پاک سعودی تعلقات، مقامات آہ و فغاں
تحریر: ثاقب اکبر
پاک سعودی تعلقات کے خوبصورت اور مثبت پہلو تو بیان ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن اس سفر میں کچھ مقامات آہ و فغاں بھی آتے ہیں، ان کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ 4 اگست 2020ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو کے موقع پر سعودی عرب کے حوالے سے کہا تھا: ’’میں آج اسی دوست کو کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کے مسلمان اور پاکستانی جو آپ کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے لڑ مرنے کے لیے تیار ہیں،
آج وہ آپ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ آپ وہ قائدانہ صلاحیت اور کردار ادا کریں، جس کی امت مسلمہ آپ سے توقع کر رہی ہے۔‘‘ شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ او آئی سی آنکھ مچولی اور بچ بچاؤ کی پالیسی نہ کھیلے۔ انھوں نے کہا کہ کانفرنس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے، اگر یہ نہیں بلایا جاتا تو میں وزیراعظم سے کہوں گا کہ پاکستان ایسے ممالک کا اجلاس خود بلائے، جو کشمیر پر پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق یہ اجلاس او آئی سی کے پلیٹ فارم یا اس سے ہٹ کر بلایا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک جملے میں لفظ “ورنہ” کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ “یہ میرا نکتہ نظر ہے، اگر نہ کیا تو میں عمران خان صاحب سے کہوں گا کہ سفیرِ کشمیر! اب مزید انتظار نہیں ہوسکتا، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ود اور ود آؤٹ(With or Without)۔”
شاہ محمود قریشی کے اس بیان کو سعودی عرب نے بہت ناپسند کیا۔ اس کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے قرض میں سے ایک ارب ڈالر کی فوری واپسی کا تقاضا کیا، جس کے بعد پاکستان نے چین سے قرض لے کر یہ رقم سعودی عرب کے حوالے کی۔ بعدازاں مزید رقم بھی واپس کرنا پڑی۔ علاوہ ازیں دیر سے ادائیگی کی بنیاد پر جو تیل سعودی عرب کی طرف سے مہیا کیا جا رہا تھا، وہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے پاکستان میں دورے کے موقع پر انھوں نے بیس ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری کا جو وعدہ کیا تھا، وہ بھی تقریباً کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا لیکن اس دورے میں سعودی ولی عہد نے ان سے ملاقات نہیں کی، البتہ ان کے بھائی اور ڈپٹی ڈیفنس منسٹر خالد بن سلمان نے انھیں وقت دیا۔ اس کے بعد ہی پاکستان کے وزیر خارجہ نے فوری طور پر چین کا دورہ کرنا ضروری سمجھا، تاکہ سعودی بادشاہت کو یہ پیغام دیا جائے کہ ہمارے پاس متبادل موجود ہے۔
دوسری طرف ہم مسلسل دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ سعودی عرب اور ان کے اتحادیوں کے تعلقات بھارت کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ جس دورے میں سعودی ولی عہد نے پاکستان کے ساتھ بیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے، اس کے بعد ان کا اگلا پڑائو نئی دہلی تھا، جہاں انھوں نے بھارت کے ساتھ دو برس میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔ اس سے پہلے متحدہ عرب امارات ایک اس سے بھی بڑا قدم اٹھا چکا تھا، جب مارچ 2019ء میں اس کی میزبانی میں او آئی سی کی ایک کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دی گئی تھی۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شا ہ محمود قریشی نے اس پر احتجاج بھی کیا اور اس کا بائیکاٹ بھی کیا لیکن متحدہ عرب امارات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لہٰذا اسلامی ممالک کی کانفرنس سے ایک بڑا اسلامی ملک باہر آگیا اور اس کا سب سے بڑا دشمن کانفرنس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود رہا۔
پاکستان اور بھارت دونوں کے سعودی عرب سے تجارتی تعلقات قائم ہیں، تاہم پاکستان اور سعودی عرب کے مابین سالانہ تجارت 3.6 ارب ڈالر ہے جب کہ بھارت کے ساتھ یہی تجارت 30 ارب ڈالر تک پہنچتی ہے۔ سعودی عرب کو پاکستان کے ترکی اور ملائیشیا سے تعلقات پر بھی تحفظات ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں 2019ء کے اواخر میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کی شرکت پر سعودی عرب نے سخت اعتراض کیا تھا۔ ترکی کے صدر نے بعدازاں یہاں تک بتایا کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر وہ اس کانفرنس میں شریک ہوا تو سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں کو ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا اور پاکستان کو دیا گیا قرضہ فوری طور پر واپس طلب کر لیا جائے گا۔ پاکستان اصولی طور پر اس کانفرنس کا شریک میزبان تھا چونکہ اس کے انعقاد کا فیصلہ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم مہاتیر محمد، پاکستان کے وزیراعظم عمران خان اور ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے مل کر نیو یارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر کیا تھا۔
یہ اجلاس اسلامو فوبیا اور مسلم دنیا میں غربت کے مسئلے پر بحث کے لیے منعقد کیا جا رہا تھا۔ سعودی عرب کو مطمئن کرنے کے لیے وزیراعظم پاکستان نے ریاض کا دورہ بھی کیا تھا لیکن یہ دورہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکا اور اس کے بعد پاکستان نے کوالالمپور کے اجلاس میں کسی بھی سطح پر شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مہاتیر محمد نے اس پر اظہار افسوس کیا۔ پاکستان کے لیے یہ بہت بڑی رسوائی پر مبنی اقدام تھا۔ سعودی عرب کا خیال تھا کہ یہ اجلاس سعودی عرب کی سربراہی میں کام کرنے والی اسلامی تعاون تنظیم کے مقابلے میں ممکنہ طور پر ایک نئی تنظیم قائم کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ اگرچہ پاکستان اور ملائیشیا نے اس کی تردید کی لیکن بادشاہ جو کہہ چکے تھے سو کہہ چکے تھے۔
پاکستان اگرچہ عملی طور پر سعودی کیمپ کا حصہ ہے، مختلف مواقع پر شکایات کے باوجود پاکستان تزویراتی طور پر سعودی عرب کے معاملات میں اس کا شریک کار ہی نہیں بلکہ مدافع بھی ہے۔ یمن کے مسئلے پر 2015ء میں جب سعودی عرب نے بزعم خویش دہشتگردی کے مقابلے کے لیے ایک اسلامی فوجی اتحاد قائم کیا تو پاکستان کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔ پاکستان کی پارلیمینٹ نے اتفاق رائے سے یمن کے معاملے میں غیر جانبدار رہنے کے حق میں قرارداد منظور کی۔ سعودی عرب اس پر بہت ناراض ہوا۔ قرارداد اگرچہ اپنے مقام پر موجود ہے لیکن پاکستان سعودی اتحاد کا عملی طور پر حصہ ہے۔ تاہم سعودی عرب کو ابھی تک پاکستان کی پارلیمینٹ کے اس فیصلے پر افسوس ہے۔
ایران کے ساتھ اگرچہ پاکستان کے روابط بہت نچلی سطح پر موجود ہیں لیکن سی پیک جیسے اہم پراجیکٹ اور عالمی سطح کے چینی منصوبے ون روڈ ون بیلٹ میں ایران کی شرکت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ ایران کے ساتھ پاکستان کا گیس پائپ لائن منصوبہ اگرچہ امریکہ اور سعودی عرب کی وجہ سے کھٹائی میں پڑا ہوا ہے، تاہم حال ہی میں اسلام آباد سے تہران کے راستے استنبول تک ایک تجارتی ٹرین کے آغاز کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ امکان یہ ہے کہ راستے میں مرکزی ایشیا کی ریاستیں بھی اس ریلوے لائن اور اس تجارتی منصوبے سے منسلک ہو جائیں گی۔ آگے بڑھ کر اس سفر کو یورپ تک مکمل کیا جائے گا۔ یہ سارے امور سعودی عرب کی نظر میں ہیں۔
پاکستان جانتا ہے کہ اس وقت اسے سعودی عرب سے اچھے تعلقات ہر صورت میں باقی رکھنا ہیں، کیونکہ سب سے زیادہ بیرون ملک پاکستانی سعودی عرب میں ہیں اور پاکستانی معیشت میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ تزویراتی تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں سعودی عرب سے بہت سا سرمایہ آتا ہے۔ جب تک پاکستان مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا نہیں ہو جاتا، ہمارے حکمران اور ریاستی ادارے سعودی عرب کے ناز نخرے بہرحال اٹھاتے رہیں گے لیکن حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔ داخلی طور پر پاکستانی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے جا رہی ہے۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات بھی مضبوط ہو رہے ہیں۔ خود سعودی عرب کے اندر بھی بہت سی تبدیلیاں سر اٹھا رہی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ سب تبدیلیاں پاک سعودی تعلقات کو کس نئے مرحلے میں داخل کریں گی۔