دہشتگردوں اور قاتلوں کو سینے سے لگانے کا موسم
وفاقی وزراء مسلسل تحریک لبیک کو ایک دہشتگرد اور قاتل تنظیم قرار دیتے رہے ہیں، بلکہ یہاں تک تاثر دیتے رہے ہیں کہ بھارت سے ان کی ڈور ہلائی جا رہی ہے۔ ان کے خلاف طاقت استعمال کرکے حکومتی رٹ بحال کرنے کی باتیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔ پھر بالآخر مذاکرات کے ذریعے اسے بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس واقعے کو ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات اور انھیں ’’قومی دھارے‘‘ میں شامل کرنے کی باتیں شروع ہوگئیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک غیر ملکی چینل کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ حکومت کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کرنے جا رہی ہے، تاکہ ملک میں امن قائم ہوسکے۔ بعدازاں وزیر اطلاعات نے بھی اس امر کی تائید کی اور کہا کہ طالبان سے مذاکرات کی تین شرطیں رکھی گئی ہیں، جن میں پاکستان کے آئین کو تسلیم کرنا، ہتھیار پھینکنا اور پاکستان کے شناختی کارڈ بنوانا، یعنی اپنی شناخت ظاہر کرنا شامل ہیں۔
بی بی سی سے ایک انٹرویو میں انھوں نے اس سوال پر کہ کیا تمام طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جا رہے ہیں اور یہ کہ کیا ’’ہارڈکور دہشتگردوں‘‘ کے لیے بھی مفاہمت کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ تمام بارہ گروہوں کے ساتھ مذاکرات ہوں گے، ان کی تعداد دو ہزار سے پچیس سو کے قریب ہے۔ اطلاعات کے مطابق ثالثی کا کردار افغان طالبان کی جانب سے عبوری حکومت کے وزیر داخلہ اور حقانی نیٹ ورک کے اہم رکن سراج الدین حقانی ادا کر رہے ہیں، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے پاکستان سے قریبی تعلقات ہیں۔ پاکستان اس سے پہلے بھی طالبان کے مختلف گروہوں سے متعدد مرتبہ مذاکرات اور کئی معاہدے کرچکا ہے۔ آخری مرتبہ یہ مذاکرات 2013ء میں کیے گئے تھے۔ معاہدوں کے ٹوٹنے کا الزام طرفین ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان کی جانب سے اب پہلا مطالبہ یہ رکھا گیا ہے کہ حکومت ان کے افراد کو رہا کرے۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں رہائی کے لیے 102 افراد کی فہرست بھی حکومت پاکستان کو دی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے متعدد طالبان راہنمائوں کو رہا کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد مذاکرات میں اعتماد کی بحالی ہے۔
ماضی میں بعض زیادہ شدت پسند گروہ مذاکرات کے مخالف رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم دھڑے کے کمانڈر عبدالولی مہمند عرف عمر خالد خراسانی کا گروہ شامل ہے۔ ماضی میں ہونے والے امن مذاکرات کے دوران ’’احرار الہند‘‘ نامی ایک گمنام تنظیم نے پاکستان میں کئی بڑے خونریز حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی، جن کا اصل منصوبہ ساز عمر خالد خراسانی کو ہی گردانا جاتا تھا اور پاکستانی حکام کا دعویٰ تھا کہ خراسانی اس نوعیت کی کارروائیاں کرکے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹی پی کے امن مذاکرات کو آگے بڑھنے نہیں دینا چاہتے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب عمر خالد خراسانی بھی مذاکرات پر آمادہ ہے اور اس کی بنیادی وجہ افغان طالبان ہیں، جو ان مذاکرات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ بظاہر ٹی ٹی پی کا کوئی گروہ افغان طالبان کی مخالفت مول نہیں لے سکتا، عام طور پر ان کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان کے امیر افغان طالبان کے امیر ہی ہیں۔
پاکستان میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے حکومت کے اس یک طرفہ اقدام کو بالعموم ناپسند کیا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کی طرف سے نہایت سخت موقف سامنے آیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام اٹھاتے ہوئے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے تو یہاں تک کہا ہے کہ شہداء کے خاندانوں کو نظرانداز کرکے کوئی معاہدہ قابل قبول نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات درست ہے، چونکہ ٹی ٹی پی کے خلاف جاری آپریشن کو قبل ازیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اگر حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی آئی ہے تو بھی تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ شہداء کے بعض خاندانوں کی طرف سے بھی حکومت کے ان اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹی ٹی پی میں شامل گروہوں کی پاکستانی ریاست کے خلاف طویل پنجہ آزمائی کے نتیجے میں اس ملک کو بے پناہ نقصانات اٹھانا پڑے ہیں۔ اس نے ہمارے بچوں کا خون بہایا ہے، ہمارے عام شہریوں کا قتل عام کیا ہے، ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا ہے اور داخلی طور پر ملک میں لاکھوں انسانوں کی ہجرت کا سبب یہی گروہ بنے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو انھوں نے جتنا نقصان پہنچایا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ ایسے میں چپکے سے ان کو ایمنسٹی دے دینا کسی طور پر دانشمندانہ نہیں کہلا سکتا۔ کیا پاکستان کا شناختی کارڈ بنوا کر یہ دہشتگرد اور بے رحم قاتل سارے شریف بچے بن جائیں گے؟ اس سلسلے میں پاکستان کے تمام طبقوں اور اہم جماعتوں اور گروہوں اور عوام کو مطمئن کرنا ضروری ہے۔ خاص طور پر ان گھرانوں کو جنھوں نے ان ظالموں سے زخم اٹھائے ہیں۔
دہشتگردوں اور قاتلوں کو سینے سے لگانے کی اس پالیسی کے خلاف ملک کے اور طبقوں اور گروہوں کی طرف سے بھی ردعمل سامنے آیا ہے۔ ان میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہیں کہ جن پر ایک عرصے سے ناروا پابندیاں لگائی جا چکی ہیں، کتنے ہی امن پسند لوگ بلکہ اہم شخصیات ایسی ہیں، جنھیں فورتھ شیڈول کی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، جن امن پسند جماعتوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان میں تحریک جعفریہ بھی شامل ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انھوں نے تحریک لبیک کی طرح مظاہروں اور دھرنوں کا راستہ اختیار نہیں کیا، اس لیے وہ ’’کالعدم‘‘ ہی رہے گی، تحریک جعفریہ کی پوری تاریخ میں قتل و قتال، دہشت گردی بلکہ زبانی انتہاء پسندی بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اسے صرف اس لیے پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا، چونکہ دوسرے فرقے کی دہشت گرد تنظیم پر پابندی عائد کی جا رہی تھی اور حکومت کو یہ تاثر دینا مطلوب تھا کہ وہ ’’دونوں‘‘ فرقوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کر رہی ہے۔ اس ’’غیر متوازن‘‘ پالیسی کو ’’توازن‘‘ کی پالیسی قرار دیا گیا۔
سب جانتے ہیں کہ ’’تحریک جعفریہ‘‘ کسی طور پر بھی ’’سپاہ صحابہ‘‘ جیسی تنظیم نہ تھی بلکہ اس کے برعکس تحریک جعفریہ اور اس کی قیادت کا اتحاد امت اور اس ملک میں قیام امن کے لیے کردار سب مذہبی اور سیاسی جماعتیں تسلیم کرتی ہیں۔ اس ملک میں بےانصافی کی داستانوں میں سے ایک ’’ہفت روزہ رضاکار‘‘ پر پابندی ہے۔ رضاکار کی پوری تاریخ اعتدال اور اتحاد امت پر مبنی ہے، لیکن حکومت نے چونکہ فرقہ واریت پھیلانے والے بعض مجلات پر پابندی عائد کی تو اس نے ’’توازن‘‘ کے لیے اپنے آمرانہ تصور کے مطابق شیعوں میں سب سے زیادہ مقبول لیکن معتدل مجلے کو بھی پابندیوں کا نشانہ بنانا ضروری سمجھا۔ کیا اب یک طرفہ طور پر ’’کالعدم‘‘ کا سٹیٹس ختم کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا اور بے گناہوں پر پابندیاں اسی طرح برقرار رہیں گی؟ کیا یہ امن و استحکام کے حامیوں کو دوسرا راستہ دکھانے کے مترادف نہیں ہے؟ گذشتہ دنوں وزیراعظم کے نزدیک سمجھی جانے والی ایک شخصیت نے ایک ممتاز شیعہ راہنماء سے ملاقات کے موقع پر کچھ ایسا ہی تاثر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ جب تک آپ ’’طاقت‘‘ کا مظاہرہ نہیں کریں گے، آپ کی باتوں پر کوئی کان نہیں دھرے گا۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز