سفر اربعین کے ناقابل فراموش تجربات(2)
بصرہ سے کربلا کا فاصلہ تقریباً 519 کلومیٹر ہے۔ یہ سفر اگر تیز رفتار بسوں پر بغیر توقف کے کیا جائے تو نجف تک تقریباً چھے گھنٹے لگتے ہیں، لیکن پیدل وہ بھی 45 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کے ساتھ یہ واقعی ناقابل یقین اور ناممکن سفر معلوم ہوتا ہے۔ ایسے ہی ناصریہ، سماوہ، دیوانیہ، حلہ، کوفہ، نجف، سامرہ غرضیکہ عراق کے گوش و کنار سے عشاق کے اکثر قافلے پیدل ہی کربلا زیارت کے لیے آتے ہیں۔ سفر زیارت کے دوران میں نے دیکھا کہ زائرین کی خدمت کے لیے اقامت گاہیں، جن کو عراق میں موکب کہا جاتا ہے، جا بجا موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ موکب پختہ عمارتوں پر مشتمل ہیں، جہاں زندگی کی سبھی ضروریات میسر ہیں اور کچھ عارضی ہیں۔ نجف سے کربلا تک تو ان موکبوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جو ختم ہونے کو ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے سوال پیدا ہونا چاہیئے کہ فقط اربعین پر زائرین امام حسین علیہ السلام کی خدمت کے لیے اتنے عالی شان موکب تعمیر کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے، جبکہ یہ کام عارضی موکب سے بخوبی لیا جاسکتا ہے۔
میرا خیال تھا کہ شاید یہ عمارتیں سال کے باقی ایام میں دیگر مصارف کے لیے استعمال کی جاتی ہوں گی۔ ایسا ہو بھی سکتا ہے، تاہم نجف میں اپنے قیام کے دوران میں مجھے اندازہ ہوا کہ جیسے ہی 28 صفر یعنی شیعہ منابع کے مطابق رحلت رسول خداؐ کا دن قریب آیا تو ایک مرتبہ پھر زائرین کی نجف کی جانب پیدل آمد کا سلسلہ اسی انداز سے شروع ہوگیا جیسے اربعین کے موقع پر کربلا کی جانب تھا۔ ایک مرتبہ پھر موکب آباد ہوگئے، جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ عراق میں مختلف مناسبتوں پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کے مزارات پر پیدل چل کر جانا عراقیوں کا وطیرہ ہے۔ اس پیدل سفر جسے عراقی مشی کہتے ہیں، میں عمر کی کوئی قید نہیں ہے۔ مرد و زن، جوان، بوڑھے، بچے سب اس مشی میں شریک ہوتے ہیں، تاہم اربعین پر تو انسانوں کا ایک سیلاب ہوتا ہے، جو ہر جانب سے امڈ رہا ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عراق کے حالات آج جتنے پرامن ہیں، پہلے کبھی نہ تھے۔ عراق میں 2014ء میں داعش نامی تنظیم سامنے آئی، جو کچھ ہی عرصے میں عراق کے ایک قابل ذکر حصے پر قابض ہوگئے۔ اس تنظیم نے اعلان کیا کہ ہم عراق میں موجود ائمہ اہل بیت علیھم السلام کے مزارات کو مسمار کریں گے، نیز انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ہم ان زائرین پر حملہ کریں گے، جو ان مراکز کی جانب زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ گردن زدنی، دھماکے ان کا وہ ہتھیار تھا، جس سے وہ پوری دنیا کو خوفزدہ کیے ہوئے تھے۔ داعش کے اس اعلان کے بعد عراق میں دہشت گردی کے کئی ایک واقعات ہوئے، جس میں بمب دھماکے، آتشزدگی اور فائرنگ کے واقعات شامل تھے، تاہم ان تمام خطرات کے باوجود عشاق کے قافلوں میں ذرہ برابر بھی فرق نہ پڑا۔ 2016ء جو داعش کے عروج کا زمانہ تھا، میں داعش نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ہم مشی کے لیے جانے والوں پر حملے کریں گے۔
حشد شعبی جو عراق کی رضاکار فورس تھی، اس نے داعش کے اس چیلنج کو قبول کیا اور کہا کہ ہم زائرین امام حسین علیہ السلام کا دفاع کریں گے۔ مجھے یاد ہے کہ زیارت کے اس سفر کے دوران میں ہم نے سنا کہ کئی ایک خودکش بمباروں کو گرفتار کیا گیا ہے، اسلحہ کے ٹرک پکڑے گئے ہیں۔ زائرین کے قافلے کے ساتھ ساتھ حشد الشعبی کی فوجی گاڑیاں مسلسل سفر کرتی رہتیں، تاکہ کسی بھی ناگہانی حملے کی صورت میں زائرین کا دفاع کیا جاسکے، تاہم زائرین اس تمام صورتحال کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے محو سفر تھے اور ان کی منزل فقط کربلا تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے زائرین کو یقین ہے کہ ہمیں ہر دو صورت میں کربلا پہنچنا ہے، خواہ ان قدموں پر چل کر جائیں یا کسی کے کاندھوں پر اٹھا کر لے جائے جائیں۔ سال 2016ء میں ایران، عراق، افغانستان، کویت، پاکستان سے زائرین کی ایک بڑی تعداد مشی میں شریک ہوئی۔
جب ہم نے سامرہ جانے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں حالات زیادہ خراب ہیں، مقامی احباب نے اطلاع دی کہ اگر حالات بہتر ہوئے تو آپ کو سامرہ جانے کی اجازت ملے گی، ورنہ وہاں جانا مشکل ہے۔ دل دھڑک گیا کہ اس قدر قریب آکر کیا ہم امام موسیٰ کاظم علیہ السلام، امام محمد تقی علیہ السلام، امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے مزارات اور اپنے مولا و آقا امام زمان عج اللہ فرجہ الشریف کے گاؤں حاضری نہ دے پائیں گے۔؟ شعور اس سعادت کو پانے کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور قربانی دینے کے لیے آمادہ تھا اور یہ فقط میری کیفیت نہ تھی، میرے قافلے کا ہر فرد آمادہ تھا اور جب ہم سفر پر روانہ ہوئے تو اندازہ ہوا کہ ہر زائر اسی جذبے سے میدان عمل میں اترا ہے۔ سارے راستے محاذ جنگ پر جاتے عراقیوں کے قافلے، سنسان شہر، دیہات، گولوں سے مسمار مکانات، گولیوں کے نشانات کی حامل دیواریں بتا رہیں تھیں کہ ہم خطرے کی جانب بڑھ رہے ہیں، تاہم ذرہ برابر پرواہ نہ تھی کیا ہوسکتا ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سامرہ جہاں امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام نیز امام زمان عج اللہ فرجہ الشریف کی والدہ نیز پھپھو کا مزار ہے، داعش کے گڑھ موصل سے قریب ترین علاقہ تھا، لہذا وہاں حملے کا خطرہ بھی زیادہ تھا۔ عراق کے مقامی لوگ روایت کرتے ہیں کہ صدام کے دور میں بعثی افواج کا شکنجہ اس سے بھی زیادہ سخت تھا، وہ معروف شاہراہوں پر سفر کرنے والوں پر حملے کرتے تھے، جوانوں کو اٹھا لیتے تھے، موکب کو برباد کر دیتے تھے، موکب کا اہتمام کرنے والوں کو ڈراتے دھمکاتے، ان کے موکب کو آگ لگا جاتے، اس کے باوجود عراقی عوام نے مشی کا سلسلہ غیر معروف راستوں سے جاری رکھا۔ مقامی عراقی بتاتے ہیں کہ ہم لوگ رات کو سفر کرتے تھے۔ یقین مانیں مشی کرنے والا زائر خوف نامی کسی چیز سے آگاہ نہیں ہوتا ہے۔ عجیب کیفیت ہوتی ہے، بالکل ویسی ہی کیفیت جیسی امام حسین علیہ السلام کے فرزند علی اکبر نے میدان کربلا میں بیان کی تھی کہ ’’اگر ہم حق پر ہیں تو فرق نہیں پڑتا کہ ہم موت پر جا پڑیں یا موت ہم پر آن پڑے۔‘‘
یہاں عراقی عوام کے جذبہ خدمت زائرین ابا عبد اللہ کا تذکرہ نہ کیا جائے تو ظلم ہوگا۔ اپنا سب کچھ، اپنی جمع پونجی وہ زائرین پر لٹانے کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ زائر امام علیہ السلام کسی تکلیف سے نہ گزرے۔ جا بجا میں نے ایسے مناظر دیکھے کہ ظاہراً ایک غریب خانوادہ کھجوروں کی ایک بوری اور پانی کا ایک برتن لیے سڑک پر بیٹھا ہے اور زائرین کربلا کو کھجوریں اور پانی تقسیم کر رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کی نظروں میں کوئی سوال، کوئی تقاضا نہ ہوتا تھا۔ ان کی نگاہ فقط رئیس کربلا پر تھی۔ کسی کے پاس اگر فقط آلو ہیں تو وہ ان کو ابال کر زائرین کے مابین تقسیم کر رہا ہے۔ ایسے شخص کو کوئی بھلا غریب کیسے لکھے، ان کا دل دولت عشق حسین علیہ السلام سے پر تھا۔
قارئین کرام! اس تحریر کو جتنا چاہوں طول دے سکتا ہوں، کیونکہ وہ چند روز جو میں نے عراق میں گزارے، ان کا ایک ایک لمحہ قابل بیان ہے، اس کے پیچھے ایک داستان ہے، ایک فلسفہ ہے۔ اگر مختصراً لکھنا چاہوں تو فقط یہ لکھوں گا کہ ’’اس سفر عشق کو لفظوں میں بیان کرنا اور عقل سے درک کرنا ناممکن ہے۔ یہ قلب کی دنیا ہے، جسے دل ہی محسوس کر پاتے ہیں۔ عراق میں ایک ہی چیز حیرت زدہ دکھائی دیتی ہے اور وہ انسانی عقل ہے۔ فرزند مصطفیٰ امام حسین علیہ السلام نے انسانیت میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے، جو روز افزوں پھیل رہا ہے۔ یہ معجزہ ہے، جو فقط کربلا جا کر ہی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ وہاں انسان خود کو ایک بدلا ہوا انسان محسوس کرتا ہے، وہ ایک الگ کائنات ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو بار بار محضر حسین علیہ السلام میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور جو عشاق حسین علیہ السلام اب تک کربلا سے مشرف نہیں ہو پائے، ان کو زندگی میں اس سعادت سے ضرور بہرہ مند فرمائے، آمین۔
بشکریہ: اسلام ٹائمز
Share this content: