 کے مطابق اپنے گھروں کو واپسی، مزید برآن ان کے حقوق سے کسی بھی انکار کا واضح طور پر مقابلہ کرنے لیے اپنے فرائض کا اعادہ کرتے ہیں۔
ہمارے نوجوان اور اہل فکر یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان بے ضمیروں کی کس بات پر اعتماد کیا جائے۔؟ کیا اس بات پر جو انھوں نے او آئی سی کے اجلاس میں کی یا جو کچھ یہ آج اسرائیل میں کہہ اور کر رہے ہیں۔ اسرائیل جا کر ان کا خوش گپیاں اور معاہدے کرنا اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کی نظر میں آج ان کا اقتدار، دولت اور وسائل اہم ہیں۔ مسلمان کیا سوچتے ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں، کرنا انھوں نے وہی ہے، جو ان کا مفاد کہے گا۔ مسلم امہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ برطانیہ نے ان کو خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ہی استعمال نہیں کیا بلکہ آج کئی دہائیوں کے بعد بھی یہ صیہونی ریاست کے پشت پناہ ہیں۔ امت کی اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ حکمران مسلمانوں کی مقدس سرزمین پر براجمان ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ کوئی اس جانب بھی متوجہ نہیں کہ اسرائیل خود تو دنیا بھر سے صیہونیوں کو اپنی مقدس سرزمین پر جمع کر رہا ہے اور وہاں ایک صیہونی ریاست کو مضبوط کر رہا ہے جبکہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کو ایسے لوگوں کے سپرد کر دیا ہے، جو ظاہراً تو مسلمان ہیں، لیکن درحقیقت اسلامی تعلیمات اور امت کے مفادات سے ان کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے۔ یہ اسرائیل کی تزویراتی فتح ہے۔ امید ہے تو فقط مسلم اور بالخصوص عرب عوام سے کہ وہ ان اقدامات سے لاتعلقی اور بیزاری کا اظہار کریں گے، کیونکہ ظلم پر خاموشی رات کی سیاہی کو مزید گہرا کرتی ہے۔ یہ موقع ہے کہ یمنی عوام کو خراج تحسین پیش کیا جائے، جو وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود اس خائن ٹولے کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑے ہیں اور اسلامی دنیا کے لیے مقاومت کا ایک استعارہ ہیں۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: