اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس، اہم پہلو(1)
22 و 23 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا اڑتالیسواں اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا عنوان تھا، ’’اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری۔‘‘ اس سے قبل پاکستان گذشتہ سال دسمبر میں اسی کونسل کے ایک ہنگامی اجلاس کی میزبانی کر چکا ہے۔ اجلاس کے آغاز پر نائیجر کے وزیر خارجہ اور او آئی سی وزارت کونسل کے موجود سربراہ حسومی مسعودو نے خطاب کرتے ہوئے وزارتی کونسل کی چیئرمین شپ پاکستان کے سپرد کر دی، جبکہ فلسطین، یمن اور کیمرون موجودہ سیشن میں کونسل کے نائب چیئرمین ہوں گے۔ ان کے اعلان کے ساتھ ہی صدارتی نشست پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سنبھال لی۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ایتونیو گوتریس نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی اور خصوصی طور پر خطاب کیا۔ مہمان خصوصی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی تھے۔
کانفرنس میں 22 ملکوں کے وزرائے خارجہ، 9 ممالک کے خارجہ امور کے وزارئے مملکت اور ڈپٹی وزرائے خارجہ نیز دو ممالک کے وزرائے دفاع شریک ہوئے جبکہ دیگر ممالک کے مندوبین بھی موجود تھے۔ کل 56 ممالک کے نمائندگان نے اجلاس میں شرکت کی۔ امریکہ کی انڈر سیکرٹری برائے انسانی حقوق عذرا زائیہ بھی اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ہنگامی اجلاس کے موقع پر کیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں او آئی سی کا دفتر کابل میں قائم کیا جا چکا ہے۔ اُس اجلاس کا موضوع ہی افغانستان تھا۔ اس اجلاس کا ایک اہم اور یادگار لمحہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی متاثر کن تقریر کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کے بقول ’’عمران خان نے کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل تمام نکات پر بیس منٹ کے مختصر وقت میں مدلل گفتگو کی، جس کا مسلم دنیا کی عوام پر بہت اثر ہوگا۔ انھوں نے جس انداز میں مسلم دنیا کے مسائل کو اجاگر کیا، شاید ہی کوئی مسلم رہنماء ایسے کرسکے۔‘‘
سعودی وزیر دفاع فیصل بن سلمان نے اپنے خطاب میں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا ذکر کیا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھارت حق خود ارادیت استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے مسئلے کو حل کرے، کیونکہ سعودی عرب فلسطین و کشمیر کے نہتے عوام کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک وہ دن بھی تھا، جب شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلے پر عدم تعاون کے حوالے سے سعودی عرب کے خلاف واضح طور پر ایک بیان دیا تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم سعودی عرب کے بغیر بھی اپنے ہم فکر ممالک کی کانفرنس بلا سکتے ہیں اور آج انہی کی صدارت میں سعودی وزیر خارجہ کشمیر پر اسی موقف کا اظہار کر رہے تھے، جو پاکستان کا موقف ہے۔
چین کے وزیر خارجہ کی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت بڑی معنی خیز تھی۔ ظاہر ہے کہ اس حیثیت سے انہیں پاکستان خود سے دعوت نہیں دے سکتا تھا، اس کے لیے یقیناً اس نے او آئی سی بالخصوص سعودی عرب کی تائید حاصل کی ہوگی۔ عالمی سطح پر جس انداز سے نئے بلاکس سامنے آرہے ہیں، ان کے پیش نظر یہ اقدام اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس موقع پر چینی وزیر خارجہ نے عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسلم امہ کے نقطہ نظر کی برملا حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا: ’’فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیر متزلزل رہی ہے۔‘‘ انھوں نے عالم اسلام کے ساتھ چین کے اقتصادی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’بیجنگ اسلامی دنیا کے ساتھ مربوط تعاون کے لیے تیار ہے اور مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔‘‘ افغانستان کے حوالے سے انھوں نے کہا: ’’چین افغانستان میں امن، ترقی اور تعمیر نو کی ہر ممکن مدد اور تعاون کے لیے ساتھ ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات چینی روایات کی بنیاد ہیں۔ چین اقوام متحدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی ہر ممکن حمایت و تعاون جاری رکھے گا۔”
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے خطاب میں بھی اہم نکات شامل تھے۔ ان کا یہ جملہ تو حیران کن تھا: ’’ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کے حامل عالمی مالیاتی نظام میں اصلاح کرنی چاہیے، تاکہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے محفوظ دنیا کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔‘‘ ان کی یہ بات اس پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جس اقوام متحدہ کی نمائندگی کرتے ہیں، وہاں کے بڑے ہی عالمی مالیاتی نظام کی تمام تر خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ گویا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نزدیک اس مالیاتی نظام کے “اخلاقی دیوالیہ پن” کے ذمہ دار یہی عالمی وڈیرے ہیں۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف منظور کی گئی قرارداد کا ذکر گونجتا رہا۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کا آغاز ہی یہ کہتے ہوئے کیا کہ میں مسلم دنیا کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو ہر سال اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا نفرت انگیز ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف پاکستان نے جو عالمی کوششیں کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مزید آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’مسلم دنیا کے عوام مذہبی جذبات رکھتے ہیں اور عمران خان نے ان جذبات کی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان ایک بڑی بات ہے اور عمران خان اس کا بجا طور پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔‘‘ اس کانفرنس میں یوکرین روس تنازع کا ذکر بھی نمایاں طور پر کیا گیا۔ اس ذکر کا آغاز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی اس تجویز سے ہوا، جو انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں پیش کی۔
ان کا کہنا تھا: ’’دنیا میں دوسروں کی طرح ہم بھی یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر پریشان ہیں۔ میں او آئی سی کو تجویز کرتا ہوں کہ وزرائے خارجہ کی بات چیت کے دوران میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ڈیڑھ ارب لوگوں کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں، ہم کیسے ثالثی کرسکتے ہیں، ہم کیسے جنگ بندی کروا سکتے ہیں، ہم کیسے اس تنازع کو ختم کروا سکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں میں چینی وزیر خارجہ سے بات کروں گا اور اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کی یہ کانفرنس اپنے مقام پر غور کرے کہ وہ کیسے اس تنازع کے خاتمہ کے لیے چین کے ساتھ مل کر کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس نشست کے اور بھی متعدد اہم اور قابل ذکر پہلو ہیں، جن کے بارے میں ہم اس مقالے کے دوسرے حصے میں اظہار خیال کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانفرنس میں 22 ملکوں کے وزرائے خارجہ، 9 ممالک کے خارجہ امور کے وزارئے مملکت اور ڈپٹی وزرائے خارجہ نیز دو ممالک کے وزرائے دفاع شریک ہوئے جبکہ دیگر ممالک کے مندوبین بھی موجود تھے۔ کل 56 ممالک کے نمائندگان نے اجلاس میں شرکت کی۔ امریکہ کی انڈر سیکرٹری برائے انسانی حقوق عذرا زائیہ بھی اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شریک ہوئیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ہنگامی اجلاس کے موقع پر کیے گئے فیصلوں کے نتیجے میں او آئی سی کا دفتر کابل میں قائم کیا جا چکا ہے۔ اُس اجلاس کا موضوع ہی افغانستان تھا۔ اس اجلاس کا ایک اہم اور یادگار لمحہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی متاثر کن تقریر کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سابق سفیر برائے اقوام متحدہ شمشاد احمد خان کے بقول ’’عمران خان نے کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل تمام نکات پر بیس منٹ کے مختصر وقت میں مدلل گفتگو کی، جس کا مسلم دنیا کی عوام پر بہت اثر ہوگا۔ انھوں نے جس انداز میں مسلم دنیا کے مسائل کو اجاگر کیا، شاید ہی کوئی مسلم رہنماء ایسے کرسکے۔‘‘
سعودی وزیر دفاع فیصل بن سلمان نے اپنے خطاب میں خاص طور پر کشمیر اور فلسطین کے مسائل کا ذکر کیا۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بھارت حق خود ارادیت استعمال کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے مسئلے کو حل کرے، کیونکہ سعودی عرب فلسطین و کشمیر کے نہتے عوام کے ساتھ کسی قسم کی نا انصافی نہیں ہونے دینا چاہتا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک وہ دن بھی تھا، جب شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے مسئلے پر عدم تعاون کے حوالے سے سعودی عرب کے خلاف واضح طور پر ایک بیان دیا تھا۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہم سعودی عرب کے بغیر بھی اپنے ہم فکر ممالک کی کانفرنس بلا سکتے ہیں اور آج انہی کی صدارت میں سعودی وزیر خارجہ کشمیر پر اسی موقف کا اظہار کر رہے تھے، جو پاکستان کا موقف ہے۔
چین کے وزیر خارجہ کی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت بڑی معنی خیز تھی۔ ظاہر ہے کہ اس حیثیت سے انہیں پاکستان خود سے دعوت نہیں دے سکتا تھا، اس کے لیے یقیناً اس نے او آئی سی بالخصوص سعودی عرب کی تائید حاصل کی ہوگی۔ عالمی سطح پر جس انداز سے نئے بلاکس سامنے آرہے ہیں، ان کے پیش نظر یہ اقدام اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ اس موقع پر چینی وزیر خارجہ نے عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مسلم امہ کے نقطہ نظر کی برملا حمایت کی۔ ان کا کہنا تھا: ’’فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کے لیے چین کی حمایت ہمیشہ غیر متزلزل رہی ہے۔‘‘ انھوں نے عالم اسلام کے ساتھ چین کے اقتصادی تعاون کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’بیجنگ اسلامی دنیا کے ساتھ مربوط تعاون کے لیے تیار ہے اور مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔‘‘ افغانستان کے حوالے سے انھوں نے کہا: ’’چین افغانستان میں امن، ترقی اور تعمیر نو کی ہر ممکن مدد اور تعاون کے لیے ساتھ ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان سے دوستانہ تعلقات چینی روایات کی بنیاد ہیں۔ چین اقوام متحدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی ہر ممکن حمایت و تعاون جاری رکھے گا۔”
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتریس کے خطاب میں بھی اہم نکات شامل تھے۔ ان کا یہ جملہ تو حیران کن تھا: ’’ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کے حامل عالمی مالیاتی نظام میں اصلاح کرنی چاہیے، تاکہ مشترکہ کوششوں کے ذریعے محفوظ دنیا کے اہداف کا حصول ممکن بنایا جاسکے۔‘‘ ان کی یہ بات اس پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ جس اقوام متحدہ کی نمائندگی کرتے ہیں، وہاں کے بڑے ہی عالمی مالیاتی نظام کی تمام تر خرابی کے ذمہ دار ہیں۔ گویا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نزدیک اس مالیاتی نظام کے “اخلاقی دیوالیہ پن” کے ذمہ دار یہی عالمی وڈیرے ہیں۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامو فوبیا کے خلاف منظور کی گئی قرارداد کا ذکر گونجتا رہا۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب کا آغاز ہی یہ کہتے ہوئے کیا کہ میں مسلم دنیا کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو ہر سال اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ اسلامو فوبیا نفرت انگیز ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف پاکستان نے جو عالمی کوششیں کی ہیں، وہ قابل ستائش ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مزید آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’’مسلم دنیا کے عوام مذہبی جذبات رکھتے ہیں اور عمران خان نے ان جذبات کی بہترین انداز میں عکاسی کی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے اسلامو فوبیا کے خلاف دن منانے کا اعلان ایک بڑی بات ہے اور عمران خان اس کا بجا طور پر کریڈٹ لے رہے ہیں۔‘‘ اس کانفرنس میں یوکرین روس تنازع کا ذکر بھی نمایاں طور پر کیا گیا۔ اس ذکر کا آغاز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی اس تجویز سے ہوا، جو انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں پیش کی۔
ان کا کہنا تھا: ’’دنیا میں دوسروں کی طرح ہم بھی یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر پریشان ہیں۔ میں او آئی سی کو تجویز کرتا ہوں کہ وزرائے خارجہ کی بات چیت کے دوران میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم ڈیڑھ ارب لوگوں کی نمائندگی کیسے کرسکتے ہیں، ہم کیسے ثالثی کرسکتے ہیں، ہم کیسے جنگ بندی کروا سکتے ہیں، ہم کیسے اس تنازع کو ختم کروا سکتے ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں میں چینی وزیر خارجہ سے بات کروں گا اور اسلامی وزرائے خارجہ کونسل کی یہ کانفرنس اپنے مقام پر غور کرے کہ وہ کیسے اس تنازع کے خاتمہ کے لیے چین کے ساتھ مل کر کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس نشست کے اور بھی متعدد اہم اور قابل ذکر پہلو ہیں، جن کے بارے میں ہم اس مقالے کے دوسرے حصے میں اظہار خیال کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز