عقیدۂ توحید کے معاشرتی اثرات
عقیدے کی وحدت ہی امت کی وحدت پر منتج ہوتی ہے بشرطیکہ عقیدے کو اس کی روح کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ عقیدہ توحید ہی اسلام کے ہر دوسرے عقیدے ،اخلاقی تعلیمات اور احکام عبادی کی روح رواں ہے۔
عموماً لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دین اور مذہبی عقائد کا تعلق آخرت سے ہے۔ اگر عقیدہ درست ہوا تو جنت میں اور غلط ہوا تو دوزخ میں ۔یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ مختلف عقائد رکھتے ہیں لیکن عملی زندگی میں ان کی کوئی تاثیر دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ آخرت میں انھیں ان کا فائدہ پہنچے گا۔ مذہب کا ایک تصور یہ ہے کہ یہ بندے اور خدا کے مابین معاملہ ہے، بندے کا بندے سے رابطہ ہو تو پھر مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ بعض دکانوں پر لکھا ہوتا تھا :’’یہاں سیاسی باتیں کرنا منع ہے‘‘ اب بعض جگہوں پر یہ لکھا بھی دکھائی دیتا ہے’’یہاں مذہبی باتیں کرنا منع ہے‘‘۔ سیاسی باتیں چونکہ جھگڑے فساد کا موجب بن جاتی ہیں اس لیے ان سے منع کیا جاتا ہے۔ اب یہی حال مذہبی باتوں کا ہونے لگاہے۔ یہ مذہبی باتیں جو جھگڑے کا موجب بنتی ہیں ان پر اگر آپ غور کر یں تو سارا زور یہی نکلے گا کہ یہ عقیدہ جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور اُس عقیدے والے جہنم میں جائیں گے۔ ایسی باتوں کا عموماً عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
۲۔۲۔۱۔حرکت یاجمود کی بنیاد نظریہ ہوتا ہے
تاہم ایک شخص قدم اٹھائے، ایک خاندان ایک کام کرے یا ایک معاشرہ ایک حرکت کرے بلکہ اس کے بر عکس صورت بھی اک شخص، ایک خاندان یا ایک معاشرہ حرکت میں ہو یا جمود میں ،یہ حرکت یا جمود ضرور کسی عقیدے یانظریے کی بنیا د پر ہوتا ہے۔ انسان انفرادی یا اجتماعی طورپر جو کچھ بھی کرتا ہے کسی نظریے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ عقیدہ یا نظریہ انسانی زندگی پر اثر انداز نہ ہو، تا ہم جس طرح کا نظریہ ہو گا ،اسی طرح کا اثر بھی ہوگا۔اگر کسی کا تصور خدا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ، وہ ہمارامالک ہے تاہم وہ رحیم و کریم بھی ہے ،غفار و ستار بھی ہے، ہم سے جوبھی گناہ ہو جائے ہم چونکہ اس کے ماننے والے ہیں وہ ہمیں ضرور بخش دے گا، اس کا نتیجہ اس کے عمل پر یوں مرتب ہو گا کہ وہ خواہشات نفسانی کے سہارے سب کچھ کرتا چلا جائے گا۔ ایک نظر سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایمان باللہ کا نتیجہ اوردوسری نظر سے کہا جاسکتا ہے کہ ایمان باللہ ہوتا تو وہ گناہ سے پرہیز کرتا اور خواہشات نفسانی کا اسیر نہ ہوتا۔دوسری بات اس لیے درست ہے کہ اس کی اللہ تعالیٰ کے بارے میں شناخت چونکہ درست نہیں ہے، یہ شخص اس کے عدل وحکمت پر ایمان نہیں لایا، اس نے جس تصور خدا کو مانا ہے وہ خدا ہی نہیں ہے،لہٰذا ’’ایمان باللہ ‘‘ کا اعلان اسکی زبان کی حد تک ہے لیکن حقیقی طور پر دیکھا جائے تو وہ اللہ پر ایمان ہی نہیں لایا۔جبکہ پہلی بات بھی ایک لحاظ سے صحیح ہے اور وہ یوں کہ جیسا خدا اس نے مانا ہے ویسا ہی اس کا عمل ہے۔
۲۔۲۔۳۔انبیاء کی تعلیمات کی اساس
انبیاء الٰہی کی تعلیمات کا نچوڑ توحید اور قیامت کا عقیدہ ہے۔ ان کی تمام تر تعلیمات انہی دو عقائد کے ارد گرد گھومتی ہیں ۔ ان کی باز گشت بہر حال انہی عقائد کی طرف ہو تی ہے ۔ ان کی ساری کوشش اسی پر منتہی ہوتی تھی کہ لوگ اللہ کو مانیں اور اسے واحد لا شریک مانیں اور پھر ایک روز اپنے اعمال کی سزا و جزا کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہیں۔ ان دونوں عقائد میں سے عقیدہ معاد و قیامت بھی دراصل عقیدہ مبدا اور توحید میں پنہاں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صحیح شناخت اور معرفت کے ضمن میں ہر درست عقیدہ اور ہر سچائی آجاتی ہے۔ اس حوالے سے پیغمبر اکرمؐ کا یہ مشہور فرمان ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں ہے:
قولوا لا الہ الا اللہ تفلحوا(۸)
یعنی لا الہ الا اللہ کہو اور فلاح پا ئو
اس سے ظاہر ہوتاہے کہ’’ لا الہ الا اللّٰہ ‘‘ جو بظاہر چھوٹا سا کلمہ ہے فلاح دارین کا دارومدار اسی پر ہے۔ دوسرے لفظوں میں انبیاء الٰہی کی تعلیم کا ماحصل درست معرفت الٰہی ہے۔ حضرت یوسف ؑ زندان میں ایک قیدی کی حیثیت سے پہنچے تو وہاں انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ پیغام پہنچایا:
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ئَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُO مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْھَآ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بِھَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَO(۹)
اے میرے قیدی ساتھیو! کیا متفرق خدا بہتر ہیں یا ایک ہی اللہ جو غلبے والا ہے۔ یہ معبود جنھیںتم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو ان کی حیثیت ناموں کے سوا اور کچھ نہیں اور نام تم نے اور تمھارے آبا ؤ اجداد نے رکھے ہیں ،اس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ۔ حکم کرنے کا حق صرف اللہ کو ہے اور اسی نے حکم دیا کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ یہی محکم اور صحیح دین ہے لیکن بیشتر لوگ اسے نہیں جانتے۔
درحقیقت انبیائے الٰہی اسی ایک عقیدے کی درستی میں انسان کی دنیوی اور اخروی فلاح دیکھتے تھے،ان کے نزدیک انسان کی انفرادی و اجتماعی مشکلات کا ایک ہی چارہ ہے اور وہ ہے توحید پرستی۔ اگر اللہ کی معرفت انسان کو درست حاصل ہو جائے، انسان اس کی صفات پر صحیح طریقے سے ایمان لے آئے، کائنات اورانسان سے اس کے تعلق کو پہچان لے تو پھر یقینا فلاح و بہبود کے راستے اس پر کھل جائیں گے۔ ہم یہاں عقیدۂ توحید کے چند معاشرتی اثرات کا ذکر چند مثالوں اور مشکلوں کے حوالے سے کریں گے۔
۲۔۲۔۴۔ایک سے زیادہ الہٰ ہوتے تو
جیسا کہ پہلے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے :
لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِہَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَاO(۱۰)
اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا بھی کوئی معبود ہوتے تو آسمان و زمین برباد ہو جاتے ۔
زمین و آسمان کا نظام تکوین اور خلق و امر کا اقتدا رسب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر کوئی اور بھی خدا ہوتا تو وہ اپنا اقتدا ربھی بروئے کار لاتا تو پھر سب کچھ دگرگوں ہو جاتا ۔ نظام تشریع اور حدود تکلیف میں بھی یہی حال ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت فاعل مختار بنایا ہے۔ اگر یہ انسان اپنے ارادے کی آزادی کو توحید کے راستے پر بروئے کار لائے تو بحر و بر میں ہر گز کوئی خرابی اور فساد برپا نہ ہو۔ فساد عالم تکوین میں ہو یا عالم تشریع میں ہمیشہ توحید سے انحراف ہی میں متصور ہے۔ انسان اگر مکتب توحید پر واقعاً جمع ہو جائیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ زمین میں خرابی ہو۔ شرک ہی فساد او رتباہی کا راستہ ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے:
سُبْحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ O ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ۔۔۔(۱۱)
جو کچھ وہ شرک کرتے ہیں اللہ اس سے پاک اور بالا و برتر ہے۔ لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے برو بحر میں فساد اور بگاڑ برپا ہوا۔
۲۔۲۔۵۔مساوات و مواخات
دنیا میں اگر قوموں کی باہمی آویزش دکھائی دیتی ہے، مختلف طاقتیںایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے درپے ہیں تو یہ سب اقتدا ر اور حاکمیت کا مسئلہ ہے ۔ انسان اقتدا ر کے مسئلے میں کسی ایک حد پر رکنے کے لیے تیار ہی نہیں ۔ جھگڑا دو یا بیشتر طاقتوں کے ہونے سے ہے۔ایک طاقت ہو تو جھگڑ اکیسا۔ پوری کائنات کا مسئلہ یہیں سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ اگر ایک سے زیادہ طاقت کے سرچشمے ہوتے تو کائنات کے قائم رہنے کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔ ’’لفسدتا ‘‘کا یہی مفہوم ہے۔
توحید پر ایمان رکھنے والے انسان کی نظر میں سب انسان، انسان ہونے کے ناتے سے برابر ہیں ۔ سب آدم ؑ کی اولاد ہیں ۔ آدم مٹی اور پانی سے پیدا کئے گئے تھے۔نسل آدم پانی کے ایک حقیر نطفے سے چلی ۔ سب کو اللہ تعالیٰ انسانی صلاحیتیں دے کر بھیجتا ہے جنھیں کمال تک پہنچانا انسان کی انفرادی و اجتماعی ذمہ داری ہے۔ارشاد الٰہی ہے:
وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍO ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآئٍ مَّھِیْنٍ O ثُمَّ سَوّٰہُ وَ نَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِہٖ وَ جَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَۃَ قَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ O(۱۲)
اللہ نے انسان کی خلقت کی ابتدا گیلی مٹی سے کی پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے قرار دیا ۔ پھر اسے ٹھیک ٹھاک کیا۔ اس میں اپنی روح پھونکی اور اس نے تمھیںکان، آنکھیں اور دل دیے۔ (تاہم)تم میں سے تھوڑے ہی شکر گزار ہوتے ہیں۔
۲۔۲۔۶۔ نسلی تفاخر کی نفی
اس دنیا میںہم دیکھتے ہیں کہ مختلف نسلوں کے لوگ ایک دوسرے پربرتری جتلاتے ہیں۔ بنی اسرائیل تو کسی دوسری قوم کو خاطر ہی نہ لاتے تھے۔یہودی جنت کا حقدار بھی بس اپنے آپ کو سمجھتے ہیں اور اسی لیے اپنے مذہب کی دوسری قوم کو دعوت تک نہیں دیتے ۔ عقیدۂ توحید ان سب کی نفی کرتا ہے۔صاف ستھری پاکیزہ تعلیمات بنی آدم کی ایسی تفریق کی نفی کرتی ہیں۔ حقیقی موحد انسان نسل کی بنیاد پر فخر و تکبر میں مبتلا نہیں ہوسکتا ۔ قبائل و شعوب کی تقسیم کو وہ کسی کے تفاخر اور کسی کے کم تر ہونے کی بنیاد نہیں مان سکتا۔ اس کے نزدیک اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ سماعت، بصارت اور عقل کی قوتوں کوزیادہ بہتر طریقے سے شکر الٰہی کے راستے میں کون بروئے کا رلا تا ہے۔ خدا پرستی انسانی معاشرے کو برابری کے انمول جذبوں سے آشنا کر تی ہے ۔ قرآن حکیم نے اپنے لفظوں میں اس مدعا کو یوں بیان کیا ہے:
ٰٓیاََیُّہَا النَّاسُ اِِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (۱۳)
اے انسانو! ہم نے تمھیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے ، تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو، یقینا تم میں عزت والا اور شرف والا اللہ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ بلا شبہ اللہ بڑا جاننے والا اور بہت باخبر ہے۔
اس آیت کریمہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ مرد اور عورت کو بھی ایک دوسرے پر تقویٰ کی بنیاد پر فضیلت حاصل ہو سکتی ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ قوموں اور قومیتوں کا جھگڑا جہالت اور جاہلیت کی پیدا وار ہے۔ ممکن نہیں کہ ایک انسان اللہ اور اسکی وحدانیت پر ایمان بھی رکھتا ہو پھر بھی نسلی تفاخر کے زعم میں مبتلا ہو یا پھر احساس کمتری کا شکا ر ہو۔
اس مسئلے کو بعض افراد نام نہاد علمی دلائل کا بوجھ ڈال کرسنگین اور اہم بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن صاف ستھرے اور فطری دلائل انسانی مساوات ہی کی شہادت دیتے ہیں۔ خارجی مسائل اور حالات بعض گروہوں اور قوموں کو مجموعی فائدہ یا نقصان ضرور پہنچا دیتے ہیں لیکن آزاد فطری ما حول سب کو میسر ہو ، وسائل کی تقسیم صحیح ہو ،تعاون و تقابل کی فضا انسانی بنیادوں پر موجود ہو اور سب محنت اور کوشش کو اپنے ارتقاء کا وسیلہ بنائیں تو آج کی پسماندہ قومیں بھی عروج کے زینے طے کرتی ہوئی دکھائی دے سکتی ہیں۔ علاوہ ازیں ترقی کا جامع مفہوم بھی سمجھنے کی ضرورت باقی ہے۔
۲۔۲۔۷۔لسان و رنگ کا اختلاف
لسان و رنگ کی بنیاد پر بھی کسی انسان کو دوسرے انسان پر فضیلت دینا عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔
ارشاد رب العزت ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافُ اَلْسِنَتِکُمْ وَ اَلْوَانِکُمْ(۱۴)
آسمانوں اور زمین کی تخلیق نیز زبانوں اور رنگوں کا اختلاف اس کی نشانیوں میں سے ہے۔
ایک انسان عربی بولتا ہے اور دوسرا انگریزی ، ایک ہندی بولتا ہے اور دوسرا اردو ، یہ سب انسان ہیں ۔ زبانوں کا اختلاف آیات الٰہی میں سے ہے اور اس بنیاد پر کسی کو دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ ہاں ایک انسان یا چند انسان جو ایک خاص زبان بولتے ہیں وہ علمی کا رنامے سر انجام دیتے ہیں، ایسے ایسے کا م کرتے ہیں جن کی تاثیر عالمگیر ہو،یہاں تک کہ اہل دنیا ان کے کار ناموں اور عظیم کاموں سے آگاہی کے لیے ان کی زبان جاننے پر مجبور ہو جاتے ہیں،اس صورت میں کمال ان انسانوں کی محنت اور ہمت کا ہے۔ یہی مقام ہر دوسری زبان والے بھی حاصل کر سکتے تھے اور حاصل کر سکتے ہیں۔ زبان کی وسعت اور عروج و زوال کا تعلق اس زبان سے وابستہ افراد کی ہمت یا کوتاہ ہمتی اور فکر و عمل سے ہے۔گویا خارج سے کچھ چیزیں کسی زبان کو اہم یا غیر اہم بنا دیتی ہیں ،خود زبان تو بس مطالب و افکارکی ایک دوسرے تک رسائی کا ذریعہ ہے۔
یہی حال رنگ کا بھی ہے۔ رنگ کی تشکیل میں مختلف عوامل کارفرماہوتے ہیں۔ علاقے اور موسم کا اثر اس میں نمایاں ہوتا ہے ۔ماں باپ کے رنگ کااثر بھی اولاد میں ہوتا ہے۔ایک ہی شخص کی نسل اگر مختلف علاقوں میں جابسے تو رنگ ،زبان ،قد کاٹھ اور رہن سہن، دوسری تیسری نسل میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے۔ ان تغیرات کو قرآن اللہ کی نشانیاں قراردیتا ہے۔
جب ان چیزوں کو انسان آیات الٰہی سے بڑھ کر کچھ اور سمجھنے لگتا ہے ،ان کی بنیا د پر انسان کے فضل و شرف کوماپنے لگتا ہے تو مشرکانہ معاشرہ وجود میں آنے لگتا ہے۔ گورے امریکی اپنے ہی کالے رنگ کے امریکیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ برہمن اپنے ہی ہم مذہب ہریجنوںکو اختلاف نسل کی بنیاد پر ناپاک سمجھتے ہیں۔ بہت سے جرمن ،جرمن قوم کو دنیا کی تمام قوموں کی نسبت نسلی بالادستی کے زعم میں بر تر سمجھتے ہیں ۔ ایک قومیت کے لوگ اپنی قوم کے برے لوگوں کو بھی دوسری قوم کے اچھے لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ سب کچھ انسانی مساوات کے توحیدی نظریے کے خلاف ہے ۔ جو شخص اس عقید ے کے ساتھ معاشرے میں حرکت کرتا ہے اور سماج میں داخل ہوتا ہے وہ اپنے دامن میںنفرت لے کر جاتا ہے ، وہ انسانوں کو آپس میں بانٹتا ہے، وہ اپنی قوم اور اپنے رنگ کے لوگوں سے محبت کے نام پر اسے دوسری قوم اور دوسرے رنگ والوں سے نفرت کا جذبہ تقسیم کر رہا ہوتا ہے ۔ انسان کے صاف لباسِ فطرت پر یہ عقیدے بد نما داغ ہیں۔
تو اے مرغ حرم! اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا(۱۵)
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے(۱۶)
ایھاالناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد کلکم ولدوا
من آدم وآدم من تراب ان اکرمکم عنداللہ اتقیٰکم و لیس لعربی علی عجمی فضل الا بالتقوٰی۔(۱۷)
اے انسانو! یقینا تمھارا پروردگار واحد ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ بلا شبہ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شرف والا وہ ہے جو تم میں سے متقی زیادہ ہو اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ، سوائے تقویٰ کے ذریعے۔
۲۔۲۔۸۔مملکتیں اور انسانی وحدت
اس وقت ملکوں کی تقسیم قومی بنیاد پر ہے یا جغرافیائی طور پر ۔ تاہم ریاستوں کی زیادہ تر بنیاد قومی ہی ہے۔ ایک دو ریاستوں کی بنیا د آپ دین و مذہب پر کہہ سکتے ہیں ۔ بہر حال ملکوں میں قائم نظام اور حکومتیں اپنے ملک و قوم یا اپنے نظاموں کے اقتدار کی خاطر سب کچھ کر گزرتی ہیں۔ اپنا مفاد انہیں عزیز ہوتا ہے چاہے اس کے لیے دوسرے سے فراڈ کیا جائے، استحصال کیا جائے یا دھونس سے کام لیا جائے۔ انسانی حقوق ،برابری ، عدم مداخلت وغیرہ جیسے سب خوبصورت عنوان کاغذی ہیں ۔ اصل میں اچھے انسانی قانون خدا پرستی اور توحید پرستی سے خالی ہیں تو کا غذی اور نمائشی ہی ہوںگے۔اپنے قومی مفاد کے لیے یا قومی مفاد کے نام پر دوسری قوم کے استحصال کو جائز سمجھنے والوں نے ہی دنیا کو ’’پہلی دنیا‘‘،’’دوسری دنیا‘‘ اور ’’تیسری دنیا‘‘ میں تقسیم کیا ہے۔طاقتور قوموں نے دنیا کو چلانے کے لیے ایسے’’عالمی قوانین‘‘ تشکیل دے رکھے ہیں جن سے استحصال کی یہ صورت مستقل رہے اور گہری ہوتی جائے ۔یہ صورت خالص توحید پرستی کی نفی ہے۔
دنیا میں آزادی و حریت ، عدل وانصاف اور مساوا ت و مواخات کے خواب ہمیشہ ادھورے رہیں گے بلکہ یہ نعرے استحصالی قوتوں کے منفی مقاصد کا ہتھیا ر بنے رہیں گے جب تک موحدین کا معاشرہ وجود میں نہیں آتا ۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی صفات کے ساتھ ماننے سے جیسا معاشرہ وجود میں آتا ہے اس کی جھلک خود رسول اللہؐ کی زندگی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ انفرادی زندگی میں خدا پرستی کی عمدہ مثالیں اور اس کے فائدے آج بھی ہر معاشرے میں محسوس و مشہود طور پر موجود ہیں۔
خدا پرستی جو نعمتیں ایک معاشرے کو عطا کرتی ہے انھیں شما رمیں نہیں لایا جا سکتا ۔آج کی حکومتیں قانون کی خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ایک ادارہ قائم کرتی ہیںپھر اس ادارے کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے ایک ادارہ قائم کرتی ہیں ۔یہ سلسلہ بعض اوقات طولانی تر ہو جاتا ہے اور جتنا بھی طولانی ہوتاہے عوام پر بوجھ بھی بڑھتا جاتا ہے اور قانون کی خلاف ورزی اور کرپشن بھی بڑھتی جاتی ہے۔ دوسری طرف ایک خدا کو ماننے والا جب اس کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے ،جب اسے کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا ،بھوک اور پیاس انتہا کو پہنچی ہوتی ہے اور کھانے پینے کے لیے کئی نعمتیں میسرہو تی ہیں لیکن وہ صبر کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ اگر پورے معاشرے میں انسان ایک سمیع و علیم و بصیر خدا کو مانتے ہوں، ایسا خدا جو قدیر و عادل بھی ہے اور جس کے حضور ہم نے ایک روز اس طرح سے پیش ہونا ہے کہ پھر ہمارا اختیار کچھ نہ ہو گا تو پھر حکومتوں کو نگرانی اور روک تھام کے عنوان سے اتنے لمبے چوڑے اور دہرے تہرے انتظامات کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسے اداروں کی ضرورت ختم نہیں ہو سکتی چونکہ انسان فاعل مختار ہے تا ہم تو حید پرستی کی روح زندہ کرکے ان انتظامات کو بہت کم کیا جاسکتا ہے۔ ایسے معا شرے کے انسانوں میں ایک احساس ذمہ داری بیدار ہو جاتا ہے۔ وہ خود ایسے افراد پر نظر رکھتے ہیں جو اجتماعی مفاد کے خلاف کوئی حرکت کرتے ہیںاور اپنی عادل و ہمدرد حکومت کی مدد کرتے ہیں۔مومن باللہ حکمران پورے معاشرے کو حقیقی طور پر خدا پرست بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ عدل ،مساوات اوراحسان کے اصولوں پر گامزن حکمران عوام کا اعتماد حاصل کرکے منفی قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔
۲۔۲۔۹۔خدا پرست معاشروں کی خرابیاں
ہم پہلے بھی واضح کر چکے ہیں کہ بہت سارے معاشرے آج بھی ایسے موجود ہیں جہاں کے بیشتر رہنے والے ایک خدا کو مانتے ہیں لیکن ان کی خرابیاں اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ لوگوں کو اللہ کی صحیح معرفت نہیں ۔ لوگوں کا تصور خداو قیامت مبنی بر حقیقت نہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں ایک عقیدہ یہ بھی رائج ہے کہ ہم چونکہ حبیب خداختم الرسلؐ کی امت ہیں (دراصل ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم ان کی امت ہیں) لہٰذا اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کے مستحق ہیں۔ الطاف حسین حالی کا یہ شعر شاید اسی کیفیت کا غماز ہے :
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے(۱۸)
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا(۱۹)
حوالہ جات:
۸۔ ابن خزیمہ، محمد بن اسحاق، صحیح ابن خزیمہ،ت:محمد مصطفی الاعظمی،ج۱، ص ۸۲،ح۱۵۹، المکتب الاسلامی،بیروت
۹۔ یوسف:۳۹و۴۰
۱۰۔ انبیاء،۲۲
۱۱۔ روم:۴۰و۴۱
۱۲۔ سجدہ :۷تا۹
۱۳۔ الحجرات:۱۳
۱۴۔ الروم :۲۲
۱۵۔ اقبال،محمد ،علامہ:بانگ درا، کلیدِ کلیات اقبال اردو (ادارۂ اہل قلم،ہما بلاک، علامہ اقبال ٹائون، لاہور،۲۰۰۵ء)ص۳۰۴
۱۶۔ اقبال،محمد ،علامہ:بانگ درا، کلیدِ کلیات اقبال اردو (ادارۂ اہل قلم،ہما بلاک ، علامہ اقبال ٹائون، لاہور،۲۰۰۵ء)ص ۱۹۳
۱۷۔ مبارکپوری،صفی الرحمن:الرحیق المختوم(المکتبۃ السلفیہ،لاہور،۲۰۰۲)ص۵۵۱
۱۸۔ حالی،الطاف حسین:مسدس ِ حالی(خزینۂ علم وادب،لاہور،سنہ ندارد)ص ۱۷۴
۱۹۔ مولانا ظفر علی خاںکا مشہور شعر ہے ،بہت سے لوگ غلطی سے اسے علامہ اقبال سے منسوب کرتے ہیں۔
۲۰۔ رعد۔۱۱
Share this content: