انصاراللہ کے متحدہ عرب امارات پر تازہ حملوں کا پس منظر اور پیغام
یمن میں سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی، جس کے ذمہ تھا کہ وہ نئے انتخابات کروا کر نئی پارلیمان منتخب کرے۔ اس عبوری حکومت کے صدر عبد الرب منصور الہادی تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایک وسیع ردعمل پیدا ہوا اور ایوان صدر کا گھیراؤ کر لیا گیا۔ آخرکار منصور ہادی نے استعفیٰ دے کر حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور عوام کے مختلف گروہوں پر مشتمل ایک حکومت قائم ہوئی۔ اس نئے سیٹ اپ میں یمن کے وہ گروہ زیادہ موثر تھے، جو علاقے میں امریکہ کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے اور اسرائیل کو ایک جائز ریاست نہیں مانتے۔ یہ صورتحال امریکہ اور علاقے میں اس کے اتحادیوں کے لیے ناقابل قبول تھی۔
انھیں یوں محسوس ہوا جیسے سرزمین عرب کے ایک نہایت ہی اہم خطے یمن سے اسی انقلاب کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، جو 1978ء میں ایران میں سنائی دیتی تھی۔ وہی نعرے اور وہی نظریات جو ایران کی انقلابی فضا سے پہلی پہلی مرتبہ دنیا نے سنے تھے، صنعاء سے ابھرنے لگے۔ یعنی اللہ اکبر، الموت لامریکا، الموت لاسرائیل۔ نئی حکومت کی قیادت انصار اللہ کے قائد عبد الملک حوثی کے ہاتھ آئی، جو حوثی قبیلے کے روحانی پیشوا کی حیثیت رکھتے تھے اور جن کے خاندان کے خلاف یمن کی ماضی کی حکومتیں جنگ آزما رہی ہیں۔
عبد الملک الحوثی کے بھائی سید حسین بدر الدین الحوثی کو اس سے قبل شہید کیا جا چکا ہے۔ حوثی قبائل کا مرکز شمالی یمن میں ہے، جہاں کا اہم ترین شہر صعدہ ہے۔ امریکہ، برطانیہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور علاقے میں ان کے دیگر اتحادیوں نے مل کر عبد الرب منصور الہادی کی قیادت میں ایک جلاوطن حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور عالم اسلام کے دیگر ممالک پر مشتمل ایک نئے فوجی اتحاد کی داغ بیل ڈالی۔ اس فوجی اتحاد کی کمان ’’غیر جانبدار‘‘ اور ’’ثالثی‘‘ کے داعی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے۔ مختلف ممالک سے فوجی دستوں کو منگوایا گیا، خطے کے مختلف دہشت گرد گروہوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا، جس میں القاعدہ اور داعش کا نام سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ بھی یمن اور دیگر ممالک سے بھرتیاں کی گئیں اور انھیں تربیت دی گئی، یہاں تک کہ مارچ 2015ء میں یمن کے جنوب سے چڑھائی شروع کر دی گئی۔
یمن کے دو طرف تو سمندر ہے، ایک طرف سلطنت عمان ہے اور شمال میں یمن کی ساری سرحد سعودی عرب سے ملتی ہے۔ سمندری گزرگاہوں میں سے نہایت اہم یمن کے سواحل پر موجود ہیں۔ جارحیت میں پیش پیش سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تھے، جنھوں نے امریکا اور دیگر مغربی ممالک سے اسلحے کے انبار جمع کر لیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کا اگرچہ کوئی بارڈر یمن سے نہیں ملتا، تاہم اس کے بھی خطے میں سعودی عرب کے ساتھ اہم مفادات ہیں۔ متحدہ عرب امارت کو یمن سے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا۔ اسی طرح یمنیوں نے کبھی سعودی عرب پر حملہ نہیں کیا بلکہ الٹا سعودی عرب یمنی کوہستانی علاقوں میں مقیم حوثی قبائل پر حملے کرتا رہا ہے۔ کبھی یمن اور سعودی عرب کے مابین اچھے تعلقات بھی رہے ہیں، لیکن بدلے ہوئے حالات میں علاقے کی شیخ نشین ریاستوں اور بادشاہتوں کو یمن میں آنے والی تبدیلیوں سے خطرہ محسوس ہوا۔ یہ خطرہ تو وہ 1979ء میں ایران میں کامیاب ہونے والے انقلاب کے بعد سے محسوس کر رہے ہیں، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے انھوں نے خلیج تعاون کونسل بھی قائم کر رکھی ہے۔
خطے میں معاشی لحاظ سے سب سے کمزور ملک یمن ہی ہے۔ آمریت کے زیر تسلط رہنے کی وجہ سے یمن سماجی اور اقتصادی لحاظ سے ترقی نہیں کرسکا بلکہ بہت پسماندہ رہا ہے۔ جارحین اور اس کے سرپرستوں نے منصور ہادی کی حکومت کو یمن کی جائز حکومت قرار دیا اور انصار اللہ کی قیادت میں بننے والی حکومت کو حوثی باغی کا نام دیا۔ حوثی اسی سرزمین کے فرزند ہیں اور صدیوں سے یہیں پر رہتے چلے آرہے ہیں۔ یمن ان کا اپنا ہے، صنعاء پر اس سات سال سے جاری اس جارحیت کے مقابلے میں مزاحمت کی قیادت انھوں نے ہی کی، قبل ازیں فوجی آمریت سے جان چھڑوانے میں بھی ان کی بیش بہا قربانیاں رہی ہیں۔ ان کے لیے برے نام رکھنے کا سبب ان کے لیے پوری دنیا میں نفرت پیدا کرنا اور جارحین کی وحشی گری کو جواز بخشنا ہے۔ گویا اپنے ملک اور اپنی سرزمین کا دفاع کرنے والے باغی ہیں اور جارحیت کرنے والے نجات دہندہ۔
متحدہ عرب امارات نے اپنی کل بیس ہزار فوج میں سے 3500 یمن میں داخل کر رکھی ہے۔ اس کی فضائیہ کے بھی 3000 افراد اس جارحیت میں شریک ہیں۔ ان میں افسر بھی ہیں اور دیگر مختلف رینک کے فوجی بھی۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یو اے ای نے تقریباً نوے ہزار غیر سرکاری جنگجوؤں کو تربیت دے کر صنعاء حکومت کے خلاف شریک جنگ کر رکھا ہے۔ سعودی عرب اور امارت کے مفادات باہم ٹکراتے ہیں، جس کا نتیجہ ان کے زیر قبضہ علاقوں میں باہمی جنگوں کی صورت میں دکھائی دیتا رہتا ہے۔ منصور ہادی کا گروہ سو فیصد سعودی عرب کا فرمانبردار اور اس کے زیر کمان ہے۔ منصور ہادی کے مقابلے میں متحدہ عرب امارات نے ایس ٹی سی (Southern Transitional Council) قائم کر رکھی ہے، دونوں گروہوں کے مابین اپنے علاقوں پر اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے معرکہ آرائی ہوتی رہی ہے۔ آخر کار ریاض اور ابو ظہبی کے مابین بعض معاملات پر ہم آہنگی ہوگئی۔ متحدہ عرب امارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ یمن کے کسی خطے پر باقاعدہ اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا، اس لیے اس کی یمن کے بعض اہم جزائر پر مستقل قبضے کی خواہش اور کوشش رہی ہے۔
انصار اللہ کی قیادت میں یمنی افواج نے سعودی عرب پر کئی حملے کیے۔ 2018ء میں انھوں نے یو اے ای پر بھی میزائل حملہ کیا اور خبردار کیا کہ اگر یو اے ای اس کے خلاف مزید کارروائیاں جاری رکھے گا تو یمن بھی اس کے خلاف مزید اقدام کرے گا۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ یمن سے اپنی فوجیں نکال رہا ہے۔ اس سلسلے میں بعض مقامات سے اس کے کچھ فوجی پیچھے بھی ہٹے، البتہ اس نے بعض اہم جزائر پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔ جون 2019ء کے بعد یمن کے جنوبی صوبوں جن میں شبوہ بھی شامل ہے، میں دوبارہ فعال دکھائی دینے لگا۔ حال ہی میں سعودی عرب اور امارت نے القاعدہ اور داعش کے دہشت گردوں کے ساتھ مل کر شبوہ میں انصاراللہ کے مقابلے میں کچھ فوجی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ اس کے بعد صنعاء حکومت نے بھی ضروری سمجھا کہ ایک مرتبہ پھر یو اے ای کو اس محاذ سے نکالنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ یو اے ای کا انحصار تیل کے بعد سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری پر ہے اور اگر ان سرمایہ کاروں نے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھا تو وہ یقیناً یو اے ای سے نکل جائیں گے۔ انصار اللہ کی قیادت نے زیادہ توجہ سعودی عرب پر دے رکھی تھی، یہ سمجھتے ہوئے کہ یو اے ای اپنا فوجی کردار اس جنگ میں کم کر دے گا، لیکن چند ہفتوں کی متحدہ عرب امارت کی نئے سرے سے جنگی فعالیت کے بعد آخرکار صنعاء حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ یو اے ای کے خلاف ایک ایسا اقدام ضروری ہوگیا ہے، جو اسے پھر سے یمن کے محاذ سے علیحدہ ہونے پر آمادہ کرے۔ سوموار 17 جنوری کو ابو ظہبی پر داغے جانے والے انصار اللہ کے بیلسٹک اور کروز میزائل نیز ڈرونز کا حملہ اسی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ صنعاء کے فوجی ترجمان جنرل یحییٰ سریع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ابو ظہبی کے علاقے المصفح اور ابو ظہبی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دس بیلسٹک میزائل داغے گئے ہیں، علاوہ ازیں کروز میزائل اور ڈرونز کے ذریعے بھی حملہ کیا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں مصفح کے تیل صاف کرنے والے کارخانے اور کئی آئل ٹینکر اس کی زد میں آئے ہیں، جن سے بڑے پیمانے پر آتشزدگی کی ویڈیوز پوری دنیا میں دیکھی گئی ہیں۔ عارضی طور پر ابو ظہبی ائیر پورٹ بھی بند کرنا پڑا ہے۔ اس کارروائی کا نام ’’طوفان یمن‘‘ رکھا گیا ہے۔ انصار اللہ کے سیاسی امور کے دفتر کے نمائندے محمد البخیتی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امارات نے یمنیوں کے خلاف جو جارحیت کا نیا سلسلہ شروع کیا ہے، یمنی افواج نے اس کا جواب دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ امارات میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ہمارے حملوں کی تاب لا سکے۔ ہم ہر حملے کے جواب میں حملہ کریں گے۔ صنعاء حکومت کے وزیر اطلاعات ضیف اللہ شامی نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا ہے کہ امارات اور اس کے حکمرانوں تک جو تنبیہی پیغام پہنچایا جانا مقصود تھا، وہ پہنچ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب خلیج فارس کے شیوخ اور ان کے ایجنٹ، نیز اقوام متحدہ، ہمارے خلاف شور شرابا کریں گے، لیکن ہم کووں کی کائیں کائیں اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
یاد رہے کہ مصفی شہر امارات کا صنعتی لحاظ سے ایک بنیادی اور اہم شہر شمار ہوتا ہے، جس کی ملکی اور غیر ملکی آبادی تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ یمنی افواج کے سربراہ نے کہا ہے کہ اگر دشمن نے ہمارے خلاف جارحیت جاری رکھی اور ہماری سرزمین پر قبضہ جاری رکھا تو امارات کی اقتصادیات اور سرمایہ کاری حقیقی خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ اس حملے کے جواب میں صنعاء کے شہریوں پر وحشیانہ بمباری کی گئی ہے، لیکن انصار اللہ اور اس کے رضاکاروں کے حوصلے بلند ہیں۔ دوسری طرف دنیا کے مختلف ممالک میں استعمار اور صہیونیت کے مخالف گروہوں اور عوام نے انصار اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت پر اظہار اطمینان کیا ہے اور سات سال بعد مختلف پہلوؤں سے اس کی فوجی طاقت میں اضافے کو علاقے میں بالآخر امن کی طرف پیشرفت کے لیے ایک ضمانت قرار دیا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یمنی میزائلوں نے سعودی فضا سے 1300 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے اہداف کو درست نشانہ بنایا ہے۔ انصار اللہ کے ایک ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ شیشے کا بنا ہوا برج اور بین الاقوامی ہوئی اڈے ہمارے نشانے پر ہیں۔ انھوں نے یو اے ای میں موجود غیر ملکیوں کو خبردار کیا ہے کہ ہمارے نزدیک عرب امارات ایک دشمن ہے اور ہم جارح دشمن کو کسی بھی وقت نشانہ بنا سکتے ہیں، لہذا یو اے ای کی سرزمین کو غیر محفوظ سمجھا جائے اور غیر ملکی یہاں سے چلے جائیں۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز