اسلام میں صبر کا مقام
سید مقیل حسین
صبر کا مفہوم ‘برداشت ‘ بُردباری اور تحمل ہے
اصطلاح میں صبر ایک مثبت باطنی قوت ہے جو اپنے حامل کو سستی ‘ کمزوری ‘ شکست خوردگی جیسے مسائل کے خلاف سینہ سُپر ہو جانے کے لیے برانگیختہ کرتی ہے جبکہ آزمائشوں ترغیبوں ‘ مشکلات‘ ناپسندیدہ امور و وقائع کے مقابلے میں استقامت اور مستقل مزاجی عطاکرتی ہے ۔صبر کے حامل خود کو اللہ تعالی اپنی نصرت سے نوازتے ہیں یا پھر وہ اس حال میں اپنے رب کے پاس پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس کے تقدیر پر راضی ہوتا ہے۔ ۱؎
صبر کی اقسام:
صبر تین طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔ مصیبت پر صبر ۲۔ اطاعت پر صبر ۳۔ معصیت سے صبر
مصیبت کے وقت انسان کو صابر ہونا چاہیے چونکہ مصیبتیں انسان کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے نازل ہوتی ہیں ۔ مصیبتوں کے وقت وہ لوگ صبر کرتے ہیں جو ان میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ مصیبتیں وہ ہیں جو بندگانِ خدا کو اللہ کی راہ میں پیش آ جاتی ہیں اور وہ اس راستہ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں ۔۲؎
دوسری قسم کہ اطاعت کے مقام پر صبر کرنا چاہیے اس لیے کہ اطاعت بڑی مشکل چیز ہے یہ مطیع انسان کو معلوم ہوسکتا ہے کہ اطاعت کتنی سخت چیز ہے شاید ہم اس گمان میں کہ ہم اللہ تعالی کی اطاعت کر رہے ہیں اور ہمیں تو کوئی مشکل پیش نہیں آئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ مطیع انسان کو ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ اطاعت کتنی مشکل ہے۔ تیسری قسم کے مطابق معصیت کے وقت صبر سے کام لینا چاہیے چونکہ معصیت سے رکنے کے لیے بڑی طاقت کی ضرورت ہے۔ انسان جب دنیا کا غلام بن جائے، جب شہوات کا طوق گلے میں ڈال لے اور اس کی لگام خواہشات کے ہاتھ میں ہو تو دنیا اور خواہشات انسان کو رسوائی کے دہانے پر لے آتی ہیں۔۳؎
صبر کی تشریح و توضیح :
حضرت رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ آپؐ نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ صبر کی کیا تفسیر ہے انھوں نے عرض کیا آپ مشکلات میں بھی ویسے ہی صبر کریں جس طرح خوشی میں صبر کرتے ہیں۔ فاقوں کی حالت میں بھی اسی طرح صبر کا مظاہرہ کریں جس طرح عافیت اور راحت کے دنوں میں کرتے ہیں اور انسان اپنی مصیبتوں کی شکایت مخلوق سے نہ کرے۔ دوسری جگہ آپؐ فرماتے ہیں ’’صبر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ پر آنے والی مصیبتوں کو برداشت کرے اور غصہ کو قابو میں رکھے۔‘‘ صابرین کی تفسیر میں آپؐ فرماتے ہیں کہ ’’صابر وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم رہتے ہیں اور اس کی نافرمانی پر صبر کرتے ہیں یعنی اس سے دور رہتے ہیں ۔ جو لوگ نیکیاں کماتے ہیں میانہ روی سے خرچ کرتے ہیں اور اچھے کاموں کو آگے بھیج دیتے ہیں پس ان کی بنا پر وہ فلاح و نجات پاتے ہیں ۔۴؎
صبر ایمان کی بنیاد ہے:
حضرت امام علی کرم اللہ وجھہ سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
ایمان چار ستونوں پر قائم ہے: صبر‘ یقین ‘ عدل اور جہاد۔ صبر کی چار شاخیں ہیں : اشتیاق ‘خوف ‘دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔ اس لیے کہ جو جنت کا مشتاق ہوگا وہ خواہشوں کو بھُلا دے گا اور جو دوزخ سے خوف کھائے گا وہ محرمات سے کنارہ کشی کرے گااور جو دنیا سے بے اعتنائی اختیار کرے گا وہ مصیبتوں کو سہل سمجھے گا اور جسے موت کا انتظار ہوگا وہ نیک کاموں میں جلدی کرے گا۔۵؎
قرآن کریم میں صابرین کا مقام:
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو مقامات ذکر فرمائے ہیں جن پر انسانوں کو سراہا ہے ان میں سے ایک اہم مقام صابرین کا مقام ہے اور نوے ۹۰ سے زیادہ جگہوں پر صبر کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سے درجات اور خیرات کو صبر کی طرف منسوب کیا ہے اور اس کا ثمرہ ٹھہرایا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا:
’’سَلَامٌ عَلَیْکُم بِمَا صَبَرتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّار‘‘۶
سلام ہو تم پر صبر و استقامت کی بناء پر تمہیں یہ آخری گھر کیسا اچھا نصیب ہوا ہے۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
وَاصْبِر فَإنَّ اللّٰہ لا یُضِیعُ أَجْرَ المُحْسِنینَ‘‘ ۷؎
اور صبر کرو کہ خدا نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ نے صابرین کے لیے جو باتیں اکٹھی فرمائیں ہیں وہ اوروں کے واسطے نہیں چنانچہ ارشاد ہے:
اُوٰلٓئْکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَرَحْمَۃٌ وَِاُوٰٓلئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدونَ۔
اس آیت میں ہدایت اور رحمت اور صلوٰۃ صابروں کے لیے یک جا ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے کہ اولو العزم پیغمبروں کی طرح صبر اختیار کرو چنانچہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَاصبِْر کما صَبَر أولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل‘‘۸؎
پس جس طرح اولو العزم پیغمبر صبر کرتے رہے تو بھی اسی طرح صبر کر۔
زندگی کے سخت ترین حوادث کے موقع پر قرآن ہمیں حکم دے رہا ہے کہ تم صبر و استقامت اور نماز سے مدد حاصل کرو کیونکہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے جیسا کہ اللہ تعالی ایک اور مقام پر صابرین کو بشارت دے رہیں ہیں فرماتے ہیں :
’’وَلَنَبْلُونَّکُمْ بشَيئٍ مَّنْ الْخَوفِ وَالْجُوعِ ونَقْصْ مِّن الأَمْوَالِ وَالأَنْفُسِ والثَمَرَاتِ وَبَشَّرِ الصَّابِرینَ‘‘۹
یقیناہم تم سب کی خوف ‘ بھوک ‘ مالی اور جانی نقصان اور پھلوں کی کمی جیسے امور سے آزمائش کریں گے اور صبر و استقامت دکھانے والوں کو بشارت دیجئے ۔
قرآن مجید ہر موقع پر مشکلات اور ہٹ دھرم اور دشمن افراد کے مقابلہ میں صبر و شکیبائی کی تلقین کرتا ہے اور بکثرت تجربات بھی اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ غلبہ و کامیابی اُنہی افراد کے لیے ہے جو صبر و استقامت کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں ۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جس قدر صبر کی تاکید کی گئی ہے کسی اور فضیلت پر اتنی تاکید نہیں ہوئی ہے۔ حضرت رسول خداؐ سے پوچھا گیا کہ ایمان کیا چیز ہے؟ آپؐ نے فرمایا’’صبر‘‘ رسول اکرم ؐ نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو جو وصیتیں فرمائیں ان میں یہ بھی ہے اگر تم اللہ تعالی کے لیے یقینی رضاکے ساتھ عمل کر سکتے ہو تو ایسا ہی کرو اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر صبر کرو کیونکہ ناپسندیدہ امور پر صبر کرنے میں بہت بھلائی اور بہتری ہے۔۱۰؎ ایک اور حدیث میں ملتا ہے کہ تمام امور میں صبر کا مقام ایسا ہے جیسا کہ سر کا مقام جسم سے ہوتا ہے چنانچہ اگر سر تن سے جدا ہو جائے تو بدن بیکار ہو جاتا ہے اسی طرح جب صبر امور سے علیحدہ ہو جائے تو امور خراب ہو جاتے ہیں۔۱۱؎ حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص صابر بننے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے صابر بنا دے گا۔ جو پاکدامن بننے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے پاکدامن بنا دے گا جو (لوگوں سے) بے نیاز رہنے کی کوشش کرے اللہ تعالی اسے لوگوں سے بے نیاز کر دے گا اللہ تعالی کی طرف سے بندہ کو جو عطا و بخشش ہوتی ہے اس میں صبر ہی وہ چیز ہے جس میں سب سے زیادہ بہتری اور وسعت ہوتی ہے۔۱۲؎
صبر اولیاء الٰہی کی منزل:
جب کبھی کسی نبی کا مقام بیان کیا گیا ہے تو اس میں صبر کو ضرور ذکر کیا گیا ہے اگرچہ معروف تو یہی ہے کہ انبیاء کرام ؑ میں سے حضرت ایوب علیہ السلام سب سے بڑے صابر نبی تھے لیکن اگر قصص انبیاء کا مطالعہ کیا جائے اور قرآن پاک میں انبیاء کرام کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو قرآن کریم نے ہر نبی کے لیے مقام صبر کو ذکر کیا ہے حضرت ابراہیم ؑ کو صابر کہا ہے ۔ حضرت نوح ؑ ‘ حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ سب کے تذکرہ میں صبر آیا ہے۔ یوں نہیں کہ اگر ایک نبی صبر کی وجہ سے معروف ہوگئے تو یہ فضیلت دوسرے انبیاء اور اولیاء میں کم درجہ کی تھی بلکہ تمام انبیاء اور اولیاء کی سیرت میں صبر جیسا عنصر نمایاں طور پر نظر آتا ہے‘ اہل معرفت و عرفان نے اولیاء الہیٰ کے لیے جو مقامات اور منازل ذکر کئیے ہیں ان میں سے ایک منزل کو صبر قرار دیا ہے۔ یعنی صبرانسان کے اندر ایک صفت نہیں بلکہ انسان کے لیے ایک مرتبہ اور درجہ ہے جس پر فائز ہو کر منزل صبر تک جا پہنچتا ہے۔۱۳؎
یہ بھی پڑھیں: اپنے اپنے اسماعیل ؑ کو بچا کر ابراہیم ؑ کی پیروی کا دعویٰ https://albasirah.com/urdu/apne-apne-ismail-as-ko-bacha-kr/
ہمارے نبی آنحضرتؐ صبر و استقامت کا مجسم نمونہ تھے ۔ خدا کے عظیم پیغمبروں خصوصاً پیغمبر اسلام کی زندگی سخت مصائب ‘ زبردست طوفانوں اور طاقت فرسا مشکلات کے مقابلے میں انتہائی صبر و استقامت کی آئینہ دار تھی اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے راہِ حق میں اس قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ راہِ حق کے راہیوں کو اس سے سبق لینا چاہیے۔ ہمیں ان ایام کو تصور میں لانا چاہیے جب حضور اکرمؐ تن تنہا تھے اور افق زندگی میں کامیابی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی تھی ہٹ دھرم دشمن ان کی نابودی پر کمر بستہ تھے حتی کہ ابولہب جیسے نزدیک ترین رشتہ دار بھی صف اول کے دشمنوں میں شامل تھے ۔ آپؐ مسلسل قبائل عرب کے پاس جاتے تھے انھیں اسلام کی دعوت دیتے تھے لیکن کوئی بھی شخص مثبت جواب نہیں دیتا تھا۔ آپؐ پر اس قدر پتھر برساتے کہ بدن مبارک سے خون بہنے لگ جاتا لیکن آپؐ اپنے مشن پر ڈٹے رہے ان کا سیاسی ‘ معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ اس حد تک سخت کر دیا گیا تھا کہ ہر طرف کی راہ آپؐ پر اور آپ کے ساتھیوں پر مُسدود ہوگئی تھی لیکن یہ تمام ایذارسانیاں آپؐ کی منزل اور مشن میں رکاوٹ نہ بن سکیں اور آپؐ صبر و تحمل اور بُردباری سے تبلیغ دین کرتے رہے اور تمام مصائب و مشکلات کے باوجود آپؐ سے صبر و شکیبائی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور آخر کار اس کاشیریں پھل بھی پالیا۔ آپؐ کا دین نہ صرف جزیرہ نمائے عرب میں بلکہ مشرق سے مغرب تک پھیل گیا۔
آج ہر صبح و شام چار گوشہء جہاں سے اور دُنیا کے پانچوں براعظموں میں اذان سنائی دیتی ہے جو آپؐ کی فتح اور کامرانی کی آواز ہے۔۱۴؎
اولیاء الہیٰ کا کلام اور ان کی سیرت بھی صبر کا آئینہ دار نظر آتے ہیں ۔
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے فرمایا:
’’تمھیں ایسی پانچ باتوں کی ہدایت کی جاتی ہے کہ اگر انھیں حاصل کرنے کے لیے اُونٹوں کو ایڑ لگا کر تیز ہنکاؤ تو وہ اسی قابل ہوں گی تم میں سے کوئی شخص اللہ کے سوا کسی سے آس نہ لگائے اور اس کے گناہ کے علاوہ کسی شئے سے خوف نہ کھائے اور اگر تم میں سے کسی سے کوئی ایسی بات پُوچھی جائے کہ جسے وہ نہ جانتا ہو تو یہ کہنے میں نہ شرمائے کہ میں نہیں جانتا اور اگر کوئی شخص کسی بات کو نہیں جانتا تو اس کے سیکھنے میں نہ شرمائے اور صبر و شکیبائی اختیار کرو کیونکہ صبر کو ایمان سے وہی نسبت ہے جو سرکو بدن سے ہوتی ہے اگر سر نہ ہو تو بدن بیکار ہے یُونہی ایمان کے ساتھ صبر نہ ہو تو ایمان میں کوئی خوبی نہیں۔۱۵؎
اسی طرح دوسری جگہ فرماتے ہیں ۔
’’صبر کرنے والا ظفر و کامرانی سے محروم نہیں ہوتا چاہے اُس میں طویل زمانہ لگ جائے۔۱۶؎
ایک اور قول میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
’’جسے صبر رہائی نہیں دلاتا اُسے بے تابی و بے قراری ہلاک کر دیتی ہے۔۱۷؎
ابو لبصیر کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادقؑ کو فرماتے ہوئے سنا:
آزاد ہر حال میں آزاد ہے اگر اس پر مصیبت آ جاتی ہے تو صبر کرتا ہے اور اگر (چاروں طرف سے) مصائب ٹوٹ پڑیں اور چاہے وہ اسیر و مقہور کر لیا جائے پھر بھی شکستہ (خاطر) نہیں ہوتا وہ سختیوں کو آسانیوں سے بدل لیتا ہے جیسے کہ حضرت یوسفؑ صدیق و امین کو ان کی غلامی‘ اسیری اور مقہوریت نے ان کی آزادی کو کوئی ضرر نہیں پہو نچایااور نہ کنویں کی تاریکی ووحشت اور بلائیں ان کا کچھ بگاڑ سکیں، یہاں تک کہ خدا نے ان پر احسان فرمایا کہ ظالم و سرکش کو ان کا غلام بنا دیا جبکہ وہ (پہلے) آقا تھا پس خدا نے ان کو رسول بنایا یا اُنکے ذریعہ سے ایک اُمت پر رحم فرمایا۔ (جناب یوسف ؑ کی طرح) صبر اپنے بعد اچھائی لاتا ہے ۔ لہذا آپ لوگ صبر کیجئے اور اپنے کو صبر پر آمادہ کیجئے تاکہ آپ کو اس کا اجر مل سکے۔۱۸؎
اسی طرح نواسہء رسول ؐحضرت امام حسین ؑ اسوئہ صبر ہیں جنھوں نے صبر کو بھی حیات عطا کی اور صابرین کو بھی راستہ دکھایا۔ آپ نے صبر کے اندرروح ڈال کر اسے پامالی سے بچا لیا ورنہ آج ہم بھی ان صابرین میں سے ہوتے جو گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے ہیں۔ امام حسین ؑ نے ہمیں یہ راستہ دکھایاکہ اگر صبر کرنا ہے تو صبر ہمیشہ میدانوں میں ہوتا ہے گھروں میں بیٹھے ہوئے کبھی صابر نہیں بن سکتے ۔ لہذا صبر ایک فضیلت میدانی ہے بلکہ تمام فضیلتیں میدانی فضیلتیں ہیں ۔ اگر اپنے اندر یہ فضیلتیں زندہ کرتا چاہتے ہیں تو امام حسین ؑ کی طرح میدان صبر میں آنا پڑے گا۔ میدان صبر سے باہر کوئی صابر بننا چاہے تو ہرگز نہیں بن سکتا ۔ یہ وہ صبر ہے جو امام حسین نے سکھایا جو ہمیں خانقاہوں ‘ مسجدوں ‘ منبروں اور امام بارگاہوں میں حاصل نہیں ہوتا اس صبر کے لیے میدان جہاد میں آنا پڑتا ہے اس کے لیے موت سے کھیلنا پڑتا ہے اولاد کی قربانی پیش کرنی پڑتی ہے ان کے جنازے اٹھا کر ہی کوئی صابربن سکتا ہے۔۱۹؎
سخت حوادث اور سنگین طوفانوں کے مقابلے میں پامردی و شکیبائی انسان کی روحانی عظمت اور بلند شخصیت کی نشانی ہے۔ ایسی عظمت کہ جس میں عظیم حوادث سما جاتے ہیں لیکن انسان ڈگمگاتااور لرزتا نہیں۔ ہَوا کا ایک ہلکا سا جھونکا چھوٹے سے تالاب کے پانی کو ہلا دیتا ہے لیکن بحر اوقیانوس جیسے بڑے سمندروں میں بڑے بڑے طوفان آرام سے سما جاتے ہیں اور انھیں کوئی فرق نہیںپڑتا۔ بعض اوقات انسان ظاہراً پامردی و شکیبائی دکھاتا ہے لیکن بعد میں چُھبنے والی باتیں کرتا ہے کہ جو ناشکری اور عدم برداشت کی نشانی ہے اس طرح وہ خود اپنے صبر و تحمل کا چہرہ بدنما کر دیتا ہے لیکن با ایمان ‘ قوی الارادہ اورعالی ظرف وہ لوگ ہیں کہ ایسے حوادث میں جن کا پیمانہ ء صبر لبریز نہیں ہوتا اور ان کی زبان پر کوئی ایسی بات نہیں آتی کہ جو ناشکری ‘ کفران ‘ بے تابی اور جزع و فزع کی مظہر ہو اور یہی ’’صبر جمیل ‘‘ہے۔۲۰؎
صبر کو اپنی زندگی کا حصہ بنا کر ہم اپنے دامن کو خوشیوں سے بھر سکتے ہیں صبر انبیاء کرام کا شیوہ ہے کیونکہ خدا نے اپنے ہر پیغمبر کو صبر و شکیبائی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے پس ان کے اطاعت گزاروں اور پیروی کرنے والوں پر بھی واجب ہے کہ وہ صبر پر عمل پیرا ہو جائیں واقعاً اگر ہم خدا کے پیغمبروں اور خاص بندوں کی تعلیمات کو اپنے لیے مشعل راہ بنا لیں تو ہماری کایا پلٹ جائے اور ہماری زندگی روشن اور منور ہو جائے۔
ہم لوگوں کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اسوئہ شبیری پر عمل کریں گے اور خانقاہوں سے نکل کر میدانِ عمل میں رسم شبیری ادا کرتے ہوئے اس دور کے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
رب ذوالجلال ہمیں صبر کامل عطا فرما اور ہمیں فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے اُٹھا لے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ http://forum.islamacadacy.net
seen on dated: 12-01-2010
۲۔ خمینی ‘سید روح اللہ آیت اللہ’’ چہل حدیث‘‘ مکتبہ الرضا۸۔ بیسمنٹ میاں مارکیٹ غزنی سٹریٹ
اردو بازار لاہور‘ص:۲/۱۲۳۔
نقوی‘ سید جواد حسین ’’اقدارِ عاشورا‘‘ متاب پبلیکشینز مرکز تحقیقات اسلامی بعثت بارہ کہو
اسلام آباد ۱۴۲۸ھ‘ ۲۰۰۷م ص:۲۲۷۔
۳۔ ’’اقدارِ عاشورا‘‘ المصدرنفسہ‘ ص۲۲۸‘۲۳۱۔
۴۔ ری شہری‘ محمدی آیت اللہ’’ میزان الحکمت ‘‘مترجم محمد علی فاضل مصباح الھدی پبلیکیشینز ۱۰
گنگارام بلڈنگ شاہراہ قائداعظم لاہورط:۱‘۱۴۱۸ھ ص۵/۴۰۲۔
۵۔ نہج البلاغہ‘ مترجم مولانا مفتی جعفر حسین امامیہ کتب خانہ مغل حویلی حلقہ نمبر۷۲ اندرون موچی
دروازہ لاہور نمبر۸‘ حکمت۳۰ ص:۱۲۔۸۱۳۔
۶۔ القرآن الکریم‘ سورۃ الرعد۲۴۔
۷۔ القرآن الکریم‘ سورۃ ہود۱۱۵۔
۸۔ القرآن الکریم سورۃ الأحقاف۳۵۔
۹۔ القرآن الکریم سورۃ البقرۃ۱۵۵۔
۱۰۔ میزان الحکمت‘ المصدر السابق۵/۳۸۹۔
۱۱۔ میزان الحکمت‘ المصدر السابق۵/۳۹۳۔
۱۲۔ میزان الحکمت‘المصدر السابق۵/۴۱۴۔
۱۳۔ اقدارِ عاشورا‘ المصدر السابق۲۱۷۔
۱۴۔ شیرازی ‘ناصر مکارم آیت اللہ ’’تفسیر نمونہ ‘‘مترجم مولانا سید صفدر حسین نجفی ‘مصباح القرآن
ٹرسٹ۱۰۔ گنگارام بلڈنگ شاہراہ قائداعظم لاہور:۲۱/۳۹‘۳۴۰۔
۱۵۔ نہج البلاغہ المصدر السابق حکمت ۸۲ص۸۲۸۔
۱۶۔ نہج البلاغہ المصدر السابق حکمت ۱۵۳ ص ۸۵۶۔
۱۷۔ نہج البلاغہ المصدر السابق حکمت ۱۸۹ ص ۸۶۳۔
۱۸۔ چہل حدیث المصدر السابق ۲/۱۰۸۔۱۰۹۔
۱۹۔ اقدارِ عاشورا المصدر السابق ۳۴۔۲۳۵۔
۲۰۔ تفسیر نمونہ المصدر السابق ۹/۳۱۸۔
____________
٭سید مقیل حسین،پی۔ایچ۔ڈی سکالر،بی۔زیڈ۔یو۔ملتان
Share this content: