Skip to content

حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

گذشتہ دنوں شوریٰ علمائے شیعہ افغانستان کا تین روزہ اجلاس منعقد ہوا، جس کے اختتام پر ایک چودہ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی دوران میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے عبوری کابینہ کا اعلان ہوا۔ علمائے شیعہ کے اعلامیے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس نئی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور طالبان سے ان کی توقعات اور مطالبات کیا ہیں۔ اسے سامنے رکھ کر طالبان حکومت اور شیعیان افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں کچھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں طالبان اور شیعوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسی طرح ایران کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ تلخ ہی رہے ہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں شدید قسم کے جذبات پائے جاتے تھے۔ افغانستان میں گزرنے والے بیس سالہ دور نے طالبان اور شیعہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

نصرت زیدی صاحب کی برسی کی مناسبت سے محفل مسالمہ

پاکستان کے معروف شاعر جناب سید نصرت زیدی کی رحلت کی مناسبت سے ایک محفل مسالمہ راولپنڈی میں منعقد کیا گیا جس میں ملک کے معروف شعراء نے شرکت کی اور بارگاہ امام عالی مقام میں اپنا ہدیہ کلام پیش کیا ۔ اس موقع پر جناب سید ثاقب اکبر نے بھی بارگاہ امام عالی مقام میں اپنا کلام پیش کیا نیز سید نصرت زیدی کی ادبی و فنی خدمات پر روشنی ڈالی ۔ نصرت زیدی صاحب کی برسی کی مناسبت سے محفل مسالمہ

افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

افغانستان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے 23 دن بعد افغان طالبان کے ترجمان نے وزیراعظم اور ان کے دو معاونین سمیت طالبان کی 34 رکنی عبوری کابینہ اور حکومت کا اعلان کیا، جس میں 20 وزراء اور سات نائب وزراء شامل ہیں۔ اس کے علاوہ فوج اور افغان مرکزی بینک کے سربراہ سمیت حکومت کے ڈائریکٹر برائے انتظامی امور کا بھی تقرر کیا گیا ہے۔ ان 34 عہدوں میں تین افراد کے علاوہ تمام پشتون النسل مرد افغان ہیں اور کابینہ میں کسی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا۔ طالبان کی اس نئی حکومت اور کابینہ میں 15 افراد کا تعلق جنوبی افغانستان سے، 10 کا جنوب مشرقی، پانچ کا مشرقی اور تین کا شمالی افغانستان سے ہے۔ ملا ہبت اللہ اخونزادہ کو افغان حکومت میں رہبر یا امیر المومنین کی حیثیت حاصل ہے جبکہ ملا حسن اخوند افغانستان کے نئے وزیراعظم، ملا عبدالغنی برادر اور مولوی عبدالسلام حنفی کو نائب وزرائے اعظم مقرر کیا گیا ہے۔ افغانستان میں نئی عبوری حکومت اور خدشات(1)

9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان

منگل گیارہ ستمبر 2001ء موجودہ صدی کا ایک اندوہناک دن تھا۔ ظاہراً تو اس روز دو امریکی عمارتیں جن کو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، القاعدہ کے ایک فضائی حملے کے نتیجے میں زمین بوس ہوئیں، جس میں جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد 2996 تھی، تاہم اس حملے کے اثرات پوری دنیا میں دیکھنے کو ملے۔ عراق، افغانستان اور پاکستان تو آج بھی اس حملے سے اثرات سے گذر رہے ہیں، حالانکہ ان ممالک کا ایک بھی شہری ان حملوں میں ملوث نہ تھا۔ آج دنیا 9/11 کو یاد کرتی ہے، تاہم کسی کو 10/7 جب امریکی افواج 2001ء میں افغانستان میں داخل ہوئیں اور 3/20 جب امریکی فوجیں 2003ء میں عراق میں داخل ہوئیں، کسی کو یاد نہیں ہے۔ اگر جانی اور مالی نقصان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو عراق اور افغانستان میں ہونے والا نقصان امریکہ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس حملے کے حوالے سے بہت سی تھیوریز اور حقائق سامنے آئے، جو وقت کے ساتھ ساتھ غائب ہوگئے یا غائب کر دیئے گئے۔ 9/11 کمیشن رپورٹ اور پاکستان

مرحوم سید علی گیلانی کی یاد میں نشست

دورہ ایران کے موقع پر جناب سید ثاقب اکبر نے پاکستانی اور کشمیری طلاب کی جانب سے سید علی گیلانی مرحوم کی رحلت کی نسبت منعقد کی گئی ایک نشست میں شرکت کی اور خطاب کیا ۔ اجلاس کی نظامت کے فرائض سید حیدر نقوی نے انجام دیئے۔ اجلاس سے خصوصی خطاب محترم سید ثاقب اکبر نقوی نے کیا۔ موصوف چیئرپرسن البصیرہ پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔ مرحوم سید علی گیلانی کی یاد میں نشست

سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

سید علی گیلانی کی رحلت فقط مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام حریت پرست انسانیت کے لیے ایک سانحہ ہے، یہ ایک بہت بڑے شخص کا سانحہ ارتحال ہے۔ 92 برس کی زندگی میں سید علی گیلانی نے 14 برس کی باقاعدہ قید کاٹی اور 12 برس سید علی گیلانی گھر میں نظر بند رہے، جو ایک طرح کی قید ہی ہے۔ پس آزادی اور بڑے انسانی مقاصد کی خاطر قید رہنے والے افراد میں سید علی گیلانی کا ایک بڑا نام ہے۔:
سید علی گیلانی اپنے بڑے ہدف اور مقصد کی خاطر تقریباً 26 برس قید رہے۔
سید علی گیلانی آزادی و حریت کی ایک توانا آواز

دورہ ایران

اس ماہ کے آغاز میں جناب سید ثاقب اکبر نے ایران کا دورہ کیا جہاں زیارت معصومہ قم اور زیارت امام علی بن موسی رضا علیہ السلام سے مشرف ہوئے ۔ اس دورے کے دوران میں ان کی بہت سی اہم شخصیات سے ملاقاتیں ہوئی جن میں فلسطین کی جہادی تنظیم جہاد اسلامی کے راہنما جناب ناصر ابوشریف سے ملاقات اہم ہے اس نشست میں دونوں قائدین نے دوطرفہ دلچسپی کے امور پر گفت و شنید کی ۔ دورہ ایران

افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال، طالبان کا بدلا ہوا رویہ اور اسلامی ممالک بالخصوص عرب دنیا جو کہ سوویت یونین کے افغانستان پر حملے اور امریکہ کے جہاد افغانستان میں فعال کردار کے وقت سے افغان امور میں دخیل تھی، اس کی خاموشی، ایسے امور ہیں، جس نے حالات حاضرہ اور بالخصوص خطے کے مسائل میں دلچسپی لینے والے اذہان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ تجزیہ کاروں کو اس وقت تک یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اچانک کیسے طالبان نے پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا اور وہاں موجود عوامی حکومت کیسے ایک دم سے زمین بوس ہوگئی۔ امریکہ اور نیٹو کی تربیت یافتہ فوج اپنے جدید ترین ہتھیار زمین پر رکھ کر چلتی بنی اور طالبان نے دنوں میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا۔ آیا یہ طالبان کا خوف ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور چند دیگر ممالک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی تربیت یافتہ افواج کسی کرپٹ نظام کے لیے نہیں لڑ سکتی تھیں۔ لہذا افغانستان طالبان کے سامنے لمحوں میں زیر ہوگیا۔ افغانستان کا معمہ اور عربوں کی چپ

اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور اکثر جرائد، رسائل اور ٹی وی چینلز پر طالبان کی ایک معتدل تصویر پیش کی جا رہی ہے۔ ان کے خیال میں نشر و اشاعت کے کئی ادارے تو طالبان کو ایرانی عوام کو اپنا حامی بنانے اور اپنی صفائیاں پیش کرنے کا پورا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ طالبان حکام ایرانی نشریاتی اداروں کو مسلسل انٹرویوز دے رہے ہیں اور کم از کم دو مواقع پر طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو براہ راست نشر کیے گئے ہیں، جن میں وہ ایران کے عوام کو اس بات پر قائل کرتے نظر آئے کہ انھوں نے ماضی کی اپنی روش کو ترک کر دیا ہے۔ کیہان اور پاسداران انقلاب سے تعلق رکھنے والے اخبار جوان کے بارے کہا جا رہا ہے کہ یہ دونوں ادارے اِس بات کا پرچار کر رہے ہیں کہ طالبان بدل گئے ہیں۔ اپ ڈیٹڈ طالبان، ایرانی پریس اور بی بی سی کا تجزیہ

ٹی وی چینلز پر انٹرویو

البصیرہ کے دانشور اور تجزیہ نگار مختلف امور پر ملکی و بین الاقوامی ٹی وی چینلز پر تجزیات پیش کرتے رہتے ہیں ۔ اس ماہ بھی جناب ثاقب اکبر ، سید اسد عباس نے سحر ٹی وی پر مختلف سیاسی مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا علاوہ ازیں جناب ثاقب اکبر نے محرم الحرام کی مناسبت سے بھی کئی ایک ٹی وی چینلز پر پروگرام ریکارڈ کروائے اور انٹرویو دیئے ۔ ٹی وی چینلز پر انٹرویو

کوہستان کے وفد کی البصیرہ آمد ۲۳ اگست

خیبر پختونخوا اور کوہستان سے ایک وفد کی دفتر البصیرہ آمد اس وفد میں ھدیۃ الہادی کے مرکزی راہنما مفتی معرفت شاہ ، مفتی قوی اللہ ، جمعیت علمائے اسلام کے راہنما سید گل بادشاہ اور امام مالک شامل تھے۔اس نشست میں گلگت بلتستان میں شیعہ سنی ہم آہنگی اور غواڑی کے حادثہ سے متعلق امور زیر بحث آئے ۔ یاد رہے کہ گل بادشاہ اور مفتی معرفت شاہ کا تعلق سادات سے ہے جبکہ مسلک دیوبند ہے ۔ جناب ثاقب اکبر کا ان افراد کو قریب کرنے کا مقصد انھیں اپنے اجداد کے قریب کرنا ہے ۔ کوہستان کے وفد کی البصیرہ آمد ۲۳ اگست