شیشے کے محلات سے مٹی کے گھروندوں پر حملے

Published by سید اسد عباس on

سید اسد عباس

شیشے کے محلات سے مٹی کے گھروندوں پر حملے


یمن مٹی ہے، اس کا زیادہ حصہ پتھروں سے بنے کچے گھروں پر مشتمل ہے۔ شہری علاقوں میں پختہ عمارات ہیں، تاہم ملک کی ایک بڑی آبادی انہی مٹی کے گھروندوں میں رہتی ہے۔ یمن میں گھروں کو روشن کرنے کے لیے بجلی جنریٹر سے پیدا کی جاتی ہے۔ پیٹرول ہے تو بجلی جلائیے، ورنہ اندھیروں سے لطف اندوز ہوتے رہئے۔ سنگلاح، ریتلے اور بے آب و گیاہ پہاڑوں میں سڑکیں اور شاہراہیں نام کو نہیں ہیں۔ طبی مراکز جو سعودی اور اماراتی بمباری سے بچ گئے ہوں گے، وہ بھی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ یمن میں پانی زیرزمین پمپوں سے نکالا جاتا ہے، ایسے کئی مراکز بھی سعودی طیاروں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ غذائی اجناس کے گودام، سٹور رومز، ہسپتال، پل، بجلی پیدا کرنے کے مراکز، غرضیکہ ضروریات زندگی کے لیے درکار بنیادی وسائل کا ایک بڑا حصہ سعودی و اماراتی بمباری کا نشانہ بن چکا ہے۔ یمن پہلے ہی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا تھا، ان کے پاس اتنے وسائل کہاں کہ 2015ء سے جاری آئے روز کی بمباری کے نتیجے میں تباہ ہونے والی چیزوں کو روزمرہ کی بنیاد پر تعمیر یا مرمت کیا جائے۔


ایک طرف وسائل کی کمی ہے اور ادھر جنوب کی جانب ایک لشکر کا سامنا، جو چاہتا ہے کہ حوثی ہتھیار پھینک دیں، یمن کو اس لشکر کے حوالے کر دیا جائے، جس کے آقا عرب امارات اور سعودیہ میں بیٹھے ہیں۔ یمن کے حوالے سے پراپیگنڈہ اس قدر ہے کہ شاید بعض قارئین کو میرے الفاظ عجیب محسوس ہو رہے ہوں، گذشتہ دنوں ایک مہربان نے تو اتنا کہہ ڈالا کہ حوثیوں کو احتیاط کرنی چاہیئے، اگر طاقت نہیں رکھتے تو قیام کیوں کر رہے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ یمن کی تاریخ، حوثی تحریک، انصار اللہ کی موجودہ حکومت کی تشکیل کے بارے روزانہ بھی لکھا جائے تو کم ہے۔ اختصار سے عرض ہے کہ یمن اویس قرنی کا دیس ہے، جنھوں نے رسول اللہ ؐ کو دیکھے بغیر ان پر ایمان  لایا، جب امیر المومنین ؑ کو ان کی جانب بھیجا گیا تو پورے کا پورا قبیلہ ہمدان مسلمان ہوگیا۔ کربلا کے 72 شہیدوں میں سے تقریباً 50 سے زیادہ شہداء کا تعلق یمن سے تھا۔

امام زین العابدین ؑ کے فرزند زید شہید کی تحریک کو یمنیوں نے نہ فقط قبول کیا بلکہ سادات کی حکومت کی بنیاد رکھی۔ یمن میں سادات بنی فاطمہ کی یہ حکومت تقریباً ہزار سال قائم رہی۔ ایک کے بعد ایک عالم مجاہد کی قیادت میں یمن آگے بڑھتا رہا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں مصری افواج کے تعاون سے جنوبی یمن پر قبضہ کرکے شمالی یمن اور جنوبی یمن کو جدا کر دیا گیا۔ علی عبد اللہ صالح جو کہ یمنی فوج میں کرنل تھا، 1999ء میں متحدہ یمن کا صدر منتخب ہوا۔ 2011ء میں یمنی عوام نے عرب عوام کی طرح ملک میں بےروزگاری، کرپشن اور مہنگائی کے خلاف قیام کیا۔ اس وقت تک حوثی خاموش تھے، جو حکومتی حملوں کا براہ راست نشانہ بن چکے تھے۔ علی عبد اللہ صالح کی افواج نے 2004ء میں صعدہ پر حملہ کرکے حوثیوں کے راہنماء سید حسین بدر الدین اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا، جن کا جرم فقط یہ تھا کہ وہ علی عبد اللہ صالح کی خارجہ پالیسیوں کے ناقد تھے۔

2011ء کے عوامی مظاہروں میں انصاراللہ بطور تنظیم شامل نہ تھی، علی عبد اللہ صالح کی افواج نے یمنی عوام پر حملہ کرکے کئی افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، فوج اور عوام کے مابین متعدد مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔ ایسے میں خلیج تعاون کونسل نے مداخلت کی اور ایک معاہدے کے تحت پرامن انتقال اقتدار کا معاہدہ کیا گیا۔ علی عبداللہ صالح کی جگہ عبد الرب منصور الہادی، جو اس وقت نائب صدر تھا، کو یمن کا صدر بنا دیا گیا اور اور علی عبداللہ صالح سعودیہ میں پناہ گزین ہوگیا۔ عبد الرب منصور ہادی کے ذمے پارلیمنٹ کا انتخاب کروانا اور نئے آئین کی تشکیل تھا، تاہم منصور ہادی نے اپنی دی ہوئی دو برس کی مدت میں ایک بھی کام انجام نہ دیا۔ عوام جو علی عبداللہ صالح سے تنگ تھے، عبد الرب منصور ہادی کو کب برداشت کرتے تھے۔ ہادی حکومت نے عوام کی دی ہوئی سبسڈی ختم کی تو عوام دوبارہ سڑکوں پر تھے۔

دوسرے آمر کی حیثیت سے ہادی کی افواج نے ایک بار پھر عوام پر حملہ کیا، علی عبداللہ صالح کو بھی ملک میں ایمنسٹی عطا کر دی گئی تھی، لہذا وہ بھی ملک میں لوٹ آیا۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ چہرے تبدیل ہو رہے ہیں، نظام وہی ہے۔ وہی صالح کے زمانے کے جرنیل ملک کے امور چلا رہے ہیں۔ ایسے میں عوامی غصہ بے جا نہ تھا۔ اب جبکہ منصور کی حکومت نے عوام پر حملہ کیا تو حوثی اپنی پوری طاقت کے ہمراہ صنعاء میں داخل ہوئے اور ہادی کو عدن کی جانب فرار پر مجبور کیا۔ حوثیوں نے دیگر قبائل اور جماعتوں کے ساتھ مل کر ایک اتحادی حکومت کی بنیاد رکھی۔ یہی ان کا جرم قرار پایا۔ عرب ریاستوں کی جانب سے حوثیوں اور ان کے دیگر ہمنواؤں کو سبق سکھانے، شاہ کے متعین کردہ گورنر یعنی ہادی کو نہ کہنے کے جرم میں فضائی بمباری کا سلسلہ شروع ہوا۔

یہ 2015ء کی بات ہے، شمال، جنوب، مشرق اور مغرب سے محاصرہ، جنوبی یمن میں لشکروں کی تربیت اور امداد، ملک میں موجود القاعدہ کے دھڑوں کو وسائل کی فراہمی کا آغاز کیا گیا، تاکہ حوثیوں کی زیر قیادت قائم ہونے والی عوامی حکومت وسائل کی کمی، فضائی حملوں، عوامی مسائل کے بوجھ، لشکریوں کے حملوں سے تنگ آکر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے اور ہمارے وضع کردہ خطوط پر یمن کے انتظام و انصرام کو چلایا جائے۔ یمنیوں نے اس ذلت آمیز پیشکش کا جواب آرامکو پر میزائل اور ڈرون حملے کرکے دیا۔ دباؤ کو مزید بڑھایا گیا تو اگلا ہدف نجران کا ہوائی اڈہ تھا۔ دباؤ اور بڑھا تو دو ڈرون دبئی میں داغے گئے۔ جنوب کی جانب سے چڑھائی کی گئی، جس کے پیچھے یقیناً عرب امارات کا ہاتھ تھا تو ایک پیغام کے طور پر ابو ظہبی میں چند حملے کیے گئے۔

قطر اور کویت تو اس جنگ سے خود کو عرصہ ہوا جدا کرچکے، سعودیہ اور عرب امارات کو نہ جانے کب سمجھ آئے گی کہ وہ شیشے کے محلات میں بیٹھ کر مٹی کے گھروندے گرا رہے ہیں۔ حوثی اگر واقعی ان ملکوں اور ان کے عوام کو اپنا دشمن سمجھتے تو جیسے ان کے ہزاروں سویلین فضائی بمباری کے نتیجے میں قتل یا زخمی ہوئے ہیں، عرب امارات اور سعودیہ میں عوامی مقامات کو نشانہ بناتے، تاہم ان کے حملوں کا انتخاب بتاتا ہے کہ وہ محتاط ہیں، وہ فقط سعودیہ اور امارات کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شیشے کے محلات میں بیٹھ کر ہم پتھروں والوں سے مت الجھو، کیونکہ اس کے نتیجے میں تمہارے یہ شیشے کے محلات ویران ہو جائیں گے۔ یمنی زبان حال سے اپنے حملہ آوروں سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اب برباد کرنے کو کچھ نہیں ہے، لیکن اپنی نااہلی اور نالائقی سے تم اپنا کچھ نہ بچا پاؤگے۔

سنا ہے کہ امریکہ نے عرب امارات کی ٹرویل ایڈوائزری میں ڈرون اور میزائل حملوں کے خدشے کو شامل کیا ہے۔ ظاہر ہے، جس ملک میں ڈرون یا میزائل حملے کا خدشہ ہمیشہ موجود رہے، وہاں انویسٹ کرنا بہرحال ایک رسک ہے۔ ممکن ہے کہ سرمایہ کار عرب امارات سے آئرن ڈوم یا کسی ایسے ہی میزائل ڈیفنس سسٹم کی خریداری کا تقاضا کریں، تاکہ بیرونی حملوں سے نمٹا جاسکے۔ ہمارے عرب بہادر اگر آئرن ڈوم لینے سے پہلے اپنی یمن جارحیت پالیسی کا از سر نو جائزہ لے لیں تو شاید انھیں نہ کسی ایسے سسٹم کی ضرورت رہے، نہ ہی ان ہتھیاروں کی جو روزانہ کی بنیاد پر وہ یمن میں برسا رہے ہیں، لیکن اس کے لیے اپنا دماغ استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز