افغانستان سے امریکی انخلاء، مطالبے اور پاکستان کی مشکلات

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

گیارہ ستمبر 2021ء تک نیٹو افواج کو افغانستان چھوڑنا ہے، تاہم امریکہ اس خطے کو ترک نہیں کرنا چاہتا۔ ظاہراً اس کے مدنظر افغانستان میں امریکا مخالف شدت پسندی کو روکنا ہے، مگر درحقیقت وہ چین، روس اور ایران کی خطے میں پالیسیوں نیز اقتصادی پیشرفت سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ خلیج میں موجود امریکی اڈے دور ہیں، لہذا امریکی عسکری ادارے پینٹا گون کی خواہش ہے کہ اسے افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں ہی سر چھپانے کی جگہ مل جائے، جہاں سے وہ افغانستان اور خطے میں ہونے والی اقتصادی و تزویراتی سرگرمیوں سے آگاہ رہ سکے۔

اس مقصد کے لیے امریکا نے ازبکستان، تاجکستان اور پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسے فوجی اڈے فراہم کریں۔ اطلاعات ہیں کہ امریکا کو ازبکستان اور تاجکستان سے خاطر خواہ جواب نہیں ملا اور اب پاکستان نے بھی اس امر کی واضح اور دو ٹوک انداز سے وضاحت کی ہے کہ امریکا کو کوئی اڈہ فراہم نہیں کیا جائے گا۔

اڈوں کی فراہمی کی خبر کیسے منظر عام پر آئی، اس حوالے سے شبہات کا تو اظہار پہلے سے ہو رہا تھا، لیکن پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں یہ خبر اس وقت اہمیت اختیار کر گئی، جب ہندوستان اور پاکستان کے امور کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈیوڈ ایف ہیلوی نے 21 مئی کو امریکی سینیٹ کی عسکری امور کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ امریکی افواج کے لاجسٹک مسائل کو پاکستان کے ساتھ طے کر لیا گیا ہے اور ہمیں پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت مل گئی ہے۔ اس بریفنگ سے یہ سمجھا گیا کہ شمسی ائیر بیس کی طرح پاکستان نے ایک مرتبہ پھر امریکہ کو کوئی اڈہ فراہم کر دیا ہے۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے 24 مئی کو  اس کی سختی سے تردید کی کہ امریکا کو پاکستان میں کوئی اڈہ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب طالبان نے بھی ہمسایہ ممالک کو متنبہ کیا ہے کہ اگر امریکی افواج کو انخلاء کے بعد افغانستان میں کارروائیوں کے لیے کسی ہمسائے نے مدد فراہم کی تو یہ ایک تاریخی غلطی اور شرمناک عمل ہوگا۔

چین اور روس سے تعلقات کے بعد پاکستان امریکہ کی کیوں سنتا ہے؟ اس سوال کا جواب افغانستان کے امن اور پاکستان کی معاشی حالت سے متعلق ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور وہاں جنگی حالات یا بدامنی پاکستان کے لیے براہ راست مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ امریکی انخلا ءکے بعد اگر افغانستان ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہوتا ہے تو پاکستان کو مہاجرین کی پاکستان آمد کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ امریکی مطالبات سننے کی دوسری اہم وجہ پاکستان کی معاشی مشکلات ہیں۔ 2019ء میں آئی ایم ایف سے منظور ہونے والے 6 بلین ڈالر کے قرضوں کا حصول پاکستانی معیشت کے لیے اہم ہے، جس کے حوالے سے آئی ایم ایف مسلسل اپنی شرائط جن میں ٹیکسوں میں اضافے اور دیگر ایسے اقدامات پر عملدرآمد کا تقاضا کر رہا ہے۔ اسی طرح ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ کی تلوار بھی 2018ء سے مسلسل پاکستان کی گردن پر لٹک رہی ہے۔ ان تمام مشکلات میں امریکی تعاون ہمارے لیے اہم ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی تند و تیز باتوں اور وعدہ خلافیوں کے باوجود امریکا سے تعلقات کی بہتری پر کام کا آغاز کیا گیا، جو اس وقت امریکہ کے لیے بھی اہم ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اقتدار سے پہلے ہی اس بات کے داعی تھے کہ ہمیں افغان جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیئے تھا اور نہ ہی امریکہ کو اپنی سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت دینی چاہیئے تھی۔ خان صاحب کے اور بھی بہت سے نظریات اور دعوے تھے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے، تاہم اس معاملے پر ان کا موقف آج بھی وہی ہے۔ جس کا اظہار پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان مسئلے پر حکومتی پالیسی کو بیان کرتے ہوئے کیا اور کہا کہ ہمارا امریکہ سے تعلق امن کے شراکت دار کا ہوگا اور یہی ہمارا کردار ہوگا۔ اپنے حالات کے تناظر میں پاکستانی حکومت اور اداروں کا یہ فیصلہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے، جس میں یقیناً چین اور سی پیک کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس فیصلے کو ایک طرح کا پالیسی شفٹ یا بلاک چینج بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ امید ہے کہ پاکستان اس سلسلے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے گا۔

پاکستان کی جانب سے واضح اور دوٹوک انکار کے بعد توقع یہی ہے کہ امریکا ہندوستان میں کوئی اڈہ حاصل کرے گا اور اس عنوان سے ہندوستان اور امریکا کے مابین لاجسٹک سپورٹ کا معاہدہ بھی ہوچکا ہے۔ ایسا ہی ایک معاہدہ پاکستان اور امریکا کے مابین بھی موجود ہے۔ اگر امریکا ہندوستان کی سرزمین کو استعمال کرکے افغان حکومت کی مدد کرتا ہے تو بھی اسے امکانی طور پر پاکستان کی فضائی حدود کو استعمال کرنے کی اجازت چاہیئے ہوگی۔ شاید اسی اجازت کی جانب انڈو پاک امور کے اسسٹنٹ سیکریٹری نے اپنی بریفنگ میں اظہار خیال کیا تھا، لیکن طالبان نے اس عمل پر بھی پاکستان کو متنبہ کیا ہے۔ یہ ایک گھمبیر صورتحال ہے، جس سے نکلنے کے لیے انتہائی دانشمندی اور سفارتکاری کی مہارت کو بروئے کار لائے جانے کی ضرورت ہے۔