شدت پسندی اور پاکستان
تحریر: رضوان نقوی
انتہا پسندی اور شدت پسندی کا معنی یہ ہے کہ انسان اپنی سوچ اور فکر کو دوسروں پر مسلط کرے اور یہ خیال کرے کہ اس کا نظریہ اور سوچ درست اور باقی سب غلط ہیں۔ شدت پسندی، انتہائی مذموم فعل اور معاشرے کے لئے ناسور ہے، اس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمارے ملک میں آئے روز ایسے واقعات معمول بن چکے ہیں جس میں کسی شخص پر توہین مذہب، توہین رسالت اور توہین قرآن و اسلام کا الزام لگا کر اسے بے دردی اور وحشیانہ طریقہ سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ قرآن کریم کے مطابق ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا)۔
پاکستان میں شدت پسندی کی بڑی وجہ مذہبی شدت پسندی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جو اسلام کی تفسیر ان کو سمجھ آئی ہے وہی حقیقت ہے، باقی سب کافر، مشرک اور مرتد ہیں۔ وہ اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط بھی کرنا چاہتے ہیں، جس سے شدت پسندی اور فرقہ واریت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان میں شدت پسندی کے اسباب میں غربت و افلاس، جہالت اور سیاسی انتشار بھی شامل ہیں۔
ہمارے ملک میں دینِ اسلام کے نام پر انتہاپسندی اور شدت پسندی کو رواج دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام سراسر محبت کا دین ہے (هل الدّین إلا الحُبّ)۔ اور ہمارے نبی رحمت العالمین ہیں(وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)۔ قرآن اور اسلام نے انتہاپسندی اور شدت پسندی کی مذمت بھی کی ہے اور اس سے منع بھی فرمایا ہے، کیونکہ شدت پسندی کا نتیجہ ظلم و ناانصافی ہے جو معاشروں کی تباہی کا سبب ہے۔ اسلام محبت ، اخوت ،دوستی، بھائی چارے اور حسن خلق کا دین ہے۔ معاشرے محبت، اخلاق، نیکی، قربانی اور ایثار و فداکاری پر قائم رہتے ہیں۔
آپ لوگ شاہد ہیں کہ ہمارے ملک میں مذہبی، لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر بے شمار لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ صوبائی، لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ سوچ نے ہمارے ملک کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ہمارا ملک اس دن ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا جس دن ہم نے پنجابی، سندھی، بلوچی اور پٹھان سے پاکستان، اور سنی، شیعہ، بریلوی، دیوبندی سے مسلمان ہونے تک کا سفر طے کر لیا۔
انتہا پسندی، شدت پسندی اور افراط و تفریط نے ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور یہ ہمارے ملک کی مشکلات میں سے ایک بنیادی مشکل ہے۔ اس کا اندازہ آپ ہمارے روزمرہ کے معاملات اور سوشل میڈیا سے لگا سکتے ہیں۔ جب ایک شخص کسی مذہبی، سیاسی یا معاشرتی موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اگر اس کی رائے دوسرے افراد کی سوچ، فکر اور مزاج سے نہ ملتی ہو تو آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح اس شخص پر کافر، مشرک، مرتد، منافق اور غدار کے فتوے لگ جاتے ہیں اور اس کا تجربہ ہم سب کو ہو چکا ہے۔ یہ چیزیں ہمارے معاشرے کے لئے ناسور بن چکی ہیں اور بہت نقصان پہنچا رہی ہیں۔ حتی ہمارے پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ لوگ بھی افراط و تفریط اور شدت پسندی کا شکار ہیں۔
احساسات اور جذبات بہت اہم اور مثبت چیز ہیں، لیکن جب یہ احساسات، عقل اور منطق پر غالب آ جائیں تو بعض اوقات نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ ہم برصغیر کے لوگ بنیادی طور پر احساساتی اور جذباتی ہیں۔ اکثر ہماری عقل ہمارے جذبات اور احساسات کے تابع ہوتی ہے۔ ہمارے دین پر بھی زیادہ تر احساسات کا غلبہ ہے نہ کہ عقل اور منطق کا، حتی اکثر اوقات ہم نا چاہتے ہوئے بھی احساسات کو شریعت پر بھی ترجیح دیتے ہیں۔
ہمارا دین اعتدال کا درس دیتا ہے۔ صبر و تحمل، احترام، اعتدال پسندی، اظہار رائے کی آذادی اور اخلاقی اقدار کسی بھی مہذب معاشرے اور کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہت اہم ہیں۔ ان صفات کا معاشرے اور ملک و قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے میں اعتدال پسندی اور بنیادی اسلامی و انسانی اقدار کو پروان چڑہانا چاہئے جس سے معاشرے ترقی کرتے ہیں۔ تاکہ ہمارے پیارے ملک پاکستان سے شدت پسندی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو۔