امریکی ریاست کا اگلا سال اور عالمی سیاست
امریکہ کی 231 سالہ تاریخ میں پہلی بار کسی صدر کا دوسری بار مواخذہ کیا جا رہا ہے۔ ایک ایسا صدر جو اپنے دور صدارت کے اقدامات پر پھولا نہیں سماتا تھا اور اسے یقین تھا کہ اسے دوبارہ اس عہدے کے لیے منتخب کیا جائے گا، اس کا یہ انجام انتہائی شرمناک ہے۔ صدارت تو ایک جانب دنیا کی سپر طاقت کے صدر کے سوشل میڈیا اکاونٹس کو بھی خاموش کر دیا گیا ہے، جو امریکی معاشرے کے لیے بھی سبکی کی علامت ہے۔ صدر نہ رہنے کے بعد تو میرے خیال میں ٹرمپ پر مواخذے کا جواز نہیں رہتا بلکہ مقدمہ چلایا جانا چاہیئے، تاہم شاید ڈیموکریٹس چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کو عبرت کا ایک نشان بنایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ ٹرمپ پر مواخذے کے بعد فوجداری مقدمہ بھی چلایا جائے۔
مواخذے کی قرارداد میں صدر ٹرمپ پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے 6 جنوری بدھ کی صبح وائٹ ہاؤس کے قریب اپنی حامی ریلی میں ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے انھیں دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی کرنے پر اکسایا تھا۔
امریکی ایوان نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی منظوری دے دی ہے اور اب ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ان کا ٹرائل کیا جائے گا۔ اس مقدمے کی سماعت جو بائیڈن کی حلف برداری کے بعد شروع ہوگی۔ ایک برس قبل امریکا کے ایوان نمائندگان نے پہلی بار ایک بھی رپبلکن ووٹ کے بغیر صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا تھا، تاہم اس مرتبہ ان کی اپنی ہی جماعت کے 10 ممبران نے اس قرارداد کی حمایت کی ہے اور اس کے علاوہ کئی اراکین نے دارالحکومت میں ہنگامہ آرائی کے دن ان کے الفاظ اور اقدامات کی مذمت کی ہے۔ 6 جنوری کے حملے کے کچھ گھنٹوں میں، ڈیموکریٹس یہ بحث کر رہے تھے کہ صدر کے اس حملے کا کس طرح بہتر جواب دیا جائے اور انھیں کیا سزا دی جائے۔ ان کے خیال میں ٹرمپ نے نہ صرف امریکی جمہوریت بلکہ اراکین پارلیمنٹ کو بھی خطرات لاحق کر دیئے ہیں۔
ڈیموکریٹس کا ارادہ ہے کہ ٹرمپ کا نہیں بلکہ ٹرمپ ازم کا مواخذہ کیا جائے۔ مواخذے کے آرٹیکل میں خاص طور پر ان مہینوں کا حوالہ دیا گیا تھا، جب ٹرمپ نے نومبر کے عام انتخاب کے نتائج کو نہ ماننے اور جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے میں صرف کیے تھے اور ایوان نمائندگان میں مباحثے کے دوران، انھوں نے دور صدارت کے دوران ٹرمپ کے طرز عمل پر تنقید کی اور کانگریس میں ان رپبلکنز پر بھی تنقید کی گئی، جو ٹرمپ کی حمایت کرتے تھے۔ مبصرین کے مطابق ٹرمپ کا مواخذہ فقط ٹرمپ اور ان کی ریپبلیکن پارٹی کے لیے ہی نہیں، امریکی عوام اور بائیڈن کے لیے بھی مشکلات پیدا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ مواخذہ کرونا سے دوچار معاشی مسائل کے حامل ملک میں عوام کو جوڑنے کے بجائے تقسیم کرنے کا کام کرے گا۔ اس کے سبب امریکی عوام میں دوریاں پیدا ہوں گی۔
کہا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کے نئے صدر یا حکمران کے لیے پہلے 100 دن بہت اہم وقت ہیں، جب اس کا سیاسی اثر و رسوخ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم جو صورتحال بائیڈن کو درپیش ہے، اس میں ان کی تاثیر ویسی نہیں ہوگی، جو اس مواخذے کے بغیر ہوسکتی تھی۔ امریکی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد ٹرمپ کا اگلا معرکہ خود اپنی جماعت میں ہوگا۔ ٹرمپ کے ناقدین کی رائے ہوگی کہ اب ٹرمپ پارٹی کی قیادت بھی چھوڑ دیں، جس کے شواہد متعدد سینیئر اراکین کے بیانات سے مل رہے ہیں جبکہ ٹرمپ اس جماعت میں اپنے رسوخ کو بھرپور طور پر استعمال کریں گے، تاکہ زیادہ سے زیادہ اراکین کی حمایت حاصل کرسکیں۔ یہ صورتحال امریکہ میں سیاسی بے چینی کے سال کی پیشنگوئی کر رہی ہے، صحت، معیشت، اقتصاد اور عسکری میدانوں میں درپیش چیلنجز کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی درپیش مسائل اگلے برس عالمی سیاست میں امریکی مداخلت میں کمی لائیں گے جبکہ اس کے مقابلے میں چین اور روس کا اثر و رسوخ عالمی معاملات میں بڑھ جائے گا۔ واللہ اعلم
بشکریہ: اسلام ٹائمز