طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔
بہرحال بھارت کا موضوع شاید سب سے مختلف ہے، وہ افغانستان میں اپنے بڑے شراکت دار امریکہ کی موجودگی میں اپنے لیے بہت سے امکانات دیکھ کر بہت کچھ دائو پر لگا چکا ہے، لیکن آج نہرو یونیورسٹی کے ایک استاد پروفیسر گلشن سچ دیوا کہہ رہے ہیں: ’’بھارت کو بہت ہی پرسکون انداز میں قدم اٹھانا چاہیے۔ افغانستان میں اس کا قد اب چھوٹا ہوچکا ہے، جو وہاں رہ گیا ہے، اس کی بحالی کے لیے کوشش ہوسکتی ہے مگر ضد نہیں، کیونکہ خطرات اور اندیشے زیادہ ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: “ہمارے پاس اب بہت کچھ نہیں بچا۔ سلامتی کے جو خدشات کھڑے ہوئے ہیں، انھیں سلجھانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔‘‘ اردو انڈیپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پروفیسر گلشن سچ دیوا نے یہ بھی کہا ہے: ’’افغانستان میں طالبان کی واپسی بھارتی خارجہ پالیسی کے لیے بڑا سیٹ بیک ہے اور اسی کے ساتھ سلامتی کے خدشات بھی تیزی سے بڑھ گئے ہیں۔ نئی دہلی نے امریکہ کے شانہ بشانہ اپنے مفادات کی جو بنیاد ڈالی تھی، اب وہ پوری طرح منہدم ہوچکی ہے۔ ہمارے راستے بھی سکڑ گئے ہیں۔ یہ چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ ان سے نمٹنے میں بے پناہ توانائی صرف ہوگی۔‘‘
یاد رہے کہ بھارت نے امریکہ کی چھتر چھائوں میں ترقیاتی منصوبوں پر تقریباً تین ارب روپے افغانستان میں صرف کر دیے۔ اس کے اسٹرٹیجک شعبے میں اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ سفارتی دفاتر کے قیام اور اس کے عملے کے اخراجات بھی اس کے سوا ہیں۔ بھارت نے افغانستان میں کئی اہم شاہراہیں بنائیں، ڈیم بنائے، توانائی کے شعبوں پر خرچ کیا، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کی۔ چونتیس صوبوں میں تقریباً چار سو پروجیکٹس شروع کیے، جن میں کئی ایک مکمل ہوگئے اور کئی ایک نامکمل ہیں۔ افغانستان میں پارلیمنٹ کی عمارت تعمیر کی۔ 285 فوجی گاڑیاں دیں۔ تین ایئر انڈیا کے طیارے قربان کیے۔ دو ہوائی کیری ڈور اور اسی طرح سے کئی ایک اور خدمات۔ ایک تجزیہ نگار کے بقول افغانستان میں بھارت کے ایک تو وہ مفادات ہیں جو مرئی ہیں اور پوری طرح ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ کئی ایسے غیر مرئی پروجیکٹس بھی ہیں، جو اسٹرٹیجک ہیں اور سیکورٹی سے جڑے ہیں، جن پر چین، پاکستان اور روس کی موجودگی کی وجہ سے گہرے بادل چھا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان ایک عرصے سے پوری دنیا کے سامنے فریاد کرتا چلا آرہا ہے کہ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ دنیا کے سامنے ثبوت بھی پیش کرچکا ہے۔ حال ہی میں مزید ثبوتوں کا ایک بنڈل بھی دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے، لیکن زیادہ تر دنیا مسائل کو امریکہ اور اس کے حواریوں کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور ایف اے ٹی ایف جیسی لاٹھیاں دہشت گردی کے نام پر پاکستان پر برستی ہیں۔ بھارت کے کئی اہم سیاسی اور عسکری موجودہ اور سابق عہدے دار پاکستان کے بلوچستان میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کے فروغ میں اپنے شوم مقاصد اور ارادوں کا سرعام اعلان کرچکے ہیں۔ ایسے میں طالبان کی حکومت کے قیام پر پاکستان کے سیاسی اور عسکری حلقوں میں اگر یک گونہ اطمینان دکھائی دیتا ہے تو یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان طالبان کے توسط سے افغانستان کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، انھوں نے آج تک یہ کیوں نہیں کہا کہ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
پاکستان نے جو کچھ کیا ہے یا جو کچھ کرسکتا تھا، اسے اپنے دفاع کے لیے کرنے کا حق تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری نیٹو ممالک کی افواج تو افغانستان پر بیس برس سے ناجائز طور پر قابض تھیں اور الزام پاکستان پر ہے کہ وہ افغانستان میں مداخلت کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کابل میں افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہمارے معاملات میں پاکستان سمیت کسی ملک نے مداخلت نہیں کی ہے جبکہ پاکستان کی مداخلت پر بیس سال سے پراپیگنڈہ جاری ہے، یہ پراپیگنڈہ بے بنیاد ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کی آزادی کے لیے پوری دنیا میں جنگ لڑی ہے۔ تاہم بھارت اور دنیا بھر میں اس کا سوشل میڈیا پر پھیلا ہوا نیٹ ورک پاکستان کے خلاف جعلی خبریں پھیلانے میں مصروف ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے کئی دوست ممالک بھی بلکہ ملک کے اندر بھی بعض لوگ اس پراپیگنڈہ کے زیر اثر آجاتے ہیں۔
افغانستان کی سابقہ حکومت کے دور میں پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور قومی سطح کے اخبارات افغانستان میں بھارت کی پاکستان کے خلاف کارروائیوں کو رپورٹ کرتے رہے ہیں۔ نمونے کے طور پر نوائے وقت کی ایک رپورٹ کا اقتباس دیکھیے: ’’بھارت کی مودی سرکار افغان امن عمل کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے لیے جعلی خبروں کے ذریعے پاکستان مخالف پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں اسے افغان حکومت کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی معلومات سے پتہ چلا ہے کہ جس ہیش ٹیگ کے ذریعے پاکستان پر پابندیوں کا مطالبہ کیا گیا، اس کے 65 فیصد ٹویٹس بوٹ مشینوں سے کیے گئے۔ جعلی خبروں پر نظر رکھنے والے ادارے جی فائیو انٹرنیٹ آبزرویٹری نے بھارت کے اس گھناؤنے کھیل کا سارا کچا چٹھا کھول دیا۔‘‘
بی بی سی کے نمائندہ سلمان راوی نے اپنی ایک رپورٹ میں افغانستان میں طالبان کی پیش رفت کے نتیجے میں بھارت میں پائی جانے والی تشویش کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’طالبان چاہتے ہیں کہ ملک اسلامی شریعت کے مطابق چلے۔ ایسے میں مولوی صاحبان ہی فیصلہ کریں گے کہ اس کے تحت لوگوں کے حقوق کیا ہوں گے، خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے، جس طرح امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج افغانستان سے اچانک واپس چلی گئی ہیں اور جس طرح ملک میں افراتفری پھیل گئی ہے، اس سے بہت سے ممالک کو دھچکا پہنچا ہے۔ اس تمام تر پیش رفت کے بیچ ایک نئی قطبی طاقت کا عروج بھی دیکھا جا سکتا ہے، جس میں چین، روس اور پاکستان شامل ہیں، چونکہ امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات اچھے نہیں ہیں، اس لیے وہ بھی بظاہر طالبان کو تسلیم کرنے کے حق میں نظر آرہا ہے۔ یہ بات بھی انڈیا کے لیے باعثِ تشویش ہوسکتی ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں بھارت کی قومی سلامتی کے سابق نائب مشیر اروند گپتا کی بی بی سی سے گفتگو کو نقل کیا گیا ہے، جن کا کہنا ہے: ’’انڈیا کو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، جب تک کہ حالات واضح نہ ہو جائیں۔ ان کے مطابق انڈیا کو طالبان سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ بی بی سی کے ساتھ گفتگو کے دوران مسٹر گپتا کا کہنا تھا کہ “طالبان کے اصل چہرے سے سب واقف ہیں۔ طالبان ابھی تک ایک “اعلان کردہ شدت پسند گروپ” ہے۔ انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی چیلنجز رہیں گے، کیونکہ یہ سوچ ختم نہیں ہونے والی۔ طالبان کے اقتدار میں آنے سے جہادی سوچ کو مزید تقویت ملے گی، جس کے نتائج پوری دنیا دیکھ چکی ہے۔‘‘ یاد رہے کہ طالبان یہ بات بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ انھوں نے پاکستان کو بھی اس سلسلے میں یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کو افغانستان سے آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے باوجود بھارت میں طالبان کی افغانستان میں کامیابی کو کشمیر میں جہادی گروہوں کی تقویت کے امکان سے جوڑا جارہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ طالبان جو اس کے بقول ایک دہشت گرد اور جہادی گروہ ہے، کی کامیابی ایسے دیگر گروہوں کو ایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیتی ہے۔ فوری طور پر اس کا اثر کشمیر میں ہوسکتا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے طالبان کے ایک ترجمان کہہ چکے ہیں کہ وہ کشمیر سمیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ موقف ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں صرف اس پہلو سے بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کہ بھارت کو طالبان کی آمد سے افغانستان میں بہت بڑا دھچکا پہنچا ہے، اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت آئندہ کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کر رہا ہے اور وہ افغانستان میں کس انداز سے نئے سرے سے گھسنے اور طالبان حکومت پر اثر انداز ہونے کی کوششیں کرسکتا ہے۔ بھارت جانتا ہے کہ افغانستان میں کئی گروہ اس کے حامی ہیں، جن کے ذریعے وہ پاکستان کے خلاف کئی ایک خطرناک مہمات چلاتا رہا ہے۔ بھارت کے سینکڑوں شہری ابھی افغانستان میں موجود ہیں۔ افغانستان میں ہندوئوں اور سکھوں کی ایک تعداد بستی ہے، جن سے گذشتہ بیس برسوں میں بھارت نے اچھے روابط قائم کیے رکھے ہیں۔
طالبان کی طرف سے بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ آئیں اور اپنے نامکمل منصوبوں کو مکمل کریں۔ طالبان کو فوری طور پر اقتصادی امداد کی ضرورت بھی ہے۔ ایسے میں انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے افغان شہریوں کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ انھوں نے طالبان کا نام نہیں لیا، لیکن ظاہر ہے کہ افغانستان کے عوام کی مدد طالبان کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا افغان شہریوں کی مدد کرنا چاہتا ہے، ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے۔ امریکہ بھی انسانی ہمدردی کے نام پر افغانستان میں مداخلت کے نئے منصوبے بنا رہا ہے۔ امریکہ کی یہ کوششیں بھارت کے لیے بھی حوصلہ افزائی کا باعث ہیں۔ قطر میں بھارتی سفیر دیپک متل نے طالبان کے سیاسی دفتر کے راہنماء شیر محمد عباس ستانکزئی سے ملاقات کی ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ طالبان بھارت کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ستانکزئی 1980ء کی دہائی میں ایک بھارتی فوجی اکیڈمی میں افغان افسر کی حیثیت سے تربیت حاصل کرچکے ہیں۔
بھارت میں کئی تجزیہ کاروں اور ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تو عالمی حالات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، لیکن طالبان کو اینگیج ضرور کرے اور انھیں آہستہ آہستہ اپنے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کرے۔ لگتا ہے کہ انہی مشوروں کے بعد بھارت کے وزیر خارجہ کا مذکورہ بیان سامنے آیا ہے۔ ضرورت مند طالبان کو دیگر ضرورت مند حکومتوں کے مفادات اور طریقہ ہائے واردات کو سامنے رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ بیس سالہ جدوجہد چند ’’سالوں‘‘ کی کوششوں سے بے سمت ہو جائے۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز