یوم القدس اور اسلامی مزاحمت کا نقطۂ نظر
تحریر: ثاقب اکبر
عالمی یوم القدس پر اسلامی مزاحمت کے مختلف قائدین کے بیانات یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ایک ہی جذبہ ہے جو حق پرست اور شجاع پیشہ مسلمانوں کے دلوں میں برپا ہے۔ وہ پورے یقین کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نابودی اور زوال کی طرف بڑھ رہا ہے اور دن بدن کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے۔ عالمی سطح پر بیداری کی ایک لہر موجود ہے۔ یقیناً اس بیداری میں ہر سال برپا کیے جانے والے یوم القدس کا ایک بڑا کردار ہے، جس کی بنیاد حضرت امام خمینیؒ نے رکھی تھی۔ آئیے ذیل میں اسلامی مزاحمت کے چند راہنمائوں کے بیانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں، جو یوم القدس ہی کی مناسبت سے سامنے آئے ہیں:
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے عالمی یوم القدس کی آمد کے موقع پر ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل زوال پذیر ہے اور اس مرتبہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ صہیونی ریاست اپنے اندر سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔ اسرائیل کی قومی سلامتی کے غبارے میں چھید ہوچکا ہے۔ صہیونی رژیم بوسیدہ ہوچکی ہے اور یہ بوسیدگی اس کے تمام پلرز میں نمایاں ہے۔ یہ غیر معمولی اقتصادی زوال کا شکار ہے۔ معاشرتی اور سیاسی وحدت ناکارہ ہوگئی ہے۔ ہر ہفتے عوام مظاہرے کر رہے ہیں۔ 4 مرتبہ مسلسل انتخابات کے باوجود ایک مستحکم حکومت قائم نہیں ہوسکی۔ اسرائیلی غیر معمولی مشکلات اور خطرات سے دوچار ہیں۔ ایک دو ماہ پہلے یہ واضح ہوچکا ہے کہ اسرائیل کی سمندری تجارت دنیا کے ہر حصے میں خطرے سے دوچار ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی 90 فیصد تجارت سمندری راستے سے ہے، کیونکہ اس کی کوئی زمینی سرحد نہیں ہے۔
جنرل سلامی نے کہا کہ کوئی بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ صہیونی ریاست کی سمندری تجارت اس قدر خطرے سے دوچار ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ اس کی قومی سلامتی کو ہرگز کوئی خطرہ نہیں، لیکن جب اس کے ڈرون سازی کے کارخانے پر ایک ڈرون نے حملہ کیا تو اتنا بڑا دھماکہ ہوا جیسے ایٹمی دھماکہ ہوتا ہے۔ یہ کارخانہ اسرائیلی سیٹلائٹس تیار کرتا تھا، جو جل کر راکھ ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ اسرائیل کس قدر غیر محفوظ ہے۔ جنرل سلامی نے مزید کہا کہ حیفا میں آئل ریفاینری میں دھماکہ ہوا، اسرائیل نے خود بتایا کہ اس کی 80 کمپنیوں کو سائیبر حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے، پھر بن گورین ہوائی اڈے پر دھماکہ ہوا، عراق کے شہر اربیل میں اس کے جاسوس مارے گئے۔ انھوں نے کہا کہ بعض مقامات پر اسرائیل کی چوڑائی فقط 14 کلو میٹر ہے۔ لہٰذا اس پر لگائی گئی پہلی ضرب ہی آخری ضرب ثابت ہوسکتی ہے۔
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ نے یوم القدس کی مناسبت سے اپنے ایک خصوصی خطاب میں اسرائیلیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم جانتے ہو کہ اس ریاست کی عمر مختصر ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں۔ انھوں نے کہا کہ قدس اور فلسطین کے حوالے سے آج ہماری ذمہ داری سوا ہوچکی ہے۔ فلسطینی جوان پہلے سے زیادہ ایثار و قربانی کے لیے تیار ہیں۔ مزاحمتی تحریک خطرناک ترین مرحلہ عبور کر آئی ہے، ہم آج کے دن سب کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اپنے صادقانہ، مومنانہ، خالصانہ اور شجاعانہ موقف کو بیان کریں۔ حال ہی میں بیت المقدس میں مسلمانوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے سے روکنے کے لیے صہیونی حکومت نے جو ظلم روا رکھے ہیں، اس پر بات کرتے ہوئے سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ اس سرزمین شریف کے شجاع جوانوں کو آپ نے دیکھا کہ وہ کیسے میدان میں آئے ہیں اور انھوں نے کیسے صہیونیوں کے اسلحے اور وحشت و بربریت کامقابلہ کیا ہے۔
نابلس میں فلسطینیوں کی طرف سے صہیونی سپاہیوں پر جوابی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ معرکہ ظاہر کرتا ہے فلسطینی عوام اپنے حقوق کے حصول کے لیے پرعزم ہیں اور وہ ایک حتمی کامیابی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ صہیونی حکومت سے خطاب کرتے ہوئے سید حسن نصراللہ نے کہا کہ تم اپنی دینی پیش گوئیوں کے پیش نظر جانتے ہو کہ اس حکومت کا کوئی مستقبل نہیں اور یہ خاتمے کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اس معرکے میں تم اپنے جوانوں کو خواہ مخواہ ضائع کررہے ہو۔
بحرین کے ممتاز عالم شیخ عیسیٰ قاسم نے یوم القدس کی مناسبت سے ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بحرین کے عوام قدس اور مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ ہماری قوم اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی مخالف ہے۔ شیخ عیسیٰ قاسم نے کہا کہ قدس کی آزادی آج نزدیک تر ہوچکی ہے اور اس پر سے صہیونی قبضہ چھڑوانے کے لیے آزادی کی تحریک عروج پر ہے۔ عوام مسجد الاقصیٰ پر صہیونی قبضے کے مقابلے میں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن چکے ہیں۔ اسرائیل بیت المقدس کو ایک یہودی شہر بنانے کے درپے ہے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
یمن کی تحریک انصار اللہ کے قائد سید عبدالمالک بدرالدین حوثی نے بھی عالمی یوم القدس کی مناسبت سے خصوصی خطاب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن کے عوام قدس کی آرزو کو دل سے نہیں نکال سکتے اور قدس کی آزادی کا مقصد ہرگز فراموش نہیں کرسکتے۔ انھوں نے کہا کہ امت اسلامیہ کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیے اور اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے۔ یمن کے عوام اپنے ایمان کی بنیاد پر اور حق کی حمایت کے اصول پر فلسطینی عوام کے ساتھ ہیں۔ ہمارے لوگ اپنے دشمن اسرائیل کو تمام امت اسلامیہ اور اس علاقے اور دنیا کے امن و استحکام کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیل ایک غاصب ریاست ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، وہ سرطان کا پھوڑا ہے جسے کاٹ کر پھینک دینا چاہیے۔ بعض عرب ممالک کے صہیونی ریاست کے ساتھ روابط کو انھوں نے حق سے انحراف اور اسلام اور مسلمانوں سے خیانت قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس اقدام سے ثابت ہوگیا ہے کہ وہ ہمیشہ سے صہیونی ریاست کے ساتھ ہیں اور آج ان کی منافقت آشکار ہوگئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والوں کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے، انھوں نے پوری تاریخ میں فلسطینیوں سے کھیل کھیلا ہے اور ہمیشہ ایسے اقدامات کیے ہیں، جو دشمن کے مفاد میں تھے۔ سید عبدالمالک حوثی نے امت اسلامیہ کے تمام آزادی پسندوں کے مابین قریبی روابط پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ سب کو چاہیے کہ ہم آہنگی اور زیادہ قربت کے ساتھ امت کی بیداری کے لیے کردار ادا کریں اور امت کو قوی کرنے کی جدوجہد کریں۔ نیز دشمنوں سے مقابلے اور فلسطینی کاز کے حوالے سے غیر جانبدار نہ رہیں۔ انھوں نے مسجد اقصیٰ کے اطراف میں صہیونیوں کا مقابلہ کرنے والے فلسطینی جوانوں کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ آپ آج ایک بڑی مشکل سے گزر رہے ہیں، لیکن جو لوگ خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ کے راستے میں صداقت کے ساتھ قدم اٹھاتے ہیں، اس معرکے میں وہ آپ کے ساتھ ہیں۔
اسلامی تحریک حماس کے راہنماء اسماعیل ہنیہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ یوم القدس کی بنیاد امام خمینیؒ نے رکھی تھی، تاکہ پوری دنیا پر یہ واضح کر دیا جائے کہ بیت المقدس ہمیشہ مسلمانوں کے دل میں موجود رہا ہے اور موجود رہے گا اور یہ عالم اسلام کا ایک جزولاینفک ہے۔ مسلمانوں کے ایمان اور قرآن میں موجود نشانیوں کے پیش نظر اس سرزمین کے حوالے سے مسلمانوں کا اجماع ہے اور اس کے بارے میں ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے اور بیت المقدس تمام فلسطین کا پایہ تخت ہے۔ آج اس سرزمین پر سخت اور خطرناک حالات ہیں۔ اس شہر کو ایک یہودی شہر بنانے کے لیے دشمن کی سازشیں عروج پر ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ فلسطینیوں کو اس سے باہر نکال دیا جائے اور غاصبین مسجد مبارک الاقصیٰ پر قبضہ کرلیں، جو پیغمبر اکرمؐؐ کی معراج کا مقام ہے۔
لیکن آج جو معرکہ برپا ہے اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس شہر کے عظیم اور معزز شہری پوری قوت کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ ایمان اور عزم راسخ کے ساتھ اس کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہیں، اگرچہ ان کے پاس مادی وسائل نہیں ہیں لیکن وہ اس مسجد مبارک الاقصیٰ کے دفاع کے لیے ہر طرح کی مشکلات جھیل رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا ہے کہ میں اپنی قوم اور امت کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس سرزمین پر استقامت کے ساتھ کھڑے ہیں، تقدیر الہیٰ پر ہمارا ایمان ہے۔ اللہ کی نصرت پر اعتقاد رکھتے ہوئے ہم کامیاب ہوں گے اور غاصبین کو اس سرزمین سے نکال باہر کریں گے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کریں گے۔
ان تمام اسلامی راہنمائوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ استعمار اور صہیونیت کے خلاف مزاحمت کی تحریک بڑے شعور، عزم اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اور اسرائیل دن بدن کمزور ہو رہا ہے۔ بعض عرب ممالک کے حکمران اگرچہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں، لیکن عرب عوام اسرائیل کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسرائیل اپنے اندر سے بھی غیر محفوظ ہوچکا ہے۔ اس کے توسیع کے خواب چکنا چور ہوچکے ہیں۔ ایسے موقع پر یوم القدس ہمیں ایک نئے عزم اور حوصلے سے ہمکنار کرتا ہے۔