شیطان بزرگ کے لیے نیا خطاب ’’جھوٹ کی سلطنت‘‘

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر
امریکا کو ’’شیطان بزرگ‘‘ کا خطاب تو امام خمینیؒ نے دیا تھا، لیکن اب اسے اور اس کے حواریوں کو نیا خطاب روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے دیا ہے۔ انھوں نے شیطان اور شطونگڑوں کو مجموعی طور پر ’’جھوٹ کی سلطنت‘‘ قرار دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دجل و فریب اور جھوٹ، شیطنت کے نمایاں خواص میں سے ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں جو پیشین گوئیاں اسلامی روایات میں آئی ہیں، ان کے مطابق ان کے مقابلے میں آنے والے کرداروں میں سے ایک دجال ہوگا۔ دجال کا لفظ دجل سے نکلا ہے۔ دجل جھوٹ اور فریب کو کہتے ہیں۔ بعید نہیں ہے کہ اس سے مراد کوئی ایسا ہی کردار ہو، جسے امام خمینیؒ نے ’’شیطان بزرگ‘‘ اور صدر پیوٹن نے ’’جھوٹ کی سلطنت کا سلطان‘‘ قرار دیا ہے۔

 دجال کی خصوصیات میں سے ہے کہ اس کی ایک آنکھ ہوگی۔ آپ دیکھ لیں کہ امریکہ کی ایک ہی آنکھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے آج یوکرائن میں جنگ کا شکار ہونے والے بچے دکھائی دے رہے ہیں، لیکن آٹھواں سال شروع ہوگیا ہے، یمن میں اسے اپنے اسلحے کی تباہ کاریاں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہی حال فلسطین اور کئی دیگر خطوں کا بھی ہے۔ یہ ہے خود غرضی اور شیطنت کی ایک آنکھ۔ اسی طرح روایات میں آیا ہے کہ دجال کی ایک آنکھ اس کے ماتھے پر عین بیچ میں ہوگی۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ ’’فلاں نے تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔‘‘ ایسا اس شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو وقت پڑنے پر اپنے مفادات کو دیکھے اور خود غرضی کا راستہ اختیار کرے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دجال کی آنکھ میں خون اترا ہوا ہوگا۔ امریکہ نے جو انسانیت کا قتل عام کیا ہے، وہ یہ بات جاننے کے لیے کافی ہے کہ وہ کون ہے جس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔

روس میں چینی سفارت خانے نے اپنے سرکاری ذرائع کا حوالہ دے کر امریکا کی خون آشامیوں، وحشت ناکیوں اور انسانیت پرکی گئی بمباری کی ایک فہرست جاری کی ہے کہ شاید دنیا کو اس امریکا کی جمہوریت سمجھ میں آسکے، جو آج پیوٹن کو آمر قرار دے رہا ہے۔ آپ بھی ایک نگاہ ڈالیں کہ کس کس ملک پر کب بمباری کی گئی:
1. کوریا اور چین                             1950ء تا 1953
2. گوئٹے مالا                                 1954
3. انڈونیشیا                                  1958
4. کیوبا                                         1959 تا 1961
5. گوئٹے مالا                                  1960    
6. کانگو                                         1964
7. لاؤس                                        1964 تا 1973
8. کمبوڈیا                                      1969 تا 1979
9. گوئٹے مالا                                  1967تا 1969
10. گرینیڈا                                     1983
11. لبنان و شام                              1983تا 1984
12. لیبیا                                         1986
13. ایلسیلوڈور                                 1980 کی دہائی میں
14. نکاروگووا                                   1980 کی دہائی میں
15. ایران                                        1987
16. پاناما                                        1989
17. عراق                              1991ء(پہلی خلیجی جنگ)
18. کویت                                        1991
19. صومالیہ                                     1993
20. بوسنیا                                       1994 و 1995
21. سوڈان                                       1998
22. افغانستان                                   1998
23. یوگوسلاویا                                  1999
24. یمن                                           2002
25. عراق        1991ء تا 2003ء(امریکا اور برطانیہ کی طرف سے مسلسل بمباری)
26. عراق                                         2003 تا 2015
27. افغانستان                                   2001 تا 2015
28. پاکستان                                     2007 تا 2015
29. صومالیہ                          2007 تا 2008 نیز 2011
30. یمن                                           2009 و 2011
31. لیبیا                                           2011و 2015
32. شام                                          2014 و 2015
آخر میں ایک نوٹ دیا گیا ہے کہ ان ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا ایک تہائی ہے۔

یادر رہے کہ اس فہرست میں امریکا کی بہت سی جارحیتوں کا اصلاً ذکر نہیں ہے۔ خاص طور پر 1945ء میں جاپان کے دو شہروں کو ایٹم بمب برسا کر تباہ کر دیا گیا، اسی طرح امریکا نے جو دہشت گرد گروہ پالے اور ان کے ذریعے جو انسانیت کا قتل عام کیا، اس کا بھی اس فہرست میں کوئی ذکر نہیں۔ امریکا کے اتحادیوں جنہیں آج بہت انسانیت اور جمہوریت یاد آرہی ہے، ان کے ہاتھوں جو انسانیت کا لہو بہایا گیا اور وسائل کو تباہ کیا گیا، کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ شاید امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جنگی جرائم کا کبھی حساب اس دنیا میں سامنے آ ہی نہ سکے۔ امریکہ کے حواریوں کے پاکستان میں موجود نمائندوں کو بھی انسانیت کے درد نے بے کل کر دیا ہے اور ابھی کل ہی (1مارچ 2022ء) انھوں نے پاکستان سے تقاضا کیا ہے کہ وہ یوکرائن پر روس کی طرف سے کی جانے والی جارحیت کی مذمت کرے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمیں یوکرائن کے بے گناہ شہریوں کا بھی اسی طرح سے درد ہے، جیسے روہنگیا کی خون آشام افواج کے ہاتھوں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کا غم ہے، لیکن پاکستان میں سفارتکاری کی حدود کو پامال کرنے والے عالمی سامراج کے حامی سفیروں سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا کبھی آپ کا یہ غیر مرئی اتحاد یمن کے مظلوموں کے لیے بھی ظاہر ہوا ہے۔ خود اقوام متحدہ کے بقول اس وقت یمن میں انسانیت کا بدترین المیہ وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ کیا آپ نے کبھی اپنی حکومتوں سے، یا امریکا سے تقاضا کیا ہے یا کیا کبھی پاکستان سے بھی فرمائش کی ہے کہ امریکا اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں جن میں آپ کی حکومتیں بھی شامل ہیں، ہونے والے وحشیانہ قتل عام کی مذمت کریں۔ اسی کو کہتے ہیں منافقت۔

نبی کریم ؐ نے منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں، ایک یہ کہ جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، امانت دی جائے تو خیانت کرتا ہے اور وعدہ کرتا ہے تو پھر جاتا ہے۔ امریکا کے جھوٹ تو ساری دنیا پر آشکار ہیں۔ امریکا، برطانیہ اور دیگر کئی ممالک نے کہا کہ عراق کی صدام حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یہ کہہ کر ان کی افواج نے عراق پر چڑھائی کر دی۔ عراق کے عوام پر اس کے بعد جو گزری، ساری دنیا اس کی شاہد ہے۔ دو ملین سے زیادہ انسان خون میں نہا گئے۔ پورا ملک تباہی اور بربادی کی داستانیں بیان کر رہا ہے۔ امریکہ ابھی تک عراق کے عوام کی جان چھوڑنے کو آمادہ نہیں، جبکہ خود امریکا، برطانیہ اور عالمی ادارے تسلیم کرچکے ہیں کہ عراق سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں مل سکے۔ دو دہائیاں ہوگئی ہیں، ایسے ہتھیار تو نہیں ملنے تھے اور وہ نہیں ملے، لیکن امریکی ہتھیاروں نے جو وحشت آفرینیاں کی ہیں، وہ انسانی یاداشت میں بھی زخم کی صورت میں باقی رہ جائیں گی۔

یہ تو اس کا جھوٹ ہوا، رہ گئے امریکا کے وعدے تو ان کا ماتم تو ان دنوں یوکرائن کے صدر بھی کر رہے ہیں۔ جہاں تک امریکہ کی خیانتوں کا تعلق ہے تو ابھی حال ہی میں امریکی اور یورپی ممالک میں موجود روسی سرمایہ داروں کی امانتوں کو قبضے میں لینے کا اعلان امریکی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔ دیگر قوموں کے نمونے ہم ذکر کرنے لگیں تو ان کی بڑی لمبی فہرست ہے، البتہ یہ مختصر مثالیں ہی امریکی منافقت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر دنیا میں کسی کو صحیح معنی میں اور نفاق کے کامل مظہر کے طور پر پیش کرنا ہو تو امریکا کا موجودہ سرمایہ داری نظام اس کا سب سے بڑا مصداق ہے۔ واقعی امریکا منافق اعظم، شیطان بزرگ اور جھوٹ کی سلطنت کا سلطان اکبر (The Great Emperor) ہے۔

بشکریہ : اسلام تائمز