احمد جاوید صاحب پر اثر انداز ہونیوالی شخصیات اور نظریات
تحریر: سید اسد عباس
احمد جاوید صاحب جن کا حقیقی نام جاوید امیر عثمانی ہے، بنیادی طور پر ایک نظری صوفی ہیں، تصوف کی اصل کو ثابت اور اس کے مصادیق کو فاسد خیال کرتے ہیں۔ پیری مریدی کو تصوف کے لیے آفت قرار دیتے ہیں۔ تفضیلی صوفیوں سے ہٹ کر ناصبیت کی جانب رجحان رکھتے ہیں۔ خود کو نقشبندی سلسلے سے بتاتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ نقشبندی سلسلے کے اکثر مرید دیوبندی مسلک سے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کے صوفی ہونے کے باوجود یہ لوگ اہل بیت ؑ اطہار کی عظمت کے ویسے قائل نہیں، جیسے دیگر سلاسل کے پیر اور مرید ہیں، نیز ان میں مسلکی شدت پسندی بھی دیگر سلاسل کی نسبت زیادہ ہے۔ اس بات پر تحقیق کی ضرورت ہے کہ نقشبندی سلسلہ کن حالات میں مسلکی شدت پسندی کی جانب مائل ہوا، حالانکہ اس سلسلے کے بانی خواجہ بہاء الدین نقشبند ایک محب اہل بیت ؑ صوفی تھے، جن کا اہل بیت ؑ کی شان میں کہا ہوا کلام لائق مطالعہ ہے۔ اپنے ایک مطالعہ میں مجھے معلوم ہوا کہ چشتی سلسلے میں مذہبی شدت پسند کیسے وارد ہوئی۔
جب ہم چشتی سلسلے کے بانی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری، ان کے مرید نظام الدین اولیاء، سید صابر کلیری کے اہل بیت ؑ کے بارے کلام کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین کیے بناء نہیں رہا جا سکتا کہ یہ شخصیات عظمت اہل بیت رسول ؐ کی قائل تھیں اور انھیں اپنے ایمان و عرفان کا محور جانتی تھیں۔ جشتی سلسلہ جب مہار شریف کے علماء کے تحت آیا تو اس میں مسلکی شدت پسندی کا عنصر پیدا ہوا، جو کہ سیال شریف سے ہوتا ہوا گولڑہ شریف تک پہنچا۔ آج ان سلسلوں کے پیروکار صوفی ہونے کے باوجود مسلکی شدت پسندی کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنے سلسلے کے اکابر کے برخلاف عظمت اہل بیت ؑ کے قائل نہیں۔ اگرچہ ان میں بھی کچھ اہل محبت اور عشق موجود ہیں۔
بہرحال احمد جاوید صاحب زیادہ تر لفاظی، گنجھلک اصطلاحات کے ذریعے اپنی بات کو زیادہ اعلیٰ، ارفع اور علمی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ ادب، ادبی تاریخ، شعر و سخن پر دسترس رکھتے ہیں، اسی وجہ سے ایک اچھے نقاد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ زبان دانی کے سبب فلسفہ سے بھی خاصا شغف رکھتے ہیں۔ الفاظ ان کے معانی، ان کے پیچھے چھپے تصورات، کائنات کی حقیقتوں کو جاننے کے لیے ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں۔ غزالی، ابن عربی، بوعلی سینا، ملا صدرا، شیخ اشراق، مولانا رومی اور قدیم و جدید مغربی فلاسفہ کو خوب پڑھا ہے اور فصوص الحکم و مثنوی معنوی کے لیکچر دیتے ہیں، جو کہ یوٹیوب پر موجود ہیں۔
احمد جاوید صاحب ہندوستان کے شہر الہ آباد کے گاؤں سید سراواں میں پیدا ہوئے تھے، جہاں کی علمی روایت کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس گاؤں کی ایک خصوصیت یہاں کے عوام کا سو فیصد خواندہ ہونا تھا۔ اپنی ابتدائی زندگی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے دادا انگریزی کے استاد تھے، دادی سے ہی میں نے فارسی سیکھی تھی۔ گھر میں ایسا علمی ماحول میسر تھا کہ جس نے مجھے شروع سے ہی مطالعہ کا شوقین بنا دیا۔ کہتے ہیں کہ میں ابن عربی کو سولہ برس کی عمر میں پڑھتا تھا، اگرچہ مجھے زیادہ سمجھ نہ آتی تھی، تاہم وجودی طور پر میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔
احمد جاوید کہتے ہیں کہ میری شعری ذوق میں راہنمائی سلیم احمد نے کی اور انہی کی وساطت سے میری ملاقات جمال پانی پتی سے ہوئی، جنھوں نے میرا تعلق فارسی شاعری سے استوار کیا۔ اسی طرح وزیر علی بدایونی کا تذکرہ کرتے ہیں، جو جدید فلسفے اور ادب کے ماہر تھے۔ سلیم احمد سے متعلق انسانوں میں ایک مولانا ایوب دہلوی تھے، جو گہرے فلسفی انسان تھے۔وہ ان سے اپنی ملاقات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے محسوس ہوا کہ حرکت اور اشیاء کا تصور زیرو ہوگیا ہے۔ احمد جاوید کہتے ہیں کہ میں نے ایسا باکمال شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ان کا کھانا ہمارا فلسفہ پڑھنے سے افضل ہے اور ان کا سونا ہمارے کعبہ میں رونے سے افضل ہے۔ ان کو دیکھنے سے جیسے اللہ کا شہود ہوتا تھا، ویسا کتابیں پڑھنے سے نہیں ہوتا تھا۔
مولانا ایوب نے فتنہ انکار حدیث، تفسیر سورۃ تین و عصر، مقالات ایوبی اور مقصود کائنات تحریر کیں۔ مولانا معقولات پر درس دیتے تھے، جسے سن کر لوگ روتے تھے۔ مولانا ایوب ایک روایتی عالم تھے اور تصوف کے نظری عقائد مثلاً وحدت الوجود، وحدت الشہود وغیرہ پر یقین نہ رکھتے تھے۔ اسی طرح پیری مریدی کو درست نہ سمجھتے تھے اور اپنے استاد کو اپنا شیخ کہتے تھے۔ احمد جاوید کہتے ہیں کہ مولانا ایوب مفتی شفیع سے خصوصی محبت رکھتے تھے، ہر ہفتے ان سے ملنے ان کے مدرسے جاتے تھے اور اکثر میں ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔ مفتی شفیع دیوبندی، دیوبند کے اساتذہ میں سے تھے اور تقسیم ہند کے موقع پر پاکستان آگئے اور کراچی میں ایک مدرسہ قائم کیا۔
احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں اپنی زندگی میں دو سو سے زائد اللہ والوں سے ملا ہوں، ان کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ان میں اکثر کا تعلق شعر و سخن، فلسفہ، معقولات اور تصوف کی دنیا سے تھا۔ ایسے ہی ایک صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرنل شیر محمد خان کو حضرات شیخین سے بے انتہاء محبت تھی، میرے خیال میں شاید ان پر ان دونوں شخصیات کی خصوصی نظر کرم تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ ان کو ظاہر بظاہر ان دونوں شخصیات کی کئی مرتبہ زیارت ہوئی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا بھی تھا کہ آپ کون سا عمل کرتے ہیں، جس سے حضرت عمر سے آپ کا مسلسل اتصال ہے، جس پر کرنل شیر محمد خان گھبرا گئے اور کہا کہ اب آپ سب جان گئے، بس اتنا سمجھیے کہ میرا ان سے مسلسل رابطہ ہے۔
احمد جاوید صاحب کو متاثر کرنے والی شخصیات میں کراچی کی ایک شخصیت ابو میاں تھے، جو شراب پیتے تھے اور قبلہ احمد جاوید صاحب کو ان کو نشے میں دیکھنے سے پاکیزگی محسوس ہوتی تھی۔ ان کے خیال میں وہ ایک ملامتی صوفی تھے۔ بقول احمد جاوید صاحب ابو میاں نے وفات سے قبل توبہ کی اور ملائے اعلیٰ کو روانہ ہوئے۔ ایسے ہی صوفی منش انسانوں میں جن سے احمد جاوید کا واسطہ رہا، سراج الدین ظفر تھے۔ سراج الدین ظفر بھی اچھے شرابی تھے، تاہم احمد جاوید صاحب کے مطابق ایک فقیر منش انسان تھے۔ اعلی درجے کے شراب خانے میں جاتے اور جب واپس نکل رہے ہوتے تو سب کا بل ادا کر دیا کرتے تھے۔ باہر نکلتے تھے تو اپنے لباس تک کو فقراء میں تقسیم کر دیتے تھے۔ ماہر القادری کہتے ہیں کہ ہمیں کھینچ کر لایا گیا ہے۔
احمد جاوید صاحب کہتے ہیں کہ میں متصوفانہ مزاج کا نوجوان تھا، میرے پہلے پیر علی ظہیر عثمانی تھے۔ علی ظہیر عثمانی بھی صاحب حال شخصیت تھے، فلسفہ، شاعری میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ احمد جاوید کہتے ہیں کہ علی ظہیر عثمانی کے سبب ہی میں نے نظری تصوف کو پڑھا، مجھے عارفانہ مشرب کے لوگ بھی ملتے گئے۔ میں نے دوسری بیعت چشتی سلسلے میں کی۔ مولانا ایوب محمد دہلوی نظری تصوف کے مخالف تھے، یعنی وحدت الوجود کے قائل نہ تھے، تاہم میں نے دونوں یعنی چشتی سلسلے اور مولانا ایوب سے وفا کی۔ جاوید امیر عثمانی کہتے ہیں کہ مجھے نویں جماعت میں یہ قول یاد تھا، اس لیے نماز نہیں پڑھتا تھا۔ “جس نے وصول کے بعد عبادت کا ارادہ کیا، اس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا۔”
پشاور میں نقشبندی سلسلے میں بیعت ہوا اور پھر مفتی ولی حسنی صاحب سے ارادت پیدا ہوئی، جس سے میں نماز کا بھی قائل ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ شریعت کے بغیر تصوف کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ مجھے پانچ سلاسل میں خلافت مطلق حاصل ہے، تاہم میں پیری مریدی میں تحائف دینے کے خلاف ہوں۔ احمد جاوید کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کا قائل ہوئے بغیر ادب اور شاعری ممکن نہیں ہے۔ اگر ہم احمد جاوید صاحب سے ملنے والی شخصیات، ان کے نظریات، ان کے مطالعات کو دیکھیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا زیادہ تر ایسے لوگوں سے تعلق رہا، جو یا تو ادیب تھے یا فلسفی تھے یا معقولات کی دنیا میں بسنے والے لوگ تھے اور ان سب کے مابین مشترکہ صفت تصوف و عرفان کی جانب رجحان تھا۔
احمد جاوید صاحب کی آپ بیتی کے مطابق انھوں نے سولہ برس کی عمر میں پہلی بیعت کی اور ابن عربی کو اسی عمر میں پڑھنا شروع کیا۔ ان کی باتوں سے ایک بات مزید واضح ہوتی ہے کہ ان کا تصوف ابن عربی کا تصوف ہے، جسے ہم عرفان کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ پاکستان میں اسے تصوف کہا جاتا ہے، جبکہ شیعہ دنیا میں اسے عرفان کہا جاتا ہے۔ عرفان اور فلسفہ نے احمد جاوید کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب کیے، ان کو ہم نے گذشتہ دنوں یوٹیوب پر دیکھا، جس میں وہ اپنی زبان دانی کے ہمراہ ایک مسلک کے عقائد اور نظریات پر حملہ آور ہوئے۔ اگر واقعی یہی عرفان حقیقی ہے، جو احمد جاوید صاحب عرصہ دراز سے پڑھا رہے ہیں تو اس کے متناقض اثرات میرے لیے حیران کن ہیں۔
Share this content: