مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کشمیری صحافی کی زبانی
بھارت پر حاکم انتہا پسند ہندو جماعت بی جے پی نے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی راہ میں حائل بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 5 اگست 2019 کو یعنی ایک برس قبل ختم کیا، اگرچہ یہ دفعات بھی کشمیریوں کے اطمینان کے لیے آئین کا حصہ بنائی گئی تھیں جو غیر قانونی ہی تھیں تاہم اس سے کشمیر کے باسیوں کو کم از کم یہ تحفظ حاصل تھا کہ باہر سے کوئی ہندوستانی باشندہ آکر ان کی ریاست میں زمین نہیں خرید سکتا یا مسلم اکثریتی آبادی کے تناسب کو بدلنے کا کوئی حربہ بروئے کار نہیں لایا جاسکتا ہے تاہم اب ہندوستان کی راہ میں ایسی کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہے۔ کشمیری باشندوں کے مطابق یہ بھارت کی طرف سے کشمیر میں 27 اکتوبر 1947کے بعد دوسری بڑی جارحیت تھی۔ یاد رہے کہ 27 اکتوبر 1947 میں بھارت نے تقسیم ہند کے اصول کے منافی نیز کشمیریوں کی خواہشات کے بر عکس سرینگر کے ہوائی اڈے پر فوج اتاردی تھی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور ذیلی دفعہ 35 اے کے تحت ریاست جموں کشمیر کو ایک خصوصی درجہ حاصل تھا ۔ان دفعات کی وجہ سے غیر کشمیری علاقے میں زمین اور جائیدار نہیں خرید سکتے تھے اور نہ ہی یہاں سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے تھے۔ ان قراردادوں کے خاتمے کے بعد اب کشمیری مسلمانوں کا وجود، انکی شناخت اورتہذب شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ کشمیری تجزیہ کار پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے مطابق نریندر مودی کی فسطائی حکومت اپنے مذموم ایجنڈے کو بڑی سرعت کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے اور اس نے گزشتہ ایک برس کے دوران مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات کیے وہ اس کے آئندہ منصوبہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
31 اکتوبر 2019 کو مقبوضہ کشمیر کو سرکاری طور پر دو یونین ٹیری ٹریز(مرکز کے زیر انتظام علاقوں) میں تقسیم کیا گیا ۔ سرینگر کے سول سیکرٹریٹ پر لہرانے والا کشمیر کا جھڈا لپیٹ دیا گیا اور اب وہاں صرف بھارت کا ترنگا لہرا رہا ہے۔31 اکتوبر ہی کے روز جی سی مرمو(گریش چندرا مرمر) نے سرینگر میں جموں و کشمیر کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ یہ وہی جی سی مرمو ہے جو گجرات کی وزارت اعلی کے دوران میں نریندر مودی کا پرنسپل سیکریٹری تھا۔ گجرات کے مسلم کش فسادات میں جی سی مرمو کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسکی تعیناتی کشمیری مسلمانوں کے خلاف مودی کے مکروہ عزائم کا واضح پتہ دیتی ہے۔31 اکتوبر کو ہی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے آر کے متھرا نے لیہہ میں لداخ کے پہلے لیفٹیننٹ گورنر کے طور پر حلف اٹھایا ۔ اسی روز مقبوضہ کشمیر میں قائم تین ریڈیو سٹیشنوں کے نام کے ساتھ شامل کشمیر کا لفط ہٹا کر آل انڈیا ریڈیو سرینگر، جموں اور لیہ کا لاحقہ لگا دیا گیا۔ قبل ازیں ان تینوں سٹیشنوں کا نام ریڈیو کشمیر سرینگر ، جموں اور لیہہ تھا۔ قابض بھارتی انتظامیہ نے 24 اکتوبر 2019 کو مقبوضہ کشمیر میں قائم سرکاری انسانی حقوق کمیشن،انفارمیشن کمیشن، تنازعات صارفین کا ازالہ کمیشن ، بجلی ریگولیٹری کمیشن ، خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قائم کمیشن ، معذوروں سے متعلق کمیشن اور ریاستی احتساب کمیشن ختم کرنے کا حکمنامہ جار ی کر دیا گیا۔ 3نومبر کو بھارتی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں نئے بھارتی سیاسی نقشے کی تفصیلات جاری کی گئیں ۔ اس نئے نقشے میں آزاد جموں وکشمیر اور گلگت بلتستان بھی مقبوضہ جموں وکشمیر اور لداخ کے حصے کے طور پر دکھائے گئے ۔
جلد ہی مقبوضہ علاقے میں موجود اہم مقامات اور عمارات کے نام تبدیل کر کے انہیں مختلف ہندو شخصیات کے ناموں سے منسوب کیا گیا۔ سرینگر کاکرکٹ سٹیڈیم جو شیخ محمد عبداللہ کے نام کی مناسبت سے شیر کشمیر سٹیڈیم کہلاتا تھا کا نام بدل کر بھارت کے پہلے نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹل کے نام سے منسوب کیا گیا۔شیر کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر کا نام تبدیل کر کے صرف کشمیر انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر رکھا گیا۔ شیخ عبداللہ کے یوم پیدائش اور تیرہ جولائی کو ہونے والی یوم شہدائے کشمیرکی تعطیلات بھی ختم کردی گئیں ۔ یہ وہی شیخ عبد اللہ ہے جو بھارت کا معاون و مددگار تھا تاہم اب بھارت کو اپنے اتحادی کا مسلم نام بھی برداشت نہیں ہے۔ ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھی مسلمان شخصیات سے منسوب اہم مقامات کے ناموں کو بدلا جارہا ہے۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ علاقے کے ہرشعبے میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانے کیلئے رواں برس مارچ میں 37 مرکزی قوانین کا دائرہ کار مقبوضہ علاقے تک بڑھایا ان میں وکلا ایکٹ 1961،سروسز ایکٹ1951، قدیم یادگاریں اور آثار قدیمہ ایکٹ1958، ثالثی اور مفادات کا ایکٹ1996،مردم شماری ایکٹ1948، مرکزی سامان اور خدمات ٹیکس ایکٹ2017،ضابطہ اخلاق 1908،ضابطہ فوجداری1973، شماریات کا مجموعہ2008، کمیشن آف انکوائری ایکٹ1952، فیملی کورٹس ایکٹ1984 ، گورئمنٹ سیکورٹریز ایکٹ2006، ہائی کورٹ ججز ایکٹ1954،انکم ٹیکس ایکٹ1961، ہندوستانی جنگل ایکٹ1927، قومی کوآپریٹیو ڈویلپمنٹ کارپوریشن ایکٹ1962، سرکاری زبان ایکٹ1963، پریس کونسل ایکٹ 1978، پبلک ڈیبٹ ایکٹ1944,، پریس اینڈ رجسٹریشن آف بکس ایکٹ1867، ریلوے پراپرٹی ایکٹ1966، رئیل اسٹیٹ ایکٹ2016، نمائندگی عوام ایکٹ 1950، حصول زمین ، بحالی اور آبادکاری ایکٹ2013، ٹیکسٹائل کمیٹی ایکٹ1963کے علاوہ دیگر یکٹ شامل ہیں۔
رواں برس یکم اپریل کو مقبوضہ کشمیر میں نیا ڈومیسائل قانون فافذ کیا گیا جس کے مطابق وہ شخص جو جموں وکشمیر میں 15برس تک رہائش پذیر رہا ہو یا علاقے میں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور یہاں کے کسی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم رہ کر دسویں یا بارھویں جماعت کے امتحانات پاس کیے ہوں وہ یہاں کا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کا اہل ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اس نئے ڈومیسائل قانون کے تحت اب تک ایک لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کے حق میں ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کا اجراء کیا جاچکا ہے ۔ ڈومیسائل سر ٹیفکٹس جاری کرنے کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور اس حوالے سے آن لائن سہولت بھی میسر ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ علاقے میں اپنی حکومت تشکیل دینے کیلئے یہاں نئی انتخابی حد بندی بھی کرنے جارہی ہے جس کے لیے بھارتی سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش ڈسائی کی سربراہی میں ایک حد بندی کمیشن قائم کیا گیا ہے۔ نئی انتخابی حد بندی کے ذریعے طاقت کا توازن مسلم اکثریتی وادی کشمیر سے جموں کی طرف موڑا جائے گا اور ہندو اکثریتی علاقوں کو اضافی انتخابی نشستیں دیکر بی جے پی کیلئے اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آنے کا راستہ ہموار کیا جائے گا ۔بی جے پی نئی انتخابی حد بندی کا یہ عمل شمال مشرقی ریاستوں آسام ، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ میں بھی انجام دینے جا رہی ہے جہاں اس وقت بھارت سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔
معروف کشمیری صحافی پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے مطابق قابض حکام نے حال ہی میں مقبوضہ علاقے میں ایک نئی تعمیراتی پالیسی کی بھی منظوری دی ہے جس کے تحت کسی بھی علاقے کو ” اسٹریٹجک ‘ نوعیت کا علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے جہاں بھارتی فوج بلا رکاوٹ تعمیرات کرنے کے علاوہ دیگر سرگرمیاں انجام دے سکتی ہے اور اس کے لیے اسے انتظامیہ سے کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ بھارتی حکومت بھارتی فوجیوں اور راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے غنڈوں کیلئے مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر مکانات کی تعمیر کا بھی منصوبہ رکھتی ہے اور پہلے مرحلے میں مقبوضہ وادی میں دو لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے ۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ مودی حکومت نے مقبوضہ علاقے میں 37نئے صنعتی یونٹوں کے قیام کیلئے یہاں ساڑھے نو ہزار سے زائد کنال کی اراضی قبضے میں لے لی ہے جبکہ وہ ہندو سرمایہ کاروں کو مقبوضہ علاقے میں 20ہزار کنال ارضی ایک روپے فی کنال کے حساب سے دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ہندو سرمایہ کاروں کو یہ زمین مقبوضہ وادی کے 18 چھوٹے بڑے قصبوں میں دی جائے گی جبکہ انہیں سرمایہ کاری کے لیے بنکوں سے آسان شرائط پر قرضے دلائے جائیں گے ۔ ان ہندو سرمایہ کاروں کو پندرہ برسوں کے لیے ٹیکس کی چھوٹ جبکہ ان کی تیار کردہ مصنوعات پر پچاس فیصد جی ایس ٹی کی چھوٹ دی جائے گی۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کے تاجروں کو گزشتہ ایک برس کے لاک ڈاؤن نے پائی پائی کا محتاج بنا دیا گیا ہے ، وہ بنکوں سے لیے گئے قرضوں تلے دب چکے ہیں اور قرضوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے وہ اپنی صنعتوں اور اس زمین جس پر ان کی یہ صنعتیں قائم ہیں سے محروم ہو رہے ہیں۔
بھارتی سول سوسائٹی گروپ’ دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں وکشمیر“ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک برس کے لاک ڈاؤن نے مقبوضہ علاقے کی معیشت کو قریباً 40 ہزار کروڑ روپے کے نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔رواں برس جون میں مقبوضہ علاقے میں ایک نئی میڈیا پالیسی نافذ کی گئی جس کے تحت قابض انتظامیہ کو پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے مواد کی جانچ پڑتال کے وسیع اختیارات حاصل ہو گئے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت انتظامیہ خود اس بات کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہو گی کی کونسا صحافتی مواد قابل اشاعت ہے اور کونسا نہیں۔ اس پالیسی کا مقصد بھی بالکل واضح ہے کہ کوئی بھی ایسا مواد جس میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم کی نشاندہی کی گئی ہو وہ جعلی قرار پائے گا اور اسے شائع یا نشر نہیں ہونے دیا جائے گا۔
قابض بھارتی اہلکاروں کی طرف سے کشمیری صحافیوں کے ساتھ نارواسلوک کے واقعات اکثر پیش آتے ہیں ۔وہ پر امن مظاہرین پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کے دوران رپوٹروں اور فوٹو جرنلسٹوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی سے زبردستی روک دیتے ہیں، انکے کیمرے چھین لیتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔قابض انتظامیہ نے بھارتی مظالم سے متعلق نیوز رپورٹس اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کی پاداش میں رواں برس اپریل میں تین کشمیری صحافیوں گوہر گیلانی، مسرت زہرا اور پیرزادہ عاشق کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق کالے قانون ”یو اے پی اے ”Unlawful Activities (Prevention) Act“کے تحت مقدمات درج کیے۔
گزشتہ برس پانچ اگست سے جاری بھارتی محاصرے کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر کی اخباری صنعت بھی سخت تباہی سے دوچار ہے ۔کئی اردو اور انگریزی اخبارات اپنے صفحات محدودکرنے پر مجبور ہو گئے ہیں جبکہ اخبارات کے دفاتر میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین جن میں نیوز ایڈیٹرز ، سب ایڈیٹرز ، رپورٹرز ، ڈیزائنرز وغیرہ شامل ہیں بے روز گار ہوچکے ہیں ۔ مقبوضہ علاقے کے ٹراسپورٹرز بھی شدید بدحالی سے دوچار ہیں جبکہ شعبہ سیاحت بھی سخت دباؤ میں ہے ۔ شعبہ سیاحت سے وابستہ ہزاروں کشمیری اپنے اس ذریعہ معاش سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
تیز رفتار 4جی انٹرنٹ کی مسلسل بندش کے باعث کشمیریوں خاص طور پر، صحافیوں طلبائ، تاجروں ، صنعتکاروں اور شعبہ طب سے وابستہ افرادکو بے انتہا مشکلات کا سامنا ہے۔طویل بھارتی فوجی محاصرے کی وجہ سے علاقے کا نظام تعلیم مفلوج ہو کر رہ گیا ہے ۔
مہلک وبا کورونا نے جب رواں برس کے آغاز میں پوری دنیا میں پنجے گاڑنے شروع کیے تو بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جاری محاصرہ اور پابندیاں مارچ کے مہینے میں مزید سخت کر دیں۔ قابض بھارتی فورسز نے وبا کی آڑ میں مقبوضہ علاقے کے اطرف و اکناف میں محاصروں اور تلاشی کی نام نہاد کارروائیوں میں تیزی لاکر نہتے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ تیز کر دیا۔ قابض انتظامیہ ایک طرف کشمیریوں کو وبا سے بچاؤ کے نام پر گھروں میں رہنے کیلئے کہہ رہی ہے جبکہ دوسری طرف قابض اہلکار پورے علاقے میں دندناتے پھر رہے ہیں اور کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر مکینوں کو جنس و عمر کا لحاظ کیے بغیر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور قیمتی گھریلو اشیاءکی توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ”کشمیر میڈیا سروس “ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ایک برس کے دوران محاصروں اور تلاشی کی نام نہا د کارروائیوں کے دوران 4 خواتین سمیت 214 کشمیریوں کو شہید کیا جبکہ گولیاں،پیلٹ چھرے اور آنسو گیس کے گولے داغ کر کم از کم 1ہزار 3سو 90 پر امن کشمیری مظاہرین زخمی کر دیے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ فوجیوں نے اس عرصے کے دوران محاصروں اور تلاشی کی نام نہاد کارروائیوں کے دوران 946مکانات اور دیگر عمارات کو تباہ کیاجبکہ84خواتین کی بے حرمتی کی۔ قابض بھارتی فوجیوں نے گزشتہ ایک برس کے دوران 13 ہزار 6سو 80 کشمیریوں کو گرفتار کیا۔
پیرزادہ مدثر شفیع جیلانی کے بقول کسی ملک کی عدالتیں لوگوں کو انصاف کی فراہمی کی ضامن ہوتی ہیں لیکن پانچ اگست 2019کے غیر قانونی اقدام سمیت کشمیریوں کو انکے بنیادی حقوق سے یکسر محروم کرنے کے بھارتی حکومت کے مذموم عمل پر بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ ایک برس کے دوران جو طرز عمل اپنائے رکھا وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ انسانی حقوق کے کئی علمبرداروں، قانون دانوں ،سول سوسائٹی کے نمائندوں اور صحافیوں نے پانچ اگست کے غیر قانونی اقدام اور کشمیریوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے کے خلاف عدالت عظمی میں درجنوں درخواستیں دائر کیں لیکن دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی تو ایک طرف یہ عدالتیں کشمیریوں کے محاصرے کے خاتمے اور بنیادی حقوق بحال کرانے کے حوالے سے بھی اب تک کوئی حکم جاری نہیں کر سکی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ طرز عمل اس بات کا بخوبی پتہ دیتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد نہیں بلکہ قطعی طور پر بی جے پی کے تابع فرمان ہے۔
ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق بھارتی وزارت داخلہ نے مقبوضہ علاقے میں تحریک آزادی کی سرگرمیوں میں مصروف کشمیری نوجوانوں اور تحریک آزادی کے حامی کشمیری سرکاری ملازمین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں 44 نئے افسران کی تقرری عمل میں لائی ہے ۔ ان نو تعینات شدہ افسران کو آزادی پسند کارکنوں اور سرکاری ملازمین کی شناخت کر کے ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے تحت مقدمات درج کرنے، انکی جائیدادیں ضبط کرنے اورملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اس کام کی انجام دہی کیلئے مقبوضہ کشمیر کی قابض انتظامیہ نے بھی چیف سیکرٹری بی وی آر سبرا منیم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
کشمیر یوں پر مظالم کے حوالے سے ڈوگرہ دور کی مثالیں دی جاتی ہیں تاہم بھارت اس جدید دور میں، جب انسانی حقوق کے حوالے سے ایک باضابطہ عالمی چارٹراور اصول و ضوابط موجود ہیں، جس بہیمانہ انداز سے محکوم کشمیریوں کو تختہ مشق بنا رہا ہے اس سے ڈوگرہ تو کیا ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم کی داستانیں بھی ماند پڑگئی ہیں۔ کشمیریوں کے تمام سیاسی ، معاشرتی ،مذہبی اور معاشی حقو ق اس وقت سلب ہیں۔سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سمیت علاقے کی تمام بڑی بڑی مساجد ، خانقاہیں ، زیارت گاہیںاور امام بارگاہیں گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل بند اور انکے مینار اللہ اکبر کی صداؤں سے محروم ہیں۔ قابض انتظامیہ نے کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین اوربزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی کوگزشتہ گیارہ برس سے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے ۔ میر واعظ عمر فاروق پانچ اگست 2019 سے گھر میں نظر بند ہیں جبکہ محمد یاسین ملک ، شبیر احمد شاہ ، آسیہ اندرابی اور دیگرمزاحمتی رہنماؤں سمیت ہزاروں کشمیر ی جیلوں میں بند ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر میں بالکل اسی طرز کے اقدامات کر رہی ہے جو اسرائیل مقبوضہ فلسطین میں کر رہا ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے روابط اب خفیہ نہیں رہے ان دونوں ممالک کے مابین انٹیلیجنس تعلقات تو ستر کی دہائی سے قائم ہیں تاہم اب حکومتی سطح پر مختلف شعبہ جات میں معاہدوں کا سلسلہ جاری ہے جس میں فوجی معاہدے سب سے زیادہ ہیں ۔ بھارت اسرائیلی اسلحہ کے بڑے خریداروں میں سے ایک ہے ۔ کرگل جنگ کے بعد بھارت نے اسرائیل سے اربوں ڈالر کا فوجی سازو سامان خریدا، دونوں ممالک نے جدید ہتھیاروں کے بھی کئی ایک معاہدے کیے ہیں ۔ جاسوسی کے آلات ، تربیت، تزویراتی تعاون بھی دونوں ممالک کے مابین اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ ان ظاہری معاہدوں کے باوجود اسرائیل اور بھارت کے مابین کئی ایک خفیہ معاہدے بھی موجود ہیں۔ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اٹھائے جانے والے اقدامات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ دونوں ممالک کے مابین اس حوالے سے ہم آہنگی ہے اور اسرائیل اپنے فلسطین کے تجربات سے ہندوستان کو مستفید کر رہا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے نہایت تشویشناک ہے، یقینا پاکستان کے مقتدر ادارے اسرائیل اور ہندوستان کے بڑھتے ہوئے روابط سے آگاہ ہوں گے۔
مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر اپنے دشمن کے اعتبار سے اب دو مسائل نہیں ہیں۔ فلسطین اور کشمیر میں قابض حکومتیں ایک دوسرے سے اتحاد کر چکی ہیں۔ اس غاصبانہ قبضے کے خلاف مقاومت کے لیے مسلمان قوتوں کو بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم مشرق وسطی کی تاریخ اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے امت مسلمہ کے کردار پر آنکھیں بند نہیں کر سکتے ۔ فلسطین کے مسئلے کو ہم نے قدرے فاصلے سے امت کے مسائل میں سے ایک مسئلہ کے طور پر دیکھا ہے تاہم کشمیر دور کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اس مسئلے کے حوالے سے خواب خرگوش سے نکل کر حقیقی اقدامات کرنے ہوں گے، کیونکہ اب اس کی جنگ فقط بھارت سے نہیں بلکہ اسرائیل اور صیہونی لابی سے بھی ہے۔
Share this content: