سلطنت کذب کا طریقہ واردات
یہاں ایک اہم سوال جنم لیتا ہے کہ مغرب کا دنیا پر حکمرانی کا طریقہ واردات درحقیقت ہے کیا؟ اس سوال کے متعدد جوابات ہوسکتے ہیں۔ نظریات کی طاقت سے، معاشی استحصال کے ذریعے، فوجی قوت سے، باہمی اتحاد سے، ملکوں کے سیاسی امور میں مداخلت سے، عالمی اداروں کے قوانین کے ذریعے، ڈرا دھمکا کر، دھونس دھاندلی سے، دجل و فریب سے۔ یہ سب جوابات درست ہیں، جن کا مشاہدہ ہم دنیا بھر میں مختلف مواقعوں پر کرتے رہتے ہیں۔ یہاں ایک اور اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کا عمومی طریقہ واردات کیا ہوتا ہے۔؟ اس سوال کے بھی کئی ایک جوابات ہوسکتے ہیں۔ ہر ملک کے لیے شاید اس کا طریقہ واردات مختلف ہو، تاہم میرے مدنظر عمومی طریقہ کار ہے، جو وہ کسی بھی ملک کو اپنے زیر نگیں کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
یہاں ایک حقیقت کی جانب اشارہ ضروری ہے کہ مغرب بھی ایک اکائی نہیں ہے، بلکہ یہ مشترک مفادات کی حامل متعدد اکائیوں کا ایک اکٹھ ہے، جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔ ان میں کچھ بڑے ہیں اور کچھ چھوٹے، بڑے جہاں مفادات کے حصول کے لیے وسائل زیادہ صرف کرتے ہیں، وہیں ان کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ ان کے باہمی اختلافات بھی ہیں، جو آپس میں ٹکراتے ہیں، تاہم بڑے مقاصد کے لیے یہ مشترکہ دشمن کے خلاف باہم متحد دکھائی دیتے ہیں اور اپنے وسائل کو اجتماعی طور پر بروئے کار لاتے ہیں، جن میں معاشی پابندیاں، میڈیا کا استعمال، عالمی اداروں کے ذریعے ممالک پر قدغن اور دباؤ وغیرہ شامل ہیں، جن کا مشاہدہ آجکل ہم روس کے خلاف کر رہے ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ الیکڑانک میڈیا، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا وہی دکھا رہا ہے، جو مغرب چاہتا ہے۔ روس کے بینکوں اور معاشی اداروں کو عالمی معاشی نظام سے کاٹ دیا گیا ہے، اس کی شخصیات پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ مقصد فقط ایک ہے کہ روس کو یوکرائن پر حملے سے روکا جائے۔
کسی بھی ملک کے وسائل اور صلاحیتوں کو اپنے زیرتسلط کرنے کے حوالے سے مغربی ممالک کا ایک وسیع تجربہ ہے، جو نو آبادیاتی نظام کے وقت سے ان کو حاصل ہے۔ اس سلسلے میں یوکرائن کی مثال جو آج کل شہ سرخیوں کا حصہ ہے، قابل غور ہے۔ یوکرائن روس اور یورپ کے مابین واقع ہے۔ نہ روس کی زبان انگریزی ہے، نہ یورپ کی زبان انگریزی، لیکن یوکرائنی عوام کا پڑھا لکھا طبقہ انگریزی بول سکتا ہے۔ یہاں سوال کیا جاسکتا ہے کہ انگریزی آنا تو کوئی بری بات نہیں۔ بالکل کوئی بھی زبان آنا ایک صلاحیت ہے، کوئی برائی نہیں، لیکن کسی بھی تہذیب سے مرعوب ہو کر اسے اختیار کرنا ذہنی غلامی ہے۔ زبان آپ کا تعلق اپنی ثقافت سے جوڑتی ہے، اگر کوئی ملک اور اس کے عوام کسی زبان سے اس قدر مرعوب ہوں کہ اپنی زبان کو ترک کرکے کسی دوسری زبان کو اختیار کرنے لگیں تو قوی امکان ہے کہ نہ فقط زبان بلکہ وہ اپنی ثقافت، تاریخ اور قومی شناخت کو بھی ترک کر دیں گے۔
شناخت انسان کے لیے نہایت ضروری ہے، جب کوئی شخص اپنی شناخت کو پست سمجھ کر کسی دوسری شناخت کو اختیار کرتا ہے تو وہ اس شناخت کے تمام مظاہر کو بھی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ نظریات، ثقافت، لباس، طرز زندگی، ادب، طرز حکمرانی سب کچھ اسی قوم کا اختیار کرتا ہے، جس سے وہ مرعوب ہے۔ یوکرائن روس کا ایک طویل عرصہ حصہ رہا، روس کوئی ترقی پذیر ملک نہیں، یوکرائن میں آج موجود ترقی سوویت دور ہی کی مرہون منت ہے، تاہم مغرب سے مرعوب ہوکر یوکرائن نے اپنی ثقافت، تاریخ، ماضی کو فراموش کر دیا۔ زمینی حقائق کے بجائے خیالی تصورات کے پیچھے بھاگنا شروع کیا۔ یورپی یونین میں شمولیت، نیٹو کا حصہ بننا یوکرائن کے باسیوں کا خواب بن گیا اور وہ بھول گئے کہ روس اقوام مغرب سے سرد جنگ لڑ رہا ہے۔ نیٹو، یورپی یونین اور اس کی پالیسیاں بنانے والے روس کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں اور یوکرائن اس سازش کا شکار ہوگیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس سب کی ابتداء زبان سے ہوئی ہے۔ یقیناً سوویت حکمرانوں سے یوکرائن کے سلسلے میں کچھ غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، جس میں ایک یوکرائن کے شہریوں کو ان کی ثقافت، تاریخ اور ماضی سے دور کرنا ہے۔ یوکرائنی عوام کی ایک اکثریت جو معلق اذہان کی مالک تھی، نے مغرب کو اختیار کیا اور پھر آج نوبت یہاں تک پہنچی کہ جس سے وہ آج دوچار ہیں۔ برصغیر میں بھی ہم نے دیکھا کہ انگریز نے ہم پر تسلط کے لیے سب سے پہلے ہماری زبان اور تعلیم پر وار کیا۔ اس وار کی وجہ سے اسے اس ملک میں ایسے وفادار افراد میسر آئے، جو آج بھی اس کے وفادار ہیں۔ انہی وفاداروں میں سے چند کو ہم پر مسلط کیا گیا، جو آج بھی مغرب کے کاسہ لیس ہیں اور پوری قوم کی غلامی کا باعث ہیں۔ ملک کا اکثریتی انتظامی ڈھانچہ اسی کاسہ لیس اشرافیہ پر مشتمل ہے۔
یہی اشرافیہ ہمارے ملک کے لیے پالیسیاں بناتی ہے، یہی اشرافیہ ہمارے فیصلے کرتی ہے، یہی ملک کے امور چلاتی ہے اور یہی ملک کا سب کچھ ہے۔ ذہنی غلامی کا یہ عالم ہے کہ ہم سب جانے انجانے میں اس نسل در نسل غلامی کو طول دینے میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ آج ہمارے بچے اقبال کی نظمیں اردو زبان میں نہیں بلکہ رومن اردو یعنی انگریزی حروف تہجی کے ساتھ لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے، جب بچہ اپنی زبان سے بے بہرہ ہوگا تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اس زبان میں لکھے ہوئے ادب، تاریخ، ثقافت سب سے بے بہرہ ہوگا، یعنی زمانے کے تھپیڑوں کی زد پر ایک معلق مخلوق۔ وہ اپنی ادبی، تاریخی، ثقافتی شناختوں کی تشنگی کو اسی زبان کے ذرائع سے مٹائے گا، جو اس کو آتی ہے۔
قوموں پر تسلط کے لیے مغرب کا یہ طریقہ واردات سب سے موثر ہے۔ یہاں ایک قابل غور نکتہ ہے کہ مغرب ہتھیاروں کا استعمال اس وقت تک نہیں کرتا، جب تک وہ سافٹ وار میں ایک واضح برتری حاصل نہیں کر لیتا۔ جو قوم بھی مغرب سے یہ سافٹ وار ہار جائے گی، اس کا مغرب کی جھولی میں گرنا بدیہی ہے۔ آپ اپنے سوشل میڈیا کو دیکھ لیں، الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پر نظر کریں، اس پر انہی ممالک کی خبریں دکھائی دیں گی، جن کی زبان انگریزی ہے۔ ہم یورپی، روسی، چینی، فارسی اور عربی زبان سے آگاہ نہیں، لہذا ہم ان کے ورژن کو نہیں سن سکتے اور نہ ہی سمجھ سکتے ہیں۔ زبان کے تسلط کے سبب ہی آج دنیا مسئلہ فلسطین کی شدت سے ایسے آگاہ نہیں، جیسے اسے ہونا چاہیئے۔ اسی زبان کے تسلط کے باعث یمن کے حوثی جنگجو، دنیا میں حوثی باغی کہلاتے ہیں اور یمن کے عوام کی مفلوک الحالی پر کسی کا دل نہیں کڑھتا جبکہ یوکرائن کے مسئلے پر پورا یورپ میدان عمل میں اتر آتا ہے۔
Share this content: