پیر فضل شاہ ایک عہد ساز شخصیت
پیر فضل شاہ 1877ء کے لگ بھگ موضع ملیار ضلع جہلم میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ سکول میں پڑھتے رہے، پھر مولانا سید غلام حسین شاہ شیرازی آف کوٹلہ ضلع جہلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کرڑ کے مومنین کی استدعا پر ملیار سے ترک سکونت کرکے موضع کرڑ ضلع خوشاب چلے گئے اور تمام تر توجہ تبلیغ دین کی جانب مبذول کر دی۔ آپ کا زیادہ تر وقت عبادت الہیٰ اور خلق خدا کی خدمت میں گزرتا۔ 1913ء میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ آپ نے اپنے زیر اثر افراد کے بچوں کو دینی تعلیم کے لیے مدارس میں بھجوایا نیز ضلع سرگودھا میں کئی ایک مدارس کی بنیاد رکھی۔ آپ کی ہی تشویق پر دارالعلوم محمدیہ قائم ہوا۔ اسی طرح خوشاب اور بھلوال کے مدارس بھی آپ ہی کی تشویق پر قائم کیے گئے۔
آپ کا لکھنو کے علماء سے خط کتابت کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ آپ زندگی بھر مجرد رہے، پیر فضل شاہ جہلم اور سرگودھا کے دیہاتوں میں تبلیغی دورہ جات کیا کرتے تھے۔ صاحب کرامت اور مجیب الدعوات بزرگ تھے۔ اگرچہ آپ پیر تھے، تاہم ظاہری طور پر کسی سلسلے میں بیعت نہ تھے۔ آپ کے جمع کردہ فتاویٰ کو مولانا منور حسین نے ’’جامع الفتاویٰ‘‘ کے نام سے شائع کروایا ہے۔
جامع الفتاویٰ پیر فضل شاہ صاحب کی جانب سے برصغیر کے مجتہدین سے پوچھے گئے سوالات کا مجموعہ ہے، ان کی زندگی بھر خواہش رہی کہ ان فتاویٰ کو جمع کرکے مرتب کیا جائے، تاکہ مفاد عامہ کے لیے استعمال میں لایا جاسکے، جو کہ ان کے انتقال کے بعد مولانا منور حسین لکھنوی نے پوری کی۔ اس کتاب میں نجم العلماء سعید الحسن، ناصر الملۃ سید ناصر حسین، مفتی سید احمد علی، مولانا سید محمد باقر، سید العلماء علی نقی نقن، سید حشمت علی شاہ، سید حسن لکھنو، سید کلب عابد لکھنؤ، سید شبیر حسین قبلہ فیض آباد، سید محمد سعید لکھنؤ، سید علی الحائری، آیت اللہ محسن الحکیم، سید ظہور حسین لکھنؤ، قبلہ محمد ہادی لکھنؤ اور قبلہ ابو الحسن سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔ یہ سوالات بنیادی طور پر لوگوں کے مسائل سے متعلق ہوتے تھے۔ جامع الفتاویٰ تقریباً موجودہ توضیح المسائل کی مانند ہی ایک کتاب ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیر فضل شاہ صاحب کے زمانے سے قبل برصغیر پاک و ہند بالخصوص پنجاب میں تشیع ذاکری اور فقیری پر منحصر تھی، دیگر مسالک میں تشیع کا تعارف ایک کم علم قوم کے طور پر ہوتا تھا۔
ہندوستان میں خاندان اجتہاد اور پاکستان میں پیر فضل شاہ صاحب اور دیگر چند شخصیات جن میں جناب ارسطو جاہ، مولانا رجب علی خان جگرانوی، سید شریف حسین بھاکری، علامہ سید محمد باقر، مولانا غلام حسین شیرازی، مولانا فیض محمد مکھیالوی، مولوی سید علی شاہ، سید ابولقاسم رضوی اور علامہ سید علی الحائری شامل ہیں، کی مساعی کی وجہ سے علمی روایت کا آغاز ہوا۔ پیر فضل شاہ صاحب نے اپنے معتقدین کے جوانوں کو علم دین حاصل کرنے کی بھی ترغیب دلوائی، جن میں مولوی سید شاہنواز، مولوی غلام مہدی، مولوی سید کاظم حسین، مولوی سید عاشق حسین، مولانا نصیر حسین مجتہد، مولوی غلام قنبر، مولوی عطا محمد، مولوی محمد حسین ساہیوال، مولوی منور حسین، مولوی سردار شاہ، مولوی سید علی شاہ، مولوی سردار شاہ، مولوی نذر حسین، مولوی غلام حیدر، مولوی ذاکر حسین، مولوی سید امداد حسین شیرازی، مولوی سید محمد حسنین شیرازی، مولانا سید ریاض حسین نقوی، مولانا سید ظل حسنین، مولانا غلام مختار، مولانا نثار علی اور کئی ایک دینی طلباء شامل ہیں، جنھوں نے دین کی تبلیغ اور توسیع کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ پیر فضل شاہ صاحب کے فیوض و برکات کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔
کتاب جامع الفتاویٰ میں پیر فضل شاہ صاحب کی سوانح بھی موجود ہے، جو سید منظور حسین بخاری نے تحریر کی ہے۔ سید منظور حسین بخاری پیر فضل شاہ صاحب سے کافی مستفید ہوئے تھے۔ سید منظور بخاری لکھتے ہیں کہ سفر و ماحضر میں پیر فضل شاہ صاحب کا ایک معمول تھا، نماز ظہرین سے قبل غسل فرما کر نماز ادا فرماتے، پھر نماز مغرب و عشاء کو ادا فرماتے اور اپنے معتقدین سے ملاقات کرتے۔ آخر شب میں غسل و طہارت سے فارغ ہو کر عبادت الہیٰ میں مشغول ہو جاتے، نماز تہجد، فجر اور تعقیبات کے بعد دن چڑھے باہر تشریف لاتے اور معتقدین سے ملاقات کرتے۔ دوپہر ایک دو بجے کے قریب قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ اس کے بعد عام مجلس کا انعقاد ہوتا، جس میں دور دراز سے آئے ہوئے لوگ آپ سے ملاقات کرتے۔ اس محفل میں دعا، مناجات، مسائل کا سلسلہ جاری رہتا،یہاں تک کہ مقتل کا بیان شروع ہو جاتا اور محفل میں گریہ و بکا کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
کرڑ سے پیر فضل شاہ صاحب سرگودھا کے گاؤں چک 21 جنوبی میں شیرازی سادات کے بزرگ سید ناصر شیرازی کی دعوت پر تشریف لائے، سید منظور بخاری لکھتے ہیں کہ پیر فضل شاہ صاحب سردیوں کا موسم چک 21 جنوبی اور گرمیوں کے ایام اجنالہ ضلع سرگودھا میں ڈیرہ مہر سردار لک پر قیام کیا کرتے تھے۔ پیر صاحب مروجہ پیری فقیری سے بیزار تھے اور اپنے پاس آنے والے معتقدین کے لیے محمد و آل محمدؐ کے توسل سے دعا کیا کرتے تھے۔ پیر صاحب کا وطیرہ تھا کہ وہ دور دراز کا سفر کرکے آنے والے افراد کو کہتے تھے کہ دعا کا مقصد آپ ایک کارڈ لکھ کر بھی حاصل کرسکتے تھے، کوشش کریں کہ اپنے والدین کی رضا حاصل کریں اور ان سے دعا کی استدعا کریں۔ پیر فضل شاہ صاحب طہارت و نجاست کے اہتمام کو اولیت دیتے تھے، گرمی اور سردی کے موسم میں دو مرتبہ غسل کرکے نماز ادا کرتے تھے، جبکہ نہر، جھیل اور تالاب تک سفر کی زحمت کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔
پیر صاحب عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ ملی معاملات میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ لکھنؤ میں 1939ء میں ہونے والی تبرا ایجی ٹیشن میں بھی پیر فضل شاہ صاحب نے عملی حصہ لیا، پنجاب سے لکھنؤ جانے والے اکثر مومنین آپ ہی کی تشویق پر قربانی کے لیے آمادہ ہوئے۔ پیر صاحب نے 21 اکتوبر 1966ء کو رحلت فرمائی اور ان کو ان کی وصیت کے مطابق دیرینہ رفیق سید ناصر شیرازی کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ سید احمد علی قبلہ مجتہد نے آپ کو سلمان آل رسول ؐ کا لقب دیا اپنے تعزیتی خط میں سید احمد لکھتے ہیں: سرزمین پنجاب پر پیر فضل شاہ صاحب مرحوم کی وہ ہستی تھی، جو احکام شرع کی بقدر علم و امکان پابند ہونے کے علاوہ صفت زہد میں کم از کم میری نظر میں یکتائے زمانہ تھے۔ انھوں نے باوجود بلندی و ارتقاء کے دنیا سے بالکل بیگانہ ہو کر زندگی گزاری۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: