×

دوسری کرونائی عید الفطر

سید ثاقب اکبر

دوسری کرونائی عید الفطر

تحریر: ثاقب اکبر

اب کے پھر عیدالفطر کرونا کی وبا کے دوران میں آرہی ہے۔ کرونا کی موجودہ لہر کو انتہائی موذی قرار دیا جا رہا ہے۔ اپنے ہمسایہ ملک بھارت کی طرف دیکھیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار ہزار سے زیادہ افراد ہر روز اس وحشت آفریں بلا کا شکار ہو رہے ہیں۔ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداد تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں سرکاری بیانات کے مطابق کرونا سے لقمہء اجل بننے والے افراد کی تعداد ہر روز ڈیڑھ سو سے کم اور ایک سو سے زیادہ ہے۔

ہماری ذاتی معلومات کے مطابق اول تو وہ تمام افراد جو اس وباء کے ہاتھوں اسیر بلا ہوتے ہیں، وہ ہسپتالوں کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ اسی طرح کرونا سے مرنے والے تمام افراد کی سرکار کو خبر بھی نہیں ہو پاتی۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر میں یہ بلا کیا کیا قیامتیں ڈھا رہی ہے کہ جن کا کوئی حساب ہے نہ احصا۔

ان حالات میں عیدالفطر آرہی ہے۔ یہ عید جہاں رمضان المبارک کی مناسبت سے شکرانے کا دن ہے، وہاں ضرورت مندوں کی فطرانے کی صورت میں مدد کا بھی دن ہے۔ بہت سے افراد فطرانے کی معین مقدار سے زیادہ بندگان خدا پر خرچ کرکے اس روز اپنے اللہ کی خوشنودی کے حصول کا سامان کرتے ہیں۔ فطرانے کے حوالے سے اگرچہ رائج فقہی رائے یہی ہے کہ ہلال عید دکھائی دینے کے بعد، یہ واجب ہوتا ہے جسے نماز عید سے پہلے ادا کرنا ہوتا ہے، تاہم بعض فقہاء نے کہہ رکھا ہے کہ آپ ہلال عید کے طلوع سے پہلے فطرانے کی مقدار یا تعداد کے مطابق ضرورت مند کو ادا کرسکتے ہیں، البتہ اس کی نیت چاند دیکھے جانے کے بعد کریں۔ ہماری رائے بھی یہ یہی ہے، چونکہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ حاجت مند عید کے لیے کچھ اہتمام کرسکیں تو انھیں فطرانے کی رقم پہلے میسر ہو، تبھی وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ فتویٰ ہمیشہ زمان و مکان کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔

یہاں یہ بات کہنا بھی مناسب ہوگا کہ کرونا کی وباء کے شکار افراد کے علاج معالجے پر بھی آپ صدقات کی رقم خرچ کرسکتے ہیں۔ مثلاً انھیں حسب ضرورت دوا لے کر دی جاسکتی ہے۔ وہ ضرورت مند ہوں تو ویکسینیشن کے لیے بھی یہ رقم استعمال کی جاسکتی ہے۔ کرونا کی وجہ سے وفات پا جانے والے افراد کے ورثاء مشکل میں ہوں تو کفن دفن کے لیے بھی صدقہ فطر یا دیگر صدقات استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کے لیے بھی وجوہات شرعیہ اپنی شرائط کے ساتھ بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ کسی کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں آپ پر فطرانہ یا مال زکوٰۃ وغیرہ سے خرچ کر رہا ہوں، کیونکہ یہ معاملہ آپ کے اور اللہ کے مابین ہے اور اللہ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔

فطرانہ یا کسی اور عنوان سے امداد کے حوالے سے یہ امر ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے ضرورت مند عزیزوں، رشتہ داروں اور پھر ہمسایوں کو ترجیح دیجیے۔ آپ اپنے رشتہ داروں اور ہمسایوں کی حالت کو بہتر جانتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ اموال آپ مولوی صاحبان یا دیگر مذہبی عنوان رکھنے والے افراد یا مذہبی جماعتوں کے ذریعے ادا کریں۔ اس کے لیے اصل یہ ہے کہ رقم مستحق تک پہنچے۔ جب آپ خود مستحق کو جانتے ہیں تو عین الیقین سے بڑھ کر یقین کا درجہ اور کونسا ہوسکتا ہے۔ ہم اپنے گردوپیش یا معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں سے ناراض ہوتے ہیں۔ ان سے طرح طرح کے گلے شکوے پال کر اور سنبھال کر رکھے ہوتے ہیں۔ عید کا موقع ان سے راضی ہونے کا ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی یا گناہ سرزد ہوا ہے تو انھیں معاف کر دیں۔ اس سے بڑھ کر ’’عیدی‘‘ اور کیا ہوسکتی ہے۔

ہمیں عموماً اپنے رشتہ داروں کی غربت و مسکنت بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے لیے وسعت ظرف کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر ان کی طرف محبت کا ہاتھ بڑھائیے۔ مختلف طریقوں سے ان کی ضروریات پوری کرنے کی سبیل نکالیں۔ عید کے موقع پر ان کی طرف جائیں یا انھیں دعوت دیں۔ بڑے شہروں میں ہمسائیگی کا تصور دھندلاتا جا رہا ہے۔ اس تصور کو اپنے حسن عمل سے زندہ رکھیے۔ عید کے موقع پر اپنے ہمسایوں کو یاد رکھیں، خاص طور پر اہل حاجت کو اپنی محبت کا تحفہ پہنچائیں۔ لذت کام و دہن میں انھیں بھی شریک رکھیے اور اگر کوئی ہمسایہ آپ کا قریبی رشتہ دار بھی ہے تو پھر نورٌ علی نور ہے۔ کرونا کی وبا میں احتیاطی تدابیر اپنی جگہ پر بہت اہم بھی ہیں اور ضروری بھی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مریض کو اور اس کے خاندان کو تنہا چھوڑ دیا جائے۔ ان حالات میں تو وہ آپ کی توجہ، حمایت، محبت اور مدد کے زیادہ مستحق ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان حالات میں آپ اجتناب یا فرار کا راستہ اختیار کریں۔ احتیاط اور مکمل احتیاط کے ساتھ مدد اور تعاون، مکمل مدد اور تعاون۔ کہیں اس شعر کے مخاطب ہم ہی نہ قرار پاجائیں:
تھے چاہئیں گلِ الفت مجھے خزائوں میں
صنم خزائوں کی رُت تم کہاں گزار آئے

Share this content: