امریکہ میں جمہوریت کا مستقبل

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

گذشتہ بدھ 6 جنوری 2021ء کو امریکی پارلیمان کی عمارت پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کی چڑھائی نے امریکہ میں جمہوریت کے مستقبل پر بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر امریکی وفاق کا مستقبل زیر سوال آگیا ہے۔ امریکہ کے منتخب نمائندوں کے لیے یہ دن بہت خوفناک تھا، جب صدر ٹرمپ کی ترغیب اور تحریک پر ان کے حامی امریکی کانگرس کی عمارت پر چڑھ دوڑے۔ منتخب نمائندگان کے علاوہ میڈیا اراکین اور دیگر مامورین کی دوڑیں لگ گئیں۔ پولیس نے کانگرس کے اراکین کو فرش پر لیٹ جانے کا حکم دیا۔

ٹی وی چینلز پر مظاہرین کی تصویروں میں دکھایا گیا ہے کہ وہ رقص کر رہے ہیں اور کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر کھڑے جھنڈے لہرا رہے ہیں جیسے انھوں نے کوئی ملک فتح کر لیا ہو۔ وہ قانون ساز ایوانوں میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں اور منتخب نمائندوں اور سکیورٹی افسروں کے دفاتر میں بیٹھ کر تصویریں بنوا رہے ہیں۔ ایوان نمائندگان میں بند دروازوں کے پیچھے اسلحے کی نمائش کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پولیس اور بلوائیوں کے مابین ایک عرصے تک جنگ جاری رہی، چار افراد مارے گئے اور بہت سے پولیس والے زخمی ہوئے، جن میں سے پندرہ کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔

گذشتہ کئی ہفتوں سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 6 جنوری کو فیصلہ کن دن قرار دے رہے تھے۔ انھوں نے اعلان کر رکھا تھا کہ 6 جنوری کو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر کانگرس کو نومنتخب صدر کی توثیق سے روکیں۔ یاد رہے کہ جب صدر ٹرمپ کے حامیوں نے کانگرس کی عمارت جسے کیپیٹل ہل کہتے ہیں، پر حملہ کیا تو وہاں پر سینٹ اور ایوان نمائندگان جسے مشترکہ طور پر کانگرس کہا جاتا ہے، کا اجلاس منعقد ہونے جا رہا تھا۔ کانگرس کی عمارت پر حملے کے بعد واشنگٹن ڈی سی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے مظاہرین کی حوصلہ افزائی کی جو ووٹ کی”چوری کو روکو” اور “یہ سب بکواس ہے” کے نعرے لگا رہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے، ہم شکست تسلیم نہیں کریں گے، ہمارے ملک کے ساتھ بہت کھلواڑ ہوچکا ہے، اب ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے نومبر 2020ء میں ہونے والے انتخابات میں پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اگرچہ جوبائیڈن کے ووٹ ان سے بھی زیادہ ہیں لیکن اس سے یہ امر بہرحال واضح ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو عوام کے ایک بڑے طبقے کی حمایت حاصل ہے، جن میں شدت پسند اور انتہاء پسند انتہائی بائیں بازو کے گروہ شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے نسل پرستی کو ہوا دے کر سفید فاموں کی ایک بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ملا رکھا ہے۔ ان کے حالیہ طرز عمل کے خلاف اگرچہ ان کی اپنی پارٹی ریپبلکن سے بھی آوازیں اٹھی ہیں، ان کی کابینہ کے بعض اراکین نے بھی استعفیٰ دیا ہے نیز سکیورٹی کے بعض اہم عہدیدار بھی مستعفی ہوگئے ہیں، تاہم ان کی وسیع پیمانے پر حمایت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور کانگرس کی عمارت پر ان کے حامیوں کے حملے نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں اور کسی بھی مرحلے تک جاسکتے ہیں۔

بعدازاں اگلے روز کانگرس نے منتخب صدر اور نائب صدر کی اگرچہ توثیق کر دی ہے اور صدر ٹرمپ کو مجبوراً یہ کہنا پڑا ہے کہ وہ 20 جنوری کو اقتدار منظم طریقے سے منتقل کرنے کے لیے تیار ہیں، البتہ وہ اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ کے ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا، تاہم ان کے ترجمان کے ٹویٹر اکائونٹ سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ میں انتخابات کے نتائج سے مکمل طور پر اختلاف کرتا ہوں اور اس حوالے سے حقائق بھی میرے دعووں کی تصدیق کرتے ہیں لیکن 20 جنوری کو منظم منتقلی ہوگی۔ اس اکائونٹ پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ صرف ہماری جدوجہد کا آغاز ہے، تاکہ امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنایا جاسکے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وائٹ ہائوس سے باہر نکل کر بھی اپنے اس بیانیہ پر قائم رہیں گے، یہاں تک کہ وہ چار سال بعد پھر وائٹ ہائوس میں واپس آنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے اندر ان کی گرفت مضبوط رہتی ہے یا نہیں۔ ملک کے اندر اور دنیا بھر میں وہ اپنے دور صدارت میں جس طرح کی شخصیت بن کر سامنے آئے ہیں، اس کے نتیجے میں اگرچہ انھوں نے اپنے گرد شدت پسندوں کو اکٹھا کر لیا ہے تو دوسری طرف اپنے مخالفین کو بھی منظم ہونے کا موقع دیا ہے۔ کئی ایک واقعات کے نتیجے میں دنیا میں انھیں ایک شدت پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بعض قومیں اور گروہ ان کے شدت پسندانہ اقدامات کا بدلہ لینے کی بات بھی کرتے ہیں۔ امریکہ کے اندر سیاہ فاموں نے جس انداز سے ان کے خلاف تحریک چلائی ہے، اس کے اثرات بھی ابھی تک باقی ہیں۔ جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کے نظریے کا حامی سفید فام طبقہ سیاہ فاموں کی حمایت کرتا رہا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کے اندر نمایاں طور پر صف بندی نظر آنے لگی ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور اقتدار میں بعض امریکی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں بھی زیادہ پروان چڑھی ہیں۔

گذشتہ بدھ کو ہونے والے واقعات میں امریکہ کے مستقبل کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ان کی بازگشت امریکہ کے علاوہ باقی دنیا میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ صدر ٹرمپ کے رویے کی مذمت برطانیہ، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک کے راہنمائوں نے بھی کی ہے اور اسے امریکی جمہوریت کے لیے افسوسناک قرار دیا ہے۔ اگرچہ امریکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے آخر کار اپنا کردار ادا کیا ہے، تاہم پینٹاگون کو اب بھی تشویش لاحق ہے کہ کہیں 20 جنوری کو صدر ٹرمپ کے حامی پھر سے کوئی ہنگامہ برپا نہ کر دیں، کیونکہ اس روز باقاعدہ طور پر نو منتخب صدر نے حلف اٹھانا ہے۔ لہٰذا حلف برداری کی تقریب میں تخریب کاری کا اندیشہ نظرانداز نہیں کیا جا رہا۔ اس لیے بھی کہ انھوں نے اپنے حامیوں کو واپس جانے کے لیے جو پیغام دیا، وہ بڑا معنی خیز ہے۔ انھوں نے کہا ’’گھر جائیے، ہم آپ سے پیار کرتے ہیں، آپ ہمارے لیے بہت خاص ہیں۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ پینٹاگون نے نیشنل گارڈز کے 6200 افراد کو آمادہ باش کا حکم دے دیا ہے۔ یہ گارڈز اس وقت ورجینییا، پینسلواینیا، نیویارک، نیوجرسی، ڈیلاویر اور میری لینڈ کی ریاستوں میں موجود ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت واشنگٹن کی طرف مارچ کا حکم دیا جاسکتا ہے۔ بظاہر تو حالات پر قابو پایا جا چکا ہے لیکن آنے والی حکومت کو گذشتہ حکومتوں کی نسبت نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انتہاء پسندانہ اور غم و غصہ سے بھری ہوئی فضا کو پھر سے معمول پر لانا نئی حکومت کے لیے ایک مختلف چیلنج ہے۔ عالمی سطح پر بھی امریکہ کا چہرہ جو مخدوش ہوچکا ہے، اسے “ڈپلومیٹک امریکہ” کی شکل دینے کے لیے بھی کئی ایک اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہم نہیں کہتے کہ بنیادی پالیسیاں تبدیل ہو جائیں گی، لیکن جوبائیڈن کی قیادت میں نئی امریکی انتظامیہ کو کچھ نہ کچھ مختلف کرنا پڑے گا، بشرطیکہ صدر ٹرمپ کچھ عرصہ کاروباری امور کی طرف متوجہ ہو جائیں۔