9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان
منگل گیارہ ستمبر 2001ء موجودہ صدی کا ایک اندوہناک دن تھا۔ ظاہراً تو اس روز دو امریکی عمارتیں جن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، القاعدہ کے ایک فضائی حملے کے نتیجے میں زمین بوس ہوئیں، جس میں جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد 2996 تھی، تاہم اس حملے کے اثرات پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان تو آج بھی اس حملے سے اثرات سے گذر رہے ہیں، حالانکہ ان ممالک کا ایک بھی شہری ان حملوں میں ملوث نہ تھا۔ آج دنیا 9/11 کو یاد کرتی ہے، تاہم کسی کو 10/7 جب امریکی افواج 2001ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور 3/20 جب امریکی فوجیں 2003ء میں عراق میں داخل ہوئیں، کسی کو یاد نہیں ہے۔ اگر جانی اور مالی نقصان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان میں ہونے والا نقصان امریکہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس حملے کے حوالے سے بہت سی تھیوریز اور حقائق سامنے آئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئے یا غائب کر دیئے گئے۔
امریکی حکومت نے اس حملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا، جس کی رپورٹ میں ان حملوں کا ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کو قرار دیا گیا۔ کمیشن کی ایگزیکٹو رپورٹ میں دشمن کون ہے، کے ذیل میں لکھا گیا ہے کہ 1980ء میں سوویت یونین سے مقابلے کے لیے دنیا بھر سے نوجوان مسلمانوں نے افغانستان کا رخ کیا، ان میں ایک اسامہ بن لادن تھا۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھی جنگجوؤں کی جہادی فکر کا ماخذ اسلامی ثقافت، تاریخ اور عقائد ہیں۔ اس نے افغانستان کو تربیتی مرکز کے طور پر استعمال کیا اور یہاں موجود طالبان حکومت سے روابط قائم کیے۔ اس رپورٹ میں امریکی قوم کی غلطیوں اور خامیوں کو تحریر کیا گیا ہے، جس میں القاعدہ کی صلاحیت کا صحیح ادراک نہ کرنا، قومی سکیورٹی پالیسی کے معاملات میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کا نہ ہونا، سی آئی اے کی آپریشنل استعداد اور سہولیات کی کمی، سفارتی سطح پر طالبان پر القاعدہ کو روکنے کے لیے دباؤ نہ بڑھا سکنا، پاکستان، عرب امارات اور سعودیہ جو طالبان کے ساتھ تعاون کر رہے تھے، کو اس عمل سے روکنے میں ناکامی، فوجی حملوں کے کم مواقع، انٹیلیجنس کے اداروں کی ناکامیاں اور تازہ معلومات کی جمع آوری میں مشکلات، بارڈر اور امیگریشن کے مسائل، ایوی ایشن سکیورٹی کے مسائل، دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کے ذرائع پر نظر، اندرونی دفاع میں بہتری لانا، کانگریس اور قانون ساز اداروں کا دہشت گردی سے متعلق درکار فوری قانون سازی اور ڈھانچے کی تبدیلی سے متعلق احکامات صادر کرنے میں دیر کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
اس رپورٹ کو پڑھ کر کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ امریکی اداروں کا ہم و غم فقط امریکی شہریوں اور مفادات کا دفاع ہے۔ اگر یہ مفادات اسامہ بن لادن سے حاصل ہوتے ہیں تو پوری دنیا سے مسلمانوں کو افغانستان میں اکٹھا کرکے ان کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے یہ مفادات حاصل کیے گئے۔ جب مسلمان جنگجوؤں کی ضرورت نہ رہی تو اپنا سامان سمیٹ کر یہاں سے یوں غائب ہوئے جیسے اس مسئلہ سے امریکہ کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان کو سنبھالنے پڑے۔ جہادی کلچر جو پاکستانی معاشرے میں سرایت کر چکا تھا، اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ جس کے اثرات آج بھی پاکستان میں موجود ہیں اور اس عفریت پر قابو پانے کے لیے پاکستان نے ستر ہزار انسانوں کی قربانی پیش کی ہے۔ سرمائے کا نقصان اس سے سوا ہے۔ طالبان حکومت پر دباؤ بڑھانے کی نوبت آئی تو پاکستان کو مختلف پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، جو امریکی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ناکافی تھیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان ایک آزاد ریاست نہیں بلکہ امریکہ کی کوئی طفیلی ریاست ہے، جبکہ اس کے برعکس عرب امارات اور سعودیہ کے ساتھ امریکی تجارت کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ امریکی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ امریکہ پر اس حملے کا سبب اسلامی ثقافت، تاریخ اور عقائد نیز وہ فہم اسلام ہے، جو اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک درست تھا۔ امریکہ نے اس تاریخ، ثقافت، عقائد اور فہم اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور اس کے خلاف بعد میں بھی کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کیا، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ ہمیں آئندہ بھی اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اسلام کی یہ خاص تاریخ، ثقافت، عقائد کا ڈھانچہ اور فہم اسلام عراق، لیبیا، شام میں بھی اس کے لیے مددگار ثابت ہوا اور نہ جانے ابھی اور کہاں کہاں اسے استعمال ہونا ہے۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ دشمن اسلام نہیں ہے بلکہ اسلام کا ایک خاص فہم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمان والدین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسامہ بن لادن جیسے لوگ ان کے بچوں کے لیے رول ماڈل نہیں ہیں، وہ فقط تشدد اور موت کے سفیر ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوامی روابط کے ذریعے امریکی معیارات کا دفاع بالخصوص سرد جنگ میں لڑنے والے قریبی معاشروں سے روابط، عوامی تعلیم اور معاشی شفافیت میں اضافہ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے کوششوں میں اضافہ، دہشت گردی کے لیے سرمایہ کی فراہمی کے راستوں کو مسدود کرنا، اداروں کے مابین ہم آہنگی کے لیے تفصیلی تجاویز بھی اس اجمالی رپورٹ کا حصہ ہیں۔ کمیشن کی اجمالی رپورٹ کے مندرجات سطور بالا میں ذکر کیے گئے، یقیناً تفصیلی رپورٹ بھی قابل مطالعہ ہوگی۔ امریکی حکومت اور ادارے اس رپورٹ کی سفارشات کے مطابق عمل کر رہے ہیں، جس کے اثرات ہم اسلامی معاشروں اور بالخصوص اپنے معاشرے میں محسوس کرسکتے ہیں۔
ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیئے کہ ساری دنیا کی مانند امریکہ کی تمام تر پالیسیاں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہوتی ہیں، ان پالیسیوں میں حسب ضرورت تبدیلیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔ امریکی پالیسیوں کا انسانیت اور دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اسلام کا ایک خاص فہم دہشت گردی، تشدد پسندی کا سبب ہے، جس کے خلاف ہمیں وسیع تر کام کرنے کی ضرورت ہے، تاہم 2011ء میں شام اور عراق کو تباہ کرنے کے لیے جب انھیں اسلام کے تشدد پسندانہ فہم اسلام کی ضرورت پیش آئی تو انھوں نے ایک مرتبہ پھر ابو بکر البغدادی اور جھبۃ النصرہ جیسی تنظیموں کی مدد کی اور جوانوں کو شام اور عراق پہنچایا۔ یہی کھیل وہ عالم اسلام کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً کھیلتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان بھی اپنی کلی خارجہ پالیسی پر غور و خوض کرے، اپنی سابقہ غلطیوں کا احصاء کرے اور ان کو درست کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرے۔ اگر ہم یہ کام اب انجام نہیں دیں گے یا جتنی دیر سے اس جانب متوجہ ہوں گے، ہمیں آئندہ درست فیصلے کرنے میں مشکلات پیش آتی رہیں گی۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز