تھر۔پار۔کر، دیکھ تھرپارکر

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

کئی روز گزر گئے تھرپارکر سے واپس آئے ہوئے، لیکن جیسے دل و دماغ تھرپارکر میں ہی رہ گیا۔ تھرپارکر کی ہوشربا داستانیں سنتے ہوئے کئی دہائیاں بیت گئیں، تھرپارکر کی یاد کے ساتھ کتنی آہیں، کتنی سسکیاں اور نیم مردہ جسموں کی تصویریں ساتھ ہی سنائی دینے اور ابھرنے لگتی ہیں۔ بے آب و بے غذا زمین بوس ہو جانے والے جانوروں کے ڈھانچے اور سروں پر برتن رکھے خستہ حال کپڑے زیب تن کیے پانی کی تلاش میں نکلی ہوئی خواتین، یہ سب کچھ تھرپارکر کے ساتھ جڑی ہوئی یادیں ہیں۔ کئی دہائیوں سے سندھ کی دھرتی سے یہ آواز اٹھ رہی ہے: “کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔” اس زندہ بھٹو کو سندھ کے لوگوں اور خاص طور پر تھرپارکر کے بدحال انسانوں کی حالت دکھائی نہیں دیتی۔ خدا جانے ایسا بھٹو کب تک زندہ رہے گا اور کب تک اس سرزمین کے انسانوں کو اس حال بے حالی میں دیکھتا رہے گا۔ ایک پروفیسر صاحب کہنے لگے کہ جب تک بھٹو زندہ ہے ہماری حالت نہیں سنور سکتی۔

اب کے ہم سندھ کے مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے حیدرآباد پہنچے تو وہاں کے چند ساتھی اس مقصد کے لیے بھی منتظر تھے کہ ہم ان کے ساتھ تھرپارکر جائیں۔ سکھر، دادو اور جیکب آباد کے مختلف پروگراموں کو نمٹاتے ہوئے جب حیدر آباد پہنچے تو رات وہیں پر بسر کی۔ صبح سویرے برادر آفتاب حسین میرانی اور پروفیسر نثار احمد شیخ ہمیں تھرپارکر کی طرف لے چلے۔ یہ 20 دسمبر2021ء کی صبح تھی۔ برادر عارف حسین الجانی اسلام آباد سے ہی ہمارے ہمراہ تھے۔ برخوردار نقی گردیزی اور سید ساجد نقوی بھی اس سفر میں ساتھ تھے اور مل جل کر دکھ سکھ جھیل رہے تھے۔ شہر کے مضافات میں پہنچے تو سید وصی حیدر نقوی اپنی گاڑی پر منتظر تھے۔ یہی برادر عزیز ہیں، جنھوں نے تھرپارکر کے مظلوموں کی حالت زار دیکھی تو پھر بے قرار ہوگئے۔ یہ بےقراری کئی برسوں سے تھرپارکر کے مظلوموں کی دادرسی کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ ان کے ساتھیوں میں مجاہد عباس اور سید عباس نقوی بھی ہمارے شریک سفر تھے۔

عمر کوٹ سے گزر کر ریگستانِ تھر میں جا پہنچے۔ صحرائی جھاڑیاں دائیں بائیں نظر آرہی تھیں۔ عمر کوٹ کی سرسبز وادی پیچھے رہ چکی تھی۔ آگے تو صحرا ہی صحرا تھا۔ ہم چار گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد ضلع تھرپارکر کی تحصیل چھاچھرو پہنچے، یہاں ان عزیزوں نے امام حسن العسکریؑ کے نام پر ایک کلینک قائم کر رکھا ہے۔ سید وصی حیدر نے بتایا کہ یہ کلینک 2016ء سے مفت معیاری طبی سہولیات اس سرزمین کے بے حال لوگوں تک پہنچا رہا ہے۔ ان خدمات کا دائرہ ہر مذہب و ملت کے افراد تک پھیلا ہوا ہے۔ مسلمانوں میں شیعہ و سنی کی قید ہے، نہ ہندو مسلم میں خدمت کے حوالے سے کوئی تمیز۔ ہسپتال کا سٹاف ڈاکٹر مدن لعل کی سربراہی میں خدمات انجام دے رہا ہے۔

ہم نے کلینک کا وارڈ دیکھا، میڈیکل سٹور میں ادویات پر ایک نظر ڈالی، الٹراسائونڈ روم میں گئے، لیبارٹری کا مشاہدہ کیا اور پھر ویٹنگ ہال میں بیٹھ گئے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے لیے فاتحہ خوانی کی، جن کی زیب نظر تصویر کلینک میں داخل ہوتے ہی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تصویر میں وہ سٹیتھوسکوپ اپنے گلے میں ڈالے کرسی پر بیٹھے شاید کسی مریض کے لیے نسخہ لکھ رہے ہیں۔ دل آویز نورانی چہرہ، ان کی یادوں نے بے تاب کر دیا۔ ان کے ساتھ گزرے ہوئے شب و روز کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ آنکھیں امڈ پڑیں، صبر کے بندھن ٹوٹ گئے۔ جدائی میں گزرے ہوئے غم ناک سال اور بھی بے تاب کر گئے۔ کلینک میں ان کی کئی ایک تصویریں مختلف کمروں میں آویزاں تھیں۔ یہ تصویر سید وصی حیدر کے دل میں نہ ہوتی تو کلینک کی دیواروں پر کیسے جا پہنچتی۔ تصویریں گواہی دے رہی تھیں کہ برادر وصی حیدر نے محبتوں کی امانت کیسے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے۔

کلینک سے نکلے تو قریب ہی ان احباب کا قائم کردہ ایک سکول دیکھنے کے لیے جا پہنچے۔ حیدرؑ سکول کے نام سے اس پسماندہ بستی کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے جو سہولیات یہاں فراہم کی گئی تھیں، ان کو دیکھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ بچوں کو صرف تعلیم ہی مفت فراہم نہیں کی جا رہی بلکہ کتابیں، پینسلیں، بستے، جومیٹری اور دیگر تعلیمی ضروریات بھی مفت فراہم کی جاتی ہیں، کیونکہ یہاں کے بچے یہ چیزیں بھی خود مہیا نہیں کرسکتے۔ مزید معلوم ہوا کہ بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی حاصل ہے۔ سکول کی بلڈنگ کے ایک حصے میں زینبؑ فری سلائی سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ ایک بڑے ہال میں سلائی مشینیں اس انداز سے رکھی گئی ہیں کہ خواتین آکر بیٹھ سکیں اور سلائی سیکھ سکیں۔ علاقے کی خواتین اور بیٹیاں یہاں سے سلائی کا ہنر سیکھتی ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود سے اس قابل ہوں کہ اپنی معاشی حالت بہتر بنا سکیں۔ برادر ڈاکٹر شہید محمد علی کی خوبصورت تصاویر اس عمارت میں بھی آویزاں کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی کی تصویر صرف تصویر تو نہیں ہے بلکہ یہ تو آویزۂ گلوئے ساختمان ہے، جو خدمت اور انسانیت کی محبت کا نشان ہے۔

میزبانوں نے یہیں پر کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ یہاں سے نکلے تو چھاچھرو کی مرکزی مسجد حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں پہنچے۔ برادر عزیز وصی حیدر نے بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ اس دھرتی پر پہنچے تو انھوں نے اسی مسجد کے مقام پر دیکھا کہ ایک درخت کے اوپر چادر ڈال کر نیچے تقریباً بیس افراد نماز پڑھ رہے ہیں۔ یہ نماز جمعہ ادا ہو رہی تھی۔ انھوں نے اسی روز عہد کیا کہ وہ یہاں پر مسجد قائم کریں گے۔ اب وہاں پر ایک خوبصورت مسجد بھی موجود ہے، جس کے ساتھ امام مسجد کے لیے ایک حجرہ بنایا گیا ہے۔ امام مسجد کی تنخواہ یہی احباب ادا کرتے ہیں۔ یہاں پر سید حیدر شاہ کی قبر ہے، جس کے ساتھ سید حیدر شہید لکھا گیا ہے، خدا جانے اس بزرگ کو کس نے، کب اور کس جرم میں مار دیا۔ البتہ لگتا تھا کہ اسی شہید کے خون کی برکت سے یہ زمین آبادی کی طرف جا رہی ہے۔ یہ خون آج بھی اس کشت ویراں کی آبیاری کر رہا ہے۔ سلام ہے محبتوں کے سفیروں پر اور اپنی جان نچھاور کرکے بندگان خدا کی خدمت کرنے والے مجاہد شہیدوں پر۔ یقیناً اسلام کی داستان سید الشہداء امام حسینؑ کے راستے پر چلنے والے سادات و مومنین کے خون سے رنگین ہے۔
بنا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو یہاں کے کچھ مومنین ہمارے منتظر تھے۔ انھوں نے ہمیں چائے کی اس محبت سے دعوت دی کہ ٹھکرائی نہ جا سکی۔ ہم ان کے ساتھ ایک بڑی سی جھونپڑی میں داخل ہوئے، جس میں انھوں نے چٹائیاں بچھا رکھی تھیں، درمیان میں آگ جل رہی تھی اور چائے کی کیتلی اس پر رکھی گئی تھی۔ ایسی فضا تھی کہ ناصر کاظمی کا شعر بے ساختہ میری زبان پر جاری ہوگیا:
شام کے وقت بیٹھنے کے لیے
سب سے اچھی جگہ ہے میخانہ
یہ واقعاً میخانۂ ولایت تھا۔ ایک مومن نے خوبصورت لَے میں ایک منقبت سنائی، یوں لگا جیسے ساری فضا نشۂ ولا سے سرشار ہوگئی ہے۔ یہاں سے اٹھنے کو دل ہی نہ کرتا تھا۔ بہرحال یہاں سے چلے تو کچھ فاصلے پر موجود کھوکھر محلے میں پہنچے جہاں پر انہی احباب کی کوششوں سے بچوں کی تعلیم و تربیت کی ایک کلاس جاری تھی۔ مولانا سید احسان شاہ بچوں کو درس دے رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس بستی کے مومنین اس خطے میں خاکروبوں کا کام کرتے ہیں اور لوگ ان سے ہاتھ ملانا تک گوارہ نہیں کرتے۔ انھیں نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس بستی کے بچوں کی تربیت اور ان سے اظہار محبت کے مناظر نے راقم پر عجیب کیفیت طاری کی۔

میں نے بے ساختہ برادر وصی حیدر کا ماتھا چوم لیا اور ان سے عرض کی کہ مجھے سب سے زیادہ روحانی مسرت اس مقام پر آکر حاصل ہوئی ہے، آپ نے غربت، افلاس اور پسماندگی کی علامت اس بستی کے لوگوں سے نیکی کرنے کا عزم کیا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بڑا اجر ہے۔ وہاں کے لوگوں کی محبت دیدنی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیں اسی طرح عزیز ہیں جیسے کوئی بھی اور مسلمان ہوسکتا ہے۔ ہم آپ کا ہر دوسرے مسلمان کی طرح احترام کرتے ہیں، آپ کو سینے سے لگاتے ہیں، آپ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کو ہم اپنے لیے باعث مسرت جانتے ہیں۔ آپ ہمیں بہت عزیز ہیں۔ سب کے چہرے تمتما رہے تھے اور آنکھیں ڈبڈبا رہی تھیں۔ سفر کی کہانی تو ختم نہیں ہوئی لیکن آج کی نشست کو اتنا ہی کافی جانیے اور برادر سید وصی حیدر نقوی اور ان کے ساتھیوں کے لیے مزید کامیابیوں اور سرخروئیوں کی دعا کیجیے۔ وہ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن حیدرآباد ڈویژن کے صدر رہے ہیں اور ان دنوں دیگر امور کے علاوہ امامیہ آرگنائزیشن کی مرکزی کابینہ میں ناظم نشر و اشاعت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان پراجیکٹس میں انھیں مندرجہ ذیل اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے:
 ماوا ٹرسٹ
 سیویریو ایس اے
 انڈس رورل ڈویلپمنٹ سوسائٹی
 اور امامیہ میڈیکس انٹرنیشنل۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز